ممنوع محبت
از عثمان خان
قسط نمبر 6
حاجی صاحب بھی حسن کی ماں کو روتا دیکھ دلاسا دینے لگے اور بولے کہ وہ اپنی کوشش جاری رکھیں گے اور جلد کوئی اچھا رشتہ مل جاۓ گا حاجی صاحب کچھ دیر بیٹھنے کہ بعد چلے گئے حسن بھی اپنے کمرے میں آ گیا اب حسن بھی جوان تھا اور اس کی ماں اور باپ کو زینب کی شادی کہ ساتھ ساتھ اب حسن کی شادی کی بھی فکر ہونے لگی تھی مگر نہ کوئی رشتہ تھا نہ ہی پیسے یہ فکر اس کی ماں اور باپ دونو کو کھاۓ جا رہی تھی وہ لوگ اپنے گھر کو چھوڑ کہ بھی نہیں جا سکتے تھے یہ چھوٹا سا گھر جس کی حالت ان کی اپنی حالت کہ جیسے خراب تھی ان کا جدی گھر تھا اور اگر کہیں اور جاتے تو پھر وہی پیسے کا مسلہ حسن کہ باپ کی طبیعت بھی زیادہ خراب رہنے لگی تھی رات کہ وقت حسن اپنے کمرے تھا جب زینب اس کہ کمرے میں آئی اور حسن کہ پاس بیٹھ گئی زینب نہیں جانتی تھی کہ حاجی صاحب کیا کہنے آۓ تھے اس نے حسن کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا حسن حاجی صاحب کیوں آۓ تھے اور حسن نہ اسے بتایا کہ باجی وہ اس دن کی بات پر شرمندہ تھے سور معافی مانگنے آۓ تھے زینب کو عجیب سا لگا کیوں کہ وہ سمجھ رہی تھی کہ شاید کوئی اور بات ہے تو اس نے حسن کو کہا کہ واقع وہ اسی لیے اۓ تھے حسن نے تھوڑا چڑچڑا کر بولا ہاں باجی اور کیا بات تھی بیشک آپ امی سے پوچھ لیں جس پہ زینب چپ ہو کہ کچھ سوچ میں پڑھ گئی حسن اپنی باجی کو ایسے سوچ میں دیکھ کر زینب کے قریب ہو گیا اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوۓ پیار سے پوچھا باجی کیا ہوا کس سوچ میں ہو زینب نہ بنا حسن کی طرف دیکھے نظریں جھکائے کہا کچھ نہیں بھائی حسن سمجھ گیا کہ باجی پریشان ہیں اس نہ باجی زینب کو اپنی باہوں میں سمیٹ کہ اپنے سینے سے لگا لیا زینب بھی اپنے بھائی کی باہوں میں آتے ہی ایک سکون سا محسوس کرنے لگی حسن کو زینب دونو کچھ دنوں پہلے ہی ایک دوسرے کہ اتنا قریب آۓ تھے کہ وہ اب ایک دوسرے کو گلے لگا لیتے تھے حسن بولا باجی آپ پریشان بلکل بھی اچھی نہیں لگتی آپ ہنستی ہوئی بہت پیاری لگتی ہیں حسن کی اس بات پہ زینب ہنسنے لگی اور بولی اچھا تم مجھے ہنساتے رہا کرو پھر میں ہنستی تہا کروں گی حسن اپنے بہن کو اپنی باہوں میں تھوڑا سا جگڑتا ہے اور کہتا ہے ٹھیک ہے باجی میں آپ کو ایسے ہی ہنساتا رہوں گا حسن زینب سے باتیں کر رہا تھا اور اس نے زینب کو پیچھے سے بیٹھے ہوۓ ہی اپنی باہوں میں لیا ہوا تھا حسن کے بازوں زینب کے مموں سے اوپر کی جکہ پر اس کہ ہاتھ پہ ٹچ ہو رہے تھے حسن کو ان مموں کا احساس مدہوش کر رہا تھا اور ایک مزے کی لہر اس میں دوڑنے لگی زینب بھی اپنے بھائی کے بازو کو اپنے مموں پر محسوس کر رہی تھی اور اس کہ مزے لے رہی تھی زینب کہ جسم میں بھی ایک عجیب سی بجلی دوڑنے لگی زینب کہ اتنا قریب اور مموں کہ مزے سے حسن کا لن کب کا تن کر لوہا بن چکا تھا مگر بیٹھے ہونے کی وجہ سے اس ما لن ابھی زینب کہ حسم سے دور تھا دونو بہن بھائی دکھاوے کی باتوں میں مصروف اصل اپنی اپنی مستی میں گم تھے گچھ دیر بعد زینب جب بیٹھے بیٹھے تھکی تو اچانک تھوڑا پیچھے ہو کہ سیدھا نے لگی حسن کو کہ اس کو پیچھے سے گلے لگاۓ باہوں میں لیے بیٹھا تھا جیسے ہی زینب پیچھے ہوئی حسن کا لن جو کب کا تنا ہوا تھا زینب کی گانڈ پہ جا لگا حسن ایک دم چونک سا گیا زینب نے بھی اپنے بھائی کا لن جب اپنی گانڈ پہ محسوس کیا تو مستی سے اس کا جسم کانپ اٹھا زینب پھر بھی وہیں بیٹھ گئی اور حیران بھی ہوئی کہ یہ کیا اس کہ بھائی کا لن کھڑا ہے کیوں کیا مجھ پہ۔۔۔۔ یہ سوچے اچانک اس کہ دماغ میں آتی گئی کیا میرا چھوٹا بھائی بھی میری طرح اپنے دل میں کچھ لیے بیٹھا ہے وہ انہی سوچوں میں گم تھی اور اب اس کی گانڈ پہ اپنے بھائی کا لگتا تھوڑا تھوڑا لن اس کو مزا دینے لگا تھا وہیں حسن اندر ہی اندر ڈرے جا رہا تھا کہ کہیں باجی کو شک نہ ہو جاۓ کہ میں ان کہ بارے غلط سوچتا ہوں اسے یہ سب مزہ تو دے رہا تھا مگر وہ ڈر بھی رہا تھا اور کسی قیمت پر اپنا راز نہیں کھولنا چاہتا تھا اسی لیے وہ تھوڑا پیچھے ہوا اور اس نے زینب کو چھوڑ دیا اور پیچھے ہو کر دیوار کہ ساتھ ٹیک لگا لیا زینب حسن سے اب بھی باتیں کر رہی تھی تبھی زینب نے حسن کو کہا بھائی تم نے اپنی شادی کا کیا سوچا ہے حسن نہ اس بات جو سنجیدگی سے لیتے ہوئے جواب دیا باجی ابھی تو کچھ نہیں سوچا اور ابھی مجھے نہیں کرنی ہے تبھی زینب نے حیرانی سا منہ بناتے ہوۓ کہا کیوں نہیں کرنی بھلا شادی نہیں کرو گہ تو پھر کیا کرو گے حسن: باجی میں نے یہ کب کہا کہ نہیں کروں گا میں نے کہا کہ ابھی نہیں کرنی زینب: اچھا تو کب کرنی ہے اتنا بول کہ جلدی سے حسن کہ قریب ہوئی اور مزاکیہ انداز میں بولی ویسے کوئی لڑکی ڈھونڈی ہے تم نے حسن باجی کی یہ بات سن کہ تھوڑا شرمایا اور ہنستے ہوۓ بولا نہیں باجی میں نے کوئی نہیں ڈھونڈی اور شادی جب آپ کی ہو جاۓ گی میں تب کروں گا حسن کی بات سنتے ہی زینب ہنستے ہوۓ بولی کیوں پاگل ساری عمر کنوارا رہنا ہے حسن زینب کی بات سمجھ گیا کہ وہ کیا کہنا چاہتی ہے اور فورا غصے کہ انداز میں بولا باجی کیوں ایسی باتیں کرتی ہیں دیکھنا آپ کی جلدی شادی کو جاۓ گی اور پھر میں بھی کر لوں گا زینب حسن کو دیکھ کر مسکراتے ہوۓ بوکی کہ اچھا اتنی جلدی ہے اپنی بہن سے جان پھڑانے کی اور یہ بولتے ہوۓ اس نے حسن کی چھاتی پہ ٹیک لگا کیا اور اس کہ قریب ہو گئی شاید وہ دوبارہ حسن کہ لن کو محسوس کرنا چاہتی تھی اور موقع ڈھونڈ رہی تھی حسن جو کہ دیوار کہ ساتھ ٹیک لگا کہ بیٹھا تھا اپنی باہوں میں لے لیا زینب کو اور اس کہ سر پر چومتے ہوۓ بولا نہیں باجی میرا تو بس چلت تو ساری زندگی اپکو اپنے پاس رکھ لوں حسن شاید کچھ آگے بولتا مگر زینب یہ بات سن کہ اپنے دل کی بات بول بیٹھی تو رکھ لو نا اپنی باجی کو اپنے پاس ہمیشہ کے لیے حسن باجی کی بات سن کہ بولا پر باجی ایک نا ایک دن اپکو جانا تو لازمی ہے نا اور یہی اس معاشرے کا اصول ہے تبھی زینب چپ ہو گئی زینب کی قمر صرف حسن کو لگ رہی تھی اس کی گانڈ ابھی بھی حسن کہ قریب نہ تھی اسے اس لن کو پھر سے اپنی گانڈ پہ لگنے کی کمی محسوس ہو رہی تھی وہ ایک دم پھر صحیح ہونے کہ بہانے تھوڑا پیچھے ہو گئی اب اس کی گانڈ کی ایک سائیڈ یہ حسن کا تنا ہوا لن لگ رہا تھا حسن نہ بھی اسے محسوس لیا اور اسے بہت مزہ آنے لگا مگر ڈر بھی تھا اسے کیوں کہ اسے کہاں پتا تھا کہ اس کی بہن بھی یہی مزے چاہتی ہے وہ تو بس یہی سمجھ رہا تھا کہ صرف اس کہ دماغ میں ہی یہ سب چل رہا وہ لن پہ لگتی اپنی باجی کی نرم گانڈ کہ مزے تو لے رہا تھا مگر ہاں سے اٹھنا چاہتا تھا کہ کہیں اس کی باجی کو شک نہ کو جاۓ مگر وہ گچھ نہ کر سکا اور ایسے ہی بیٹھا رہا اب زینب اپنی گانڈ پہ بھائی کا سخت لن محسوس کر کے مزے میں گم تھی اس کی جوان پھدی لال ٹپکانے لگی تھی اور حسن کہ لن کی بھی یہی حالت تھی اس کا بھی ہلکا پانی نکلنے لگا رات بہت ہو چکی تھی حسن اپنے راز کو چپانے کہ لیے بولا باجی اب جا کہ سو جاؤ کیونکہ اب اس سے برداشت نہیں ہو رہا تھا اس کا دل کر رہا تھا کہ وہ باجی کو پکڑ کے پاگلوں جیسے پیار کرے زینب بھی جانا نہیں چاہتی تھی مگر بولی ٹھیک ہے بھائی آپ سو جاؤ زینب اٹھی اور حسن کو ماتھےپر چوما اور چلی گئی اس دوران حسن کی