ممنوع محبت
از عثمان خان
قسط نمبر 8
حسن اب ویسے تو ٹھیک تھا اس کہ جسم پر لگی ہلکی خراشیں بھی ٹھیک ہو گئی تھی مگر دائیں بازو اور ٹانگ سے ابھی بھی ایک طرح معزور تھا اور ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق زینب بھی اسے ہلنے تک نہیں دے رہی تھی گھر پر زینب اس کی ایسی تماداری کر رہی تھی جیسے اس کی جان حسن میں ہی اٹکی ہو صبح شام بس حسن کہ آس پاس گھوم کر زینب اس کی خدمت میں ہی لگی رہتی رات کو زینب نے حسن کو اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلایا اور پھر اس کے سرہانے بیٹھ کر حسن کا سر اپنی گودھ میں لے لیا زینب: حسن اب کیسی طبعیت ہے درد تو نہیں ہے حسن:نہیں باجی بلکل ٹھیک ہے درد نہیں ہے آپ اتنی فکر نہ کیا کرو زینب: کیوں نہ کیا کروں میرا ایک ہی تو بھائی ہے جو مجھے جان سے بھی پیارا ہے اور میں تمھاری بڑی بہن ہونے کے ساتھ ساتھ تمھاری ماں بھی ہوں اور ایک ماں اپنے بیٹے کو ایسی حالت میں کیسے دیکھ سکتی ہے حسن:باجی پھر بھی آپ کچھ زیادہ ہی پریشان ہو باتی ہیں دونو بیٹھ کر باتیں کیے جا رہے تھے حسن اور زینب دونو ایک دوسرے کہ پیار میں پہلے سے زیادہ گرفتار ہو چکے تھے نگر حالات اور واقعات ایسے گزرے کہ اس رات کہ بعد دوبارہ ان کہ درمیان کوئی جسمانی رشتہ قائم نہ ہو سکا اب دونو ایک دوسرے سے نارمل تھے حالانکہ آخری بار دونو ایک حد کو کراس کر چکے تھے اور ایک دوسرے کا پانی نکال چکے تھے مگر اب سب پھر ویسے جیسا ہو چکا تھا ایک بہن بھائی کا ہلکا سا پردہ قائم تھا اور دونو کہ دلوں سے جسم کی بھوک کی جگہ ایک عجیب پیار اور جنون نے لے لی تھی حسن اور زینب جس بات سے اگر رک جاتے وہ یہی ہوتی کہ وہ سگے بہن بھائی ہیں اور جیسی فیلنز یا احساسات وہ دونو ایک دوسرے کے لیے رکھتے ہیں وہ اس معاشرے میں نا قابل برداشت ہیں مگر پیار اپنا حق چھین لیتا ہے اور زینب اور حسن بھی سب جانتے ہوۓ ایک دوسرے کہ ہو چکت تھے کچھ باتیں کرنے کہ بعد زینب نے حسن کو سو جانے کا کہا کیوں کہ اس کی حالت ابھی آرام طلب تھی اور حسن بھی باجی کی بات مانتے ہوۓ سونے لگا زینب نے حسن کے ماتھے پر چوما اس کے بستر سے اٹھی حسن پر کمبل صحیح کیا اور لائیٹ بند کر کے چلی گئی رات کو سوتے ہوۓ زینب کی آنکھ کھلی تو اسے خیال آیا کہ حسن تو اپنا جسم بھی ہلانے کہ قابل نہیں اور رات کو اسے پیاس لگے یا پیشاب آۓ تو بیچارا کیسے جاۓ گا میں بھی پاگل ہوں مجھے اسی کے پاس سونا چاہیے تھا زینب یہ سوچ کر جلدی سے اٹھی اور حسن کہ کمرے کی طرف گئی جب وہ کمرے میں پہنچی تو حسن