ads

Mamno Muhabbat - Episode 10

ممنوع محبت 

از عثمان خان

قسط نمبر 10




دوپہر کو حسن حاجج صاحب سے چھٹی لے کر گھر آگیا اور حاجی صاحب نے بھی خوشی خوشی اسے جانے کا کہا گھر آ کر حسن کو ہمیشہ کی طرح اس کی باجی نے گلے لگا کر استقبال کیا حسن:چلو باجی تیار ہو جاؤ کپڑے لینے چلتے ہیں زینب:حسن تم کھانا کھا لو پھر چلتے ہیں میں بس تیار ہوں حسن: نہیں باجی آج باہر سے کھا لیں گے کچھ بس اپ چلو زینب: اچھا بابا رکو میں ڈوبٹا تو کر لوں یہ بول کر زینب کمرے میں آئی اور ایک بڑی شال جو ہمیشہ وہ باہر کر کے جاتی تھی کی اور کمرے کہ دروازے بند کر کے آئی حسن اور زینب باہر نکلے اور بازار کی طرف چلنے لگے بازار کوئی 10 منٹ کی دوری پر تھا دونو باتیں کرتے بازار پونچے تو حسن ایک بوتیک ٹائپ دوکان میں گیا وہاں سلے سلائے سوٹ لٹکے ہوۓ تھے زینب اور حسن دونو دیکھنے لگے حسن:باجی آپ پسند کرو کونسا سوٹ لو گی زینب:حسن یہ تو سارے بہت پیارے ہیں مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آ رہا حسن نے ہنستے ہوۓ کہا باجی سارے لے لو پر پیسے آپ خود دینا پھر زینب بھی حسن کی بات سن کر مسکرائی اور بولی میں تمھیں ادھر ہی چھوڑ جاؤ گی کہ میرے نکمے بھائی کو رکھ لو اور مجھے یہ سارے سوٹ دے دو حسن:نکما نہیں ہوں باجی بس آپ کو اپنی چھوٹے بھائی کی قدر نہیں ہے زینب منہ چڑھاتے ہوۓ بولی ہاں ہاں بس اب اپنے منہ میاں مٹھو بن لو ایسے باتیں کرتے زینب نے دو سوٹ پسند کیے ایک گلابی رنگ کا تھا اور ایک کالے رنگ کی قمیض اور سفید شلوار میں تھا حسن:باجی جاؤ اور ڈریسنگ روم میں جا کہ چیک کر لو پورے ہیں زینب:نا بابا نا میں یہاں کوئی چیک نہیں کرنے والی بس ٹھیک ہیں مجھے اندازا ہے مگر باجی ایسے کیسے چھوٹے یا بڑے ہو گئے تو کچھ نہیں ہوتا مگر میں یہاں چینج نہیں کرنے والی حسن کی بار بار کہنے کے باوجود بھی زینب اپنی بات پہ اٹی رہی اور پھر وہ دونو سوٹ لے کر اگلی دکان میں چلے گئے زینب نے کچھ کاسمیٹک کا سامان لیا اور پھر دونو وہاں سے بھی نکل آۓ حسن:باجی اور کیا لینا ہے زینب: اور تو کچھ نہیں بس تقریباً یہی تھا زینب کو انڈر گارمنٹس یعنی اپنا بریزئیر بھی لینا تھا اتنا عرصہ ہو جانے کی وجہ سے اس کے پاس صرف دو ہی تھی باقی کچھ پرانے کو چکے تھے اور مموں کا سائز بڑھ جانے کی وجہ سے چھوٹے ہو گئے تھے مگر حسن کو یہ بات کہنے میں تھوڑی شرما رہی تھی حسن:تو چلو باجی پھر کچھ کھا لیتے ہیں اور وہ ایک ہوٹل میں بیٹھ کر کھانا کھانے لگے کھانے سے فارغ ہو کر جب گھر کو چلنے لگی تبھی زینب نے ہمت کر کے بولا کہ بھائی ابھی کچھ لینا ہے حسن: اب اچانک کیا یاد اگیا باجی زینب:وہ ۔۔۔مجھے۔۔۔۔ حسن:جی باجی بولو کیا زینب:حسن وہ عورتوں کے اندر والے جو کپڑے ہوتے۔۔۔۔ حسن: او اچھا اچھا اور مسکرانے لگا زینب:ہنس کیوں رہے حسن: نہیں نہیں باجی ہنس تو نہیں رہا میں تو بس ویسے سوچ رہا تھا کہ آپ اتنا ڈر کیوں رہی اور شرما شرما کہ بول رہی زینب: ہاں تو میں کوئی تم جیسی بے شرم ہوں حسن:ہاہاہا باجی یہ بے شرم بھائی قسمت والو کو ملتا ہے زینب:اچھا اچھا تمھیں تو بس باتیں ہی بنانا آتی ہیں چلو اب دونو ایک دوکان میں جاتے ہیں اور پردے کی دوسری طرف بیٹھ جاتے ہیں زینب اور حسن ایک دن میں بہت زیادہ فری ہو چکے تھے یہی وجہ تھی کہ اب دونو ایک دوسرے کو بنا شرماۓ کچھ بھی بول دیتے تھے حسن نے بیٹھتے ہی دکان پہ کھڑے لڑکے کو کہا کہ وہ بریزیئر دیکھا دے جس پر لڑکے نہ پوچھا بھائی کس سائیز میں اور حسن فوراً بولا 36 یہ سن کر لڑکا بریزیئر نکلنے لگا اور زینب حیران آنکھوں سے حسن کو دیکھنے لگی حسن: کیا ہوا باجی ایسی کھا جانے والی نظروں سے کیوں دیکھ رہی زینب:تم سے بڑا شیطان کوئی نہیں ہے زرا گھر چلو تمھیں بتاتی ہوں اور مسکرنے لگی کچھ دیر بعد لڑکے نے ان کہ سامنے بہت سے بریزئیر رکھ دیے زینب اٹھا کر دیکھنے لگی اور حسن بھی اٹھا کہ دیکھنے لگا اور آنکھوں آنکھوں میں زینب کو اشارے کر کے مسکرانے لگا زینب نے کالے اور جسمانی رنگ کے تیں بریزیر لیے دونو بہن بھائی پھر وہاں سے بھی نکلے اور گھر کی طرف چل پڑے راستے میں دونو بہن بھائی باتیں کیے جا رہے تھے عصر کا ٹائم ہو چکا تھا گھر پہنچ کر حسن فریش ہوا اور بستر پر بیٹھ گیا زینب بھی حسین کہ پاس بیٹھی اپنے کپڑے دیکھنے لگی اور حسن سے باتیں کرنے لگی تبھی حسن نے کہا باجی آپ نے تو سوٹ پہن کہ دیکھا بھی نہیں ابھی پہن کہ چیک کر لو کچھ پرابلم ہوا تو چینج کروا لے گے زینب:او ہاں سچ رکو میں چینج کر کے آتی ہوں زینب دوسرے کمرے میں جاتی ہے اور حسن انتظار میں بیٹھا ہوتا ہے کہ کب زینب کپڑے چینج کر کے آۓ اور وہ اسے دیکھے کچھ ہی دیر بعد زینب کمرے میں آتی ہے اور بولتی ہے کسی لگ رہی حسن اس کی طرف دیکھتا ہے اور پھر اس کی آنکھیں وہیں تھم جاتی ہیں زینب نے کالے رنگ کا سوٹ پہنا ہوا تھا اور سفید شلوار زینب کا اندازا کچھ شاید غلط ہوا تھا کپڑے بہت فٹ تھے زینب پہ حسن زینب کو منہ کھولے گھورے جا رہا تھا اسے اتنی امید نہ تھی کہ زینب اتنی زیادہ پیاری لگے گی زینب کا گول مٹول بھرا ہوا سفید چہرا اس کے نیچے نظر آتا اس کہ مموں کا ابھار حسن تو دیکھ کر پاگل سا ہو گیا زینب کی شلوار بہت تنگ تھی جس میں اس کی موٹی گانڈ اور زیادہ ابھر کر اپنا جوبن دیکھا رہی تھی زینب:کچھ بولو بھی اب صرف تاڑتے ہی رہو گے حسن:باجی بہت بہت زیادہ پیاری لگ رہی ہو زینب بھی اپنی تعریف اور حسن کا یوں پاگلوں کی طرح دیکھنے سے اور زیادہ خوش ہو گئی اور پھر بولی اب میں دوسرا جوڑا پہن کر آتی ہوں حسن تو اس جوڑے میں اپنی باجی کہ خوبصورت