ممنوع محبت
از عثمان خان
قسط نمبر 5
میں ہوتا یہ باتیں کرتے وہ ٹویشن سنٹر پہنچ چکے تھے وہ لیٹ تھے مگر حسن چھٹی نہیں کرنا چاہتا تھا کاشف اپنے گھر چلا گیا اور حسن ٹویشن پڑھنے شام کو گھر آ کے اس کے دماغ میں بس وہی فلم چل رہی تھی اس کی بہن زینب پر اب وہ زرا بھی دھیان نہیں دے رہا تھا اور زینب اس بات کو کئی دن سے نوٹ کر رہی تھی مگر آج کھانا کھاتے ہوۓ زینب بھی چپ رہی کیونکہ اس کے دماغ میں بھی صبح کی غلطی گھوم رہی تھی جو اس سے ہوئی تھی وہ اندر سے شرمندہ سی تھی کہ آخر اس سے ایسا کیسے کو گیا کھانے کھا لینے کے بعد زینب اپنے کمرے میں چلی گئی اور بستر پہ لیٹے پھر اسی بات کو سوچنی لگی ایک بات تھی وہ یہ کہ زینب اب بھی اس خوشبو کو محسوس کر رہی تھی اسے یہ شرمندگی ضرور تھی کہ اس نے جو کیا شاید وہ غلط تھا کیونکہ وہ کسی اور کی منی نہیں بلکہ اس کے بھائی کی تھی مگر وہ اس سچ کو بھی نہیں چھٹلا پا رہی تھی کہ اسے وہ منی کی خوشبو بہت اچھی لگی تھی وہ خوشبو اس کے اندر رچ سی گئی تھی زینب انہیں سوچوں میں گم تھی اور اس پہ نیند آہستہ آہستہ ہاوی ہو رہی تھی حسن اپنے کمرے میں لیٹا اس ننگی فلم کو سوچ رہا تھا وہ ننگی فلم کا ایک ایک سیسن اپنے دماغ میں سوچ رہا تھا اسے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ سب جیسے رئیل میں چل رہا ہو اس نے اپنے لن کو پکڑا اور دماغ میں سوچتے ہوۓ اس گنجے انگریز کی جگہ خود کو اور لڑکی کی جگہ عائشہ کو سوچتے ہوۓ موٹھ مارنے لگا وہ سارے طریقے جو اس فلم میں تھے سوچ کہ خیالوں میں ہی اسی طرح عائشہ کو چودھ رہا تھا اب وہ سیکس کی باتوں سے واقف ہو چکا تھا اور کچھ ہی منٹوں میں اس کے لن نے اپنا پانی چھوڑ دیا حسن جو کچھ دن پہلے ایک معصوم بچے کہ جیسے تھا جسے ان سب باتوں کاپتا بھی نہ تھا آج اس مقام پہ تھا کہ وہ سیکس کہ بارے سب جان چکا تھا موٹھ مارنے کہ بعد وہ سکون سے ہمیشہ کہ جیسے سو گیا اگلے دن اس کی بہن نے پھر اس کی گندی منی سے بھری شلوار دیکھی اب ایسا روز ہونے لگا تھا یا پھر یفتے میں دو تین بار اس سب کق ہوتے ہوۓ 6 ماہ کا عرصہ ہونے چلا تھا حسن کی روز شلوار منی سے گندی ہوتی اور اس کی بہن زینب روز اسے دھوتی زینب روز اپنے بھائی کی گندی شلوار دیکھتی اب وہ ایسا ویسا تو کچھ نہ کرتی ہاں البتہ اسے اب اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ ہو کیا رہا کیوں حسن کو روز احتلام ہوتا ہے کیا لڑکوں کو روز ہوتا ہے؟؟؟ پھر ابو کو کیوں نہیں ہوتا۔۔۔ شاید ابو بوڑھے ہیں اور حسن ابھی جوان ہوا اس لیے ۔۔۔ زینب اپنی ہی دماغ میں سوال بھی کرتی اور اس کا جواب بھی دیتی وہ سیکس کے بارے تو امی ابو کو دیکھ کر جان پائی تھی مگر اب بھی بہت سی باتیں تھیں جو وہ نہیں جانتی تھی وہ اس سب کے بارے حسن سے بھی نہیں پوچھ سکتی تھی نہ ماں سے بات کر سکتی تھی اسی سوچ میں گم تھی کہ اسے اچانک خیال آیا کہ جیسے وہ اپنی پھدی کو مسل اور اس میں انگلی ڈال کر پانی نکالتی ہے کہیں اس کا بھائی بھی ایسا نہ کرتا ہوں مگر بھائی کی تو للی ہے یہ سوچ کہ اس کی جستجو پڑھی وہ جان گئی تھی کہ جیسے وہ اینے ہاتھ سے پانی نکالتی ہے ویسے حسن بھی کرتا ہو گا مگر کیسے اور یہ سب لڑکے کیسے کرتے ہیں کیونکہ ان کی پھدی نہیں ہوتی لن ہوتا ہے اس سے اس کا سسپینس پڑھا اور اس نے بھائی پہ نظر رکھنے کو سوچا۔۔۔ دوسری طرف حسن جو کہ اب سیکس ماسٹر بن چکا تھا اب بس وہ یہ سب ریئل میں کسی لڑکی کہ ساتھ کرنا چاہتا تھا اس کے تمام دوستوں کی لڑکیاں دوست تھی مگر یہ واحد تھا جس کی کوئی لڑکی دوست نہ تھی باقی دوست بھی ابھی اپنی دوست لڑکیوں کی پھدی نہ مار پاۓ تھے مگر کم ازکم ان کو چھو کہ ان کے مموں اور گانڈ کا مزہ تو لے چکے تھے مگر حسن اس چیز کہ بھی مزے نہ لے سکا وہ بہت دن عائشہ کہ پیچھے لگا رہا مگر اس کی دوستی تو دور اس سے بات بھی نہ کو پائی اس کے علاوہ بھی کئی لڑکیوں پہ حسن ٹرائی مار چکا تھا مگر کسی بھی لڑکی نے اسے منہ نہ لگایا حسن دکھنے میں زیادہ کوئی پیارا بھی نہ تھا اور نا ہی کوئی گیا گزرا بس نارمل لڑکا تھا اس سے لڑکیوں کو دوست نہ بنا پانے کی دو وجہ تھی ایک اس کا ڈرپوک ہونا دوسرا اس کا غریب ہونا اور اس کے کوئی رشتے دار بھی نہ تھے جن کی بیٹی پہ وہ مزے کرتا اپنے ایک دوست کہ جیسے جسنے اپنی کزن کو پنسایا ہوا تھا خیر اب حسن کہ دن اسی مٹھ پہ گزر رہے تھے جسے مار مار کے اب وہ اکتا بھی چکا تھا حسن شام کو اپنے گھر آتا ہے بہن کے ساتھ کھانا کھاتا ہے اور اس کی بہیں کھانے کے برتن اٹھا کہ کچن کی طرف چل پڑتی ہے آج زینب پورے پلین کے ساتھ ہوتی ہے وہ جانتی ہوتی ہے کہ اس کا بھائی رات کو ہی کچھ کرتا ہے اور اسے بس اپنے بھائی کو پکڑ کہ سمجھانا ہے کیوں کہ ایسے اس کی صحت خراب ہو رہی تھی وہ حسن سے ایک بھائی جیسے پیار کرتی تھی اور اس کے لیے دل سے پریشان تھی زینب یہ بھی سمجھتی تھی کہ شاید حسن یہی سب کرتا ہے اور اسی وجہ سے اب وہ زینب کے ساتھ باتیں نہیں کرتا ورنہ پہلے دونو بہن بھائی رات گئے باتیں کرتے تھے کھانا کھا کہ زینب برتن اٹھا کہ حسن کہ کمرے سے نکل جاتی ہے اور کچن میں ہی کھڑے ہو کہ انتظار کرتی ہے کہ جب اس کے بھائی کہ کمرے کی لائٹ بند ہو گی تب وہ چھپ کہ صحن کی سائیڈ پہ بنی ونڈو سے دیکھے گی کہ حسن کیا کرتا ہے کچھ ٹائم کزرا مگر لائیٹ ابھی بھی آن تھی زینب اب اور انتطار نہیں کر سکتی تھی اسی لیے وہ چپکے سے گئی اور ونڈو سے کہ قریب جا کہ گھڑی ہو گئی اس کے ماں باپ تو سکون سے سو رہے تھے اور سردیاں ہونے کی وجہ سے ونڈو تو بند تھی مگر اس میں بنے سوراخ زینب کا واحد راستہ تھے جس سے وہ اندر دیکھ پاتی زینب نے جب ایک سوراخ پر آنکھ رکھ کر اندر دیکھا تو اس کی تو جیسے سانس رک گئی ہو زینب کو ایسے محسوس ہونے لگا جیسے اس کے جسم سے کسی نہ جان نکال لی ہو اندر کا منظر کچھ یوں تھا حسن اپنے لن کو باہر نکالے آنکھیں بند کیے زور زور سے لن کو ہلاۓ جا رہا تھا زینب کہ لیے یہ سب اس لیے حیران کن تھا کہ اس سے پہلے نہ تو اس نے بڑا لن دیکھا تھا کیونکہ اس کا باپ بھی اندھیرے میں اس کی ماں کو چودھتا تھا اور دوسرا اسے یہ امید نہیں تھی کہ اس کا چھوٹا بھائی حسن کا بھی اتنا بڑا لن ہو گا وہ پہلی بار ایسا سب دیکھ رہی تھی چاہتے ہوۓ بھی وہ اپنی نظروں کو ہٹا نہیں پا رہی تھی دوسری طرف حسن اپنے مزے کی دنیا میں کسی لڑکی کو چودنے میں مصروف ارد گرد سے بے خبر تھا اس طرح اپنے بھائی کو لن۔کے ساتھ کھیلتے دیکھ کر اب زینب کے جسم میں بھی بجلی دوڑنے لگی اس کی حالت بھی خراب ہونے لگی مگر اس سے پہلے کہ کچھ اور ہوتا حسن کا لن پچکاریاں مارنے لگا اور ایک لیس دار مادہ چھوڑنے لگا جو اس کی شلوار جو اس نے ادھی اتاری ہوئی تھی اس پہ گرنے لگا زینب یہ سب دیکھ حیران تھی اتنی سرد رات میں بھی اب اسے گرمی لگ رہی تھی وہ بھائی کہ لن سے نکلتی منی کو عجیب سے دیکھ رہی تھی شاید یہی وہ چیک تھی جسے سونک کے وہ اپنا پانی نکال چکی تھی اور ابھی تک وہ خوشبو اسمیں موجود تھی اب حسن اٹھتا ہے اور لائیٹ بند کرتا ہے اور زینب بھی اپنے کمرے میں جا کہ بستر پہ لیٹ گئی مگر آج اس کی نیند اڑھ چکی تھی وہ جو دیکھ چکی تھی وہ سب اب بھی اس کی نظروں میں گھوم رہا تھا اسے وہ سب کبھی اچھا لگتا تو کبھی اپنے سگے بھائی کا سوچ کہ برا بھی مگر اب اس کی سوچ صرف اس