ممنوع محبت
از عثمان خان
قسط نمبر 2
حسن نہ کہا کہ اس نے نہیں دیکھا تب کاشف نے اسے بتایا کہ ہمارے کلاس کا لڑکا احمد جو اس گروپ کا ممبر تھا اس کے پاس وہ تمام وڈیو ہیں اور وہ سب کبھی کبھی جب احمد کے گھر والے نہ ہو تو دیکھتے ہیں اب کاشف بنا رکے بولنے لگا تھا اور حسن اسے سنتے جا رہا تھا کاشف نے اسے یہ بھی بتایا کہ وہ اور اس کے گروپ کے لڑکے سکول سے چھٹی کر کے لڑکیوں کہ سکول کے سامنے جاتے ہیں لڑکیاں دیکھنے اس بات کا حسن کو پہلے سے علم تھا کاشف نے کہا کہ وہ لوگ انہی چیزوں کہ بارے باتیں کر رہے تھے اور چپ ہو گیا حسن کو کچھ باتیں بہت عجیب لگی جیسی ان وڈیو کا سننا تب کاشف دوبارہ بولا حسن تم نے کبھی مٹھ لگائی ہے حسن جو کہ پہلے بھی کسی سے اس کے بارے سن چکا تھا مگر صحیح نہیں جانتا تھا کہ کیا ہوتا ہے تو اس نے کاشف سے کہا کہ میں نہیں جانتا کیا ہوتا ہے کاشف حسن کی طرف آنکھیں بھاڑ کے دیکھتے ہوۓ بولا تم مٹھ کے بارے نہیں جانتے تو تم جی کیسے رہے ہو حسن نے کہا یار اب بتا بھی دو اب وہ دونو اپنے ٹویشن سنٹر کے سامنے کھڑے تھے مگر ابھی حسن اور جستجو میں تھا کاشف نے اسے کہا کہ روز ٹویشن جاتے ہو آج چھٹی کرو حسن چھٹی کبھی نہیں کرتا تھا مگر اب اسے کاشف کی باتیں مزے دار اور سسپینس سے بھری لگ رہی تھی جس کی وجہ سے وہ مان گیا اور وہ دونو قریب بنے ایک میدان میں جا کے بیٹھ گئے اب کاشف دوبارہ اسے وہ باتیں بتانے لگا اور حسن کو مٹھ کا بتایا کہ اگر لن کو اپنی مٹھی میں لے کہ مسلو تو بہت مزہ آتا ہے اور پھر لن میں سے ایک گھاڑا پانی نکلتا ہے حسن کاشف کی باتوں کو بڑی غور سے سن رہا تھا حسن جوان تھا اور کچھ بار اسے نیند میں احتلام بھی ہو چکا تھا مگر وہ اس مٹھ مارنے اور اس کی سچائی سے آج روشناس ہوا تھا کاشف نے اسے ہوم ورک کی طرح یہ بھی کہ دیا کہ اب جب گھر جانا تو اپنے لن سے کھیلنا اور ایسے ہی کرنا اور باقی میں تمھیں کل بتاؤ گا اور وہ دونو پارک میں ٹائم گزارنے لگے جب ان کی ٹویسن سے چھٹی کا ٹائم ہوا تو دونو دوست اپنے اپنے گھر کی طرف چل پڑے حسن کے گھر جانے کا اب ٹائم ہو چکا تھا اور وہ انہی باتوں کو سوچتے گھر کی طرف بڑھنے لگا وہ سب باتیں اس کے لیے ایک نئی دنیا کہ جیسے تھی وہ انہیں باتوں میں الجھا گھر پونچا جہاں اس کا باپ ابھی ابھی کام سے واپس آیا تھا اور اس کی بہن زینب اپنے باپ کو چائے دے رہی تھی زینب حسن کو دیکھ کر مسکرتی ہے اور سلام