نید میں تھا زینب نے اسے جگا کر پوچھنا چاہا مگر پھر سوتا دیکھ کر رک گئی کہ سونے دو رات کا پچھلا پہر تھا زینب کچھ دیر حسن کہ کمرے میں کرسی پر بیٹھی رہی کہ شاید وہ اٹھ جاۓ اگر اسے کچھ چاہیے ہوا تو اور پھر حسن کہ کمرے میں پڑی چارپائی پر سو گئی ابھی صبح کی آذان ہونے سے کچھ وقت ہی تھا کہ حسن کی آنکھ کھلی اور اس کی نظر اپنے دائیں طرف پڑی چارپائی پہ سوتی باجی زینب پر پڑی حسن حیران ہوا کہ رات کو باجی اسے اکیلے سلا کر گئی تھی پھر وہ یہاں کیسے آئیں کچھ دیر حسن ویسے ہی لیٹا رہا اور اپنی باجی کو سوتے دیکھنے لگا زینب حسن کی سائیڈ منہ کر کے سو رہی تھی اس نے اوپر کمبل لیا ہوا تھا مگر اس کا سینا کمبل سے ڈھکا ہوا نہ تھا اور سائیڈ پہ سونے کی وجہ سے اس کہ ممے ایک دوسرے سے اکھٹے ہوۓ پڑے تھے حسن کو زینب کہ مموں کی اوپر بہت جگہ ننگی نظر آ رہی تھی زینب کا چہرا اب حسن کو پیارا لگنے لگا تھا پہلے تو وہ صرف زینب کہ جسم کا پیاسا تھا مگر اب زینب کا چہرا بھی حسن کو پیارا لگتا اسے ایک عجیب سی لذت ملتی اپنی باجی کو دیکھ کر زینب کو یوں دیکھتے نہ جانے کب حسن کا لن تن گیا بہت دن بعد آج پھر حسن اپنی باجی زینب کو اس نظر سے دیکھ رہا تھا ایک آدھ گھنٹے زینب کو دیکھتا رہا تبھی صبح کی آذان ہونے لگی اور کچھ دیر بعد زینب بھی اٹھ گئی زینب کی آنکھ کھلتے ہی اس کی نظر حسن پر پڑی جو اس کی ساتھ والی چارپائی پر سوتے ہوۓ اسے دیکھ رہا تھا حسن کو یوں دیکھ کر زینب نے ایک پیاری سی سمائل دی اور اٹھ کر حسن کہ سرھانے آ بیٹھی حسن کیسی طبیعت ہے حسن:باجی میں ٹھیک ہوں آپ کب آئیں اور یہاں کیوں سو گئی زینب: رات کو مجھے جاگ آئی تو سوچا تمھیں کچھ چاہیے نہ ہو اس لیے آئی اور یہی سو گئی رات کو مجھے خیال بھی نہیں رہا تھا اور پاگلوں کی طرح اپنے کمرے میں جا سوئی حسن زینب کی بات پہ مسکرایا اور کچھ نہ بولا زینب حسن کہ سرھانے بیٹھے بہت دیر اس سے باتیں کرتی رہی اب صبح کی روشنی چاروں طرف پھیلنے لگی تھی زینب:حسن تمھیں باتھروم جانا ہے میں تمھیں لے جاتی ہوں حسن:جی باجی جانا تو ہے مگر آپ کو مشکل ہو گی مجھ سے تو چلا بھی نہیں جا رہا حاجی صاحب آئیں گے تو لے جائیں گے زینب حسن کی بات سنتے ہی اٹھ کھڑی ہوئی اور مزاکیہ غصہ کرتے بولی اچھا اتنے دنوں سے تمھارا خیال رکھ رہی اور اب تمھیں ایسا لگ رہا میں تمھیں باتھروم تک نہیں لے جا سکتی حسن : نہیں باجی میرا وہ مطلب نہیں تھا۔۔۔ زینب حسن کی بات کاٹتے بولی مجھے کچھ نہیں سننا چلو اٹھو اب حاجی صاحب کے انتظار میں سارا دن پڑے رہو گے کیا اور حسن کو سہارا دے کر اٹھانے لگی حسن خود بھی اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا مگر اس کا دائیہ ہاتھ اور پاؤں دور کر رہا تھا زینب نے اپنے ہی زور سے حسن کو اٹھایا حسن اپنا بائیا ہاتھ زینب کہ کندھے پر رکھ کر کھڑا ہو گیا اور ایک ٹانگ کے سہارے آہستہ آہستہ چلنے لگا حسن کے ساتھ زینب بہت چپکی ہوئی تھی اور حسن کا بازو زینب کہ کندھوں پر تھا جس سے اس کا ہاتھ زینب کہ دائیں سائیڈ کے ممے پر لگ رہا تھا حسن ہاتھ کو روکنے کی کوشش کو کر رہا تھا مگر وہ نہیں کر پا رہا تھا کیوں کہ اگر وہ ہاتھ بیچھے کھینچتا تو اس کا توزن نہ رہتا کیوں کہ وہ تو سارا وزن زینب پہ ڈالے ہوۓ تھا زینب حسن کا وہ ہاتھ اپنے ممے پر محسوس کر رہی تھی اب اس کی بھی سیکس فیلنگ جاگ اٹھی اور اسے اچھا لگنے لگا اتنے دن بعد آج پھر اپنے بھائی کا ہاتھ اپنے ممے پر لگتے محسوس کر کے زینب کہ جسم میں ایک عجیب سی جان آ گئی زینب حسن کو سہارا دے کر باتھروم میں لے گئی اور وہاں رک کر بولی حسن تم دیوار کے سہارے رکو میں تمھارا نالا کھولتی ہوں تم خود نہیں کھول پاؤ گے حسن یہ سنتے ہی شرماتے ہوۓ بولا نہیں باجی آپ جاؤ میں کھول لوں گا زینب مسکرتے ہوۓ بولی اچھا جی بڑا شرما رہے ہو بچپن سے تمھیں دیکھا ہوا اپنی باجی سے نہ شرماؤ اور یہ کہتے ہی زینب حسن کا نالا کھولنے لگی حسن جو باجی کہ ساتھ اپنی خیالوں میں کیا کچھ کر چکا تھا اور ایک بار باجی کہ ہاتھوں سے ہی اپنی پانی نکال چکا تھا مگر آج اسے شرم بھی تھوڑی آ رہی تھی مگر وہ مجبور تھا اس کا ایک ہاتھ ٹھیک تھا اور وہ اسی کہ سہارے دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کہ کھڑا تھا زینب نے حسن کا نالا کھول دیا اور لن کو بھی دیکھا زینب کا دل لن کو دیکھ کر خراب ہونے لگا حسن کا لن اپنی تنا ہوا نہیں تھا زینب ایک گندی ہنسی دیتے ہوۓ بولی حسن تمھارا تو بہت بڑا ہو گیا بچپن میں تو بہت چھوٹا تھا حسن یہ سن کر شرمانے لگا حسن یہی سمجھ رہا تھا کہ باجی اسے ننگا پہلی بار دیکھ رہی وہ نہیں جانتا تھا کہ زینب تو بہت بار اسے مٹھ مارتے دیکھ چکی ہے حسن: باجی اب آپ دوسری طرف منہ کرو میں پیشاب کر لوں زینب ہنستے ہوۓ:ہاہا اچھا اب ویسے کچھ چپھانے کو بچا ہے اور دوسری طرف منہ کر لیا حسن نے پیشاب کرنے لگا اور باجی کی ایسی گندی باتوں کہ مزے بھی لے رہا تھا ایک بہن کہ سامنے ننگا ہونے کہ بعد لن کا کھڑا نہ ہونا ممکن ہی نہیں حسن کا لن تننے لگا حسن چاہتا تھا کہ لن کھڑا نہ ہو مگر لن کسی کی کہاں سنتا ہے حسن نے جب پیشاب کر لی تو زینب پیچھے مڑی اور حسن کی شلوار اوپر کر کے نالا باندھنے ہی لگی تھی کہ اس کی دوبارہ نظر حسن کہ لن پر پڑی جو اب پورا تن کر سانپ کہ جیسے کھڑا تھا زینب لن کو۔