ممنوع محبت
از عثمان خان
قسط نمبر 9
دوسرا اس کی جسمانی حوس اور بھوکھ تو بہن سے پوری ہو رہی تھی کم تھی مگر حسن کے لیے متمعن تھی حسن اور زینب کہ بیچ کچھ زیادہ غلط تو نہ ہوا مگر دونو میں ایک کشش آ گئی تھی اور دونو ایک دوسرے کہ پیار میں ہی خوش تھے دن گزرنے لگے زینب اور حسن کے درمیان بے تکلفی بھی بڑھنے لگی جسمانی چھیڑا چھاڑی پہلے ڈر اور شرما کے کی جاتی تھی مگر اب قدرے اتمنان سی کی جاتی جیسے ایسا کرنا ان دونو کا حق ہو حسن کا کام سے واپس آتے ہی زینب ما گلے لگ کر ملنا اور جاتے ہوۓ بھی حسن کو گلے لگا کر رخصت کرنا زینب کا حسن کہ سامنے بنا ڈوبٹے کہ گھومنا جو زینب پہلی بھی کرتی مگر اب زیادہ ہو چکا تھا حسن کہ سامنے جھکنا اور اسے اپنے جسم کہ نظارے کروانا دونو کا رات کو ایک کمرے میں سونا اور لیٹ رات اکھٹے ایک دوسرے کی باھوں میں بیٹھ کر باتیں کرنا اور جسم کے مزے لینا دونو اسی میں خوش تھے وہ دونو اس سے بڑھنا تو چاہتے تھے مگر اتنا سب ہونے کے باوجود بھی کچھ زیادہ کر پانے کی ہمت نہ ہوتی جس کی سب سے بڑی رکاوٹ شاید ان دونو کا زبان سے کوئی ایسا بات نہ کرنا تھی زینب اور حسن صرف جسم سے مزے لیتے مگر کبھی بھی بہن بھائی کہ درمیان کوئی ایسی ننگی گفتگو نہ ہوئی ایک دن زینب صبح اٹھی اور اس کی نظر سیدھا حسن پہ گئی جو اس کہ ساتھ والی چارپائی پہ سکون سے سو رہا تھا یہ زینب کا معمول تھا حسن کا لن تنا ہوا اس کی شلوار میں تمبو بناۓ کھڑا تھا اور اپنی بلندی اور لمبائی کی دہائی دے رہا تھا زینب کی حسن کہ تنے ہوئے لن پر نظر پڑی تو اس کہ بھی جزبات جاگ اٹھے یہ کوئی پہلی بار تو نہ تھا وہ تو حسن کا ننگا لن بھی دیکھ اور اسے چھو چکی تھی مگر زینب کو ہمیشہ اس لن سے کچھ خاص محبت رہی زینب حسن کا لن کچھ دیر پڑی دیکھتی رہی اور دل ہی دل میں اس لن کو پیار کرنے اور اس کے مزے لینے کہ خیالی پلاؤ بناتی رہی حسن تو اپنی نید میں گم سویا پڑا تھا کچھ دیر بعد زینب اٹھی اور حسن کی چارپائی کہ قریب جا کہ کھڑی ہو گئی اور اس لن کو تاڑنے لگی زینب کا خود پہ کنٹرول کھو رہی تھی اس کا دل کر رہا تھا وہ اپنے بھائی کہ لن کو پکڑ لے مگر ایسا کرنا ممکن نہ تھا پہلے اس نہ جب بھی لن کو پکڑا تب تو حسن کی بیماری کا بہانہ تھا مگر آج وہ اسے پکڑنے کو بری طرح ترس رہی تھی کچھ دیر حسن کہ لن کو دیکھنے کہ بعد زینب نے حسن کی قمر سے ہلایا اور اسے اٹھانے لگی حسن اٹھا اور اپنے سامنے باجی کا نورانی چہرا دیکھ کر مسکرایا مگر زینب کی آنکھیں کو کسی اور طرف تھی جب حسن نے زینب کی آنکھوں کا تعاقب کیا تو اسے پتا چلا کہ اس کا لن تو تن کہ راڈ بنا ہوا جو اس کی جوان بڑی بہن دیکھ رہی حسن تھوڑا شرمایا اور ساتھ پڑے کمبل کو اٹھا کر جلدی سے اپنے لن پہ ڈال دیا یہ دیکھ کر زینب مسکرائی اور بولی بڑی شرم آ رہی میرے بھائی کو جیسے اس کی بہن نے تو اسے دیکھا ہوا نہیں حسن زینب کی اس بات سے حیران سا ہوا کیونکہ پہلی بار زینب حسن سے اس طرح بات کر رہی تھی وہ کچھ بولتا اس سے پہلے ہی زینب