موٹ لن پہ تھی جو حسن اپنے ہاتھ میں لیے ہلاۓ جا رہا تھا زینب اب گرم ہونے لگی تھی مگر وہ کچھ بھی نہیں کر سکتی تھی سارے رات کروٹیں بدلتے بدلتے نہ جانے وہ کب سو گئی اور صبح وہ جیسے اٹھی سب اس کے دماغ میں پھر سے چلنے لگا جیسے ابھی ابھی ہوا ہو اپنے باپ کو ناشتہ کروا کے اور ان کا کام پہ بھیج کہ وہ ہمشہ کہ جیسے اپنے بھائی کو جگانے کے لیے بڑھتی ہے اس کے قدم بھاری ہو رہے ہوتے ہیں رات والے واقعے سے اب تک وہ نکل نہیں پائی جیسے ہی حسن کہ کمرے میں جاتی ہے تو سامنے اس کا بھائی حسن بے خبر سو رہا ہوتا ہے حسن پہ نظر پڑھتے ہیں رات کا واقع اسے ایسے یاد آتا ہے جیسے وہ حسن کہ بیڈ کہ ساتھ کھڑی ہے اور وہ اپنے بیڈ پہ لیٹے وہی مٹھ مارے جا رہا اپنی سوچ کو ختم کرتے ہوۓ وہ حسن کو جگاتی ہے اور خود کچن کی طرف چل پڑتی ہے حسن اپنی یونیفارم پہن کر آتا ہے اور وہ دونو بیٹھ کر ناشتہ کرتے ہیں زینب اپنے بھائی سے نظریں نہیں ملا پا رہی تھی اسے ایک عجیب سی شرم محسوس ہو رہی تھی حسن ناشتہ کر کے سکول چلا گیا اور زینب اس واشروم میں کیونکہ وہاں وہ منی سے بھری اپنے بھائی کی شلوار دیکھنا چاہتی تھی مگر ابھی وہ پہنچی ہی تھی کہ ماں کہ آواز آئی کہ اسے ناشتہ دے وہ۔ویسے ہی مڑی اور ماں کو ناشتہ دینے کے بعد برتن دھونے اور صفائی میں لگ گئی یہ نہیں تھا کہ وہ سب باتیں اس کے دماغ سے نکل گئی تھی وہ سب ابھی بھی اس کے دماغ میں چل رہا تھا بلکل صاف کسی فلم کے جیسے گھر کہ بقیہ کام کرنے کہ بعد وہ باتھروم کی طرف بڑھنے لگتی ہے اس کا دماغ عجیب سوچوں میں الجھا ہوا تھا کبھی اسے ایسا سب کرنا اچھا لگتا تو کبھی غلط باتھروم میں جا کہ وہ اپنے بھائی کی شلوار پہ لگے منی کہ دھبے کو گھورنے لگتی ہے اسے اس منی کی خوشبو کا احساس ستانے لگتا ہے نا چاہتے ہوۓ بھی وہ اپنے بھائی کی شلوار پہ لگے اس داغ کو سونگنے لگتی ہے اس کی زندگی میں کبھی کوئی مرد نہ آیا تھا اس لیے اتنا سب ہونے کہ بعد اور بچپن سے اپنے باپ کو اس کی ماں کو چودتے ہوۓ دیکھ کہ اب وہ خود پر صبر نہیں کر پا رہی تھی اس منی کی خوشبو اور احساس اس کے جسم کو اب پھر پاگل کر رہا تھا اور نہ جانے کب اس کا ہاتھ اس کی پھدی کو مسلنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ اپنی شلوار میں ہی فار غ ہو گئی اپنی منی کی خوشبو اسے اپنے بھائی کی منی کی خوشبو سے زیادہ اچھی نہ لگی
اب زینب روز اپنے بھائی کو ایسے مٹھ مارتے دیکھنے لگی شروع شروع میں اسے بس وہ مرد کا ایک احساس اچھا لگتا تھا جس سے وہ خود کو نہ روک پاتی ابھی تک وہ اپنی بھائی کہ پیار میں پوری طرح نہ ڈوبی تھی دوسری طرف حسن روز کسی لڑکی کی تلاش میں ہوتا کہ اب اسے کوئی ملے جسے وہ پیار کر سکے اور وہ سب کچھ جس کے لیے وہ ترس رہا ہے اب دونو ایک ایک سال بڑے ہو چکے تھے یہاں تک سب کچھ پھر بھی ٹھیک تھا حسن کا لڑکیوں کہ تڑپنا اور اس کی بہن کا کسی مرد کہ لیے نارمل تھا اور زینب کا اپنے سگے بھائی کو مٹھ مارتے دیکھنا اور اپنی منی نکالنا بھی کسی حد تک قابل برداشت تھا مگر آنے والا وقت ان کے لیے کچھ اور ہی سوچے آ رہا تھا ایک دن ٹویشن سے واپسی پہ جیسے ہی حسن اپنے گھر میں داخل ہوتا ہے تو اپنی ماں اور بہن کو روتے دیکھ کر ایک دم گھبرا جاتا ہے پوچھنے پہ اسے پتا چلتا ہے کہ اس کا باپ مل میں کام کرتے ہوۓ گر پڑا ہے جس سے اس کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی ہے یہ بات حسن کہ لیے پاؤں کہ نیچے سے زمین کھنچ لینے والی تھی اس پر جیسے قیامت گزر گئی ہو گھر میں پہلے بوکھ کے لالے تھے اوپر سے ان کا باپ جو اکلوتا گھر کا کفیل تھا چارپائی پہ آ گیا تھا مگر ہونی