نظر باجی کہ مموں پر تھی جب وہ چومنے کہ لیے حسن کہ قریب ہوئی زینب کہ ممے حسن کہ منہ کہ بلکل قریب تھے زینب کہ جانے کہ بعد حسن کی جو حالت تھی مٹھ مارے بنا وہ رہ نہ سکتا تھا اور وہیں اپنے لن کو سہلانے لگا زینب حسن کہ کمرے سے نکلی تو سوچنے لگی اسے شک ہو چکا تھا کہ شاید حسن بھی اپنی باجی پہ گرم ہے تبھی اس کا لن کھڑا تھا زینب کو یہ سب سوچ کہ اچھا لگ رہا تھا وہ کمرے میں ابھی بستر پہ لیٹی ہی تھی کہ اچانک اسے خیال آیا کہ وہ چھپ کہ اپنے بھائی کو دیکھے وہ کیا کر رہا وہ اٹھی اور کھڑکی میں چھپ کہ دیکھنے لگی اندر حسن اپنے پورے روز سے لن کو ہلاتے ہوۓ مٹھ مار رہا تھا زینب کی بھی پھدی پہلے سے گرم تھی وہ بھی کھڑی اپنی پھدی کو مسلنے اور رگڑنے لگی کچھ دیر بعد دونو نے پانی چھوڑ دیا زینب اپنے کمرے میں آ کے لیٹ گئی اب زینب کا شک پختہ ہو گیا تھا کہ کچھ تو ہے اس کا بھائی بھی شاید اسے پسند کرتا ہے مگر کبھی اسے لگتا کہ یہ سب اس کا وہم ہے تبھی اس نے ڈیسائیڈ کیا کہ وہ اب حسن کو نوٹ کرے گی اور سو گئی صبح وہ حسن کو اٹھانے گئی حسن روز کہ جیسے آنکھ کھولتے ہی باجی کہ خوبصورت مموں اور چہرے کا دیدار کر کے مسکریا اور اٹھ بیٹھا زینب بھی کچن میں چلی گئی جب دونو ناشتہ کرنے بیٹھے تو حسن کی نظر اپنی باجی پر تھی زینب آج پھر اپنے مموں مو نکالے بنا ڈوبٹے کہ حسن کہ سامنے بیٹھی تھی اور حسن بار بار اس کہ تنے ہوۓ مموں کو گھورے جا رہا تھا حسن نہیں جانتا تھا کہ زینب چپکے اسے نوٹ کر رہی ہے زینب اپنے بھائی کی نظروں کو جان گئی کہ اس کا چھوٹا بھائی اس کہ مموں کو دیکھ رہا ہے اسے اچھا لگنے لگا کیوں کہ وہ یہی تو چاہتی تھی کہ اس کو بھی کوئی مرد ایسے دیکھے ناشتہ کرنے کہ بعد حسن کام پہ چلا گیا اور زینب بھی گھر کہ کاموں میں لگ گئی زینب کو اب کنفرم ہونے لگا تھا کہ اس کا پھوٹا بھائی اسے دیکھتا ہے اور اب تو اس کا دل کر رہا تھا کہ جیسے حسن کو جا کہ بول دے کہ جیسا وہ چاہتا ہے ویسا وہ بھی چاہتی ہے مگر یہ سب سچ میں کہنا نا ممکن تھا عصر کا ٹائم تھا حسن کام سے واپس آیا زینب سے سلام دعا کرنے کہ بعد ماں باپ کہ پاس کچھ دیر بیٹھا اور پھر کمرے میں جا کہ کپڑے چینج کر کہ صحن میں آ بیٹھا زینب صحن میں بیٹھی برتن دھو رہی تھی اس زینب اپنی گانڈ کہ ارد گرد کا کپڑا اکھٹا کر کہ یوں بیٹھی تھی کہ اس کی موٹی گانڈ کی شیپ صاف ظاہر ہو رہی تھی اور اس کے ممے ہمیشہ کہ جیسے تنے حسن کو چڑھا رہے تھے
حسن وہیں کچھ دور چارپائی پہ بیٹھا اپنی باجی زینب کی گانڈ اور مموں کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھے جا رہا تھا زینب حسن کی ان نظروں سے انجان نہ تھی وہ بھی جان چکی تھی کہ اس کا بھائی اسے دیکھتا ہے کچھ دیر بعد اس نے حسن کی طرف دیکھا تو حسن ایک دم چونک گیا اور جلدی سے نظریں چرانے لگا زینب بھی پھر اپنے کام میں لگ گئی حسن اب ڈر ڈر کہ چپکے چپکے دیکھ رہا تھا اس کا لن تن کہ راڈ بن چکا تھا زینب کو اب کنفرم تو ہو چکا تھا کہ حسن بھی اسے دیکھتا ہے اور شاید اسے بھی جسم کی طلب ہے وہ اب چاہتی تھی کہ کسی طرح حسن اسے اپنے دل کی بات بتاۓ اتنے میں اس نے جان بوجھ کہ حسن کو آواز دی اور کہا کہ یہ ترتن اٹھا کہ اندر کچن میں رکھ آؤ حسن زینب کی بات سن کہ گھبرا گیا کیونکہ اس کا لن ایسے تنا ہوا تھا کہ اگر وہ اٹھتا تو صاف باہر کو نکل کہ لن کا کپڑوں سے بنا تمبو زینب دیکھ لیتی مگر وہ اس طرح منع بھی نہیں کر سکتا تھا اور لن بھی ایسے تھوڑی بیٹھتا ہے وہ تو اپنی مرضی چلاتا ہے حسن ڈرتے شرماتے اٹھا اس کا لن کپڑوں میں تمبو بنا کہ نکلا گھڑا تھا اور اچھا خاصا تھا زینب کو زرا بھی اندازا نہ تھا کہ حسن کا لن اتنا بڑا ہو گا جو کپڑوں میں سے بھی اتنا بڑا لگے گا حسن زینب کہ پاس گیا اور اپنے لن کو چپھانے کی کوشش کرتا رہا مگر زینب دیکھ چکی تھی اور حسن نہ بھی دیکھ لیا تھا کہ زینب اس کہ لن کو دیکھ رہی تھی حسن نے برتن اٹھاۓ اور کچن میں رکھ کہ کمرے میں آ گیا اسے شرم آ رہی تھی باجی کیا سوچ رہی ہو گی یہ کیا غلطی ہو گئی اس سے زینب اب کنفرم کر چکی تھی کہ اس کا بھائی بھی اس کہ جسم پہ پاگل ہے اور اب وہ یہ سوچنے لگی کہ اب کیسے وہ حسن کو مجبور کرے کہ وہ اپنے دل کی بات بتا دے شام کو دونو نے اکھٹے کھانا کھایا مگر اب حسن باجی زینب سے نظرے چرانے لگا تھا اور کھانا کھانے کہ بعد سونے کا بہانہ کر دیا تا کہ وہ باجی سے بات نہ کرے کیونکہ وہ تو نہیں جانتا تھا کہ اس کی باجی کو برا نہیں بلکہ یہ سب اچھا لگا تھا زینب بنا کچھ کہے حسن کہ ساتھ نارمل رہی اور سونے چلی گئی اب زینب روز حسن کے سامنے اپنے جسم کی نمائش کرتی کبھی اس کہ کمرے میں جا کہ صفائی کہ بہانے جھک جھک کہ اسے ممے دیکھاتے کبھی کام کرتے جان بوجھ کہ ہلتی تا کہ اس کہ ممے بھی کانپے کبھی جان بوجھ کہ اپنی قمیض شلوار میں پھنسا کہ حسن کہ کمرے میں جاتی اور اسے اپنی موٹی گانڈ دیکھاتی اور کبھی اس کہ سامنے مٹک مٹک کہ چلتی وہ یہ سب اس لیے کر رہی تھی کہ حسن مجبور ہو کہ کوئی غلطی کرے یا اپنے دل کی بات بتاۓ حسن ان سب باتوں کو دیکھتا رہا مگر ڈرا بھی رہا اور محتاط بھی پھر ایک دن زینب نے ایک منصوبہ بنایا اس کو معلوم تھا کہ جب بھائی کام سے واپس آۓ گا تو امی ابو کہ پاس کچھ دیر بیٹھنے کہ وہ باتھروم جاۓ گا جب حسن آیا اور امی ابو کہ پاس بیٹھا تو زینب باہر سے اسے دیکھتی رہی جب اسے لگا کہ اب تھوڑی دیر تک حسن اٹھے گا وہ باتھروم میں جا کہ اپنے کپڑے اتار کر کھڑی ہو گئی اور جان بوجھ کر باتھروم کا دروازہ بھی بند نہ کیا اور پورے کپڑے اتار کر دروازے کی طرف منہ کر کے کھڑی ہو گئی حسن بے خبر باتھروم کی طرف جا رہا تھا زینب اس کہ قدموں کی آواز سن رہی تھی جیسے ہی حسن نہ دروازہ کھولا سامنے باجی زینب کو ننگا دیکھ کہ ہکا بکا رہ گیا باجی زینب کہ دودھ جیسے سفید گول مڈول ممے حسن گھورنے لگا اور اس کی نظر باجی زینب کی گلابی ہونٹوں والی پھدی پر بھی پڑی زینب حسن کو دیکھ کر کچھ دیر تو ایسے رکی پھر انجان بن کر اپنے جسم کو چھپانے کی اداکاری کرنے لگی تبھی حسن کو بھی ہوش آیا وہ پہلے سوری بولتے فورا پیچھے ہٹا اور پھر اپنے کمرے میں چلا گیا زینب اپنی یہ چال تو چل چکی تھی مگر اب اسے بھی ایک شرمندگی اور گناہ کہ احساس نے جکڑ لیا وہ سوچنے لگی کہ اس نے جسمانی لزت کی خاطر یہ کیا کر دیا اس نے کپڑے پہنے اور کچن میں چلی گئی حسن اپنے کمرے میں جا کہ چارپائی پہ بیٹھا ڈر رہا تھا کہ یہ اس سے کیا ہو گیا اس کو یہ سب دیکھ کہ اچھا تو بہت لگا تھا مگر اسے بھی گناہ اور ایک حد سے بڑھ جانے کا احساس ستاۓ جا رہا تھا اور اس سے بڑھ کر اسے اب ڈر اور شرمندگی تھی کہ اب وہ اپنی باجی سے نظریں کیسے ملاۓ گا وہ نہ جانتا تھا کہ اصل تو یہ اس کی باجی کی چال تھی زینب کچن میں کھانا بھی بنا رہی تھی اور اپنی اس حرکت پر شرمندہ بھی تھی اب اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے شام تک دونو بہن بھائی ایک دوسرے کہ سامنے تک نہ آۓ حسن اپنے کمرے میں گھسا رہا مگر کب تک ایسے ایک دوسرے سے چھپ کر رہتے شام کہ بعد حسن کو کھانا دینے کا ٹائم ہوا جو روز زینب اور وہ اکھٹا بیٹھ کر کھاتے تھے زینب کھانا لے کہ حسن کہ کمرے کی طرف بڑھنے لگتی ہے مگر اسے بھی اب اپنے بھائی کی نظروں کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں ہوتی حسن زینب کو جیسے ہی کمرے میں آتا دیکھتا ہے نظریں جھکا لیتا ہے زینب بھی نظریں جھکائے کھانا رکھ کہ سامنے بیٹھ جاتی ہے اور دونو بنا کچھ کہے کھانا کھانے لگتے ہیں حسن شرمندگی کہ مارے پانی پانی ہو رہا ہوتا ہے اسے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہوتا کہ وہ کیا کرے کیا وہ زینب سے بات کر کہ سوری کرے یا چپ رہے دونو تھوڑا سا کھانا کھاتے ہیں اور پھر زینب برتن اٹھا کہ چلی جاتی ہے حسن جو بہت ہمت کر رہا ہوتا ہے کہ وہ سوری بول دے مگر اس سے پہلے زینب چلی جاتی وہ پھر اپنے بستر پہ لیٹ جاتا ہے زینب کچن میں برتن رکھ کہ اپنے کمرے کی جانب بڑھنے لگتی ہے تو اسے خیال آتا ہے کہ اگر ابھی اس نے یہ سب صحیح نہ کیا تو شاید بعد میں اور مشکل ہو جاۓ گا وہ یہ سوچ کر حسن کہ کمرے میں آ جاتی ہے حسن جو باجی کہ یوں واپس آنے سے جلدی سے اٹھ کہ بستر پہ بیٹھ جاتا ہے شاید وہ کچھ بولنا چاہتا ہے مگر بول نہیں پاتا تبھی زینب اس کہ چارپائی کہ کونے پہ بیٹھتی ہے اور مسکراتے ہوۓ حسن سے پوچھتی ہے حسن آج کا دن کیسا رہا آج کا کوئی نیو قصہ سناؤ دن کا دکان پہ کوئی پھر پاگل عورت گاہک نہیں آئی حسن روز اپنی باجی کو دن کہ قصے سناتا تھا اور یہی ان کہ بیچ باتیں تھی حسن اپنی باجی کہ یوں بات کرنے کہ انداز سے حیران ہوا کہ یہ باجی ایسا کیوں ری ایکٹ کر رہی جیسے کچھ ہوا بھی نہیں وہ مشکل سے آواز نکال کر بولتا ہے باجی اچھا رہا زینب سن کر اچھا بولی اور کچھ دیر خاموش رہی تبھی حسن نے ہمت کر کے بول دیا باجی سوری آج جو بھی ہوا مجھے پتا نہیں تھا اور پتا نہیں کیسے سب اچانک۔۔۔۔۔حسن نان سٹاپ بولے جا رہا تھا جسے زینب نے ہنستے ہوۓ یہ کہہ کر روکا کہ۔کوئی بات نہیں بھائی ہو جاتا ہے ایسا کبھی کبھی اور ویسے میری بھی غلطی تھی میں نے شاید کنڈی صحیح سے لگائی نہیں اور وہ کھلی رہ گئی حسن : نہیں باجی جو بھی تھا میں آپ سے بہت شرمندہ ہوں زینب حسن کی اس بات پہ ہنستے ہوۓ بولی عجیب بات نہیں ہے ننگی میں تھی اور شرم تمھیں آ رہی حسن زینب کی اس بات پہ کچھ بول تو نہ سکا مگر بہن کی ہنسی میں ساتھ دیتے ہوۓ وہ بھی ہنسنے لگا زینب اب حسن کو ایسا محسوس کروانا چاہتی تھی جیسے جو بھی ہوا وہ کوئی اتنی بڑی بات نہ تھی تاکہ حسن اس سے پہلے جیسا ہو جاۓ اور حسن بھی باجی کی باتوں سے کچھ حوصلے میں آ گیا تھا جب زینب کو لگا کہ اب حسن کس حد تک بہتر ہے وہ حسن کہ قریب ہوئی اور اس کہ سینے پر ٹیک لگا کر بولی حسن کوئی بات کرو نا سارا دن بور ہو جاتی ہوں اور تمھارا انتظار کرتی ہوں کہ تم آؤ گہ تو بہن بھائی کچھ باتیں کیا کریں گہ مگر تم بھی چپ رہتے ہو حسن باجی کی ان باتوں اور اتنا سب ہونے کہ بعد بھی یوں حسن کہ باہوں میں آنے سے تھوڑا حیران تو ہوا مگر باتیں کرنے لگا اور اپنے دن کہ قصے باجی کو سنانے لگا زینب جو کہ اپنے دن کہ کام پہ شرمندہ تھی اب حسن کی باہوں میں آتے ہی اسے پھر اسی لذت اور مزے نے گھیر لیا اور وہ پھر اپنے بھائی کہ قریب ہونے کی کوشش کرنے لگی وہ بار بار جان بوچھ کر ہلتی اور تھوڑا پیچھے ہو جاتی وہ اس کوشش میں تھی کہ کسی طرح وہ حسن کی ٹانگوں کہ درمیان لن کہ قریب جا کہ اپنی گانڈ لگاۓ کیوں کہ اسے وہ کل والے لن کا احساس آج پھر ستا رہا تھا حسن نارمل دن کہ قصے باجی کو سناۓ جا رہا تھا ابھی تک اس کا لن نیم کھڑا تھا اور وہ پور کوشش کر رہا تھا کہ اس کا لن کھڑا نہ ہو مگر لن کسی کی تھوڑی مانتا ہے زینب جب اپنی پوری کوشش کر چکی اور اچھی خاصی پیچھے ہو چکی تب بھی حسن کا لن اسے اپنی گانڈ پہ محسوس نہ ہوا تو اس نے جان بوجھ کر اپنا اگلا پینترا آزمایا اور اپنے ایک ممے کو پکڑ کر تھوڑی سی خارش کی حسن اس سب کو دیکھ رہا تھا اس کی نظر پہلے سے باجی کہ مموں پر تھی جو اس کی بلکل آنکھوں کہ سامنے تھے اور ہاتھوں سے تھوڑا اوپر حسن نے باجی کو اپنی باہوں میں لیا ہوا تھا اور اس کہ ہاتھ زینب کہ پیٹ پر تھے وہ مشکل سے خود کو کنڑول کیے ہوۓ تھا مگر باجی کا یوں اپنے ممے کو کھجانا اسے پاگل کر گیا اور کا نیم تنا لن اب چھٹکا مار کہ سیکنٹوں میں راڈ بن گیا اور سیدھا باجی زینب کی گانڈ کی ایک سائیڈ سے جا لگا زینب نے جیسے ہی حسن کا لن اپنی گانڈ پہ محسوس کیا اس کہ جسم میں ایک بجلی سی دوڑ گئی اسے مزہ آنے لگا حسن دن ٹائم کہ واقع سے ڈرا اود پریشان تو تھا مگر باجی کہ یوں جسم سے ٹکرا کہ وہ بھی سب بھول گیا اور مزے کی وادی میں گھومنے لگا زینب اب بار بار جان بوجھ کر ہلتی اور گانڈ ہلا کہ کبھی ادھر تو کبھی ادھر ہوتی جس سے لن بری طرح اس کی گانڈ سے مسلنے لگا حسن کو باجی کا ایسا کرنا اور اس کہ لن پہ بار بار ایسے ہلنا اور مسلنا اسے آپے سے باہر کر رہا تھا حسن بھی اب جوان اور سمجھدار تھا اسے بھی اب شک ہونے لگا کہ کہیں باجی ایسا جان بوجھ کہ تو نہیں کر رہی ظاہر ہے حسن کا موٹا تنا ہوا لن پورا باجی کی گانڈ کی ساٹیڈ کہ ساتھ چپکا ہوا تھا
حسن سوچ میں پڑھ گیا کہ باجی کو محسوس تو ضرور ہو رہا ہو گا مگر باجی کو تو چاہیے تھا کہ وہ دور ہو جاتی مگر یہ تو الٹا اور قریب ہو رہی بار بار لن پہ گانڈ کو ہلا بھی رہی زینب اور حسن اپنی مستی میں اتنے گم تھے کہ کئی بار دونو باتیں کرتے کرتے کہچھ اور ہی بات شروع کر دیستے مگر دونو اس مزے میں اتنے گم تھے کہ ایک دوسرے کی باتیں نہیں سن رہے تھے وہ باتیں تو بس ایک ادنا سا پردہ تھی ان کی اصل کھیل کو چھپانے کا حسن کا دل اور دماغ بار بار یہی کہتا کہ ضرور باجی بھی یہی چاہتی ہیں ورنہ اس سے پہلے تو وہ کبھی ایسے ایک دوسرے کہ قریب ہو کہ نہ بیٹھے تھے بہن بھائی کی قربت کی بھی ایک حد ہوتی ہے مگر وہ دونو اس حد کو پار کر چکے تھے اب حسن اب اسی سوچ میں پڑھ چکا تھا کہ کیا واقعی اس کا شک صحیح ہے یا غلط کیا واقعی باجی زینب بھی یہی چاہتی ہیں رات اب کافی ہو چکی تھی اور اب دونوں مستی میں اس حالت تک پہنچ چکے تھے کہ اب آگے برداشت کرنا ممکن نہ تھا سو زینب اٹھی اور حسن کو سونے کا کہا حسن نے بھی باجی کی بات مانی اور زینب چلی گئی حسن لیٹ کر سوچنے لگا اور روم کی لائیٹ بھی آف کر دی زینب جو کھڑکی میں جا کہ بھائی کو مٹھ مارتے دیکھنا چاہتی تھی اور اپنا بھی پانی نکالنا چاہتی تھی مگر حسن کے کمرے کی لائٹ بند دیکھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی کیونکہ اندھیرے میں ویسے بھی اسے کچھ نظر نہ آتا حسن انہی سوچوں میں گم تھا اور سوچ رہا تھا کہ اب وہ کیسے یہ کنفرم کرے کہ باجی کا بھی حسن کہ ساتھ مزے کرنے کا دل کرتا ہے بہت سوچ کہ بعد بھی اس کو کوئی ترکیب نہ ملی اور یونہی سوچتے وہ سو گیا صبح روٹین کے مطابق زینب نے حسن کو اٹھایا اور وہ کام پر گیا مگر اب حسن کہ دماغ میں بس یہی چل رہا تھا کہ کیا واقعی باجی اپنی بھائی کہ لن کہ مزے لیتی ہے ظاہر ہے رات کس اتنا ایک دوسرے کہ قریب اور حسن کا لن باجی کی گانڈ پہ لگنے کہ باوجود بھی باجی نے کچھ نہ کہا اب حسن اسی شک کو جانچنا چاہتا تھا مگر اسے کوئی راستہ نہ مل رہا تھا زینب تو اب جان چکی تھی کہ حسن اس کے مموں اور جسم پہ مرتا ہے اور اس کہ مزے لیتا اور دیکھ کر لن کی مٹھ لگاتا ہے شام کو حسن کو اور تو کچھ نہ سوجا تو اس نہ یہی سوچا کہ وہ باجی کو تھوڑا ہاتھ لگاۓ گا ان کہ جسم کہ کچھ خاص حصوں پر