ads

Mamno Muhabbat - Episode 7

 ممنوع محبت

از عثمان خان

قسط نمبر 7





زینب بھی اپنے کمرے میں لیٹی یہی سوچ رہی تھی اسے اپنی گانڈ کی شلوار جو حسن کہ لن کہ پانی سے گیلی ہو گئی تھی صاف محسوس ہو رہی تھی زینب کو اس سب کا جو مزہ اور سکون آیا تھا اس کا کوئی مول نہ تھا مگر وہ اتنی زیادہ آگے بڑھ جانے سے تھوڑا ڈر بھی رہی تھی اور اس کا ضمیر اسے ملامت بھی کر رہا تھا وہ لیٹے سوچنے لگی صبح معمول کے مطابق زینب نے حسن کو جگایا اور ناشتہ اکھٹے کر کے حسں کام پہ چلا گیا آج دونو نے آپس میں کچھ خاص بات نہ کی دونو ایک دوسرے کا راز جان چکے تھے مگر چپ رہ کر ایک ادنا سی دیوار بنا رہے تھے حسن دکان پر بھی سارا دن یہی سوچتا رہا اسے کبھی رات والے واقعے سے یقین ہوتا کہ باجی زینب بھی اس کی طرف مائل ہو رہی ہے اور جیسا حسن چاہتا ہے وہ بھی ویسا ہی چاہتی ہے مگر پھر اس کے ذہن میں آتا کہ باجی زینب ایسا کیسے سوچ سکتی ہے کہیں وہ غلط اندازا تو نہیں لگا رہا کیا اسے زینب سے بات کر لینی چاہئے ایک بات کو طے تھی کہ حسن بہت خوش تھا زندگی میں پہلی بار تو اسے ایک عورت کے جسم کو اتنے قریب سے چھونے کا موقع ملا تھا پھر وہ اس کی بہن ہی کیوں نہ ہو اسے اب فرق نہیں پرتا تھا دوسری طرف زینب ابھی کشمکش میں تھی اسے بھی یہ سب اچھا تو بہت لگا تھا کیوں کہ وہ بھی تو مرد کہ لیے تڑپ رہی تھی اور اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا اور اسے بھائی ملا مگر اس کہ دماغ میں ابھی بھی ایک ڈر اور تھوڑی شرمندگی سی تھی کہ وہ جس طرف جا رہی اس کی اس معاشرے میں کوئی جگہ نہیں اور اس کا انجام بہت برا ہو گا زینب اب خود کو کنٹرول کرنے لگی اور ایک فیصلہ کیا کہ اب وہ حسن کہ اتنے قریب نہیں جاۓ گی اور نہ دوبارہ کچھ غلط سوچے گی مگر ایسا اس کے لیے کر پانا بھی ناممکن جیسا تھا شام کو حسن دکان سے واپس آیا زینب اپنی ماں کہ پاس بیٹھی باتیں کر رہی تھی اور سبزی بھی کاٹ رہی تھی حسن گھر آتے ہی سیدھا ماں کہ پاس گیا وہاں بیٹھی زینب اور ماں کو سلام کر کے باتیں کرنے لگا اور ماں سے حال چال پوچھا حسن بار بار زینب کو گھور رہا تھا زینب بنا ڈوبٹا کیے اپنے گول مڈول ممے نکالے اس کے ساتھ ہی بیٹھی تھی زینب گھر میں ڈوبٹہ کم ہی کرتی زینب اس بات کو خوب نوٹ کر رہی تھی اس نے جو فیصلہ کیا تھا کہ اب وہ حسن کہ ساتھ ایسا کچھ نہیں کرے گی اور نہ کچھ غلط سوچے گی مگر حسن کا ایسے دیکھنا اسے بھی اندر سے گرم اور مست کرنے لگا ایک ہی سیکنڈ میں وہ پہاڑوں جیسے اس کے منصوبے خاک ہوۓ اور وہ بھی اب حسن کہ سامنے بیٹھی رہی حسن ویسے تو ناں کہ پاس کچھ دیر بیٹھا کرتا اور پھر چلا جاتا مگر آج بہت دیر وہ بیٹھا رہا اور زینب نے بھی سبزی کاٹ لی مگر جان بوجھ کر وہ بھی بیٹھی رہی اور اپنے بھائی کو اپنے