کو کون بدل سکتا ہے کچھ دن بعد حسن اس بات کو سمجھ گیا کہ اب اسے ہی اپنے گھر کا سہارا بننا پڑے گا اس کا بوڑھا باپ جو اس عمر میں کام کر رہا تھا تاکہ حسن کو پڑھا کر وہ آنے والے کل کو اچھا بنا سکے ان خوابوں کہ ٹوٹنے پہ جسم کہ ساتھ دل سے بھی تکلیف میں تھا اب حسن پڑھائی چھوڑ کر مل میں جانے لگا پڑھائی چھوڑ کے کام کرنے کا صدمہ جتنا حسن کو تھا اس سے کہیں زیادہ اس کے ماں باپ اور بڑی بہن کو تھا مگر وہ وقت اور کچھ کر بھی نہیں سکتے تھے اب حسن کام پہ جانے لگا صبح باپ کے جیسے جاتا اور شام کو آتا اب اس کا مٹھ مارنا لڑکیوں کہ پیچھے بھاگنا سب ختم ہو چکا تھا زینب اپنے بھائی کی وجہ سے سب سے زیادہ پریشان تھی حسن کو مل میں کام کرتے ہوئے ایک مہنہ ہو چکا تھا مگر اس کی تنخواہ اپنے باپ کہ برابر بھی نہ تھی جس میں وہ مشکل سے گزارا کرتے تھے وہ کام میں بھی نیئا تھا اس لیے اب زینب نے بھی اپنے محلے میں ایک امیر کہ گھر کام کرنے کا سوچا اور اس پہ چاہتے ہوۓ بھی حسن کا اس کا ماں باپ کچھ نہ کر سکے کیونکہ یہ وقت کی ضرورت تھی زینب دن ٹائم صبح کام کرنے جاتی اور دوپہر کو واپس آ جاتی اس سب کو ایک ماہ گزرا مگر ان کے دن نہ بدلے سب کچھ ویسے کا ویسا رہا دونو کی کمائی کرنے کہ باوجود وہ گھر کا بوجھ نہیں اٹھا پا رہے تھے دن تھے کہ بد سے بدتر ہو رہے تھے دونو کے جوانی کے دن گھر کا بوجھ اٹھانے لگے تھے حسن اپنے دوستوں سے بھی گیا اور لڑکیوں کو تاڑنے کہ مزے سے بھی پھر ایک دن حسن مل میں مزدوری کو چھوڑ کر ایک ہوٹل پہ کام کرنے پہ لگ گیا وہاں اسے اچھی تنخواہ کے ساتھ ساتھ کھانا بھی مل جاتا تھا جو وہ اکثر رات کو گھر لے کے آتا دونو بہن بھائی اپنے اپنے کاموں میں لگے گھر میں خوشحالی اور اچھے دنوں کی امید لیے دن کاٹ رہے تھے کہتے ہیں غریب کی سب مارتے ہیں سچ کہتے ہیں زینب جس گھر میں کام کرتی تھی وہ خالہ کلثوم کا تھا جسے محلے میں سب خالہ کلثوم کے نام۔سے جانتے تھے اس گھر میں رہنے والوں میں کلثوم کا شوہر 2 بیٹیاں اور ان کا ایک 25 سالہ بھائی عارف جو کہ کسی ہوسٹل میں رہتا تھا پڑھائی کہ لیے دوسرے شہر ہر ہفتے کی چھٹی پہ گھر آتا زینب جس کو مرد کی چاہت تھی اور وہ گھر بیٹھے کسی مرد کااحساس پانے کے لیے شدت سے تڑپ رہی تھی آج وہ باہر نکل ہر ان سب خیالوں سے آزاد تھی اور اس کی سوچ اب صرف اپنے گھر کی خوشحالی تھی اتوار کا دن تھا زینب کلثوم خالہ کہ گھر صفائی کہ کام میں مصروف تھی چھٹی کا دن ہونے کی وجہ سے آج سب گھر پہ تھے اور عارف بھی گھر آیا ہوا تھا عارف کی نظر شروع دن سے زینب پر تھی اور ہوتی بھی کیسے نہ زینب جو کہ ایک بھرے ہوۓ خوبصورت جسم کی مالک تھی اس کے کپڑے پرانے اور اس پہ تنگ ہو جانے کی وجہ سے اس کا ایک ایک انگ ابھر کر دیکھائی دیتا عارف ہر بار اسے اپنی ہوس بھری نظروں سے دیکھتا مگر سب کہ گھر پہ ہونے کہ وجہ سے وہ کچھ نہ کر پاتا اور صرف زینب کا جسم دیکھ گزارا کر رہا تھا زینب جو کہ صحن میں جھک کر صفائی کر رہی تھی اور عارف اس لے لٹکتے ممے اور گانڈ دیکھ کہ اپے سے باہر ہو رہا تھا اس نے زینب سے کہا کہ وہ پہلے اس کے کمرے کی صفائی کرے تاکہ وہ سکون سے بیٹھ جاۓ اور بعد میں اسے تنگ نہ کرے زینب جو عارف کہ ارادوں سے بےخبر اندر چل پڑھتی ہے اور صفائی کرنے لگتی ہے عارف گھڑا اسے دیکھ رہا ہوتا ہے اور ڈر بھی رہا ہوتا ہے اچانک عارف میں ہمت آتی ہے اور وہ زینب کہ پیچھے سے گزرتا ہوا اس کے نرم موٹی گانڈ پہ ہاتھ پھیرتا ہے اور کمرے کی دوسری شائیڈ جا کے کھڑا ہو جاتا ہے زینب جیسے ہی جھکے ہوۓ اپنی گانڈ پہ عارف کا ہاتھ محسوس کرتی ہے ایک دم اچانک گھبرا جاتی ہے زینب کہ دل