ads

Mamno Muhabbat - Episode 11

ممنوع محبت 

از عثمان خان 

قسط نمبر 11



حسن کا دل باجی کہ ساتھ بہت کچھ کرنے کو کر رہا تھا مگر باجی کا ڈر بھی تھا کہ کہیں وہ حسن کا حد سے گزرنا برا نہ مان جائیں تبھی وہ اپنی دل کی آگ کو دل میں چھپائے جو مل رہا تھا اسی کہ مزے لے رہا تھا زینب کا دل بھی اندر سے مچل رہا تھااور وہ بھی سب کچھ کرنا چاہتی تھی مگر وہ حاجی صاحب کہ گھر پہ ہونے کی وجہ سے زیادہ ڈر بھی رہی تھی ایک عجیب سا ڈر جو اسے کچھ زیادہ کرنے سے روک رہا تھا دوسری بار پھر زینب کے ہاتھ میں حسن کا لن پانی چھوڑ چکا تھا مگر حسن اندر سے خوش نہ تھا اس کہ دل میں چھپی بہت سی خواہشات ابھی دوسری رہ گئی تھی دونو ایسے ہی ایک دوسرے کہ گلے لگے سو گئے صبح حسن ااٹھا تو زینب اس کی باہوں میں نہ تھی وہ کروٹ بدلے سو رہی تھی اس کی گانڈ حسن کی جانب تھی گانڈ دیکھتے ہی حسن کا لن سر اٹھا کر کھڑا ہو گیا حسن کا دل کر رہا تھا کہ وہ باجی کی گانڈ کو چوم لے مگر ایسا کرنا باجی کو برا لگ سکتا تھا سو اس نے صرف دیکھنا ہی بہتر سمجھا کچھ ہی دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی خدیجہ دونو کو جگانے آئی ناشتہ کرتے ہوۓ حاجی صاحب نے حسن کو کہا کہ زینب کو یہی چھوڑ کر تم دکان پر چلے جاؤ اور پھر دوپہر کو چھٹی کر کے آ جانا تو زینب کو بھی یہاں سے کے جانا حسن بھی مان گیا اور زینب کو وہیں چھوڑ کر دکان پر چلا گیا سارا دن رات کا مزہ حسن کو یاد آتا رہا اور اب وہ انتظار میں تھا کہ کب دوبار رات ہو اور وہ زینب کہ مزے لے دل ہی دل میں حسن نے ٹھان لیا کہ اب کی بار وہ زینب سے سب کچھ کرے گا اور کپڑے اتار کر اپنی بڑی باجی کے جسم کے کھل کر مزے لے گا دوپہر کو جب حاجی صاحب دکان پر آۓ تو حسن گھر کہ لیے نکل پڑا راستے میں رکشہ لیا اور حاجی صاحب کہ گھر سے زینب کو لے کر اپنے گھر چل پڑا راستے میں حسن زینب سے باتیں کرتا رہا مگر زینب کا موڈ جیسے آف تھا اور وہ حسن سے صحیح طرح بات نہیں کر رہی تھی حسن کو لگا کہ کہیں رات والی بات پھر سے تو باجی کو بری نہیں لگ گئی اور وہ اسی سوچ میں ڈوبا گھر پہنچے کا انتظار کرنے لگا گھر بہنچ کر کمروں کو کھولا اور اندر داخل ہوتے ہی حسن بولا حسن: باجی کیا ہوا آپ اداس لگ رہی زینب حسن کی بات سن کر قدرے ناراضگی اور غصے کہ انداز میں بوکی کوئی بات نہیں ہے تم کپڑے چینج کر لو حسن باجی کے ایسے جواب اور انداز سے حیران ہوا اسے اب یقین ہونے لگا تھا کہ جو کچھ رات مستی اور جسم کہ ہوس کہ نشہ میں ہوا شاید اب سوچ آنے پہ باجی کو افسوس ہو رہا مگر حسن اب باجی کہ پیار میں بری طرح ڈوب چکا تھا اور باجی کا اب دوبارہ پیچھے ہٹنا وہ برداشت نہیں کر سکتا تھا حسن: باجی کوئی بات تو ہے آپ چھپا رہی ہیں بتاؤ کیا ہوا کیوں غصے میں ہیں حسن کا دوبارہ سوال کرنا زینب کو اور غصہ دلا گیا اور وہ انتہائی غصیلے لہجے میں بولی حسن تمھیں