جسم کو دیکھ کر بہک چکا تھا اب اور کیا دیکھتا کچھ دیر بعد زینب پھر کمرے میں آئی حسن اپنی نظریں پہلے سے دروازے پر جمائے بیٹھا تھا کہ یہی سے اس کی حور آۓ گی اب کی بار زینب نے گلابی رنگ کا سوٹ پہنا ہوا تھا یہ بھی اس پر قیامت لگ رہا تھا مگر اس کالے سوٹ سے قدرے کم تھا زینب:حسن یہ کیسا لگ رہا حسن تو باجی کو دیکھ دیکھ بہکا جا رہا تھا اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے باجی اس کے سامنے تیار ہو ہو کر اپنے جسم کی نمائش کر رہی اس کا دل تو بہن کہ جسم کے ایک ایک حصے کی تعریف کرنے کا کر رہا تھا مگر کچھ زیادہ نہیں بول سکتا تھا باجی بہت زیادہ پیارا لگ رہا تم تو شہزادی لگ رہی زینب: شرماتے ہوۓ سچ بتاؤ حسن ایسے جھوٹی تعریف تو نہیں کر رہے حسن:نہیں نہیں باجی آپ سچ میں بہت پیاری لگ رہی ہیں زینب اپنی تعریف سن کر اندر سے مچل سی گئی اچھا اب یہ بتاؤ کہ آج کونسا والا سوٹ پہن کر جاؤ کونسا زیادہ پیارا لگا حسن:باجی کالے رنگ والا بہت زیادہ پیارا لگا آپ پہ زینب:ٹھیک ہے وہی پہن کہ آؤ گی حسن اپنی باجی کو پاگلوں کی طرح دیکھے جا رہا تھا اس کے جزبات بھڑک اٹھے تھے زینب اس سے پہلے سادہ کپڑے پہنا کرتی تھی آج پہلی بار فیشن کپڑے پہنے دیکھ کر حسن کا تو حال برا ہو گیا حسن اپنے خیالوں میں ہی باجی کو چومنے لگا اس کا دل کر رہا تھا وہ اٹھے اور یہیں باجی کو پکڑ کر اس کہ جسم کہ ایک ایک انگ کو پیار کرے حسن اپنی سوچوں میں گم تھا اور زینب واپس دوسرے کمرے میں چلی گئی تبھی حسن کو خیال آیا کہ شام ہونے والی ہے وہ جا کے رکشہ لے آۓ کیونکہ حاجی صاحب کا گھر حسن کہ گھر سے تھوڑا دور تھا حسن بستر سے تھا اور ساتھ کمرے کی طرف گیا کہ وہ زینب کو تیار ہونے کا کہہ کر رکشہ لینے چلا جاۓ گا کمرے میں داخل ہوتے ہی حسن کی نظر سامنے پڑی تو ایک دم چونگ گیا اور اس کے جزبات جو پہلے سے بھڑکے ہوۓ تھے اور بھڑک گئے زینب سامنے گھڑی کپڑے چینج کر رہی تھی زینب نے شلوار پہنی ہوئی تھی اور بریزیئر بھی مگر اس نے قمیص ابھی نہیں پہنی تھی زینب کا منہ دوسری طرف تھا حسن کو صرف زینب کی ننگی قمر نظر آ رہی تھی اس سے پہلے حسن پیچھے مڑتا زینب اس کی طرف مڑی اور حسن کو یوں کھڑا دیکھ کر وہیں رک گئی زینب ابھی اسی حالت میں تھی اس کہ برایزیر میں چھپے مموں کا ابھار دیکھ کر حسن کی حالت تو اور زیادہ مچل اٹھی وہ نہ چاہتے ہوۓ بھی زینب کہ مموں کو دیکھے جا رہا تھا زینب نے بنا شرماۓ یا اپنے جسم کو چھپاۓ بڑے نارمل انداز سے پوچھا کیا ہوا حسن حسن: وہ باجی میں کہنے آیا تھا کہ میں رکشہ لینے جا رہا آپ تیار ہو جانا زینب جو حسن کہ سامنے اپنی باہیں اوپر کیسے قمیض پہن رہی تھی رکی اور ہنس کر بولی پہلے بتا دیتے نا کہ ٹائم ہونے والا میں کپڑے تو چینج نہ کرتی حسن کچھ نہ بولا بلکے وہ تو حیران تھا کہ اس کی باجی بنا کوئی شرماۓ اس کہ سامنے بڑے تحمل سے کپڑے چینج کر رہی زینب نے قمیض پہنتے اتر دی اور اس دوسری قمیض اٹھا کر پہنتے ہوۓ بولی تھیک ہے بھائی آپ رکشہ لے آؤ میں تیار ہو جاتی ہوں حسن کادل تو نہیں کر رہا تھا اس منظر کو چھوڑ کر جانے کا مگر وہ بیچھے مڑا اور گھر سے باہر آ گیا حسن کہ دماغ میں اب یہی چلنے لگا حسن جانتا تو تھا کہ زینب کا بھی دل حسن کہ لیے ہے اور اسی لیے باجی نے کپڑے چینج کرتے ہوۓ کچھ چھپایا نہ ان کہ درمیان اس سے پہلے بہت کچھ ہو بھی چکا تھا مگر آج کا یہ ایک اور قدم تھا جو دونو کو اور زیادہ قریب لے آیا حسن کی آنکھوں میں باجی کا وہ دودھ کہ جیسا ننگا جسم گھومنے لگا اور وہ انہی سوچوں میں گم رکشہ لینے گلی کہ نکڑ کی طرف بڑھنے لگا زینب بھی گھر میں بیٹھی یہی سوچ رہی تھی حسن کہ سامنے اپنا۔جسم نہ چھپانا زینب کی ہی ایک چال تھی کیوں کہ وہ بھی حسن کو اپنا جسم دیکھا کر اس کی تعریفیں بٹورنا چاہتی تھی اور حسن کہ قریب ہونا چاہتی تھی دونو بہن بھائی اپنی حد جو بہت پہلے کراس کر چکے تھے اور ایسے واقعات ان دونو کہ درمیان اور بے تکلفی پیدا کر رہے تھے وہ ایک ایک قدم کر کے ایک دوسرے میں بستے جا رہے تھے کچھ ہی دیر بعد اندھیرا چھا گیا شام ہو چکی تھی حسن بھی بازار سے رکشہ لے آیا اور اسے باہر انتظار کرنے کا بول کر گھر آ گیا سامنے زینب تیار کھڑی کسی حور سے کم نہ لگ رہی تھی حسن دیکھتے ہیں حیران سا ہو گیا زینب باجی کا نورانی چہرا کالی قمیض میں ایسے لگ رہا تھا جیسے رات میں چاند ہو زینب کہ ابھرے ممے اپنا پورا جوبن دیکھا رہے تھے باجی رکشہ آگیا ہے میں بس کپڑے چینج کر لوں آپ کمروں کو تالے لگاؤ یہ بول کر حسن کمرے میں آ گیا اور کپڑے چینج کرنے لگا زینب نے اپنے کمرے کو تالا لگایا اور حسن کہ کمرے میں آگئی حسن نے صرف قمیض پہنی ہوئی تھی اور شلوار اتار کر دوسری پہن رہا تھا حسن کا لن وغیرہ نظر تو نہیں آ رہا تھا مگر پھر بھی زینب سامنے کھڑی کو گئی اور حسن کو دیکھنے لگی حسن اور زینب کہ درمیان اب کافی حد تک بےتکلفی بڑھ چکی تھی اور دونو اب ایک دوسرے سے بنا شرماۓ کپڑے چینج کر لیتے خاص طور پر حسن حسن نے کپڑے چینج کیے اور دوںو گھر کو تالا لگا کر رکشہ میں بیٹھے اور حاجی صاحب کہ گھر کی طرف چل پڑے زینب: حسن مجھے تو عجیب سا لگ رہا پتا نہیں کتنے لوگ ہوں گے اور وہاں سب کو ہم جانتے بھی نہیںحسن: باجی اپ تو ایسے ڈر رہی جیسے کوئی قتل کرنے جا رہے نارمل رہو کچھ نہیں ہوتا باتیں کرتے کوئی 20 منٹ کے سفر کہ بعد آخر کار وہ حاجی صاحب کہ گھر پہنچ گئے دروازہ کھٹکھٹایا تو حاجی صاحب خود آۓ حسن اور زینب کو دیکھ کر خوش ہوۓ اور ان کو اندر لے گئے اندر تو جیسے پوری بارات آئی ہوئی ہو اچھے خاصے مرد اور