کی دھڑکن تیز ہونے لگتی ہے باوجود اس کے کہ وہ کسی مرد کا ساتھ پانے کہ لیے تڑب رہی تھی مگر آج جب اسے موقع ملا تو اسے یہ سب ذرا بھی اچھا نہیں لگا تھا اس کے اندر غصہ اور ڈر تھا عارف جو اپنا پہلا قدم اٹھا کر انتظار کر رہا تھا کہ زینب کا کیا ردعمل ہوتا ہے جس کی بنیاد پہ وہ آگے کچھ کرے گا زینب جو ڈر کے مارے کچھ کرنے سے بھی عاری تھی چب چاپ کمرے سے باہر نکل گئی وہ اس بات پہ نہ عارف کو کچھ کہہ سکی نا بدنامی کہ ڈر سے اس کے گھر والوں یعنی اپنی مالکن خالہ سے بھی بات نہ کر سکی عارف جو کہ اس کام میں ماسٹر تھا یہی سمجھا کہ شاید پہلی بار ہے اسی لیے زینب ڈری ہوئی ہے اور وہ جلد بازی نہیں کرنا چاہتا تھا خیر دن کزرنے لگے اس کے بعد عارف اپنے ہوسٹل واپس چلا گیا اور زینب اس بات کو دل میں دباۓ چپ رہی ایک ہفتے بعد جب عارف واپس آیا تو اس نے پھر زینب کو اسی طرح چھیڑا زینب اس سب کو پند بلکل بھی نہیں کر رہی تھی مگر بات بھی کسی سے نہ کر سکتی تھی اور نہ ہی اس میں عارف کو کچھ کہنے کی ہمت تھی دوسری طرف عارف جو زینب کی چپ کو ہاں سمجھ رہا تھا اور یہی سمجھ رہا تھا کہ شاید وہ شرما رہی ہے اور تھوڑا ڈر رہی مگر بات تب بگڑی جب عارف اگلی چھٹی واپس گھر آیا اس کی ماں اور باپ دونو کسی رشتے دار کے گھر پہ گئے ہوۓ تھے بہنیں اپنے کمرے میں یہ وقت عارف کے لیے اچھا تھا وہ اب موقع ڈھونڈنے لگا زینب جو عارف کی چھیڑا چھاڑی سے تنگ آ کر اب اس سے دور ہی رہتی اور احتیاط کرتی تھی زینب کچن میں کھڑی کھانا بنانے میں مصروف تھی عارف سمجھ گیا کہ یہی موقع ہے وہ جلدی سے بہنوں کہ کمرے میں گیا جو کسی ڈراما دیکھنے میں مصروف تھی عارف سمجھ گیا کہ اب قیامت بھی آجاۓ تو اس کی بہنیں ڈراما چھوڑنے سے رہی یہ دیکھ کہ وہ کچن کی طرف گیا زینب عارف کو کچن میں دیکھ کر گھبرا گئی اس کو ڈر لگ رہا تھا کہ اتنے میں عارف نے اسے پیچھے سے گلے لگا لیا وہ کچھ کہنے ہی والا تھا کہ زینب جلدی سے اس کی باہوں سے نکلی اور ایک زور دار ےتھپڑ اس کو مارا عارف بلکل بھی اس کے لیے تیار نہیں تھا زینب اب بہت ڈر گئی تھی عارف اور تو کچھ کر نہ سکا مگر زینب کو اس کا بہت برا انجام بھگتنے کی دھمکی دے کہ چلا گیا زینب نہ آدھا کام کیا اور گھر واپس آ گئی وہ بہت ڈری ہوئی تھی وہ اپنے دل کی بات کو کسی سے شئیر کر کہ بوجھ ہلکا کرنا چاہتی تھی مگر وہ کس کو بتاتی ماں یا باپ کو جو دونو اس کے محتاج چارپائی پہ تھے یا اپنی مالکن خالہ کو بتاتی جو اپنے بیٹے پہ ایسا الزام سن کہ الٹا زینب کی بدنامی کر دیتی زینب ایک عجیب کشمکش میں تھی شام کو حسن جب گھر لوٹا تو وہ دونو بیٹھ کہ کھانا کھانے لگے یہ ان کا معمول تھا تبھی حسن نے محسوس کیا کہ زینب کسی سوچوں میں گم ہے ان کہ بیچ زیادہ باتیں ہونے کا دور تو کب کا ختم ہو چکا تھا جب سے حسن جوان ہوا تھا مگر جب اسے زینب کی حالت صحیح نہیں لگ رہی تھی حسن نہ جب کھانا کھا لیا تو اس نے زینب کو مخاطب کرتے ہوۓ بولا باجی خیر تو ہے آج آپ پریشان لگ رہی ہیں زینب جو کہ اپنی سوچوں میں گم تھی اچانک بھائی کی بات سے چونکی اور ہڑبڑا کے بولنے لگی نہیں بھائی ایسی کوئی بات نہیں حسن اتنا تو اپنی باجی کو جانتا تھا کہ آخر کوئی بات ہے اس نے پھر اپنے سوال کو دھراتے ہوۓ کہا باجی مجھے بتاؤ کیا بات ہے مگر زینب کہ بار بار منع کرنے اور کچھ بھی بات نہیں کی رٹ نے حسن کو چپ کر دیا اور وہ کمرے سے چلی گئی حسن بستر پہ لیٹے سوچنے لگا کہ ایسی کیا بات ہے جو باجی بتا نہیں رہی اور پریشان ہے وہ یہی سمجھا کہ باجی شاید گھر کہ حالات سے پریشان ہونگی یا کام کی وجہ سے تھکی ہوئی ہونگی زینب بھی اپنے بستر پہ لیٹی سوچ رہی تھی کہ وہ اپنے دل کی بات بتانا تو چاہتی ہے مگر اپنے ہی چھوٹے بھائی کو وہ یہ بات کیسے بتاۓ حسن سے بڑی ہونے کی وجہ سے وہ حسن کو۔ خود سے چھوٹا اور نا سمجھ سمجھتی تھی مگر اس کہ دل کی یہ بات اسے سکون نہیں لینے دے رہی تھی اگلا دن وہ اس سب کے باوجود وہ پھر خالہ کے گھر کام کرنے گئی جو اس کی مجبوری تھی وہ اندرسے بہت ڈری ہوئی تھی کہ نہ جانے عارف اب اس کے ساتھ کیا کرے گا مگر وہاں جا کہ اسے سب نارمل لگا عارف دل میں غصہ لیے بس موقع ڈھونڈنے کی تلاش میں تھا اب وہ زینب کو بدنام کرنا چاہتا تھا اس دن زینب نے جلدی کام ختم کیا اور واپس آگئی شام کو پھر حسن اپنی بہن کو پریشان دیکھ کہ دوبارہ بول پڑا کہ باجی آخر کیا بات ہے جو آپ مجھ سے چھپا رہی اور کل سے پریشان ہیں زینب کا بہت دل کر رہا تھا کہ وہ اپنے بھائی سے بات کرے اور آخر کار حسن کے بار بار پوچنے پر وہ بولنے لگی اس نے تھوڑا گھبراتے اور شرماتے ہوۓ حسن کو بتایا کہ عارف اس کو چھیڑتا ہے اور اس دن والی بات بھی بتائی یہ سب سن کہ حسن کا خون کھولنے لگا مگر زینب نے فوراً بھائی کہ غصے کو بھانپ لیا
زینب نے حسن کو کہا کہ وہ کوئی غلط قدم نہیں اٹھاۓ گا اس سے اس کی باجی کی ہی بدنامی ہو گی حسن جو کہ غصے میں پاگل ہو رہا تھا مگر وہ یہ بھی سمجھ رہا تھا کہ جو زینب کہہ رہی وہ بات بھی صحیح ہے دونو اس بات پہ بحث کرتے رہے اور آخر حسن نے یہی کہا کہ وہ عارف کہ ابو سے بات کرے گا وہ ایک بزرگ اور نیک دل انسان ہیں کیونکہ گھر کہ حالات ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے زینب اپنا کام بھی نہیں چھوڑ سکتی تھی اور وہ بھی اپنے چھوٹے بھائی کی اس بات کو مان گئی صبح حسن اپنے کام پہ جانے سے پہلے خالہ کے گھر گیا اور ان کے شوہر سے بات کی جس کو انہوں نے غور سے سنا اور حسن کو آئیند ایسی غلطی نہ ہونے کی امید دلائی حسن بات کر کے اپنے کام پہ چلا گیا مگر جب دن کہ 9 بجے زینب خالہ کہ گھر کام کرنے گئی تو خالہ اس پہ پٹ پڑی اور اس کو ایک خراب لڑکی بول کہ اپنے بیٹے کا دفاع کرنے لگی اور زینب کو عارف پہ اور اس کہ باپ پہ ڈورے ڈالنے اور ان کو اپنے پیار میں پھسانے کا الزام لگا دیا زینب اس کے لیے بلکل تیار نہ تھی وہاں ہنگاما ہونے پہ محلے کی باقی عورتیں بھی آگئی اور سب زینب کو ہی برا بھلا کہنے لگی اس سب کہ بعد زینب اندر سے بہت ٹوٹ چکی تھی شام کو حسن کو یہ بات بتا کہ وہ اپنے بھائی کہ گلے لگ کہ رو رہی تھی اور حسن بھی بہت غصے اور غم میں تھا مگر وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا ان کے ماں باپ بھی بہت دکھ میں تھے پہلے انہیں زینب کا رشتہ نہیں مل رہا تھا اور نہ ان کے مالی حالات ٹھیک تھے تو رشتہ ملنا مشکل تھا مگر اب محلے میں بدنامی ہونے کہ بعد تو کسی کا زینب کہ لیے رشتہ مانگنا نا ممکن ہو چکا تھا حسن اپنی باجی کو دلاسے دینے لگا اس کے سوا وہ کر بھی کیا سکتا تھا اور زینب کو کام نہ کرنے کا کہا اب حسن ہی تھا جو صرف کما رہا تھا گھر کہ حالات تو برے تھے مگر مجبور انسان کیا کر سکتا تھا پھر ایک دن حسن کو ہوٹل پہ ہی ایک نیک دل انسان ملا جو روز کی بنیاد پہ آتا تھا اس ہوٹل پہ اس سے حسن کی جان پہچان ہونے کہ بعد اسے حسن پہ ترس آیا اور اسے ایک اچھی جاب ڈھونڈ کہ دینے کی امید دلائی اور کچھ دن بعد حسن اپنے ہوٹل کی جاب کو چھوڑ کہ اس آدمی کی دکان پہ کام کرنے لگا دکان کہ مالک کا نام حاجی عبدلغفور تھا مگر سب انہیں حاجی صاحب کے نام سے جانتے تھے سفید داڑھی اور نورانی چہرے والے تھے وہاں حسن کو تنخوا بھی اچھی ملنے لگی اور ٹائم بھی کم ہوتا تھا وہ صبح سویرے جاتا اور تقریباً عصر