ایک بار بات سمجھ نہیں اتی بولا نا کوئی بات نہیں جاو اب مجھے کپڑے چینج کرنے دو زینب کا یہ انداز حسن کو اندر سے توڑ گیا وہ بنا کچھ بولے چپ چاپ اٹھا اور دوسرے کمرے میں جا بیٹھا اور باجی کہ ایسے اندر میں بات کرنا اسے اچھا نہ لگا کچھ دیر بعد زینب اس کمرے میں آئی ابھی تک باجی نے کپڑے چینج نہیں کیے تھے اور ہاتھ میں اٹھاۓ ہوۓ تھے حسن باجی کو دیکھ کر ناراضگی کے انداز میں سر جھکائے بیٹھ گیا زینب حسن کہ پاس چارپائی پہ بیٹھ گئی اور کچھ دیر خاموشی کہ بعد بولی حسن حاجی صاحب کو ہم باپ جیسا سمجھتے تھے اور وہ ہمارے لیے کسی فرشتے سے کم نہ تھے مگر۔۔۔۔ اتنا بول کر زینب چپ ہو گئی اور حسن زینب کی بات سن کر چونک سا گیا کہ وہ تو کچھ اور سوچ رہا تھا مگر باجی کونسی بات کر رہی حسن فورآ بولا مگر؟؟ مگر باجی کیا؟؟ کیا ہوا زینب بنا کچھ بولے کچھ دیر بیٹھی اور پھر بولی حسن بس تم اس بات کو چھوڑو مجھ سے نہیں بتایا جانا باجی کا یوں انکار حسن کو اور زیادہ جستجو میں ڈال گیا کہ آخر ایسی کیا بات ہے باجی بتاؤ مجھ سے کیوں چھپا رہی آپ آخر ہوا کیا ہے زینب حسن کی بات سن کر اس کی طرف مڑی اور حسن کی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ بولنے لگی آج دوپہر کو میں جب حاجی صاحب کہ گھر پر تھی تو حاجی صاحب بار بار مجھے گندی نظروں سے دیکھ رہے تھے میں نے نوٹ کیا تو مجھے شروع میں لگا کہ شاید میں غلط سمجھ رہی مگر ان کی نظریں میرے جسم پہ جمی رہی اور پھر ۔۔۔۔۔۔ حسن:پھر کیا باجی بولو بھی پھر جب میں خدیجہ کے ساتھ کچن میں کام کر رہی تھی تو حاجی صاحب آۓ اور انہوں نے اپنا ہاتھ۔۔۔۔۔۔ اپنا ہاتھ میری گانڈ پر لگایا مجھے بہت برا لگا اور میں تب سمجھی کہ خدیجہ نے نہیں دیکھا میں کچھ بول نا پائی اور باہر چلی گئی مگر مجھے یہ یقین نہیں تھا کہ خدیجہ سب جانتی ہے حسن: کیا مطلب باجی حاجی صاحب کی بیٹی نے پھر انہیں کچھ نہ کہا زینب: نہیں اور کہتی بھی کیوں شاید وہ تو خود۔۔۔۔ حسن: باجی آپ چپ کیوں ہو جاتی ہیں وہ خود کیا زینب: حسن میں جب کچن سے باہر نکلی تو مجھے خدیجہ کی ہنسی سنائی دی تبھی میرے قدم رکے تو میں نے سنا کہ خدیجہ نے کہا "لگتا ہے سگی بیٹی کہ بعد منہ بولی بیٹی کا بھی مزے لینے کو ترپ رہے" حسن: کیا باجی آپ ہوش میں تو ہیں زینب: ہاں حسن تب یہ سب سن کر مجھے بھی ایسا لگا کہ شاید یہ کوئی خواب ہے مگر سچ ہے یہ سب سن کر حسن کو بہت غصہ آیا مگر حاجی صاحب کہ احسانوں تلے دبے حسن کچھ نہ کر پایا زینب: حسن غصہ نہ کرو جو ہوا سو ہوا بس اب ان کہ گھر ایسے نہیں جائیں گے ہم حسن زینب کی بات سن کر صرف ہاں بولا اور سوچنے لگا کہ حاجی صاحب جو اتنے نیک شریف بنتے ہیں وہ ایسے نکلے حسن: باجی ویسے آپ کو کیا لگتا حاجی اور ان کی بیٹی کے درمیان..... زینب حسن کی بات سمجھ گئی اور فورآ بولی جو بات خدیجہ نے اپنے باپ سے کی قہ سن کر ابھی بھی تمھیں شک ہے۔۔۔۔ مجھے تو یقین ہے کہ ان کہ درمیان جسمانی تعلقات ہیں زینب کا اس قدر کھلے سے بول دینا حسن جو حیران کر گیا وہ کچھ بولتا زینب شرارتی انداز میں ہنستے ہوۓ بولی خدیجہ کا باپ کی شیطان ہو گا میرے بھائی کہ جیسے حسن باجی کی یہ بات سن کر ہنسنے لگا اور بولا کیوں باجی آپ کہ بچارے بھائی نے کیا کر دیا اس شیطان نے کیا کچھ نہیں کیا تم یہ پوچھو اچھا اب میں نے ساری بات بتا دی ابھی تم کچھ نہ کرنا اور اب دوسرے کمرے میں جاؤ میں کپڑے چینج کر لوں حسن باجی کی بات سن کر شرارتی انداز میں بولا کر لو باجی مجھ سے اب کیا چھپانا زینب حسن کی یہ بات سن کر شرماتے ہوۓ ہنسی اور حسن کی طرف بڑھ کر اس کا کان کھینچتے ہوۓ بوکی شیطان رات کو کم مزے لیے جو اب پھر بےہودہ باتیں کر رہے حسن: باجی آپ ہیں ہی اتنی پیاری اس میں میرا کیا قصور زینب: ہاں بس مکھن لگوا لو تم سے اب جاؤ ورنہ سچ میں یہیں چینج کر دوں گی حسن ہنستے ہوۓ اٹھا اور اوکے اوکے جا رہا بول کر باہر آ گیا آج پہلی بار دونو بہن بھائی کہ درمیان ایسی ننگی گفتگو ہوئی تھی حسن خوش تھا کہ باجی اور اس کے درمیان وہ رشتہ ابھی قائم ہے تبھی اسی پھر حاجی صاحب والی بات یاد آئی اور وہ غصے میں سوچنے لگا کہ وہ ضرور حاجی صاحب سے بدلا کے گا رات کو معمول کے مطابق حسن اور زینب اپنی اپنی چارپائی پہ لیٹے باتیں کر رہے تھے حسن: باجی مجھے ابھی تک یقین نہیں ہو رہا کہ حاجی صاحب اپنی سگی بیٹی کے ساتھ۔۔۔ زینب: کیوں یقین نہیں آتا ہم دونو بہن بھائی بھی تو۔۔۔ اتنا بول کر زینب چپ ہوئی حسن زینب کی بات سمجھ گیا اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اب وہ کیا بولے تبھی زینب دوبارہ بولی ویسے اپنے سگے رشتوں میں کچھ عجیب سی کشش ہوتی ہے اور ایک سکون اور لزت اور وہی کشش مجھے تم سے ملتی ہے شاید ان کو بھی وہی مزہ اتا ہو حسن آنکھیں بھاڑے باجی زینب کا یوں کھلے باتیں کرنا سن رہا تھا وہ حیران تھا کہ آج باجی کو کیا ہوا جو آج بنا شرماۓ بول رہی حسن نے بھی موقع کو غنیمت جانا اور بولا باجی آپ نے اب بات شروع کی ہے تو آج ہمیں اس ٹاپک پر بات کر لینی چاہیے زینب حسن کا اس طرح بولنے سے حیران ہوئی اور حسن کی طرف دیکھتے بوکی کس ٹاپک پہ اور کونسی بات حسن: باجی اپ اور میرے بیچ جو کچھ بھی ہوا حسن کی یہ بات سں کر زینب کو لگا کہ شاید حسن کو۔یہ سب پسند نہیں آیا اور وہ بولی حسن بھائی کیا ہوا تمھیں وہ سب اچھا نہیں لگا حسن: نہیں نہیں باجی میرا مطلب وہ نہیں تھا میرا مطلب تھا کہ آپ پر مجھے پورا حق چاہیے حسن یہ بات کر تو بیٹھا مگر اسے ڈر بھی لگا کہ کہیں زینب کو یہ بات بری نہ لگی ہو زینب حسن کی یہ بات سن کر مسکرائی اور اپنی چارپائی سے اٹھ کر حسن کی پارپائی کی سائیڈ پر بیٹھ گئی اور پھرحسن کی گردن کے گرد باہیں ڈال کر اسے اپنے قریب کر کے بولی حسن مجھے تم سے پیار ہو گیا ہے اور یہ کوئی اب سے نہیں تب سے جب