ممنوع محبت
از عثمان خان
قسط نمبر 4
حسن اپنے لن کو اپنے ہاتھ میں لیے اس سے کھیل رہا تھا اور اسی سوچ میں گم تھا کہ وہ کس طرح کسی لڑکی کہ جسم کو چھو سکے اور مزہ لے اس کے دماغ میں عائشہ ہی تھی اور اج پھر وہ اپنے خیالوں میں عائشہ کے ساتھ مزے کرتے کرتگ اپنے لن کا پانی نکال کہ سو گیا حسن کا کوئی بڑا بھائی یا رشتے دار نہ تھا جو اسے ان غلط چیزوں سے روکتا اور اسے یہ بھی سمجھاتا کہ ایسے شلوار کہ اندر اپنی منی نہیں نکالتے مگر وہ تو بس اپنی مستی میں مست تھا اگلا دن بھی معمول کے جیسے تھا حسن سکول جا چکا تھا اور اس کی بڑی بہن زینب اس کے کپڑے باتھروم سے اٹھا کہ اس کہ کمرے میں رکھ آئی جیسے ہی وہ صحن میں پونچی اسے کچھ خیال آیا اور وہ بھائی کہ کمرے میں دوبارہ پلیٹ گئی زینب یہ جاننا چاہتی تھی کہ کہیں اج بھی تو بھائی کہ شلوار منی سے گندی تو نہیں جب اس نے شلوار اٹھا کے دیکھی تو وہی ہوا سامنے منی کا ایک بڑا دھبا لگا ہو تھا زینب حسن کے کپڑے اٹھائے واش روم میں آ بیٹھتی ہے آج پھر اس کا دل اس منی کہ دھبے کو دیکھ کہ خراب ہو رہا تھا وہ اج پھر اس کو اپنی ناک پہ لگاۓ سونگنے لگی اور اسے ایک عجیب سی لزت ملنے لگی اس کے دماغ میں ایک عجیب کشمکش تھی کہ وہ ایسا کیوں کر رہی مگر ایسا کرنے سے خود کو روک بھی نہیں پا رہی تھی بہت دیر اس منی کو سونگنے کے بعد اب زینب کو اپنی پھدی میں کھجلی ہونے لگی تھی اور وہ انجانے میں ایک ہاتھ اپنی پھدی پہ رکھے اسے مسلنے لگی نادیہ نہ پھدی کو مسلنے اور اپنی آگ بجھانے والا کام آج سے ایک سال پہلے تب کیا جب رات کو اس نے اپنے باپ کو اپنی ماں کو چودھتے دیکھا تب اس کا ہاتھ بستر میں ہی اپنی پھدی تک خود بخود پہنچ گیا اور وہ اسے مسلتے فارغ ہوئی اس دن کہ بعد نادیہ بہت بار ایسا کر چکی تھی مگر ایسا کرنے کے لیے اسے موقع کم ملتا تھا کیونکہ رات کو ماں کہ کمرے میں سونے کی وجہ سے اسے ڈر ہوتا تھا کہ بیمار ماں جاگ نہ رہی ہو یا باپ اور دن میں کام میں مصروف ہونے کی وجہ سے مگر پھر بھی کبھی اس کی پھدی کی خارش جب برداشت سے باہر ہو جاتی تو وہ ایسے ہی باتھروم میں اپنی پھدی مسل کے پانی نکال لیتی تھی زینب پہ اب مستی سوار ہوتی جا رہی تھی اور وہ اپنے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو رہی تھی اس کی سوچوں میں ہرگز اس کے بھائی کے لیے ایسا ویسا کچھ نہ تھا بس وہ اس منی کو دیکھ کہ گرم ہو چکی تھی اس نے باتھروم کا دروازہ بند گیا اقر اپنے کپڑے اتار کہ اپنی بھائی کہ شلوار کو سونگھتے ہوۓ اپنی پھدی کو مسلنے لگی وہ باتھروم کے فرش پر دیوار سے ٹیک لگاۓ بیٹھی تھی اس کے منہ پہ شلور تھی اپنے بھائی کی اور اس منی کی خوشبو اسے پاکل کر رہی تھی ایک ہاتھ سے وہ اپنی پھدی کو زور زور سے مسلے جا رہی تھی اور اپنے ایک ہاتھ سے اپنے ممے مسل رہی تھی وہ اس بات سے بے خبر تھی کہ وہ منی کسی اور کہ نہیں اس کے سکے چھوٹے بھائی حسن کی ہے وہ مزے کی ایسی وادیوں میں تھی جہاں سے پانی نکالے بنا لوٹ پانا ناممکن تھا وہ لمبی لمبی سانسیں لے لے کے اس منی کی خوشبو کو اپنیے اندر اترتی گئی اور ساتھ ہی اس کے ہاتھ کی رفتار تیز ہوتی گئی آج وہ الگ ہی مزے میں تھی اسے منی کی خوشبو بہت اچھی لگی اور آخر کار اس کی سسکیاں نکلی اور اس کے ساتھ ہی اس کی چھدی نے اپنا گھاڑا پانی چھوڑ دیا اس کی سانسیں پھولی ہوئی تھی وہ کچھ دیر ایسے ہی بیٹھی رہی اب وہ بہت ریلیکس محسوس کر رہی تھی جب وہ ہوش میں آئی اور اپنے منہ سے اپنے بھائی کی منی سے بھری شلوار اٹھائی تو ایک دم چونک گئی یہ کیا کر دیا میں نے یہ کیا ہو گا یہ تو میرے بھائی حسن۔۔۔ جب اسے یہ سوچ آئی کہ وہ اپنے ہی بھائی کہ منی کو سونگتے ہوۓ اپنی پھدی کا پانی نکال چکی ہے تو اب اسے شرم اور خود پہ غصہ آنے لگا کہ اس سے یہ کیا غلطی ہو گئی مگر اپ بچتانے سے گزرا وقت واپس نہیں آ سکتا تھا وہ اسی سوچ کے ساتھ کپڑے دھونے بیٹھ گئی سکول میں کاشف اور حسن روز کہ جیسے بریک میں اپنی جگہ پہ پہنچے باتیں کرنے لگتے ہیں اب حسن اور کاشف گہرے دوست بن چکے تھے اس سے پہلے وہ دونو صرف ایک کلاس فیلو تھے اور حسن ہمیشہ کاشف اور اس کے گروپ کے آوارہ لڑکوں سے دور رہتا تھا مگر اب وہ بھی تقریباً ان جیسا بن چکا تھا حسن اور کاشف روز کے جیسے اپنی موٹھ اور لڑکیوں کی باتوں میں مشغول تھے کہ کاشف نے حسن سے پوچھا کہ وہ مٹھ مارتے ہوۓ عائشہ کو کیسے چودتے ہوۓ سوچتا ہے حسن جن نے آج تک چدائی نہ دیکھی تھی بولنے لگا کہ وہ عائشہ کو اس کے گالوں پہ چومتے ہوۓ اور وہ یہ جانتا تھا کہ لن کو پھدی کہ اندر ڈالا جاتا ہے اور اس نے یہ بھی بتا دیا مگر اس نے کبھی ریئل میں کرتے کسی کو نہ دیکھا تھا کہ کیسے کرتے ہیں اور اپنی یہ بات بھی کاشف کو بتائی کاشف اس کی یہ بات سن کہ ہنسنے لگا اور بولا بھائی اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے کرنے کو ہنستے ہنستے کاشف کو کچھ یاد آیا اور وہ بولا آج تو بدھ ہے حسن اس کی یہ بات سن کے بولا ہاں بدھ ہے تو کیا ہوا کاشف اچانک سوچ میں پڑ گیا حسن اسے سوچوں میں ڈوبا دیکھ کہ اس سے پوچھنے لگا مگر کاشف اسے بتانے سے کترا رہا تھا اور پھر حسن کہ بےتحاشہ اصرار پر بولا کہ یار میں نے تمھیں بتایا تھا نا کہ ہم کبھی کبھی احمد کے گھر جا کہ بلیو فلم یعنی چدائی کی ننگی ویڈیو دیکھتے ہیں آج بدھ ہے اور احمد نے پرسوں ہم سب دوستوں کو بتایا تھا کہ بدھ والے دن اس کی امی اور ابو کسی شادی میں جا رہے ہیں میں ان کے ساتھ نا جانے کا کہا ہے تاکہ ہم دوست مل کے گندی فلم دیکھ سکیں اور آج چھٹی کے بعد مجھے ادھر جانا ہے تمھیں بھی کے جاتا پر میرے دوست نہیں مانے گے کیوں کہ ہم دوست اپنے گروپ کے سوا اس طرح کسی کو نہیں لے کے جاتے کاشف کی یہ بات سن کہ حسن کا لن ابھی سے تن گیا اور وہ جستجو میں آ کے کاشف کی منتیں کرنے لگا کہ وہ اسے بھی ساتھ لے کے جاۓ کاشف نے حسن کو کہا کہ چھٹی کے وقت وہ احمد اور باقی گروپ کے دوستوں سے بات کرے گا حسن کو اب بے صبری سے چھٹی کا انتظار تھا وہ بھی دیکھنا چاہتا تھا کہ آخر اس گندی فلم میں کیا ہو گا اور کیسے ہو گا آخر چھٹی کا وقت ہو تو حسن اور کاشف سکول کے باہر دوسرے دوستوں کا انتظار کرنے لگے جب سب آ گئے اور انہوں نے حسن کو دیکھا تو ایک دوسرے کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے اتنے میں کاشف بولا کہ احمد بھائی حسن کو بھی ساتھ آنے دو اس نے بھی وہ سب دیکھنا ہے حسن جو ان سب میں سے عمر میں بڑا تھا کاشف کی یہ بات سن کہ ہنسنے لگا اور بولا ہم تو تمھیں بھی ساتھ نہیں لے کے جا رہے تم ساتھ اس کو بھی لے آۓ کاشف کے