جوان آگ جیسے جسم کی نمائش کرواتی رہی تبھی زینب کی ماں بولی زینب بیٹا جلدی سبزی کاٹو شام ہونے والی ہے کھانا لیٹ ہو جاۓ گا اور تبھی زینب جی اماں بس کاٹ لی بول کر کمرے سے جانے لگی جب زینب چارپائی سے اٹھنے لگی تو جان بوجھ کر حسن کہ سائیڈ سے اپنی موٹی گانڈ کو ایسے بل دیے کہ اٹھی کہ حسن کا تو دل کیا اسے یہیں پکڑ لوں اور پھر گانڈ مٹکاتی کمرے سے چلی گئی حسن اپنی باجی کی ایسی سیکسی ادائیں دیکھ کر پاگل ہو رہا تھا اس کا لن کب سے تن کر راڈ بنا پڑا تھا وہ بھی کچھ دیر اور ماں کہ پاس بیٹھا اور جب لن بیٹھا تو وہ بھی کمرے میں چلا گیا حسن اقر زینب اب دونو جان چکے تھے کہ دونو ایک دوسرے کہ لیے تڑپ رہے مگر دونو اپنی زبان سے ایک دوسرے کو بولنے کی ہمت نہ رکھتے تھے اور نا کھل کر ایسا کچھ کر سکتے تھے شام کا کھانا ماں کہ ساتھ کھانے اور کچھ دیر باتیں کرنے کہ حسن اپنے کمرے میں آ گیا حسن اب اسی امید میں تھا کہ زینب بھی اس کہ پاس آۓ گی اور وہ اسی انتظار میں بستر پر لیٹ گیا ایک کھنٹہ گزرا مگر زینب اس کہ کمرے میں نہ آئی وہ سمجھا کہ شاید آج باجی نہیں آنے والی اور لائنیٹ بند کرنے لے لیے اٹھا ہی تھا کہ زینب کمرے میں داخل ہوئی حسن کو دروازے کی طرف آتا دیکھ کر ہنستے ہوۓ بولی حسن کہاں جا رہے ہو حسن بولا باجی کہیں نہیں لائیٹ بند کر رہا تھا زینب او ہو اچھا کوئی بات نہیں بھائی آپ سو جاؤ حسن فوراً بولا نہیں باجی آپ آؤ بیٹھو میں تو سمجھا آپ سو گئی اس لیے زینب حسن کی چارپائی پہ جا بیٹھی اور حسن بھی اس کہ ساتھ بیٹھ گیا اور دونو باتیں کرنے لگے زینب: حسن ماں کی طبیعت اب زیادہ خراب رہنے لگی ہے دن ٹائم بھی ان کو بلڈ پریشر لو ہو گیا تھا مجھے تو بہت ٹینشن ہوئی پھر دوائی دی تو کچھ صحیح ہوئی حسن: او ہو باجی مجھے آپ نے بلوا کیا ہوتا زینب: بھائی کیسے بلاتی کوئی بچہ ہوتا ہی نہیں محلے کا جو جا کہ آپ کو بلا لاتا اور دوسرا ہو بھی تو میری کہاں مانتے ہیں حسن: امی نے تو بتایا نہیں کہ آج ان کی طبیعت خراب تھی اور مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا زینب: نہیں نہیں امی سے اس کا ذکر نہ کرنا دن ٹائم بھی کہہ رہی تھی کہ حسن کو نہ بتانا وہ ایسے پریشان ہو گا اور مجھے سختی سے منع کیا پر میں نے تمھیں بتا دیا حسن: اچھا کل میں دوبارہ ڈاکٹر سے ان کے کیے دوائی لے آؤ گا دونو بہن بھائی باتوں میں مشغول تھے مگر دونو کہ دل میں ایک دوسرے کہ قریب بیٹھنے اور کل کے جیسے مزہ لینے کی آگ جل رہی تھی مگر کسی کی ہمت نہیں ہو رہی تھی تبھی زینب بولی بھائی آپ نہیں دباؤ گے کل تو اتنا سکون ملا کہ اب تو دل کرتا روز آپ سے دبواؤں حسن تو اسی انتظار میں تھا اور ہنستے ہوۓ بولا جی باجی کیوں نہیں میں دبا دیفا ہوں زینب یہ سن کر بنا شرماۓ سیدھا لیٹ گئی حسن باجی پہ حیران بھی ہوا کے کیسے وہ ان کہ سامنے لیٹ گئی زینب سیدھا لیٹی تھی اس کہ ابھرے ہوۓ گول گول ممے اتنے اٹھے ہوۓ تھے کہ حسن ان کو دیکھ کر پاگل ہوۓ جا رہا تھا حسن زینب کی ٹانگیں دبانے لگا اور زینب آنکھیں بند کر کہ حسن کہ ہاتھوں کو اپنے جسم پر محسوس کر کے لذت لینے لگی حسن بار بار باجی کہ مموں کو دیکھ رہا تھا اور زینب کی آنکھیں بند دیکھ کر اب اس نے اپنی نظریں زینب باجی کے مموں پر جما لی حسن ک ہاتھ باجی کی ٹانگیں دبانے میں مصروف تھا اور اب وہ اپنے ہاتھوں کو آہستہ آہستہ دباتے اوپر بڑھنے لگا حسں نے جیسے ہی اپنا ایک ہاتھ باجی کی ران پر رکھا تو زینب کہ جسم میں ایک بجلی سی دوڑی اور اس کا جسم کانپ اٹھا حسن اب دونو ہاتھوں سے زینب کی ران کو دبانے لگا زینب اب اس مزے میں تھی جس پر کنٹرول کرنا ایک جوان عورت کہ لیے نا ممکن ہوتا ہے مگر وہ مشکل سے کنٹرول لیے ایک سکون بھری آہیں بھرنے لگی حسن ان آہوں کو سن کر اور زینب کی نرم بھری رانو سے احساس سے پاگل ہو رہا تھا حسن زینب کو دباتے ہوۓ آگے بیچھے ہو رہا تھا تبھی اس کا تنا ہوا لن زینب کی ایک ٹانگ پر لگا اور حسن پیچھے ہو گیا مگر زینب نے اسے محسوس کر لیا تھا اور کچھ دیر بعد اپنی ٹانگوں میں بیٹھے اپنے بھائی کی طرف ٹاگ کھسکا لی جس سے حسن کا لن باجی کی ٹانگ سے ہلکا ہلکا رگڑ گھانے لگا باجی زینب کی ٹانگ لن پر لگنے سے حسن اب برداشت کھو چکا تھا اور اس کا ہاتھ خودبخود زینب کی رانو کو دباتے ہوۓ ہلکا زینب کی پھدی پر لگنے لگا زینب حسن کا ہاتھ اپنی پھدی پر لگتے ہی ایسے مچلی جیسے پانی سے مچھلی باہر نکل کر مچلتی ہے حسن پہلے تو گھبرا گیا وہ جانتا تو تھا کہ زینب بھی یہی سب چاہتی ہے مگر اس کے ہاتھ ابھی بھی زیادہ کچھ کرنے سے ڈر رہے تھے کچھ دیر بعد جب اسے محسوس ہوا کہ زینب اب اس سب کا فل مزہ لے رہی اور اب وہ کچھ بھی کر لے زینب اسے کچھ نہیں کہے گی تبھی اس نے اپنا ایک ہاتھ زینب کی پھدی کے درمیان گھما دیا زینب کی ایک زوردار ہچکی سی نکلی دونو جوان تھگ اور جوانی کہ نشے میں اب اتنے مگن تھے کہ بہن بھائی کا رشتہ ان کہ دماغ سے نکل گیا زینب اپنی ٹانگ کو ہلا ہلا کر پورا حسن کہ لن پر رگڑنے لگی حسن تو مستی سے پاگل ہو رہا تھا اور یہ ایک زینب کی طرف سے حسن کو اشارہ بھی تھا کہ وہ اس کہ پھدی پر دوبار ویسے ہی ہاتھ رکھے مگر حسن نے ہاتھ نہ رکھا وہ ڈر رہا تھا تبھی زینب جو مستی میں اپے سے باہر ہو چکی تھی آنکھیں بند کیے بنا کچھ بولے حسن کا ہاتھ پکر کر پھدے پر رکھ دیا حسن سمجھ گیا اور وہ باجی کہ پھدے کی لکیر پر انگلیاں پھیرنے لگا زینب اب پوری طرح سیکسی اہیں بھرنے لگی حسن بھی اب پوری طرح زینب کا پھدا مسل رہا تھا زینب اپنی مستی میں مگن حسن کہ لن کو ٹانگ سے مسلنا بھول گئی حسن جو مستی میں پاگل ہو رہا تھا وہ اپنے دوسرے ہاتھ سے لن کو پکڑ کر مسلنے لگا تبھی زینب نے حسن کہ ہاتھ کو روکا اور اس کا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ کر مسلنے لگی حسں کہ تو ایک دم سانیس رکنے لگی باجی کہ نرم ہاتھ کا احساس اسے پاگل کیے جا رہا تھا وہ باجی کہ پھدے کو زور سے مسلتا اور زینب بھی اس کا لن اپنے ہاتھ سے بہت زور سے پکڑ کر ہلاتی دونو کچھ ہی منٹ ٹک پاۓ اور دونو کا پانی نکل گیا زینب کہ پھدے کا پانی شلوار کہ اوپر سے حسن کے ہاتھ کو پھر دیا اور زینب کا ہاتھ بھی حسن کہ لن کہ پانی سے بھر گیا جب دونو پوری طرح فارغ ہو گئے تو حسن بھی باجی کی ٹانگوں والی سائیڈ پر وہیں لیٹ گیا کچھ دیر گزری اور دونو کی سانسیں بحال ہوئی تو زینب اٹھ کر جانے لگی حسن وہیں لیٹا باجی کو دیکھ رہا تھا زینب دروازے کے قریب جا کر پیچھے مڑ کر دیکھنے لگی اور اپنی انگلیوں جن پر حسن کے لن کا پانی لگا تھا ایک سیکسی انداز سے اپنے منہ میں لے لی اور ایک کافرانہ سمائل دے کر گانڈ مٹکاتے چلی گئی حسن کے کیے باجی کا ایسا انداز نیا تھا اور قاتل بھی وہ باجی کہ اس انداز سے حیران بھی ہوا اور اسے مست بھی لگا حسن وہیں لیٹا اب سوچنے لگا کہ کیسے یہ سب ہو گیا اور وہ دونو بہن بھائی اتنا آگے تک چکے گئے وہ سب سوچ کر اسے یقین نہیں ہو رہا تھا تبھی اسے اپنی ہاتھ پہ لگا باجی کے پھدی کا پانی محسوس ہوا حسں اس لیس دار چپچپے پانی کو انگلیوں پر مسلنے لگا اور پھر رکتے ہی اپنے منہ کہ قریب لا کر سونگنے لگا باجی زینب کہ پھودے کے پانی کی خوشبو حسن کو بھی اچھی لگی اور اس نے ہلکا سا اپنی زبان پہ لگایا اسے نمکین سا لگا حسن جس کو پھدی چاٹتے دیکھ کر گھن اتی تھی اور فلموں میں وہ اس کو پسند نہ کرتا تھا مگر آج اپنی باجی کے پھدی کہ پانی کو اس نے اپنی زبان پر ہلکا سا لگا کر چکھ کیا تھا اور وہ بھی حیران تھا کہ اسے باجی کا پانی کیوں اچھا لگ رہا تھا اس نے دوبارہ اپنا ہاتھ منہ میں لے کر باجی کہ پھودے کا لگا پانی چوسنے لگا اس کو وہ ذائقہ بہت مزے کا لگا حسن کا لن اب پھر تن چکا تھا مگر باجی وہاں نہ تھی حسن اب مٹھ نہیں مارنا چاہتا تھا اسے تو اب باجی کہ ہاتھ کا نشہ لگ چکا تھا وہ خود پہ کنٹرول کر کے سونے لگا زینب بھی اپنے کمرے میں جا کر ویسے ہی لیٹ گئی اور سوچنے لگی اب اسے حسن کہ ساتھ ایسا کر کے کوئی ملامت نہیں ہو رہی تھی بلکہ وہ اس سے خوش تھی اور لیٹے بار بار اپنے ہاتھو کو چات رہی تھی صبح زینب اٹھی تو رات والا واقع اس کہ ذہن میں آتے ہی اس کہ چہرے پر سمائل آ گئی وہ حسن کہ کمرے میں آئی اپنے چھوٹے بھائی جو اس کو اب اور بھی زیادہ پیارہ لگ رہا تھا دیکھنے لگے اور پھر کچھ دیر بعد اسے جگانے لگی حسن بھی اٹھتے باجی کو دیکھ کر مسکرایا دونو نے آپس میں کوئی بات نہ کی بس آنکھوں اور مسکرا کر ہی دونو