تمھاری پہلی مٹھ لگی شلوار کو دیکھا حسن یہ بات سن کر حیران ہوا کہ باجی اتنے پہلے سے پیار دل میں کیے بیٹھی ہیں حسن ہر لڑکی کا خواب ہوتا ہے کہ اس کی زندگی میں بھی کوئی مرد ہو مگر مجھے مرد کے روپ میں بھائی ہی ملا اب حسن میرا جسم دل اب تمھارا ہے اور اس پہ تمھارا ہی حق کے صرف تمھاری یہ بول کر زینب حسن کہ گلے لگ گئی زینب کی یہ باتیں حسن کہ دل میں اتر گئی اور وہ بھی اپنا پیار بتانے لگا باجی میں بھی اپ سے بہت پیار کرتا ہوں آپ ہی سب کچھ ہو میرا آپ کا یہ بھائی ہمیشہ آپ سے پیار کرے گا اور ہر خوشی دے گا اور یہ بول کر زینب کے گال کو چوما زینب بھی حسن کا ساتھ دیتے ہوۓ اس کے گال اور ہونٹوں کو چومنے لگی دونو بہن بھائی ایک دوسرے کہ پیار میں نہا چکے تھے اور اب ہر حد کو توڑنے کا ارادہ کر چکے تھے دونو پاگلوں کی طرح ایک دوسرے کو چومے جا رہے تھے حسن کا ہاتھ باجی کی گانڈ پر پہلے سے پہنچا ہوا اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوۓ گانڈ کو سہلا رہا تھا اور دوسرا ہاتھ باجی کا مما دبانے میں مشغول تھا حسن کا دل کر رہا تھا کہ وہ باجی کا ننگا جسم دیکھے اور باجی کی باتیں یاد کر کے اس میں ہمت آئی کہ اب باجی اپنا جسم اپنے بھائی کو سونپ چکی ہے سو حسن اس کی قمیض کا پلو پکڑ کر اوپر کھینچنے لگا تبھی زینب نے چومنا روکا اور سیدھی ہو کر بیٹھ گئی حسن بھی سمجھ گیا اور دوبارہ قمیض کو پکڑ کر اتارنے لگا اور زینب کی قمیض کو اوپر کھینچ کر اتار دی زینب اس سب میں جو مزہ محسوس کر رہی تھی اس کی انتہا نہ تھی اور حسن کہ سامنے ننگا ہوتے شرمانے لگی اور اپنے ہاتھوں سے اپنا چہرا چپا لیا حسن باجی کی اس ادا کو دیکھ کر اور زیادہ مچل اٹھا اور قمیص اتارتے ہی باجی زینب کی برا بھی اتار دی اب زینب ننگے ممے نکالے اپنے بھائی حسن کہ سامنے منہ۔پر ہاتھ رکھے بیٹھی تھی حسن باجی کہ ننگے مموں کو پہلے بھی ایک بار تھوڑا سا دیکھ چکا تھا مگر آج اتنے قریب سے ان مموں کو ننگا دیکھ کر حسن کی تو جیسے عید ہو گئی ہو حسن باجی کے مموں پر چھپٹا اور ایک ممے کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر مسلا اور دوسرے کو منہ میں لے کر چوسنے لگا حسن کہ ہونٹ ممے پر لگتے ہی زینب کے جسم میں بجلی سی دوڑ گئی جوان کنواری لڑکی اس طرح مموں کے چوسنے پر مستی سے تڑپنے لگی حسن بھی کسی صدیوں کے بھوکے جیسا زینب کے مموں کو پاگلوں کی طرح چوسے اور مسلے جا رہا تھا زیںب سیکس کی لزت میں مست حسن کو سر سے پکڑے اپنے مموں پر دباۓ جا رہی تھی حسن مموں کو چوستے کبھی کبھی ہلکا سا دانتوں میں زینب کا نپل بھی دباتا جس سے زینب لزت کی وادیوں میں غوطہ زن ہو کر ایک مست بھری سسکی لیتی اور وہ سسکی حسن کو اور زیادہ مست کر جاتی حسن زینب کے مموں کو چوستے اٹھا اور زینب کی شلوار کا نالا کھولنے لگا جو اس کے سامنے سیدھی لیٹی ہوئی تھی نالا کھول کر حسن نے زینب کی