کے بعد حسن سیدھا کمرے میں چلا جاتا ہے زینب حسن کے گھر آنے پہ سب سے زیادہ خوش ہوتی تھی کیونکہ نہ تو اس کی کوئی سہیلی تھی نا کوئی ایسا جو اس سے باتیں کرتا حسن کمرے میں جا کے کپڑے چینج کرتا ہے اور زینب اس کے لیے کھانا لے آتی ہے وہ دونو کھانا کھاتے ہوۓ باتیں کرتے ہیں آج حسن چپ چپ سا ہے اور اس بات کو زینب نے نوٹ کر کے حسن سے پوچھ لیا کیا ہوا حسن آج چپ چپ سے ہو حسن جو کاشف کی باتوں کو سوچتے انہیں میں گم تھا ایک دم چونکا اور بولا نہیں باجی ایسی کوئی بات نہیں زینب اپنے بھائی کو اچھی طرح جانتی تھی وہ سمجھ گئی کے کوئی بات ہے تو بولی حسن کہیں آج پھر کسی ٹیسٹ میں نمبر تو کم نہیں آۓ حسن نے کہا نہیں باجی ایسی کوئی بات نہیں بس تھک گیا ہوں زینب کا بہت دل تھا کہ وہ پہلے کہ جیسے حسن سے بیٹھ کے باتیں کرے مگر آج حسن چپ تھا تو وہ بولی چلو لیٹ جاؤ میں دبا دیتی ہوں جس کے جواب میں حسن نے تھوڑا چڑچڑا کہ کہا نہیں باجی مجھے نیند آئی ہے آپ جاؤ زینب کہ لیے یہ پہلی بار تھا کہ اس کا چھوٹا بھائی جو اس کا اچھا دوست بھی تھا جس نے اج تک کوئی بات اس نے نہ چھپائی آج اس سے ایسے کیوں بات کر رہا ہے زینب نے کہا چلو کوئی بات نہیں حسن تم سو جاؤ اور کمرے سے نکل گئی زینب اپنے کمرے میں ماں کہ ساتھ والی چارپائی پہ لیٹ جاتی ہے اور سوچوں میں گم ہو جاتی ہے کہ آخر کیا بات ہے جو حسن پریشان ہے دوسری طرف حسن اپنے بستر پر لیٹا کاشف کی باتوں کو سوچ رہا تھا کہ اسے کاشف کی وہ بات یاد آگئی کہ رات کو اپنے لن سے کھیلنا اور اسے مسلنا تمھیں مزہ آۓ گا حسن اس کو اب پریٹیکل کر کے دیکھنا چاہتا تھا کہ آخر ایسا کیا ہوتا ہے اور اپنے ایک ہاتھ سے اپنے لن کو پکڑ لیا اور اسے آہستگی سے مسلنے لگا پہلے تو اسے ایسا کچھ محسوس نہ ہوا مگر کچھ ہی دیر بعد اسے ہلکا ہلکا میٹھا سا مزا آنے لگا تھا اور وہ اس مزے میں ڈوبنے لگا تھوڑی ہی دیر بعد اس کا لن تن کے پورا گھڑا ہو گیا جو پہلے بھی ہوتا تھا مگر حسن یہ نہیں جانتا تھا کہ اسے جب چاہو کھڑا کرنے کا یہ طریقہ تھا اب وہ اپنے لن کو اپنی مٹھ میں لیے کاشف کے بتاۓ ہوۓ طریقہ پہ عمل کرتے ہوۓ لن کو آگے پیچھے کرنے لگا مزہ تھا کہ بڑھتا ہی جا رہا تھا اور اسے ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ ہواؤں میں اڑتا ہوا کسی اور دنیا میں پہنچ چکا ہے جیسے جیسے مزہ پڑھتا کیا اس کا ہاتھ بھی خودبخود تیز ہوتا گیا اب اس نے اپنی