ads

Mamno Muhabbat - Episode 3

 ممنوع محبت

از عثمان خان

قسط نمبر 3




کاشف نے اسے ہاتھ سے پکڑا ہو کہا چلو تو سہی میرے ساتھ حسن اس کے ساتھ چل پڑا اور یہی سوچنے لگا کہ اخر وہ جا کہاں رہا ہے کچھ دور جانے کہ بعد کاشف نے اسے رکنے کا کہا حسن یہ کہاں لے آۓ کو کچھ بتاؤ گہ بھی کاشف نے حسن کی بات کا جواب ہنتے ہوۓ کچھ یوں دیا کہ پیچھے دیکھو جب حسن نے دیکھا تو روڈ کی دوسری طرف لڑکیوں کہ سکول کی چھٹی ہونے سے لڑکیاں نکلنے لگی حسن سمجھ گیا کہ کاشف اسے یہا کیوں لایا ہے کاشف نے ہنستے ہوۓ حسن کو کہا کہ بھائی پسند کرو کوئی لڑکی اور رات کو اسی کو سوچ کے مٹھ لگانا حسن بھی کاشف کے ساتھ کھڑا لڑکیوں کو غور غور سے دیکھنے لگا اس سے پہلے بھی وہ لڑکیاں تو دیکھتا رہا تھا مگر آج ایک الگ مزہ ا رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر اپنے محلے کی ایک لڑکی پہ پڑی وہ لڑکی عائشہ تھی جو اس کے گھر سے 4 5 گھر دور رہتی تھی حسن پہلے بھی اس کو بہت بار دیکھ چکا تھا مگر آج وہ اسی بہت اچھی لگ رہی تھی اس نے جلدی سے کاشف کو بتایا کاشف بھی اس لڑکی کو جانتا تھا کیونکہ کاشف بھی اسی محلے کا تھا کاشف اس کی پسند کو دیکھ کہ اسے سرہانے لگا اور بولا واہ میرے دوست کیا لڑکی ڈھونڈی ہے کیا ہی مس بوبس ہیں اور گانڈ افففف کمال۔۔۔حسن کاشف کی اس بات سے تھوڑا شرمایا وہ ان سب کانڈ اور مموں کے بارے تو جانتا تھا مگر کبھی کسی کو خاص اس نظر سے نہ دیکھا تھا اس نے اور اب بھی کاشف کی ایسی باتوں سے اس کا دھیان عائشہ کی گانڈ اور مموں پر گیا جس سے اسے ایک عجیب سی کیفیت نے گھیر لیا عائشہ جو کہ عمر میں 19 سال کی گوری چٹی مڈل کلاس گھر کی لڑکی تھی عمر کے حساب سے اس کے بھی ممے اور گانڈ کا ابھار خاصا خوبصورت تھا اور تھوڑے بھرے جسم کی صحت مند لڑکی تھی وہ سکول کے باہر گھڑی اپنے ابو کا انتظار کر رہی تھی جو اسے اپنے بائیک پر سکول سے لینے آتے اور چھوڑنے بھی آتے تھے حسن کی نظر ابھی تک عائشہ پہ جمی ہوئی تھی کاشف نے اسے اب ایک نیا سبق سکھایا اور لڑکیوں کی گانڈ اور مموں کو دیکھنے کا عادی بنایا تھا وہ اس کے ممے ہی گھورے جا رہا تھا جب اس کا ابو آیا اور وہ بائیک پر بیٹھنے لگی تو حسن کی نظر اس کی گانڈ پہ گئی حسن اس مزے کو کھونا نہیں چاہتا تھا مگر اس کے بس میں نہ تھا اور عائشہ اپنے باپ کہ ساتھ بیٹھ کہ چلی گئی اب وہ دونو ٹویسن سنٹر کی طرف چل پڑے راستے میں اسے کاشف نے