اگر باجی نے برا منایا تو ٹھیک اور اگر کچھ نہ کہا تو حسن کا شک صحیح ہو گا رات کو حسن اپنے کمرے میں تھا اور وہ انتظار کر رہا تھا کہ کب زینب برتن رکھ کہ کچن وغیرہ کا کام سمیٹ کہ آۓ زینب بھی اب جلدی میں تھی اور وہ بھی حسن کہ پاس جانے کو بیتاب تھی کچھ دیر بعد زینب حسن کہ کمرے میں آئی اور مسکراتے ہوۓ حسن کی چارپائی پہ چڑھ کر بیٹھ گئی حسن تو اسی انتظار میں تھا باجی کو یوں آ کے بیٹھتے دیکھ کر اس کی آنکھوں میں چمک آ گئی حسن بولا باجی لگتا ہے آج آپ بہت تھک گئی ہیں زینب جو حسن کہ بستر پہ بیٹھی تھی ایک انگڑائی لیتے بولی واقع بھائی آج سارا دن کام کیا اور آج تو روز کے کاموں سے زیادہ کام تھے حسن باجی کی بات سن کہ مسکرتے بولا باجی میں آپ کو دبا دیتا ہوں جسے زینب سن کہ اسے غور سے حیران نظروں سے دیکھنے لگی جیسے حسن سے نظروں میں ہی پوچھ رہی ہو کہ آج یہ کیا ہو گیا کیوں کہ اس پہلے کبھی بھی حسن نے یوں باجی کو نہ دبایا تھا زینب بولی بھائی خیر تو ہے آج بڑی خدمت کر رہے حسن نے ہنستے ہوۓ کہا باجی آپ میری پیاری باجی ہیں اتنے میرے کام کرتی میرا بھی حق بنتا ہے اور باجی کے پیچھے جا کہ بٹھ کر کندھے دبانے لگا زینب حسن کہ سامنے پیٹھ کیے بیٹھی تھی اور حسن اسے پیچھے سے بیٹھا کندھے دبانے لگا زینب کو اور کیا چاہیے تھے وہ بھی یہی چاہتی تھی اپنے جسم پہ بھائی کہ لگتے سخت ہاتھوں کو آنکھیں بند کر کے محسوس کرتے مزے لینے لگی حسن باجی کہ کندھے دباتے دباتے ان کہ بازو کو بھی ہاتھ سے دبانے لگا حسن زینب کہ مموں کو ہاتھ لگانا چاہتا تھا تاکہ وہ اپنی باجی کا ری ایکشن دیکھ سکے کہ وہ کیا کرتی ہیں مگر اس کی ہمت بلکل نہ ہو پا رہی تھی بہت دیر باد مشکل سے اس نے باجی کے بازو کو دباتے دباتے جان بوجھ کر تھوڑا سا ہاتھ ساتھ موٹے ممے پہ بھی لگا دیا تھوڑا سا مگر وہ زیادہ نہ لگا سکا اور زینب نہ محسوس تو کیا اور وہ جانتی بھی تھی حسن کہ ارادوں کو اسے بہت مزہ آیا اور وہ چپ چاپ بیٹھی رہی حسن کو لگا کہ شاید اس نے صحیح سے ہاتھ نہیں لگایا اور باجی کو پتا نہیں چلا مگر وہ زیادہ کچھ کرنے سے بھی بہت ڈر رہا تھا تھوڑی دیر بعد وہ باجی کو دباتے دباتے باجی کہ ممے کو سائیڈ سے ابھا خاصا ہاتھ لگا کہ اسے بھی تھوڑا سا دبا دیا مگر پھر بھی زینب چپ رہی بلکہ اندر سے تو زینب کا دل کر رہا تھا کہ حسن بس اس کے ممے کو پکڑ کہ مسل دے حسن کا شک اب سچ ہونے لگا تھا کیوں کہ وہ بھی جانتا تھا کہ اگر زینب کو یہ سب پسند نہ ہوتا تو وہ اس کہ بعد ضرور کچھ کہتی حسن اپنا شک پکا تو کر چکا تھا میں ایک ڈر اب بھی اس کہ اندر سماۓ ہوۓ تھا وہ کچھ اور کرتا زینب بولی بس کرو میرے پیارے بھائی تھک جاؤ گے اور حسن کہ متھے پہ چومتے ہوۓ اس کہ سینے پر ٹیک لگا کہ بیٹھ گئی حسن بھی بولا باجی میں آپ کو دباتے ہوۓ کبھی نہ تھکوں زینب بولی ہاہاہا اچھا جی لیکن مجھے تو اپنے بھائی کو دیکھ کہ تکلیف ہوتی ہے کہ وہ اسے اتنی دیر سے دباۓ جا رہا دونو باتیں کرتے رہے مگر دونوں کا اصل مقصد کچھ اور تھا زینب اپنے بھائی کہ لن کو آج پھر گانڈ پہ لگوانا چاہتی تھی اور حسن بھی اپنا لن باجی کی گانڈ پہ لگانے کو ترس رہا تھا آج زینب کو اندازا تھا کہ اسے کتنا پیچھے ہو کہ کہاں بیٹھنا ہے اسے لیے وہ سیدھا ہونے کو ہلی اور سیدھا اپنی موٹی روہی کہ جیسے گانڈ اپنے بھائی کہ لن پہ جا ٹکائی حسن کا لن جو کہ باجی کے کندھے دبانے سے کھڑا تھا زینب کی گانڈ کی سائیڈ سے ایسے جا چپکا جیسے میگناتیس ہو حسن اپنی باجی کی موٹی گانڈ کا وزن اپنے لن پہ محسوس کر کے مستی اور مزے کی وادی میں گم تھا زینب بھی بھائی کا سخت لن اپنی نرم گانڈ سے لگا کر مزے میں پاگل ہو رہی تھی تبھی ان دونو نے محسوس کیا کہ وہ دونو چپ ہیں اور دونوں بولنا بند کر چکےتھے دونوں مستی میں مست تھے اور بنا کچھ بولے اب چپ رہ کر مزے لینے لگے حسن بھی باجی کہ جسم کہ نشے میں مست تھا مگر زینب اب خود پہ کنٹرول کھو رہی تھی وہ خود کو روک نہیں پا رہی تھی اس کہ پھدی اور گانڈ میں اتنی کھجلی ہونے لگی تھی جو اس کہ برداشت سے باہر تھی زینب نے تبھی گانڈ بھائی کی ٹانگوں کے درمیان سے اٹھا لی گانڈ اٹھانے سے حسن کا تنا ہوا لن جو باجی کی گانڈ کے وزن سے سائیڈ پہ ہوا پڑا تھا سیدھا کہ کہ اس کی ٹانگوں کہ درمیان آگیا حسن سمجھا شاید باجی اب جا رہی وہ سیدھا ہونے ہی لگا کہ زینب بانی نہ پھر اپنی گانڈ حسن کی ٹانگوں کے درمیان رکھ دی جس سے زینب کی موٹی گانڈ کے درمیان لائن کہ بلکل اوپر لن آ گیا اور وہ اس کہ اوپر بیٹھ گئی حسن بھائی کا لن باجی زینب نے جیسے ہی اپنی گانڈ کہ حسوں کہ درمیان بنی لائن پہ محسوس کیا ایک مست بھری ہلکی سی سسکی اس کہ منہ سے نکل گئی حسن بھی پاگل ہو چکا تھا اس کا لن باجی کی گانڈ کہ درمیان میں گھسا ہوا تھا زینب اور حسن اب جسم کے مزے میں ایسے گم تھے کہ ان کہ دماغ پہ پردا پڑگیا وہ بھول گئے کہ وہ دونو سگے بہن بھائی ہیں زینب اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ پا رہی تھی اور اپنا ہاتھ اپنی پھدی پہ رکھ کہ مسلنے لگی اس کا ہاتھ پھدی پر تھا اور اس کہ اوپر اس کی قمیض کا پلو تھا مگر حسن اسے دیکھ رہا تھا اس کی حالت بھی اب اس کے قابو سے باہر تھی وہ بھی اپنے ہاتھوں کو روک نہ سکا اور باجی زینب کہ ایک ممے کو پکڑ کر آہستہ آہستہ دبانے لگا زینب اور حسن دونو جو کب سے جسم کی بھوکھ کو ترسے ہوۓ تھے اب ایک دوسرے پہ مزے لے رہے تھے حسن اب دونو ہاتھوں میں زینب کہ مموں کو پکڑ کہ کچھ زیادہ سخت ہاتھوں سے مسلنے لگا جس سے زینب کی لذت بھری ہلکی سکیاں لینے لگی اور اپنی گانڈ کو ہلا کہ حسن کہ لن کو آہستہ آہستہ گانڈ سے مسلنے اور ہلانے لگی جو حسن کو اور زیادہ مست کر رہی تھی اور اس کا لن جھٹکے پر جھٹکے کھانے لگا حسن اور زینب نے اس دوران کچھ بات نہ کی بس اب جسمانی ملاقات ہی ہو رہی تھی دونو اب بلکل بھول چکے تھے کہ وہ دونو سگے بہن بھائی ہیں کچھ دیر ہی گزری تھی دونو پہلی بار جسم کا پیار اور احساس پانے کی وجہ سے زیادہ دیر نہ ٹک پاۓ اور دونو کا پانی نکل گیا پانی نکلتے ہوۓ حسن کہ زور سے زینب کو کس کے پکڑ لیا اور زینب کا بھی پانی نکلتے وہ اب بنا شرماۓ اور سوچے زور زور سے پھدے کو مسلنے لگی اور سیسکی ہلی آوازوں کہ ساتھ پانی نکال چکی جب دونو اپنا پانی نکال کر کچھ دیر بعد ہوش میں آۓ تو دونو ہی ایک عجیب حیرانگی اور شرمندگی میں ڈوب گئے یہ انہوں نے کیا کر دیا دونو اسی سوچ میں تھے دونو اپنے کیسے پر حیران تھے کہ یہ کیا ہو گیا ان سے اور پتا بھی نہ چلا پتا بھی کیسے چلتا جسم کی لزت ہوتی ہی ایسی ہے جو انسان کی سوچنے کی صلاحیت کو ختم کر دیستی ہے پھر بس پھدی اور لن نظر آتا ہے چاہے وہ بہن کا ہو یا بھائی کا یہ سوچ نہیں رہتی زینب کی شلوار حسن کی منی سے گندی ہو گئی اور اسے اپنی شلوار گانڈ سے اچھی خاصی گیلی محسوس ہوئی زینب بہت شرمندہ محسوس کرتے ہوۓ فورن اٹھی اور اپنے کمرے میں چلی گئی حسن بھی شرمندہ تھا اور سوچ رہا تھا کہ یہ کوئی خواب تو نہیں یہ کیسے ہو گیا وہ اتنا پاگل ہو گیا تھا کہ اسے اپنی بہن کا بھی احساس نہ ہوا مگر وہ یہ تو سمجھ گیا کہ اس کا شک صحیح تھا اور زینب بھی اپنے بھائی کہ لن کو ترس رہی تھی وہ یہی سوچتے شرمندگی میں لیٹ گیا اسے نید نہیں آ رہی تھی
جاری ہے
0 Comments