عورتیں موجود تھی حاجی صاحب نے حسن اور زینب کا تعارف سب سے کروایا اور زینب بھی سب عورتوں سے ملنے لگی حاجی صاحب کی بیٹی خدیجہ جو کہ تقریباً 30 سال کی ایک لڑکی تھی لڑکی اس لیے کہ اس کو دیکھ کر لگتا بھی نہیں تھا کہ اس کہ دو بچے ہوں گے حسن پہلی بار خدیجہ کو دیکھ رہا تھا سب سے لنے کہ بعد ہی کھانا لگ گیا سور سب نے مل کر کھایا موسم تھوڑا خراب ہونے لگا تھا اس وجہ سے حاجی صاحب کہ کچھ دوست اور رشتے دار کھانا کھاتے ہی جانے لگے تقریباً رات کہ 10 بجے تک سب چلے گئے صرف حسن اور زینب وہاں موجود تھے حسن اور زینب بھی شاید جلدی آ جاتے مگر زینب خدیجہ کہ ساتھ کام کروانے لگی جس کی وجہ سے لیٹ ہو گئے جب سب کام ختم ہوا اور وہ دونو آنے لگے تو بارش شروع ہو گئی حاجی صاحب نے ان کو کچھ دیر انتظار کرنے کا کہا تا کہ بارش رک جاۓ مگر بہت دیر انتظار کہ بعد بھی بارش رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی تبھی حاجی صاحب نے حسن کو کہا کہ آج رات وہ یہی رک جائیں اس ٹائم رکشہ ملنا بھی مشکل ہر اور بارش میں بھیگ جاؤ گے صبح چکے جانا حسن اور زینب کا دل تو نہ تھا مگر وہ مجبور تھے سو مان گئے حاجی صاحب کہ گھر ٹوٹل تیں کمرے تھے ایک میں حاجی صاحب ایک میں ان کا داماد اور بیٹی سو گئے اور ایک کمرا حسن اور زینب کو دے دیا اس کمرے میں ایک ہی پلنگ تھا سگے بہن بھائی ہونے کی وجہ سے حاجی صاحب نے زینب اور حسن کو ایک ہی پلنگ پر سونے کا کہہ دیا حسن اور زینب دونو اکھٹے لیٹ گئے اور سونے لگے کمرے میں اندھیرا تھا باہر بارش اور سخت سردی دونو بہن بھائی اکھٹے ایک پلنگ پر لیٹے ہوۓ تھے زینب: حسن گھر کی یاد آ رہی مجھے تو نئی جگہ پہ نید بھی نہیں آتیحسن: باجی میرا خود کا یہی مسلہ ہے مگر کیا کرتے مجبوری تھی زینب بنا کچھ بولے چپ ہو گئی حسن سمجھ گیا کہ زینب کو یہاں رہنا پسند نہیں آیا اور وہ گھر کو یاد کر رہی زینب: یہاں تو لگتا ہے سردی بھی کچھ زیادہ ہی ہے حسن باجی کہ قریب ہو گیا دونو کے بازو آپس میں ملے ہوۓ تھے اور بولا باجی واقع سردی زیادہ ہے تبھی زینب نے کروٹ لی اور حسن کی جانب منہ کر کے اس کی سائیڈ سے چپک گئی حسن کچھ نہ بولا اور باجی کہ اس لمس کو پا کر اس کے جزبات جاگ اٹھے زینب: حسن باجی خدیجہ کتنی اچھی ہیں نہ پتا ہے انہوں نے میری بڑی تعریفیں کی اور آج پہلی بار ملی ان سے اور یوں لگ رہا جیسے پہلے کہ جانتے ہوںحسن: واقع بہت اچھی ہیں باجی خدیجہ زینب اچانک شرارتی انداز میں بولی زیادہ اچھی اچھی نہ کرو ادھر تمھاری دال نہیں گلنے والی وہ شادی شدہ ہیں حسن باجی کی بات سن کر مسکرایا اور ایک دم اس کہ منہ سے نکلا باجی آپ تو شادی شدہ نہیں ہیں زینب حسن کی یہ بات سن کر بولی ہیں کیا مطلب ہے تمھارا حسن نہیں نہیں کچھ بھی نہیں بول کر ہنس پڑا