دیکھ کر پاگل ہونے لگی اتنے قریب سے لن کو دیکھنا زینب کو آپے سے باہر کر رہا تھا تبھی زینب ہنستے ہوئے بولی حسن یہ کیا میں نے دو منٹ ادھر منہ کیا یہ تو اور زیادہ بڑا ہو گیا اور ہنسنے لگی حسن کو اپنی بڑی باجی کی ایسی باتیں بہت مزہ دے رہی تھی وہ ویسے تو شرمانے کی ایکٹنگ کرنے لگا زینب اس کو پھر سہارا دے کر کمرے میں لانے لگی کمرے میں آ کر حسں کو بستر پہ لٹایا اور خود کچن میں ناشتہ بنانے آ گئی حسن بستر پر لیٹے سوچ رہا تھا کہ وہ کیسے باجی کہ اتنے قریب ہو گیا باجی کا امداز ایسا تھا جیسے حسن اس کا بھائی نہیں بلکے شوہر ہو یا کوئی چھوٹا بچہ جسے ماں نہلاتے ہوۓ ننگا کر دیتی ہے حسن کو سب سے زیادہ باجی کا اتنا فری ہو کہ سب کرنا حیران کر رہا تھا وہ اسی سوچ میں گم تھا کہ باجی زینب اس کے لیے ناشتہ لے آئی دونو نے ناشتہ کیا اور پھر زینب گھر کہ دوسرے کاموں میں لگ گئی زینب کہ دل میں بھی بہت کچھ چل رہا تھا زینب اب اپنے بھائی کہ ساتھ وہ سب کرنے کو بےتاب تھی جو اس کی ماں اور باپ کرتے تھے اور زینب اس عمر میں ایک پوری لڑکی تھی جو سیکس کے بارے سب کچھ جانتی تھی اور جو اس نے آج حسن کہ ساتھ کیا وہ بھی اس کی چال تھی تاکہ وہ حسن کو تھوڑا اپنے ساتھ معنوس کر سکے زینب کو حسن کا تنا ہوا لن بہت بیچین کر رہا تھا زینب سوچنے لگی کہ جب اس نے حسن کا لن پکڑا تھا تب اسے کتنا مزہ آیا تھا یہ سب سوچتے زینب کی پھدی لال ٹپکانے لگی پھر زینب نے اپنے خیالات کو جھٹکا اور کام کرنے لگی دن ٹائم حاجی صاحب بھی حسن کو ملنے آۓ اور کچھ دیر بیٹھ کر چلے گئے رات ہوئی تو زینب حسن کے پاس بیٹھے باتیں کرنے لگی کچھ دیر گزری تو زینب نے حسن کو کہا کہ وہ اپنا بستر یہیں لے کر آ رہی ہے وہ آج حسن کہ کمرے میں ہی سوۓ گی تاکہ رات کو اگر حسن کو پانی یا پیشاب کو جانا ہو تو وہ اسے لے جاۓ گی حسن چپ رہا اور جی بول دیا کچھ دیر بعد زینب اپنا بستر اٹھا لائی اور حسن کی چارپائی کے ساتھ پڑی چارپائی پہ بچھانے لگی حسن زینب کے جسم کو گھورے جا رہا تھا زینب کے تنے ہوۓ ممے اور تھڑکتی گانڈ حسن کو بہت پیاری لگ رہی تھی حسن اب زینب کو گھورتے ہوۓ نہ شرماتا اور نہ ڈرتا تھا بلکہ کئی بار تو زینب نے اسے اپنے مموں اور گانڈ جو گھورتے دیکھا بھی مگر مسکرا دی یا اپنے کام میں مصروف رہی دونو کہ لیے یہ سب ایک طرح نارمل ہو چکا تھا زینب کو بھی حسن کا یوں دیکھنا اچھا لگتا تھا اس لیے وہ اور زیادہ مٹک کر چلتی اور حسن کہ سامنے بنا ڈوبٹے ممے نکال کر گھومتی تھی دونو اس حد سے بڑھنا تو چاہتے تھے اور کئی بار اپنے ہی خیالوں میں ایک دوسرے کے ساتھ کیا کچھ نہ کرنے کا سوچتے تھے مگر اصل حقیقت میں سب کچھ کرنا شاید دونو کو مشکل لگ رہا تھا کوئی ایک طاقت تھی جو اندر سے انہیں روکتی تھی زینب بستر بیچھا کر پھر حسن کی ٹانگوں والی سائیڈ پر آ بیٹھی زینب سائیڈ پہ ٹانگیں لٹکا کر بیٹھی تھی زینب:حسن اب سو جاؤ آرام کر لوحسن:جی باجی آپ بھی سو جائیںزینب اپنے بستر پر لائیٹ آف کر کے لیٹ جاتی ہے اور حسن بھی اپنی آنکھیں بند کر کے سونے لی کوشش کرتا ہے زینب اور حسن ایک دوسرے کو سونے کا کہہ تو چکے ہوتے ہیں مگر آج ایک بار پھر دونو کو ایک دوسرے کے قریب آنے کی طلب ستا رہی ہوتی ہے مگر دونو خود پہ ضبت کر کے سو جاتے ہیںرات کا پچھلا پہر تھا حسن کی آنکھ کھلی اسے بہت زور کا پیشاب آیا تھا اسے ایسے لگ رہا تھا کہ اس کا مسانہ بھٹ جاۓ گا حسن زینب کی جانب دیکھتا ہے تو وہ دوسرے طرف منہ کر کے سو رہی ہوتی ہے حسن زینب کو نید سے جگانا نہیں چاہتا سو خود ہی اٹھنے کی کوشش کرتا ہے حسن کا ایک بازو ار ٹانگ میں فریکچر ہونے کی وجہ سے وہ اٹھ نہیں پا رہا تھا حسن اب مجبور ہو چکا تھا اور اس نے زینب کو اٹھا دینا ہی بہتر سمجھا اور زینب کو آواز دینے لگاباجی زینب۔۔۔باجی اٹھیں۔۔۔۔زینب باجیحسن کی ایک دو آواز کے بعد زینب بھی اٹھی اور حسن کے پاس فوراً آ کھڑی ہوئیجی بھائی کیا ہوا حسن:بانی باتھروم جانا تھا زینب:اچھا میں لے جاتی ہوں زینب ابھی کچھ نید کی خماری میں تھی اور حسن کو کندھا دے کر اٹھانے لگی حسن بھی زینب کے کندھے پر اپنا بوجھ ڈال کر اٹھنے لگا پہلے کہ جیسے حسن نے اپنا ایک بازو زینب کہ کندھے پر رکھا ہوا تھا جس کا ہاتھ زینب کہ ممے پر لگنے لگا اور زینب حسن کو کمر سے کس کر پکڑ کے اسے چلنے میں مدد کرنے لگی تبھی زینب بولیحسن رکو حسن یہ سن کر رکا اور بولا کیا ہوا باجیزینب:حسن تم یہیں بستر پر لیٹو میں آتی ہوں اور حسن کو دوبارہ بستر پر لیٹا کر باہر چلی گئی حسن سوچ میں تھا کہ آخر کیا ہوا اور باجی کہاں چلی گئی کچھ ہی دیر بعد زینب کمرے میں آئی اس کہ ہاتھ میں پیشاب کرنے والا پاٹ تھا جو حسن کے باپ کا تھا جب وہ بھی بیمار ہوا تھا تب حسن کی ماں اسے اس میں ہی پیشاب کرواتیحسن:باجی یہ کیوں لے ائیزینب:حسن تم باتھروم تک جا نہیں سکتے تمھیں اتنی مشکل ہوتی ہے آج سے تم یہی استعمال کرنا حسن:نہیں نہیں باجی یہ نہیں۔۔۔۔