شلوار کو نیچے کھینچنا ہی چاہا تھا کہ زینب نے شلوار کو پکڑ لیا زینب کا اس طرح روکنا حسن کو پریشان مر گیا اور وہ سوالیہ نظروں سے لیٹی زینب کو دیکھنے لگا زینب نے ایک کافرانہ مسکراہٹ دی اور بولی چھوٹے بھائی کچھ زیادہ سپیڈ سے نہیں جا رہے تم حسن زینب کی بات سن کر ہلکا سا مسکریا اور پھر التجا بھری نظروں سے باجی کو دیکھ کر کہنے لگا باجی پلیز صرف ایک بار دیکھنے تو دو زینب کو حسن کا ایسے اسے دیکھنے کے لیے تڑپنا اسے مزہ دے رہا تھا جیسے وہ کوئی حور پری ہو اور اس کو دیکھنے کے کیے ایک شہزادہ بھیک مانگ رہا ہو حسن کا ایسے کرنا زینب کو بہت پیارا بھی لگا اور وہ جان بوجھ کر حسن کو اور تنگ کرنے لگی نہیں بلکل بھی نہیں شیطان اپنی باجی کی شلوار اترو گے شرم کرو یہ بول کر پھر زینب مسکرنے لگی اور حسن کو چڑھانے لگی باجی پلیز آپ کا خوبصورت جسم مجھے پاگل کر رہا مجھے دیکھنا ہے پلیز دیکھا دو زینب: اچھا ایک شرط پہ پہلے تم بھی اپنے کپڑے اترو تبھی حسن یہ سن کر بجلی کی تیزی سے اپنے کپڑے اتارنے لگا اور ننگا ہو گیا اس کا تنا لن باہر نکلتے ہی سانپ کے جیسے بھن بھیلا کر کھڑا ہو گیا زینب حسن کا لن دیکھتے ہی مسکرنے لگی اور بولی چھوٹو بہت بڑا مال اٹھایا ہوا ہے حسن زینب کی بات سن کر مسکرایا اور اس کے اوپر لیٹ کر کس کرتے بولا باجی مجھے بھی دیکھنے دو نا اپنا حسن زینب منہ چڑا کر بولی نہیں جی کوئی نہیں دیکھنا حسن سمجھ گیا کہ باجی جان بوجھ کر اس سے مزاق کر رہی اور مزے لے رہی حسن کو بھی باجی کی۔ایسی ادائیں اچھی لگ رہی تھی زینب اچھا دیکھ لو یہ سنتے ہی حسن پیچھے ہٹا اور شلوار کو کھنچنے لگا اس نے شلوار کو جیسے ہی اوپر کیا تو نیچے باجی زینب کی پھدی ٹانگوں کہ بیچ اسے دیکھائی دی پھدی دیکھتے ہی حسن کا دل زور سے دھڑکنے لگا زینب کی گلابی پھدی جس کے گرد دو موٹے موٹے ہونٹ سے تھے بہت پیاری لگ رہی تھی اس میں سے بہتا جوانی کا رس حسن دیکھ کر اور مست ہو گیا حسن نے شلوار کو پکڑ کر اور نیچے کھینچا تو زینب نے بھی اپنی گانڈ اٹھا کر شلوار تو پورا اترنے میں مدد کی اور حسن نے شلوار اتار کر سائیڈ پہ رکھ دی اب دونو بہن بھائی بلکل ننگے تھے زینب ننگی چارپائی پہ سیدھا لیٹی ہوئی تھی اور حسن اس کے پاس بیٹھا اس کے گورے جسم کے ایک ایک حصے کو آنکھوں سے گھورے جا رہا تھا پہلی بار حسن نے ایک لڑکی کو اپنے قریب اس طرح ننگا دیکھا تھا اس کی سیکس کرنے اور ایک لڑکی کے مزے کینے کی پرانی خواہش آج کسی حد تک پوری ہو رہی تھی باجی کو یوں ننگا دیکھ کر حسن پاگل سا ہوا اور زینب کے اوپر لیتے اس کہ گالوں اور ہونٹوں کو چومنے لگا زینب نے بھی حسن کو اپنی باہو میں بھرا اور اس کو چومنے لگی دونو کے ننگے جسم ایک دوسرے سے ٹکراۓ تو دونو ایک عجیب لذت سے روشناس ہوۓ کچھ دیر دونو بے تحاشا ایک دوسرے کو چومتے رہے پھر حسن زینب کو گردن سے چومنے لگا اور چومتے نیچے بڑھنے لگا اور