شلوار کی اندر ہاتھ ڈال کے اپنے لن کو تیزی سے ہلا رہا تھا اور اس نئی دنیا کہ مزے میں گم تھا اسے ایسے لگ ریا تھا کہ جیسے وہ اس دنیا میں نہیں ہے اب حسن فارغ ہونے لگا تھا اور اس کا لن ایک گاڑھا پانی چھوڑنے لگا اس کہ لن نے اتنا پانی چھوڑا کہ اس کا ہاتھ جو شلوار میں اپنے لن کو مسل رہا تھا پھر سا گیا جو وہ فارغ ہوا تو اسے ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ جنت سے واپس زمیں پہ آگیا ہو اس نے اپنا ہاتھ باہر نکالا تو اس پہ لن کا پانی بھی لگا ہوا تھا اور اس کی شلوار اس سے بھر چکی تھی اس نے انجانے میں اپنا ہاتھ اسی شلوار سے صاف کیا اور بستر پر سدھ لیٹے سوچنے لگا کہ کاشف اسے پہلے کیوں نہ ملا وہ تو جانتا بھی نہ تھا کہ اتنا مزہ رکھا ہوا ہے وہ بھی اسی کہ لن میں اب وہ سیکس کی دنیا کا ایک سبق پڑھ چکا تھا پہلی مٹھ مار کے حسن تھکا محسوس کر رہا تھا اور نا جانے کب وہ ایسے ہی سو گیا
ہر صبح کے جیسے آج بھی جب اس کی آنکھ کسی کہ ہلانے سے کھلی تو انکھ کھلتے ہی اس کی بڑی بہن زینب اس کی سامنے جھکی اسے اٹھا رہی تھی وہ اٹھ کر بستر پر بیٹھ گیا زینب اپنے بھائی کو جگا کہ کمرے سے جا چکی تھی حسن بھی اٹھا اور اپنا یونیفارم اٹھاۓ باتھ روم چلا گیا صحن میں ایک چھوٹا سا باتھروم تھا جس کی چھت نہیں تھی کپڑے حسن نے وہیں باتھروم میں لٹکاۓ اور جلدی سے ناشتہ کر کے سکول چل پڑا کیونکہ اسے اب کاشف سے ملنا تھا اسے وہ رات کا سب بتانا بھی تھا اور اس لذت اور مزے سے بھری نئی زندگی کا اگلا سبق بھی لینا تھا سکول پہنچ کہ وہ کاشف سے ملا مگر کلاس شروع ہونے کہ وجہ سے وہ کوئی بات نہ کر پاۓ اور وہ بریک کا انتظار کرنے لگا
دوسری طرف زینب گھر میں اپنے معمول کے کاموں میں مصروف تھی اپنی ماں کو ناشتہ کروانے کہ بعد اب وہ کپڑے دھونے لگی اپنے باپ کے کپڑے دھو لینے کہ بعد وہ حسن کہ کپڑے دھونے کہ لیے اس نے اٹھاۓ جو وہ باتھروم سے لے کے آئی تھی اس کی عادت تھی وہ کپڑوں کو دھونے سے پہلے اچھی طرح چیک کرتی کہ جیب میں حسن یا اس کے باپ کی کوئی کاغذ یا پیسے نہ رہ جائیی اور وہ غلطی سے دھو دے