زینب:حسن یہ سہی ہے تم بستر پر لیٹے آرام سے اس میں پیشاب کرنا ابو بھی تو استعمال کرتے تھے یہ بول کر زینب حسن کی طرف بڑھی اور اس کی قمیض کا پلو اٹھا کر اس کا نالا کھولنے لگی حسن لگاتار نا نا بولے جا رہا تھا باجی نہ کرو وہاں باتھروم میں ٹھیک ہے مجھے یہاں شرم آ رہیزینب حسن کی یہ بات سنتے ہی ہنسے لگی اور نالا کھولتے بولی اچھا جی اب میرے بھائی کو پھر شرم آ رہی وہاں بھی تو میں نے ہی کھولنا ہے اور سب دیکھنا ہے وہاں کونسا کچھ بدل جانا یہ بول کر زینب نے حسن کا نالا کھول کر شلوار نیچے کی جس سے حسن کا نیم تنا ہوا لن سامنے آ گیا حسن چپ ہو گیا اسے مزہ بھی آ رہا تھا ایک عجیب سی لذت تھی اپنی باجی کے سامنے لن نکال کر دکھانے کیزینب نے جیسے ہی حسن کا لن دیکھا اس کی تڑپ پھر سے جاگ اتھی پیشاب کرنے والا پاٹ کا آگے گول منہ بنا ہوا تھا جس میں لن ڈال کر پیشاب کی جاتی ہے حسن اپنا لن بائیں ہاتھ سے پکڑ کر اندر ڈالتا اس سے پہلے ہی زینب نے پکڑ کر لن کو اس پارٹ کہ منہ میں ڈال دیا حسن اپنے لن پر زینب کا ہاتھ محسوس کرتے ہی تڑپ اٹھا اس کی تو حالت خراب ہونے لگی زینب بھی حسن کا لن ہاتھ میں پکڑتے اس کہ جسم میں بجلی سی دوڑ گئی زینب لن کو وہیں پکڑے پاٹ کے اندر ڈالے کھڑی رہی اور لن پر اپنا ہاتھ نہ ہٹایا حسن کی تو حالت اب برداشت سے باہر تھی اس کا لن تننے لگا اور کچھ ہی سیکنڈ میں راڈ بن گیا حسن پیشاب کرنے لگا زینب نے بھی حسن کے لن کا تناؤ محسوس کر لیا آج پہلی بار وہ کسی مرد کا لن اپنے ہاتھ میں تنا رہی تھی ایسے معاملات میں خود پر قابو رکھنا نا ممکن ہو جاتا ہے زینب کی بھی کچھ ایسی حالت تھی اسے اپنے جسم میں ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے بجلی دوڑ رہی ہو اور نا چاہتے ہوۓ بھی وہ حسن کا لن آہستہ سے مسلنے لگی زینب اتنا مسل نہیں رہی تھی پر لن کو اپنے ہاتھوں میں دوبوچ رہی تھی جس سے حسن بھی اپنے آپے سے باہر ہو رہا تھا یہ چپ کا کھیل بہن بھائی میں پھر سے شروع ہو چکا تھا مگر وہ چپ رہنے کے ساتھ ساتھ کچھ زیادہ کر پانے سے بھی قاصر تھے حسن نے پیشاب کب کا کر لیا تھا مگر دونو اپنے اپنے مزے میں گم تھے تھوڑی دیر بعد جب زینب کو احساس ہوا تو اس نے حسن کا لن پاٹ سے نکالا اور اسے فرش پر رکھ کر حسن کی شلوار اوپر کر دی اور نالا باندھ دیا اور پھر وہ پشاب والا پاٹ اٹھا کر باہر چلی گئی زینب کا جسم ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے اس میں کسی نے آگ لگا دی ہو اس کا دل لن کو پکڑنے اور حسن کہ ساتھ مزے کرنے کو تڑپ رہا تھا مگر وہ کسی عجیب سے احساس سے بندھی تھی جو اسے ہمت نہیں دے رہا تھا اندر لیٹے حسن کی بھی حالت زینب سے مختلف نہ تھی زینب کچھ دیر بعد کمرے میں آکر بنا کچھ بولے لیٹ گئی دونو ایک دوسرے کہ مزے لینے اور ہمت اکھٹی کرتے لیٹے رہے مگر کچھ اور نہ کر پاۓ صبح حسن کو زینب نے جگایا حسن کی آنکھ کھلی تو زینب کا پاکیزہ مسکراتا چہرا اس کہ سامنے تھا زینب نے حسن کہ ماتھے پر چوما اور حسن سے حالت کا پوچھا حسن نے بھی ٹھیک ہوں باجی کہا اور زینب کچھ دیر حسن کہ پاس رکی اور پھر کچن میں آگئی حسن لیٹا رات کہ بارے سوچنے لگا کچھ دیر بعد زینب پھر آئی اور حسن کو کہا کہ اسے وہ باتھروم لے جاتی ہے حسن کو پاخانہ بھی جانا تھا جس وجہ سے اسے باتھروم جانا تھا وہ زینب کہ کندھے سے لگا باتھروم گیا اور زینب اسے وہاں بیٹھا کر اس کی شلوار اتارنے لگی حسن کو اب یہ سب اچھا لگنے لگا تھا زینب نے حسن کو ننگا کیا اور جب اس نے کر لیا تو اسے کمرے میں لے آئی دن یونہی گزرنے لگے اب حسن کافی حد تک بہتر ہو چکا تھا اور اپنی ٹانگ اور بازو کو ہلا لیتا تھا اور لکڑی کہ سہارے چل بھی لیتا تھا مگر پھر بھی وہ باتھروم زینب کہ ساتھ جاتا اور پیشاب بھی زینب سے کرواتا اور وہ پاٹ لے کر حسن کو کرواتی دونو اب اس سے ہی مزہ لیتے تھے حسن کا زینب کہ سامنے ننگا ہونا اب ایسے تھا جیسے نارمل سی بات ہو زینب بھی بنا شرماۓ حسن کو ننگا دیکھتی اس کا لن پکڑ کر پاٹ میں ڈالتی اور دونو اپنے دل میں کئی حسرتیں لیے ہمیشہ اس سے بڑھ نہ پاۓ حسن تقریبا ایک مہنہ بعد مکمل ٹھیک ہو گیا اور اس نے اب دوکان پر جانا بھی شروع کر دیا تھا حسن کے ان بیماری کے دنوں نے دونو کو بہت قریب کر دیا تھا جیسے حسن کا زینب کے سامنے ننگا ہونا اور زینب کا دیکھنا ایسے تھا جیسے یہ کوئی بڑی بات نہ کو یہی وجہ تھی کہ کبھی کھبار اب حسن زینب کہ سامنے بھی کپڑے چینج کر لیتا تھا دونو کا ایک کمرے میں سونا شروع ہو چکا تھا اور اب حسن کہ ٹھیک ہو جانے کہ باوجود بھی زینب اسی کہ کمرے میں سوتی تھی دونو کا ایک دوسرے کو گلے بھی لگا لینا ایک عام سی بات ہو چکی تھی اب حسن اور زینب اپنی اس دنیا میں بہت خوش تھے وہ ایک حد تک رہے ان کہ درمیان ابھی کچھ زیادہ نہ ہوا تھا مگر دونو اندر سے مطمئن سے تھے ایک دفعہ حاجی صاحب نے حسن کو شادی کرنے کا بھی کہا اور ایک رشتہ بھی ڈھونڈ کر دیا مگر حسن کہاں شادی کرنے والا تھا حسن کہ جسم کی بھوک ابھی بھی تھی مگر اب وہ باجی کے پیار میں ایسا ڈوب چکا تھا کہ اس سے سوا کسی عورت کو دیکھ کر اسے وہ مزہ نہ آتا
جاری ہے
0 Comments