تک واپس آ جاتا وہ دکان کاسمیٹک اور کپڑوں کی تھی جہاں اور بھی لوگ کام کرتے تھے اب حسن کے گھر کہ حالات سنبھلنے لگے اور اس کی تنخواہ بھی بڑھنے لگی زینب بھی اپنے بھائی کی کامیابی سے خوش تھی پھر ایک دن حسن عصر ٹائم اپنے کام سے واپس گھر آ رہا تھا کہ اسے کاشف مل گیا کاشف کو دیکھ کہ حسن کو پرانے سکول کہ دن یاد آگئے وہ دونو ایک دوسرے سے ملے اور باتیں کرنے لگے حسن نے اسے اپنا سب بتایا اور کاشف سے بھی پوچھا کہ وہ آجکل کیا کر رہا ہے کاشف نے بتایا کہ اب وہ دوسرے شہر جا کہ آگے پڑھ رہا ہے ایک دوسرے کہ بارے معلومات لینے کہ بعد اچانک کاشف نے ہنستے ہوۓ حسن سے پوچھا کاشف: سناؤ پھر میرے جوان اب تک کتنی پھدیوں کہ مزے لے چکے ہو حسن کاشث کی یہ بات سن کہ ہنسنے ہوۓ بولا کہاں کاشف یار پھدی مارنا تو دور ابھی تک دیکھنی بھی نصیب نہیں ہوئی کاشف حسن کہ اس جواب سے حیران ہو کر بولا یار تم تو بہت سلو ہو کیا کرتے ہو تم سے کوئی ایک لڑکی سیٹ نہیں ہوئی مجھے دیکھو اب تک کتنی لڑکیوں کہ مزے لہ چکا ہوں حسن کاشف کی بات سن کہ اندر ہی اندر حسد میں ڈوبا جا رہا تھا اور اس سے پوچھنے لگا کہ پہلی بار اس نے کس کی لی تبھی کاشف نے اسے اپنا ہم راز سمجھ کہ بتایا کہ اس نے اپنی ہی چاچو کی بیٹی کو پہلی بار کیا تھا اب تو وہ بہت سی لڑکیوں کہ ساتھ کرتا ہے شہر میں اور جب گھر آتا ہے تو اس کی کزن پہ مزے لیتا ہے گھر کی بات گھر میں اور جب دل کرے مزے لو کاشف کی یہ بات حسن کہ دماغ میں گھس گئی کاشف تو باتیں کر کے چلا گیا مگر گھر آ کے بھی کاشف کی باتیں حسن سوچے جا رہا تھا وہ جیسے گھر میں داخل ہوا اس کی بہن اسے دیکھ کر مسکراتے ہوۓ اس کی طرف بڑھی اور سلام دعا کہ بعد وہ کچھ دیر ماں باپ کہ پاس بیٹھا اور کمرے میں چلا گیا شام ٹائم روٹین کے جیسے کھانا کھانے کی بعد حسن اپنے کمرے میں تھا اور زینب اپنے ماں باپ کہ کمرے میں حسن لیٹا بس کاشف کی وہ باتیں سوچے جا رہا تھا اسے سب سے زیادہ کاشف پہ اس بات پہ حسد ہو رہا تھا کہ وہ اپنے ہی گھر میں اپنی کزن پہ مزے لیتا ہے جب چاہے جس وقت چاہے اور حسن کا بھی دل کرنے لگا کہ کاش اس کی بھی ایسے کوئی گھر میں لڑکی ہوتی مگر اس کی تو کوئی رشتے دار ہی نہیں ہیں ایک خالہ تھی حسن کی جو کہ اٹک میں شادی شدہ تھی حسن کی ماں کی بھوٹی ںہن تھی ان کی ایک بیٹی بھی تھی مگر ان کا حسن کہ گھر آنا جانا بہت کم تھا اور کئی سالوں بعد کبھی ملنے آتے مگر اب تو بہت عرصہ ہو چکا تھا نہ خالہ آئیں اسر نہ یہ لوگ گئے حسن کو تو اپنی خالہ کی بیٹی کی شکل بھی بھول گئ حسن اپنے دل میں کسی لڑکی کہ ساتھ مزے کرنے کی خواہش کو لیے سوچوں میں گم تھا اور یہی سوچ رہا تھا کہ اس کی کوئی کزن ہوتی تو وہ بھی جب چاہتا اپنے ہی گھر میں مزے لے لیتا یہ سب سوچتے اس کا لن کھڑا ہونے لگا اور وہ اسے اپنے ہاتھ سے سہلانے بھی لگا حسن آج بہت دن بعد مٹھ مارنے کہ موڈ میں تھا وہ ایسے ہی سوچتے سوچتے آہستہ آہستہ لن کو مسلنے لگا زینب اپنے کمرے میں بستر پہ لیٹی ہوئی تھی اس کو نیند نہیں آ رہی تھی تبھی اسے پیشاب آیا اور وہ کرنے کے لیے اٹھی باتھروم جو کہ صحن میں تھا وہ چلی گئی جب پشاب کر کے وہ واپس اپنے کمرے کی طرف جانے لگی تو اسے اپنی بھائی کہ کمرے کی لائٹ آن نظر آئی وہ یہ دیکھ کہ تھوڑا حیران ہوئی کہ حسن اس وقت تک کیوں جاگ رہا ہے اور کھڑکی کی جانب بڑھی زینب جو پہلے اپنے بھائی کی منی سونگا کرتی تھی اور رات کو اپنے سگے بھائی کو مٹھ لگاتا دیکھتی تھی مگر اب بہت عرصے ہو گیا تھا اس نے ایسا کچھ نہ دیکھا تھا کیوں کہ حالات ہی ایسے ہو گئے تھے وہ کھڑکی کہ طرف گئی اور سوراخ سے جھانکنے لگی اور