اپنی ایک لڑکی دوست ک بھی بتایا جو انہی کہ محلے کی تھی جس کا حسن سن کہ حیران بھی ہوا اور پوچھنے لگا کہ اس کی دوستی کیسے ہوئی وہ دونو اپنی مزل پہ پہچ چکے تھے ایک پھر وہ چھٹی نہیں کرنا چاہتے تھے تو طے یہ پایا کہ آج حسن عائشہ کو سوچ کے مٹھ مارے گا اور کل کاشف اسے اپنی دوستی کے بارے بتاۓ گاٹویشن کے بعد حسن سیدھا گھر ایا روز کہ جیسے اس نے بہن کے ساتھ گھانا کھایا حسن کہ دماغ میں اب چوبیس گھنٹے بس کاشف کی باتیں اور مٹھ کی لزت گھومتی رہتی تھی آج پھر زینب حسن سے باتیں کیے جا رہی تھی اور حسن سوچوں میں ڈوبا اس کی باتوں یہ ہاں ناں کیے جا رہا تھا زینب حسن کو سوچوں میں ڈوبا دیکھ کہ کل والا سوال دوبارہ پوچھ بیٹھی جس کا جواب کل سے بھی برا تھا اور کاشف نے غصے میں کہاں باجی کچھ بھی نہیں کیا آپ ایک ہی بات روز پوچھتی ہیں آپ جاؤ مجھے پڑھنا ہے زینب اپنے چھوٹی بھائی کہ اس رویہ سے پریشان ہوئی اور اپنے کمرے میں آ کے بستر پہ لیٹی سوچنے لگی کہ آخر آیسا کیا ہوا کہ اس کا چھوٹا بھائی اس سے بات تک نہیں کر رہا زینب کہ لیے ایک حسن ہی تو تھا جس سے وہ روز باتیں کر کے اپنی بوریت ختم کرتی تھی اور آج دوسرا دن تھا اس کا بھائی اس سے باتیں نہیں کر رہا تھا زینب کو اپنے بھائی کی عادت سی پڑھ چکی تھی اور کہتے ہیں نہ کہ عادت چھوڑنا بہت مشکل ہوتا ہے دوسری طرف حسن اپنے کمرے میں لیٹا اب مٹھ مارنے کی تیاری میں تھا اور کاشف کے بتاۓ ہو طریقہ کے مطابق وہ عائشہ کے بارے سوچنے لگا اس کے ممے اور گانڈ کو سوچتے ہی اسے محسوس ہوا کے اس کا لن اب اکھڑ رہا ہے نا جانے کب اس کا ہاتھ اپنے کام میں لگ چکا تھا اور وہ اپنے لن کو شلوار میں پکڑے سہلاتے سہلاتے ہلانے لگا اور عائشہ کو اپنی بیوی سمجھ کے مٹھ مارنے لگا عائشہ کو سوچ کہ مٹھ مارنے سے اسے کل سے بھی زیادہ مزہ انے لگا اور آج بھی اس کے لن کا پانی اس کی شلوار میں نکل گیا اور وہ مٹھ کے مزے سے نکل کر نید کی آغوش میں چلا گیا صبح بہن کے جگانے پہ اٹھا یونیفارم تبدیل کیا اور ناشتہ کر کے سکول چلا گیا زینب بھی اپنی ماں کو ناشتہ کروا کے گھر کے باقی کاموں میں لگ گئی زینب ہمیشہ اپنے بھائی حسن کہ کپڑے جو وہ صبح باتھ روم میں اتار کہ وہیں ٹانگ کہ چلا جاتا ہے اسے اٹھا کہ وہ کمرے میں جا کے رکھتی تھی آج بھی وہ حسن کے کپڑے اٹھا کہ اس کے روم میں رکھنے گئی روم میں پہنچ کہ جب اس نے کپڑوں کو۔ رکھا تو آج پھر اسے اپنے بھائی کی شلوار پہ منی کا ایک بڑا سا دھبہ نظر آیا وہ تھوڑی حیران سی ہوئی کیونکہ پہلے ایسا کبھی نہ ہوا تھا کہ وہ ایک بار حسن کا منی والا کپڑا دیکھے خیر وہ آج بھی یہی سمجھی کہ حسن کو احتلام ہوا ہے اور وہ پنسنے لگی اور کپڑوں کو اٹھا کہ دوبارہ باتھروم لے گئی دھونے کے لیے قمیض کو بالٹی میں ڈالنے کہ بعد جب وہ شلوار کو ڈالنے لگی تو پتا نہیں اسے ایسا کیا ہوا کہ وہ پھر بھائی کی منی کہ لگے اس دھبے کو دوبارہ دیکھنے لگی دیکھتے دیکھتے اس نے اس جگہ کو اپنے ناک کہ قریب کر کہ اس کو سونگا ایک عجیب سی خوشبو سی لگی اسے ایسے کرتے اسے محسوس ہوا جیسے وہ بے چین سی ہو رہی ہے وہ خود بھی نہیں جانتی تھی وہ کیا اور کیوں کر رہی ہے وہ دوبارہ اپنے بھائی کے منی لگے داغ کو سونگتی ہے اور کچھ زیادہ دیر ہی سونگتی رہتی ہے پھر اچانک اسے خیال آتا ہے اور خود کو کوستی ہوئی کہ وہ یہ کیا کر رہی ہے شلوار کو بالٹی میں ڈال دیتی ہے زینب ایسا شاید اس لیے کر رہی تھی کیونکہ وہ ایک مرد کو جاننا چاہتی تھی اور شاید اس کے دل کہ ایک کونے میں چھپی شادی کی خواہش اسے ایسا کرنے پہ مجبور کر رہی تھی اب وہ کپڑے دھونے میں مشغول ہو چکی تھیدوسری طرف حسن کلاس میں بیٹھا بریک کا انتظار کر رہا ہے تاکہ وہ کاشف سے اس کی سہیلی کے بارے پوچھ سکے بریک ہوتے ہی حسن کاشف کی طرف لپکا اور وہ دونو گراؤنڈ کے ایک کونے میں جا کے بیٹھ گئے وہ کون لڑکی ہے ور تم نے اس سے دوستی کیسے کی بیٹھتے ہی حسن نے کاشف پر سوالوں کے تیر چلا دیے کاشف اس کی بے چینی سمجھ چکا تھا اس لیے وہ بھی اسے بتانے کا حسن وہ لڑکی ہمارے ساتھ والے محلے کی ہے اسی سکول میں پڑھتی ہے جہاں عائشہ پڑھتی ہے اس کا نام کشمالہ ہے کاشف ابھی بولنے کہ لیے تھوڑا چپ ہی ہو کہ حسن نے دوبارہ سوال کیا کہ تمھاری دوستی کیسے ہوئی کاشف نے اسے بتایا کہ وہ ایسے ہی اسے روز سکول سے آتے جاتے اس کا پیچھا کرتا اور ایک دن وہ بھی اسے ہنس کے دیکھنے لگی اور پھر ہم نے اپس میں بات کی تو ہو گئی حسن اس کی ان باتوں پر یقین نہیں کر پا رہا تھا وہ کوئی اور سوال پوچھتا کاشف بولا کے آج سکول کے باہر رکے گے تم عائشہ کو دیکھنا اور جب وہ اپنے باپ کے ساتھ بائیک پہ چلی جاۓ تب میری دوست زینب کہ پیچھے جائیں گہ وہ پیدل گھر جاتی ہے اکیلی سکول سے دو گلی چھوڑ کے اس کا گھر ہے اس بات پہ میں رازی ہوا اور سکول سے چھٹی کے بعد ہم دونو لڑکیوں کے سکول کے سامنے کھڑے چھٹی ہونے کا بے صبری سے انتظار کرنے لگا اور کچھ ہی دیر بعد سکول کی چھٹی ہوئی اور لڑکیاں باہر نکلنے لگی میری نظریں عائشہ کو ڈھونڈ رہی تھی جو تھوڑی دیر بعد مجھے نظر آ گئی اور میں اسے دیکھنے لگا پہلے میں عائشہ کو جب بھی دیکھتا تھا اس کے چہرے کو دیکھتا تھا مگر اب میری پہلی نظر اس کے اکڑے ہوۓ مموں پہ جاتی ہے میں نظریں جمائے اس کے ممے دیکھے جا رہا تھا کہ میرا لن بھی اکر گیا مگر یہ مزہ زیادہ دیر نہ چل سکا اور اس کا باپ اسے بیٹھا کہ لے گیا اتنے میں کاشف نے مجھے کہا کہ چلو اور ہم کشمالہ کہ پیچھے چل پڑے ابھی میں نے کشمالہ کو نہین دیکھا ہوا تھا بس اتنا پتا تھا سامنے جاتی لڑکی کشمالہ ہے وہ بھی جانتی تھی کہ پیچھے کاشف آ رہا ہے وہ گلی مڑ گئی جب ہم گلی مڑے تو وہ ایک دروازے کے سامنے رکی کھڑی تھی وہ تنگ سی گلی تھی کاشف کے بتانے پہ پتا چلا کہ وہ یہیں ملتے ہیں میں نے اس کو دیکھا وہ ایک خوبصورت لڑکی تھی شاید 17 یا 18 سال کی ہو گی مگر اس کے جسم کے ابھار زیادہ نمایا نہ تھے دیکھنے میں کچھ خاص نظر نہ آتا حسن کی نظر اب گندی ہو چکی تھی وہ اب بس ہر لڑکی میں ممے اور گانڈ ہی دیکھتا کاشف کشمالہ سے جا کے ملا فرضی سلام کے بعد اس نے کشمالہ سے حسن کا تعارف کروایا اور اس چھوٹی سی ملاقات کا اینڈ ہوا اور ہم واپس چل پڑے میں کاشف یہ حیران تھا کہ اس نے لڑکی کیسے پھنسا لی کاشف سے حسن نے پوچھا کہ وہ ایسے ہی ملتے ہیں تو کاشف نے اسے بتایا کہ ہاں وہ بس کچھ ہی ٹائم تھوڑی باتیں کرتے اور بس کیونکہ گلی میں کسی سے پکڑے جانے کا ڈر بھی ہوتا ہے وہ دونو اپنے ٹویشن سنٹر کی جانب جا رہے تھے چلتے چلتے کاشف نے حسن کو بتایا کہ وہ دو بار کشمالہ کو چمی بھی کر چکا ہے اور اس کی گانڈ اور ممے بھی اپنے ہاتھ میں لے چکا ہے یہ سن کہ حسن کی تو مانو آنکھیں باہر نکل ائی ہوں اور اس کا لن ایک بار پھر تن گیا کیا یہ کیا کہہ رہے ہو حسن نے حیران ہوتے ہوۓ کاشف سے پوچھا کاشف ہنستے ہوئے بھائی تمھیں کیا پتا کہ لڑکی کو چھونے کا کیا مزہ ہے تم کو پاگل ہو جاؤ اب حسن کہ دماغ میں ایک نئی چیز آ چکی تھی کہ اب کسی لڑکی کو چھونا ہے روز کہ جیسے آج بھی وہ کھانا کھاتے ہوۓ اپنی بہن زینب سے کچھ خاص بات نہیں کر رہا تھا اور زینب حسن کہ اس بدلے رویہ سے پریشان تھی مگر کچھ بولنا نہیں چاہتی تھی کھانا کھا کہ زینب اپنے کمرے میں چلی گئی اور حسن اپنے بستر پر لیٹا آج پھر مٹھ مارنے کو تیار تھا



جاری ہے

Post a Comment

0 Comments