زینب نے حسن کے باڑو پر چٹکی کاٹی اور ہنستے ہوۓ بولی شیطان مجھے سب پتا ہے تمھارا اچھا کیا پتا ہے باجی زینب: یہی کہ تم اپنی دال کہیں مجھ پہ تو نہیں گالنا چا رہے اور یہ بول کر ہنسنے لگی حسن باجی کی ایک دم اس بات سے تھوڑا شرما سا گیا اور حیران بھی کہ باجی نے آج بات اپنی زبان پر لا ہی دی حسن اور زینب یونہی باتیں کرتے ایک دوسرے کہ قریب ہوتے جا رہے تھے اب کی بار زینب نے اپنی ایک ٹانگ حسن کی ٹانگوں پر رکھ دی تھی اور اس کی ٹانگ حسن کہ کھڑے لن کو لگنے لگی زینب بھی اندر سے گرم ہو چکی تھی اور حسن کہ جسم سے لپٹنے اور لن کا احساس اپنی ٹانگوں پر محسوس کر کے حسوس اور مزے کی دنیا میں قدم رکھ چکی تھی حسن کی بھی حالت پیاسے کہ جیسی تھی اور وہ بھی اپنے لن پر باجی کی لگتی نرم ران کا لمس پا کر لزت کی وادیوں میں کھو رہا تھا ہمیشہ کہ جیسے دونو کا جسمانی کھیل شروع ہو چکا تھا اور دونو اب خاموش اس کھیل کو کھیلنے لگے زینب اب اور حسن کہ قریب ہوئی اور اپنا سر حسن کی چھاتی پر رکھ دیا اس کے نرم گرم مموں کا احساس حسن کو اپنی چھاتی پر محسوس ہونے لگا زینب کی ایک ٹانگ اب پوری حسن کہ اوپر تھی جو اس کہ لن کو اپنے نیچے دبائی ہوئی تھی اور اپنی پھدی کو حسن کی سائیڈ سے چپکا کر ہلکا مسل رہی تھی دونو اب مستی کی اس حد کو پہنچ چکے تھے جہاں صبر کی ہر حد ٹوٹ جاتی ہے دونو اب اپنے رشتے کو بھول کر ایک دوسرے کہ جسم کہ مزے لینے لگے حسن نے اپنا ہاتھ زینب کی قمر پر رکھا ہوا تھا اور اسے سہلانے لگا زینب کی تیز سانیس حسن کے چہرے پر پڑنے لگیحسن نے اب اپنا دوسرا ہاتھ بھی زینب کے گرد لپیٹ لیا اور اسے اپنی ہاہوں میں لے لیا زینب حسن سے ایسے چپک گئی جیسے حسن کہ اندر ہی سما جاۓ کچھ دیر یونہی دونو ایک دوسرے سے چپکے جسم کے لمس کا مزہ لیتے رہے مگر حسن کا اب خود پہ کنٹرول نہیں رہا تھا اس کا ہاتھ خود باخود آہستہ آہستہ باجی زینب کی گانڈ کی طرف بڑھنے لگا جسے زینب محسوس کر رہی تھی مگر مستی اور لزت کے نشے میں وہ بھی اتنی دہت ہو چکی تھی کہ حسن کا ایسا کرنے اسے مزہ دے رہا تھا اس لمحے دوبارہ دونو بہن بھائی کے سگے خون کہ رشتے کو بھولے ایک دوسرے کہ جسم سے چپکے لزت لے رہے تھے حسن نے پہلے اپنا ہاتھ زینب کی گانڈ کے اوپر دکھا اور آہستہ آہستہ دباتے اور سہلانے لگا زینب بھی حسن کی اس حرکت پر مست ہو کر اس کے ساتھ اور چپک گئی اس کی سانسیں تیز چلنے لگی اور اپنی پھدی کو حسن کی سائیڈ سے اور زور سے چپکا کر مسلنے لگی حسن بھی باجی کہ اس گرین سگنل کو سمجھ گیا اور اس میں ہمت آئی حسن نے اپنا ہاتھ باجی کی گانڈ کی طرف آہستہ آہستہ بڑھایا اور باجی کی گانڈ کی ایک سائیڈ پر رکھ کر پیار سے سہلانے لگا حسن کا ہاتھ گانڈ پر لگتے ہی زینب کی منہ سے ایک مست ہچکی نکلی اور اس