حسن کی قمیض کو چیک کرنے کہ بعد وہ اس کو بالٹی میں ڈالنے ہی لگی تھی کہ اس کی نظر حسن کی شلوار پر پڑی جس پر حسن کی منی کا ایک بہت بڑا دھبہ صاف دیکھائی دے رھا تھا اور شلوار کی وہ جگہ سخت ہوئی پڑی تھی اس نے شلوار کو اٹھایا اور کچھ دیر دیکھنے کہ بعد اسے بھی بالٹی میں ڈال دیا زینب سمجھ گئی تھی کہ یہ کیا تھا کیوں کہ جب پہلی بار حسن کو احتلام ہوا تھا تب بھی کپڑے دھوتے اس نے دیکھا اور تب اسے معلوم نہ تھا تو ماں کو جا کے دیکھایا کہ اماں یہ دیکھو پتا نہیں حسن کی شلوار پہ یہ کیا لگا ہوا ہے تب اس کی ماں نے اسے بتایا تھا کہ لڑکوں کا ایسا ہوتا ہے اور اب تو وہ خود بھی جوان تھی اور کئی بار اس کی پھدی بھی ایسے رات کو سوتے ہوئے پانی چھوڑ چکی تھی سیکس کے بارے اگر دیکھا جاۓ تو زینب حسن کی نسبت زیادہ جانکاری رکھتی تھی اور اس کی وجہ بچپن سے اپنے ماں باپ کہ کمرے میں سونا تھا جس سے وہ رات کو ماں باپ کی آپس میں چدائی دیکھتی تھی شروع میں اسے بھی یہ سب عجیب لگا مگر اب اس عمر میں وہ سب جان چکی تھی کہ عورت اور مرد سیکس کیسے کرتے ہیں اور وہ بہت بار مزے لے کہ اپنے ماں باپ کا سیکس دیکھتی تھی اور اب خود بھی شادی کہ لیے اس کا دل کرتا کہ کاش اس کا بھی کوئی شوہر ہوتا مگر اب وہ سیکس کم ہو چکا تھا کیونکہ اس کی ماں اب بیمار اور باپ بھی بوڑھا ہو چکا تھا اور مہنہ میں ایک دو بار یہ مزہ اسے مل جاتا تھا زینب بھائی کی گندی شلوار دیکھے تھوڑی ہنسی اور پھر کپڑے دھونے لگی
بریک کا ٹائم ہوچکا تھا بریک ہوتے ہی حسن بھاکتے ہوۓ کاشف کو پکڑتا ہے اور اسے لے کہ سکول کہ لمبے چوڑے گراؤنڈ کی ایک طرف بیٹھ جاتے ہیں کاشف اس سے کچھ بات کرتا اس سے پہلے ہی حسن اپنے چہرے یہ ایک فاتحانہ مسکراہٹ لیے بولا کاشف میں نے رات کو مٹھ ماری مجھے بہت مزہ آیا یہ سن کہ کاشف بھی ہنس پڑا اور بولا سناؤ پھر مزہ آیا اس کی اس بات پہ حسن نہ آنکھیں بند کے کہ بہت کو لمبا کر کے کہا بہت زیادہ مزہ آیا دونو ہنتے ایک دوسرے کو اپنی اپنی مٹھ کے قصے سنانے لگے کاشف نے اب اس سے پوچھا کہ تم کس لڑکی کو سوچ سے مٹھ مارتے ہو حسن کہ لیے یہ سوال عجیب تھا کہ کیا مٹھ مارنا اور کسی لڑکی کو سوچنا۔۔۔۔ اسے کچھ سمجھ نہ آیا تو کاشف سمجھ گیا اور بولا یار جب لن کی مٹھ مارتے ہو تو سوچتے ہو کہ کسں لڑکی کو بیوی بنا کے چودھ رہا ہوں حسن نہ ایسا نہ کیا تھا مگر اب اسے کاشف سے ایک اور سبق ملا تھا کاشف نے اسے کہا کہ چھٹی کے ٹائم وہ اس کے ساتھ ٹیوشن سنٹر جاۓ جس پہ حسن نے اسے ہاں کہاں اور بریک ٹائم ختم ہوا اور اب وہ چھٹی ہونے کہ بعد اکھٹے سکول کہ گیٹ سے نکلے کاشف سکول کی دوسری طرف چل پڑا جسے حسن نے دیکھ کہ کہا بھائی ادھر کدھر ٹویشن سنٹر اس طرف ہے.
جاری ہے
0 Comments