اپنے دل کی بات بتا رہے تھے زینب اور حسن کہ بیچ اب کوئی پردہ نہ رہا تھا مگر پھر بھی زبان سے ان کہ بیچ ایسے کوئی بات نہ ہوئی اور وہ دونو ایسے بولتے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں دن گزرنے لگے ماں کی طبیعت زیادہ بگڑنے کی وجہ سے اب دونو کا ویسا مل پانا مشکل ہو چکا تھا اب دونو اس سب کو بھول کر ماں کی خدمت میں لگے ہوۓ تھے رات کو زینب حسن کہ کمرے میں نہ آتی دونو اپنے جسم کی بوکھ کو بھول کر ماں کی خدمت میں لگے ہوۓ تھے مگر ماں کی طبیعت تھی کہ سنبھلنے کا نام تک نہیں لے رہی تھی اور آخر کار نوبت یہ آئی کہ ماں کو ہاسپٹل میں داخل کر لیا گیا حسن کا دکان پر جانا بند ہو چکا تھا زینب اور حسن دونو ماں کے پاس تھے حاجی صاحب حسن کو اب اپنے بچوں کہ جیسا مانتے وہ بھی روز شام کو چکر لگاتے اور پیسوں سے بھی حسن کی اچھی خاصی مدد کرنے لگے ہسپتال میں مریض کہ پاس ایک ہی بندے کو رہنے کی اجازت تھی مگر نہ حسن گھر واپس جا سکتا تھا ماں اور زینب کو اکیلے چھوڑ کر اور نہ زینب اکیلے جا سکتی تھی جس وجہ سو حسن باہر پارک میں راتیں گزارتا اور زینب ماں کے پاس دونو ماں کی حالت سے پریشان سب کچھ بھول چکے تھے دو ہفتے ہونے کو آۓ تھے مگر ماں کی طبیعت تھی کہ سنبھلنے کی بجاۓ بگڑنے لگی ایک رات حسن ہسپتال کہ باہر بنے پارک میں لیٹا ہوا تھا جہاں وہ روز رات گزارتا کہ زینب روتے ہوۓ اس کہ پاس آئی حسن زینب کو۔یوں روتے دیکھ کر گھبرا سا گیا اور پوچھنے لگا مگر زینب کچھ بول بھی نہیں پا رہی تھی ماں ان دونو کو چھوڑ کر جا چکی تھی یہ صدمہ دونو پر قیامت بن کر برسا خاص طور پر حسن پر کیوں کہ حسن سب سے زیادہ ماں کے قریب تھا ماں کی تدفین ہوئی اور لوگوں کا آنا جانا لگا رہا حسن اندر سے ٹوٹ چکا تھا اور اس دوران زینب اسے سمبھال رہی تھی حاجی صاحب ہی واحد ان کا سہارا تھے جو اس دوران ایک باپ کہ جیسے ان کہ مدد کر رہے تھے ماں کو گزرے دو مہینے ہو چکے تھے زینب اس دکھ کو برداشت کر چکی تھی اور اپنی نارمل زندگی میں لوٹ آئی مگر حسن اس صدمے کو برداشت نہیں کر پا رہا تھا وہ بہت چپ رہنے لگا زینب ہی اس کا واحد سہارا تھی اور ایک بڑی بہن ہونے کے ناطے حسن کو سنھبال رہی تھی حسن اور زینب کہ بیچ دوبارہ وہ سب نہ ہو سکا اور نہ ہی دونو کی سوچ دوبارہ اس سب کی طرف گئی دو مہینے سے حسن دکان پر نہ گیا حاجی صاحب اس کی پیسوں سے مدد تو کرتے رہے جس سے انکے گھر کا نظام چل رہا تھا مگر کب تک ایسے کوئی دیتا ہے ایک شام حسن اپنے کمرے میں بیٹھا تھا زینب اس کہ پاس جا بیٹھی زینب:حسن اب سب بھول جاؤ اور اپنی زندگی کی طرف بڑھوحسن زینب کی بات سں کر کچھ نہ بولازینب:حسن کل سے تم کام پہ جایا کرو حاجی صاحب کہ ہم پر پہلے ہی بہت احسان ہیں اور اب اچھا نہیں لگتا کہ وہ ہیمیں ایسے ہی پیسے