پوچھنے پر کہ وہ اسے کیوں نہیں لے کے جا رہے احمد نے بتایا کہ تم اب اسی کے دوست ہو ہمارے گروپ سے نکل گۓ ہو یہ سن کہ کاشف احمد کی منتیں کرنے لگا اب حسن بھی اس کا ساتھ دے رہا تھا آخر احمد مان گیا اور وہ سب احمد حسن کاشف اور ان کے دو دوست اور احمد کہ گھر کی طرف چل پڑے راستے میں احمد نے حسن کو کونی مارتے ہوۓ مزاکیہ انداز میں پوچھا پہلی بار دیکھو گے کیا اس سے پہلے سے حسن کوئی جواب دیتا کاشف بولا کہ بھائی اسے سب پتا ہے بس آج پہلیبار سب ہوتا دیکھے گا تو اسے بھی سمجھ آ جاۓ گا ہم سب احمد کہ گھر سے تھوڑا دور کھڑے ہو کہ انتظار کرنے لگے کہ احمد گھر جاۓ اور اس کے امی ابو شادی کے لیے نکل جاۓ احمد گھر چلا گیا کچھ دیر بعد ہم نے گاڑی پہ اس کی ماں اور باپ کو جاتے دیکھا ہم اس کے گھر سے تھوڑا دور کھڑے تھے اتنے میں احمد نے بھی اشارے سے بلایا اور ہم سب اس کے گھر چلے گئے احمد کا گھر بہت بڑا اور عالیشان تھا اس کے ابو ایک ٹھیکیدار تھے اور ان کا احمد اکلوتا بیٹا تھا وہ ننگی فلمیں اس کے ابو کی تھی جو وہ بھی ایسے کبھی کبھی چلا کہ دیکھتا خیر سب دوست ٹی وی کے سامنے بیٹھ گۓ اور احمد نے ڈسک لگا کر فلم چلا دی حسن کا یہ پہلی بار تھا وہ بہت جستجو میں تھا فلم چلی تو ایک گنجا لڑکا کسی خوبصورت سی لڑکی کو بیٹھاۓ کہیں جا رہا تھا باتیں انگلش میں تھی جو کسی کو سمجھ میں نہیں آ رہی تھی حسن کو ابھی تک یہ سب نارمل لگ رہا تھا کہ یہ تو کسی فلم جیسی کوئی فلم ہے مگر وہ شوق سے دیکھ رہا تھا کیوں کہ اسے ویسے بھی ٹی وی کم دیکھنے کو ملتا تھا نہ اس کے گھر تھا تھوڑی دیر بعد وہ گنجا انگریز لڑکی کو کسی گھر میں لے جاتا ہے دونو کمرے میں اکیلے ہوتے ہیں اور اب گنجا انگریز لڑکی کو کپڑوں کے اوپر سے چھونے لگتا ہے اور اس کے مموں کو مسلنے لگتا ہے یہ دیکھ کہ حسن کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی وہ یہ سب دیکھتے ہوۓ سوچ رہا تھا کہ آخر یہ گنجا کون ہے جو بڑے مزے سے لڑکی کے ممے دباۓ جا رہا اگلے ہی لمحے وہ دونو ایک دوسرے کے ہونٹ چومتے ہوۓ ایک دوسرے کی شرٹ اتار دیتے ہیں لڑکی کہ ننگے ممے دیکھ کہ حسن کی آنکھیں ایسی پھٹ رہیں تھیں جیسے ابھی اندر گھس جاۓ گا پورن فلم کہ ایک ایک سین مو حسن ایسے دیکھتا رہا جیسے وہ یقین نا کر پا رہا ہو اس کا لن تن چکا تھا اس کے باقی دوست اپنا اپنا لن نکال کے کب کا مٹھ مارنے پہ لگے ہوۓ تھے حسن کا بھی یہی دل کر رہا تھا مگر وہ شرما رہا تھا مگر اپنے لن کے ہاتھوں مجبور ہو کہ وہ بھی اسے پینٹ کے اوپر سے ہی پکڑ کے مسلنے لگا آج پہلی بار وہ کسی لڑکی کو ننگا دیکھ رہا تھا اس کی گاند پھدی سب اور اب مٹھ مارتے سب دوست اپنے ارد گرد سے بے خبر تھے اس 20 منٹ کی وڈیو میں وہ سب کیا گیا جو آج تک حسن کہ خوابوں خیالوں میں بھی نہ تھا پورن فلم ختم ہوتے گئی دوست اپنا پانی چھوڑ چکے تھے اور کچھ ابھی چھوٹ رہے تھے جب سب اپنا اپنا پانی نکال چکے تو سب ایک ایک کر کے اپنے گھر کو چل دیے حسن اور کاشف بھی اپنے گھر کو چل پڑے کاشف راستے پہ حسن سے پوچھتا ہے کہ اسے کیی لگی یہ موی اور حسن بولا یار یہ کیا تھا الگ ہی دنیا ہے یار مزے ہیں اس گنجے انگریز کے کیسے اس لڑکی کے ساتھ مزے کر رہا تھا کاشف بھی بولا ہاں یار کاش اس کی جگہ
جاری ہے
0 Comments