اندر کا منظر دیکھ کہ ایک دم چونک گئی اندر حسن بیڈ پہ ننگا لیٹے اپنے لوڑے کو زور زور سے ہلا رہا تھا زینب کو بلکل بھی اس کی امید نہ تھی وہ اپنے بھائی کا لن دیکھ کہ بس نظریں نہیں ہٹا پا رہی تھی تبھی اسے اپنے جسم میں ایک عجیب سا احساس محسوس ہوا اس کا ہاتھ خودبخود اس کی پھدی پہ پہنچ کہ اسے سہلانے لگا وہ آنکھیں پھاڑ کر اپنے چھوٹے بھائی کو مٹھ مارتے دیکھ رہی تھی اور اندر لیٹا حسن ان سب باتوں سے بے خبر اپنی سوچوں میں کسی لڑکی کو اپنی کزن بناۓ چودنے میں مصروف تھا ادھر حسن کہ ہاتھ کی رفتار تیز ہوئی تو زینب کہ ہاتھ نے بھی اپنی زفتار بڑھا دی وہ یہ سب بھول چکی تھی کہ وہ ایسا کیوں کر رہی اپنے ہی سگے بھائی کو دیکھ کر صحیح یا غلط کا فرق کرنے سے بہت دور وہ بس اس مزے میں گم تھی تبھی حسن کہ لن نے چھٹکے مارے اور اپنا پانی نکال دیا جسے زینب دیکھ کہ اور گرم ہوئی اور اس کی پھدی نہ بھی پانی چھوڑ دیا اب حسن اپنی فرسٹریشن نکال کہ وہیں لیٹا ہوا تھا اور زینب ایسے ہی جا کہ اپنے بستر پہ لیٹ گئی اب اسے سوچوں نہ آگھیرا وہ سوچنے لگی کہ یہ اس نہ کیا کر دیا اپنے چھوٹے بھائی کو دیکھ کہ وہ گرم ہوئی اور اتنی کہ اس کا پانی نکل گیا کیا ایسا کرنا ٹھیک تھا اس نے کوئی گناہ کیا ہے وہ یہ بھی سوچ رہی تھی کہ جیسے اسے آپنے بھائی کو دیکھ کہ مزا اتا ہے ویسا عارف یہ کیوں نہ آیا حالانکہ وہ بھی تو مرد تھا اور وہ تو اسے خود دعوت بھی دے رہا تھا وہ جیسا اور جو کچھ کرنا چاہتی کر سکتی تھی مگر اسے کیوں عارف کہ ساتھ ایسا کرنا برا لگا اور اپنے ہی چھوٹے بھائی کو دیکھ کہ اچھا لگتا ہے اب وہ یہ بات تو سمجھ گئی تھی کہ اسے حسن کو ایسے دیکھنا اچھا لگتا ہے مگر ابھی بھی اس کے دماغ کہ کسی کونے میں شرم اور اپنے ہی بھائی کو ایسے دیکھنا غلط لگ رہا تھا مگر کہتے ہیں نہ کہ گناہ کی لزت کہ سامنے زمیر کی آواز مدہم پڑھ جاتی ہے اور پھر وہ آہستہ آہستہ مر جاتا ہے زینب کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا وہ اب اپنے بھائی کو ہی سوچنے لگی تھی اور آہستہ آہستہ اس کی چھوٹے بھائی کی محبت اور جسم کی ہوس اس کے اندر بہت حد تک سما چکی تھی حسن جو اپنی بہن کی ان سب باتوں سے بے خبر تھا اپنے روزمرہ کاموں میں مصروف تھا اور زینب بھی اپنے بھائی کی محبت جو وہ جانتی تھی کہ کبھی پوری نہیں ہو سکتی اور کسی کو زرا سا بھی پتہ چل جانے کہ انجام سے واقف بس جتنا مل رہا تھا اسی پہ خوش تھی حسن روز تو مٹھ نہ مارتا مگر ہفتہ میں ایک بار زینب کو یہ سب دیکھنے کا موقع مل جاتا تھا اب ان کہ گھر کے حالات بہتر ہو چکے تھے حسن کی تنخواہ بھی بڑھ چکی تھی اور اس کا مالک اس سے بہت خوش بھی تھا حسن کا باپ بھی اب ٹھیک تھا کام کرنے قابل تو نہ تھا مگر وہ ڈنڈے کے سہارے چل لیتا تھا زندگی کہ دن چل رہے تھے اب زینب کی ماں کو اس کی شادی کی فکر کھاۓ جا رہی تھی کیونکہ اب وہ 24 کی کو چکی تھی مگر غریبی اور ایک بار بدنامی کہ بعد ان کہ گھر کا رخ کوئی نہ کرتا زینب کی ماں نے حسن کو بھی اس بات سے آگاہ کیا اور وہ بھی اب سمجھدار تھا مگر سب مجبور تھے کیا کر سکتے تھے ایک دو جگہ رشتے کی بات کرنے پر بھی آنہیں نا ہی سننا پڑی اور اب وہ مجبور ہو کہ دن ہی کاٹ رہے تھے حسن ابھی تک اپنی باجی کہ دل کی بات سے انجان تھا کیونکہ زینب نہ کبھی بھی اسے شک نہ ہونے دیا اور نہ ہی کوئی ایسا کام کیا کہ وہ اپنے بھائی کو اپنے پیار میں پھنساے وہ ڈرتی تھی کہ ایسا کبھی ممکن نہیں جیسا وہ سوچتی ہے اگر اس کہ بھائی کو پتا چلا تو اسے بہت برا لگے گا تو وہ بس اپنے بھائی کو مٹھ مارتے دیکھ کہ ہی گزارا کر رہی تھی
جاری ہے
0 Comments