دیتے رہیں ہیمیں بھی سوچنا چاہیے زینب کا حسن جو کام پر بھیجنے کا ایک یہ بھی مقصد تھا کہ حسن کا دل لگے اور وہ اس سب کو بھول سکے حسن: باجی ماں بہت یاد اتی ہے بول کر رو پڑا زینب حسن کو روتا دیکھ کر اس کو گلے کگا لیتی ہے حسن باجی کہ گکے لگ کر ایک چھوٹے بچے کہ جیسا روۓ جا رہا تھا زینب بھی اپنے انسو روک نہ پائی اور روتے ہوۓ حسن کو گکے لگا کر چپ ہو جانے کا کہنے لگی زینب: حسن مت رو میں ہو نا تمھاری بہن نہیں تمھاری ماں بھی ہوں اور جو چلا جاۓ ہم اسے روک نہیں سکتے ہیمیں جینا پڑتا ہے اور تم ایسا کرو گے تو میں بھی ٹوٹ جاؤ گی میرے کیے ہی خود کو سمبھالو زینب حسن کو سمجھائے جا رہی تھی اور حسن اب کچھ سنبھل چکا تھا زینب کچھ دیر حسن کو یونہی گکے لگا کر بیٹھی رہی اور پھر بولی چلو حسن شاباش اب سو جاؤ صبح کام پہ بھی جانا ہے اور حسن کو اٹھا کر بستر پر لیٹا دیا اور اس کے سرہانے بیٹھ کر اس کہ بالوں میں ہاتھ پھیر کر اسے سلانے لگی حسن کچھ ہی دیر میں سو گیا اور زینب بھی اپنے کمرے میں آ کر سو گئی زینب اور حسن ماں کے گزر جانے کے بعد اور زیادہ ایک دوسرے کے قریب ہو چکت تھے کیونکہ اب وہ دونو ہی ایک دوسرے کا سہارا اور رشتہ تھے اگلے دن حسن دکان پر جانے لگا اور اور کچھ ہی دنوں میں حسن بھی اپنی نارمل زندگی میں آ گیا اب دونو بہن بھائی مل کر کام کر رہے تھے دکان پر حسن کو اچھی تنخواہ ملنا شروع ہو گئی تھی حاجی صاحب کا اعتبار اتنا بڑھ گیا کہ اب کئی بار وہ حسن کہ بھروسے دکان چھوڑ کر جاتے جاتے زینب بھی گھر میں سلائی کا کام کرنے لگی جو اس نے اپنی ماں سے سیکھا تھا مگر پہلے وہ نہیں کرتی تھی کیونکہ ماں باپ حسن اور پورے گھر کہ کاموں میں لگے رہنے سے اسے وقت مل پانا مشکل تھا مگر جب سے وہ اور حسن اکیلے رہنے لگے اس کے کام کم ہو گئے تھے تو اب وہ سلائی کا کام کرتی دونو بہن بھائی کما رہے تھے جس کی وجہ سے ان کہ مالی حالات بہت اچھے ہو چکے تھے دن گزرنے لگے حسن اور زینب ایک دوسرے کے بہت قریب آ چکے تھے ان کہ درمیان جسمانی تعلقات کئی مہینوں سے نہ ہوا مگر ایک دل اور پیار کہ رشتے میں وہ بندھ چکے تھے اور دونو اب دوسرے کو ہی بس اپنا سب کچھ مان چکے تھے حسن اور زینب کی شادی کی فکر کرنے والے ان کہ ماں باپ تو چل بسے تھے اب نہ حسن کو اپنی شادی کی کوئی فکر تھی نہ زینب کو اور اگر سیدھے لفظوں میں کہا جاۓ تو دونو ایک دوسرے کے ساتھ رہنا چاہتے تھے اور کسی اور کو اپنی زندگی میں شامل کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے حاجی صاحب کو اس بات کا احساس تھا اور وہ اپنی آخرت سنوارنے کی خاطر اسی کوششوں میں تھے کہ وہ کہیں سے ان دونو کے لیے رشتہ ڈھونڈ لیں مگر وہ بھی زیادہ اس کام کہ لیے بھاگ دوڑ نہیں کر رہے تھے اور سب سے مشکل بات زینب کہ لیے رشتہ ڈھونڈنا تھا اتنا عرصہ گزرنے کہ بعد بھی لوگ زینب کہ کردار پہ لگے اس دھبہ کو پرانا نہیں ہونے دے رہے تھے اوپر سے زینب کی بڑھتی عمر جو اس کہ لیے مناسب رشتہ ملنے کی راہ میں رکاوٹ تھی مگر زینب اور حسن اپنی اس زندگی سے اب بہت خوش تھے دن بہت اچھے گزر رہے تھے مگر اچھے دنوں میں آتے برے وقت دستک دے کر نہیں آتے ایک شام حسن اپنی دکان سے گھر واپس آ رہا تھا دکان سے گھر کا کوئی 20 منٹ کا پیدل فاصلہ ہو گا حسن پیدل تھا اور وہ روز ایسے ہی آتا جاتا کبھی کوئی بائیک والا مل جاتا تو حسن بیٹھ جاتا اس شام بھی حسن اپنے گھر کی جانب آ رہا تھا کہ اسے ایک محلے کا جاننے والا ملا جس نے حسن کو ساتھ بیٹھا لیا کہ میں بھی گھر جا رہا تم بھی ساتھ آ جاؤ حسن بھی بیٹھ گیا حسن اس سے باتیں کرتے گھر کی طرف چل پڑے گھر سے تھوڑا دور ہی تھے کہ ایک گلی مڑتے وہ سامنے سے آتے موٹر سائیکل میں جا لگے حسن اور وہ بائیک والا آدمی دونو گر گئے حسن کی سائیڈ دیوار سے جا کے زور سے لگی اور اچھی خاصی چوٹیں آئیں اس وقت تو حسن کی حالت ایسی تھی کہ اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا ہوا اسے اتنا تو پتا تھا کہ لوگ اسے اٹھا کر ڈاکٹر کے پاس لے آۓ مگر حسن خود کچھ نہیں کر پا رہا تھا اس ہے ہلا بھی نہیں جا رہا تھا اس کہ بعد کا حسن کو یاد نہیں جب اس کی آنکھ کھلی تو سامنے اسے زینب کا چہرا دیکھائی دیا جو آنسوؤں سے نہلایا ہوا تھا حسن کی آنکھ کھلتے ہیں زینب اس کی طرف لپکی مگر حاجی صاحب جو زینب کے ساتھ ہی کھڑے تھے اسے پکڑ کر دلاسا دینے لگے زینب روتےہوۓ :حسن یہ سب کیا ہو گیا تمھیں ایسی حالت میں مجھ سے نہیں دیکھا جا رہاحسن جو ہل بھی نہیں پا رہا تھا اسے ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کا جسم موجود بھی نہیں دبی آواز میں زینب کو دلاسا دیتے ہوئے بولا باجی میں ٹھیک ہوں آپ رو مت زینب روتے ہوۓ بوکی کہاں ٹھیک ہو پتا نہیں یہ مصیبتوں نے ہمارا ہی گھر کیوں پکڑ لیا اور وہی حسن کے سرہانے بیٹھ کر رونے لگی حسن باجی کو یوں روتا دیکھ نہیں پا رہا تھا وہ چاہتا تھا کہ زینب کو گلے کگا لے مگر اس کا جسم اس کا ساتھ نہیں دے رہا تھا کچھ ہی دیر بعد ڈاکٹر آۓ اور انہوں نے بتایا کہ حسن کی دائیں ہاتھ اور ٹانگ میں تھوڑا فریکچر آیا ہے اور باقی جسم پر خراشیں آئی ہیں حسن کو تین دن ہسپتال میں رکھا گیا جہاں زینب دن رات اس کہ سامنے جی جی کرتی پاگلوں کی طرح اس کی خدمت کرتی رہی اب حسن کہ باقی زخم تو تقریباً ٹھیک ہو چکے تھے جو نہ ہونے کہ برابر تھے مگر اس کا بازو اور ایک ٹانگ ابھی بھی صحیح نہیں تھی ڈاکٹر نے اسے مکمل آرام کا کہا اور ہفتے میں ایک بار چیک کروانے کا بول کر ہسپتال سے فارغ کر دیا حاجی صاحب اور زینب حسن کو گھر لے آۓ



جاری ہے

Post a Comment

0 Comments