بولی بھائی زور میں آپ کو جگاتی ہوں آپ اپنے اسی جوان کو کہہ دیا کریں آپ سے تو پہلے یہ جاگ جاتا اور ہنستے ہوۓ حسن کہ چہرے پر پیار سے ایک تھپڑ مارا حسن جو زینب کی ایک دم ایسی کھلی باتوں سے حیران تھا اور کچھ بولنے سے قاصر تھا بس ہنس دیا زینب نے پھر اسے کہا کہ چلو اب تیار ہو جاؤ میں ناشتہ بناتی ہوں حسن کچھ دیر بستر پہ لیٹے سوچنے لگا اور اسے بھی باجی کا یہ انداز اچھا لگا پھر وہ نہا دھو کر ناشتہ کر کے کام کو چلا گیا دکان کا سارا کام اب حسن کہ ذمہ ہوتا تھا تو شام کو ہی وہ لوٹتا تھا دکان سے جب وہ چھٹی کر کے شام کو آنے لگا تو حاجی صاحب نے اسے اپنے گھر کل کھانے کی دعوت دی حاجی صاحب کا داماد نوکری سے ریٹائرڈ ہو گیا تھا اور اب وہ دوبئی جا رہا تھا جس کی وجہ سے انہوں نے گھر پر ایک دعوت رکھی جس میں حسین اور زینب کو بھی آنے کا کہا حسن نے بھی حامی بھری اور گھر کو چل دیا گھر آتے ہی روز کہ جیسے زینب نے اسے گلے لگا کر خوش آمدید کہا یا ایسا کہہ لیں کہ اپنے مموں سےبھائی کی چھاتی کو چوما حسن بھی زینب کو گلے لگا کر بہت سکون محسوس کرنے لگا حسن اقر زینب ابھی بھی ایک دوسرے سے چپکے کھڑے تھے کہ حسن بولا باجی کل حاجی صاحب کہ گھر دعوت ہے اور ہمیں بھی بلایا ہے یہ سنتے ہیں زینب حسن سے الگ ہوئی اور خوشی کہ مارے بولی کیا سچ کہہ رہے ہو حسن نہ مسکرتے ہوۓ کہا جی باجی سچ کہہ رہا ہوں زینب خوشی کہ مارے پاگل ہو رہی تھی پہلی بار وہ کسی ایسی دعوت پہ جانے والی تھی پر حسن دعوت کس وجہ سے ہے باجی حاجی صاحب کے داماد دوبئی جا رہے ہیں اس لیے زینب: اچھا تو پھر تو اور لوگ بھی ہوں گے وہاں حسن:جی باجی لازمی بات ہے اور بھی دوست رشتے دار ہوں گے زینب اچھلتے ہوۓ ہاۓ کتنا مزہ آۓ گا حسن جو زینب کو یوں اچھلتے ہوۓ اس کہ مموں کی تھرتھراہٹ کو دیکھ رہا تھا بولا جی باجی بہت مزہ آئے کا اچھا اب آپ زیادہ مرت سوچو جا کہ کھانا لاؤ بہت بوکھ لگ رہی اور اپنے کمرے میں چلا گیا رات کو سونے سے پہلے دونو بہن بھائی بیٹھ کہ باتیں کرنے لگے حسن اپنی چارپائی پہ تھا اور زینب اپنی اور دونو باتیں کرنے لگے زینب: بھائی ویسے حاجی صاحب کتنے اچھے ہیں انہوں نے ہمارے لیے کتنا کچھ کیا اور اب بھی ہیمیں اپنوں کے جیسا رکھتے ہیں حسن: واقع باجی ایسے بہت کم لوگ ہیں جو بنا مطلب دوسروں کی مدد کرتے ہیں حاجی صاحب مجھے اپنا بیٹا کہتے ہیں اور مجھے تو اب واقع ان میں باپ ہی نظر آتا زینب: واقع بھائی بہت اچھے ہیں وہ مگر مجھے کل والی دعوت کے بارے سوچ کہ اب ڈر بھی لگ رہا حسن قدرے حیرانی سے کیوں باجی ڈر کیسا شام کو تو بہت خوش ہو رہی تھی آپ زینب: حسن خوش تو ہوں پر ڈر لگ رہا کہ وہاں سب امیر لوگ ہوں کہ ہم ان میں اچھے تھوڑی لگے گہ اتنی پیاری پیاری لڑکیاں ہوں گی اور مجھے وہاں بہت شرم آۓ گی حسن زینب کی بات سنتے ہی تھوڑا غصے کہ انداز میں بولاکیوں باجی شرم کیسی اور آپ سے پیاری کوئی لڑکی ہو ہی نہیں سکتی سب آپ کی جوتی کہ برابر بھی نہیں کبھی آپ نے خود کو دیکھا ہے کہ آپ کتنی پیاری