نے اپنے ہاتھوں سے حسن جو اور زیادہ دبوچ لیا حسن کا لن تن کر راڈ کے جیسا بنا ہوا زینب کی ران کہ بیچے سے ہی ہچکولے کے رہا تھا جسے زینب اپنی ران سے سہلا رہی تھی حسن کا ہاتھ اب بنا ڈرے چلنے لگا اور اس نے باجی کی موٹی گانڈ کہ درمیان بنی لکیر میں ڈالا کر باجی زینب کی گانڈ کا سراج دبانے لگا زینب تو اب مستی میں پاگل ہو رہی تھی اور حسن کی باجی کی گانڈ کا لمس پا کر اپنے ہوش کھو چکا تھا حسن نے باجی کی گانڈ کو سہلاتے ان کہ چہرے پر چوما حسن باجی کہ پیار میں کھو چکا تھا زینب نے حسن کا یوں چومتے اس کی آنکھوں میں دیکھا اور پھر کچھ دیر رکنے کہ باد حسن کے ہونٹوں کو پاگلوں کی طرح چومنے اور چوسنے لگی حسن بھی بے تحاشا باجی کو چومے جا رہا تھا اس کا ایک ہاتھ باجی کی گانڈ کو مسلنے اور دوسرا ہاتھ زینب کے گول مڈول مموں کو دبانے میں مصروف تھا اب دونو کے درمیان بس ہوس تھی جس میں ڈوبے دونو ہر حد پار کر رہے تھے زینب نے بھی ایک دم حسن کا تنا ہوا لن اپنے ہاتھ میں دبوچا اور مسلنے لگی حسن کو ایسے محسوس ہوا جیسے باجی نے اس کا دل دبوچ لیا ہو حسن زینب کے مموں اور گانڈ کو بری طرح مسلے جا رہا تھا اور زینب بھی حسن کا لن پکڑے اپنی آگ اس پے برسا رہی تھی مستی کی جب انتہا ہو تو زیادہ دیر رک پانا مشکل ہوتا ہے حسن اور زینب کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا اور وہ دونو کچھ ہی دیر میں اپنا پانی نکال چکے باجی نہ حسن کہ لن کو ویسے ہی باتھ میں پکڑے رکھا اور حسن نے بھی باجی کی گانڈ سے ہاتھ نہ ہٹایا دونو ایک دوسرے کو ویسے ہی چپکے رہے اور بنا کچھ بولے پڑے رہے حسن آج بہت سکون میں تھا اپنی باجی کہ جسم کے مزے لینے کہ بعد اور پانی نکال لینے کے بعد بھی اسے اپنا آپ پیاسا محسوس ہو رہا تھا اور زینب کا بھی ویسا ہی حال تھا کچھ دیر ایسے ہی لیٹا رہنے کہ بعد حسن کا ہاتھ پھر سے باجی کی گانڈ پر چلنے لگا اور حسن باجی کی گانڈ کو سہلانے لگا زینب کا ہاتھ ابھی بھی حسن کہ لن پر تھا اتنا سب کچھ ہونے کہ بعد بھی دونو بہن بھائی زیادہ کھل نہیں رہے تھے اور دوسرا وہ اپنے گھر پہ بھی نہ تھے شاید اسی وجہ سے دونو کچھ زیادہ نہیں کر پا رہے تھے حسن باجی کی گانڈ سہلاتے اپنی ایک انگلی باجی کی گانڈ کہ سوراخ کے اوپر رکھ کر دبائی انگلی زیادہ اندر نہ گئی مگر زینب ایک دم تڑپ سی گئ اور اس کہ منہ سے ااہ۔۔۔ نکلا زینب کی ایسی مست سسکیاں حسن کو مدہوش کرنے لگی زینب نے اپنے ایک ہاتھ سے حسن کا ہاتھ پکڑ کر روکا شاہد یہ زینب کا اشارہ تھا کہ اوپر سے مزے لو حسن بھی سمجھ گیا اور جو مزہ اس کو مل رہا تھا اسی کو غنیمت جان کر پھر سے گانڈ کو اوپر اوپر سے سہلانے لگا حسن لن دوسری بار پھر تن کر پورا کھڑا ہو چکا تھا 





جاری ہے

Post a Comment

0 Comments