ہیں حسن نان سٹاپ زینب کی تعریفوں میں بولے جا رہا تھا جس کو سن کہ زینب کو بھی بہت اچھا لگ رہا تھا زینب اب جان بوج کر خود میں خامیاں نکالنے لگی تاکہ حسن اس کی تعریفیں کرے جس کو سن کے اسے مزہ آ رہا تھا اور پہلی بار اسے اپنی تعریف سننے کو ملی تھی زینب:مگر حسن میرے پاس تو کپڑے بھی نہیں کوئی اچھے حسن: باجی صبح جا کر میں آپ کو نیا جوڑا لے دون گا زینب:اور اس کی سلائی ایک دن میں کون جن کریں گے حسن: نہیں باجی سلے سلائی لیں گے وہی پہں لینا آپ بہت اچھے لگے گے زینب:ہنستے ہوۓ بہت اچھے وہ کپڑے جیسے بنے ہوتے ہیں نا اس کہ اچھا ہے بندہ نہ پہنے سارا جسم تو اس میں ننگا ہوتا ہے حسن: تو باجی اب جو پہنتی ہیں وہ کون سے اچھے ہیں اتنے تنگ اور چھوٹے ہو گئے ہیں کہ ان میں سے بھی آپ کا جسم دیکھائی دیتا ہے حسن یہ بات انجانے میں بول گیا اور زینب یہ بات سن کر ایک دم چونگ گئی اور شرما کر دوسری طرف دیکھنے لگی حسن کو جب احساس ہوا کہ اس نے کیا بول دیا تبھی اپنی بات کی تشریح میں بولنے لگا نہیں باجی میرا مطلب تھا کہ یہ کپڑے پرانے ہو گئے ہیں ویسے بھی اب آپ کو نئے جوڑے لے لینے چاہیے زینب حسن کی بات کو خوب سمجھ گئی تھی اور اسے حسن کی یہ بات کسی تعریف سے کم نہ لگی اور پھر حسن کی جانب دیکھتے ہوۓ مسائل کی اور شرارتی انداز میں بولی نہیں نہیں اب سچ تو زباں پر آ گیا نہ شیطان بہت شیطان ہو حسن باجی کی بات سن کہ مسکریا اور شرمایا بھی زینب اب اسی کوشش میں تھی کہ حسن کہ ساتھ جسمانی حد میں آگے بڑھنے کا یہی راستہ ہے کہ وہ دونو زبانی بھی ایک دوسرے سے تھوڑے فری ہو جائیں اس لیے حسن کی ایسی باتوں کو وہ جان بوجھ کر بڑھاتی زینب:مگر بھائی بات کپڑوں کی نہیں ہے میں بہت موٹی کو گئی ہوں سب ہنسیں گے مجھ پہ حسن زینب کی بات سن کر ہنستے ہوۓ بولا اچھا باجی کہاں کہاں سے موٹی کو گئی ہو زرا مجھے بھی دیکھاؤ زینب حسن کی بات سن کر شرماتے اور مسکرتے بولی روز تو آنکھیں بھاڑ بھاڑ کہ دیکھتے کو اب زیادہ معصوم نہ بنو۔ زینب کی اس بات پہ حسن بھی شرمایا اور ہنسنے لگا لیکن باجی سچ بتاؤ تو آپ موٹی نہیں ہو بلکے آپ صحت مند ہو اور آپ کا جسم بہت پیارا ہے بہت زیادہ خوبصورت ہے آپ جسے خوبصورت جسم والی لڑکی میں نے آج تک نہیں دیکھی حسن کی ایسی کھلی تعریف سن کر زینب کو اچھا لگا اور اپنے جسم کے بارے تعریفیں سن کر زینب کے جسم میں بجلی سی دوڑنے لگی تبھی وہ اٹھی اور حسن کی چارپائی کی سائیڈ پہ جا بیٹھی اور مزاق میں حسن کا کان کھینچتے ہوۓ بولی شرم کرو شیطان اپنی ہی بڑی باجی کہ جسم کہ بارے بولے جا رہا حسن نے موقع کا فایدہ اٹھایا وہ بھی جان چکا تھا کہ زینب کو یہ سب اچھا لگ رہا اور وہ بھی باجی سے ایسی ننگی باتیں کر کے مزہ لے رہا تھا حسن بولا باجی اس میں میرا کیا قصور آپ ہیں ہی اتنی پیاری جس کو دیکھ کہ کوئی بھی پاگل ہو جائے زینب کو حسن کی ایسی تعریفیں کرنا مست کر رہا تھا تبھی مسکرتے ہوۓ بوکی ایسی کوئی بات نہیں بس تم کو مکھن لگا لو حسن نے زینب کو اپنی طرف مخاطب کیا اور آنکھو میں شرارت لیے زینب کہ مموں کو تارتے ہوۓ اشارہ کرتے بول باجی خود ہی دیکھ لو مکھن لگا رہا یا مکھن پہلے سے۔۔۔۔ اتنا کہہ کر وہ ہنسے لگا زینب نے حسن کی آنکھو کا اشارہ سمجھ کر جب اپنے تنے مموں کو دیکھا جو گلا بڑا ہونے کی وجہ سے اوپر سے اپھے خاصے دودھ کہ جیسے نظر آ رہے تھے تبھی زینب نے شرماتے ہوۓ اپنے ڈوبٹے کو اپنے ایک ساٹیڈ کہ ممے پہ سرسری سا ڈالا اور حسن کا پھر کان گھنچ کر ہنستے ہوئے بولی بے شرم باجی سے ایسی باتیں کرتے ہو شرم کرو اور حسن بھی ہنستے لگا دونو کو ایسی گندی باتیں بہت مزہ کر رہی تھی اس پہ پہلے ان دونو کہ بیچ جسمانی تو بہت حد تک ہو چکا تھا مگر اس طرح وہ اپس میں کبھی نہ بولے تھے زینب کچھ دیر حسن کہ پاس بیٹھی اور کل کی دعوت کے بارے باتیں کرتی رہی مگر دونو اندر سے گرم ہو چکے تھے زینب حسن کی سائیڈ پہ بیٹھے اپنی گانڈ حسن کی ران کے ساتھ لگائی بیٹھی تھی اور حسن بھی باجی کی نرم گانڈ کو اپنی ران پر محسوس کر رہا تھا اور ہلکا سا بار بار ران کو ہلا کر باجی کی گانڈ پر مسلتا زینب وہیں بیٹھے خود کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرنے لگی اور اپنے بستر پہ جا کہ سونے کا سوچنے لگی مگر اس یہ مزہ بھی چھوڑ نہیں رہا تھا کچھ دیر مزہ لینے کہ بعد جب زینب کو لگا کہ اس سے زیادہ وہ بہک جاۓ گی وہ مشکل سے اٹھی اور حسن کو بولا کہ اب وہ سو جاۓ حسن اس کی امید میں نہ تھا مگر کچھ نہ بولا زینب نے کمرے کی لائیٹ بند کی اور اپنی چارپائی پر جا کہ لیٹ گئیکمرے میں گپ اندھیرا تھا زینب اپنے بستر میں گھسے اپنے گرم جزبات کا ٹھنڈا کر دہی تھی مگر وہ کہاں ایسے ٹھنڈا ہونے والے تھے تبھی اس نے اپنا ایک ہاتھ اپنی پھدی پہ رکھ دیا اور بستر کے اندر ہلکا ہلکا سہلانے لگی حسن بھی اپنی چارپائی پہ لیٹا اپنے کھڑے لن کو اپنے ہاتھ میں لیے ہوۓ تھا حسن نے کئی دن سے مٹھ نہیں ماری تھی اس کہ جزبات بے قابو تھے اور اب بھی اس کا مٹھ مارنے کو دل نہ تھا اس کا دل بار بار اسے کہہ رہا تھا کہ اس کہ لن کی پیاس اس کہ ساتھ کچھ ہی فاصلے پر پڑی ہے اس کا دل کر رہا تھا کہ وہ ابھی باجی کہ پاس جاۓ اور باجی کہ جسم کا ایک ایک حصہ چومے چاٹے اور وہ سب کچھ کرے جس کے لیے وہ ترس رہا مگر ایسا کرنے کی ہمت پیدا کرنا مشکل فھا دونو بہن بھائی دل میں لیے آگ اپنے اپنے بستر پر تھے مگر کسی میں ہمت نہیں ہو رہی تھی حسن باجی کو اپنے خیالوں میں چومنے اور چاٹنے لگا اور اپنے لن کی بستر میں چپ کر مٹھ لگانے لگا اور زینب بھی اپنے جذبات کو ٹھنڈا کرنے لگی اور اپنی پھدی کو سہلانے لگی کچھ دیر بعد دونو کا پانی نکل گیا مگر دونو اب بھی اندر سے مطمئن نہ تھے اور پھر سو گئے اگلی صبح زینب اور حسن کہ لیے پہلے کہ جیسے نارمل تھی زینب نے حسن کو اٹھایا ناشتہ کیا اور پھر جاتے ہوۓ حسن نے زینب کو کہا کہ وہ دوپہر کو چھٹی کر کے آئے گا تب وہ دونو کپڑے لینے جائیں گے زینب نے بھائی کو گلے لگا کر رخصت کیا اور وہ بھی اپنے کام میں لگ گئی
جاری ہے
0 Comments