پھر مموں سے چومتے بیٹ تک پونچا حسن زینب کہ جسم کا ایک ایک انگ چومے جا رہا تھا اور زینب حسن کہ چومنے کا لمس پا کر لذت کی سسکیاں بھرے جا رہی تھی حسن کا یوں باجی زینب کے جسم پر ہونٹوں کے بل چلنا اسے اور مزہ دے رہا تھا زینب کا گورا بدن تھا بھی اسی قابل حسن زینب کے جسم کو چومتے پھدی تک پونچا حسن نے پھدی کے اوپر ہی چوما اور پھر رانوں کو چومتا آگے نکل گیا حسن ٹانگوں سے چومتا جیسے ہی پاؤں کی طرف بڑھا زینب نے ایک دم پاؤ بیچھے کر کے اسے روک لیا نہیں حسن پاؤں نہیں تمھاری جگہ دل میں ہے حسن جو زینب کے جسم کے نشے میں پاگل ہوا بیٹھا تھا بولا نہیں باجی آپ کے پاؤں بھی میرے کیے مقدس ہیں اور پھر زبردستی پاؤں کو پکڑ کر بے تحاشا چومنے لگا زینب اسے روکنے کی ناکام کوشش کرتی رہی اور بلآخر خاموش ہو گئی حسن زینب کے پاؤں کو چومتے پھر چومتے بیچھے مڑنے لگا زینب کی ٹانگوں اور رانوں کو چوم کر وہ دوبارہ پھدی پر آ پہنچا حسن پھدی کو اوپر سے چومتا اور پھر ایک نظر بھر کے اسے دیکھتا پھر چومتا پھر دیکھتا زینب آنکھیں بند کیسے لیٹی اپنے بھائی کے پیار کی بارش میں نہائی جا رہی تھی زینب کی پھدی سے نکلتا پانی حسن غور سے دیکھنے لگا اور پھر اپنی ایک انگلی باجی زینب کی پھدی کے ہونٹوں کے بیچ رکڑ کر اس لیسدار پانی کو محسوس کرنے لگا حسن کی انگلی پھدی پر محسوس کرتے ہی زینب کی ایک زوردار سسکی نکلی اور اس کا جسم کانپ سا گیا حسن کچھ دیر پھدی سے انگلیوں کے ساتھ کھیلتا رہا اور پھر اپنا منہ زینب کی پھدی کہ قریب ل کر اس کے ہونٹوں کے اوپر چوما زینب جس نے آنکھیں بند کی ہوئی تھی اچانک حسن کے ہونٹوں کا لمس اپنی پھدی پر محسوس کر کے ایک دم تڑپ کے اٹھی اور ایک زور دار حیرانگی کی آواز میں بولی حسن۔۔۔ اور اپنے جسم کو سمیٹ کر بیٹھ گئی حسن جو باجی کی پھدی کو چوم کر اور اس کا نکلتا ہلکا پانی کا ذائقہ محسوس کر کے اپنے ہوش کھو چکا تھا وہ بیٹھا اپنی سوچ میں گم ہو گیا اور خود پہ حیران بھی کیونکہ ہمیشہ کیس فلموں میں لڑکی یا لڑکے کو ایسے ایک دوسرے کی شرم گاہوں کو چومنا اور چاٹنا اسے پسند نہیں تھا اور وہ ہمیشہ یہی سوچتا تھا کہ وہ اپنی بیوی کی پھدی یا کسی بھی لڑکی جس کے ساتھ اس کو سیکس کرنے کا موقع ملا وہ اس کی پھدی نہیں چاٹے گا مگر آج وہ حیران تھا کہ اسے کیا ہوا تبھی اس کے اندر سے آواز آئی کہ باجی کی اس پھدی کو آگر چنہ چونا جاۓ تو شاید خوبصورتی کی توہین ہوتی تبھی وہ پھر لپکا اور بیٹھی زینب کی ٹانگیں کھینچ کر اس کی پھدی کو چومنے کی کوشش کرنے لگا زینب اسے بار بار روکے جا رہی تھی اور اب ہلکا عصہ بھی کر رہی تھی مگر حسن زینب کی ایک نہ سن رہا تھا اقر زبردستی زینب کی پھدی پر جا منہ لگایا اور اسے چومنے لگا زینب بھی حسن کو اپنی پھدی پر چومتے مزے سے نڈھال ہونے لگی اور پھر اپنی آنکھیں بند کر کے حسن کے شر سے پکڑے اسے پیار سے مسلنے لگی زینب اس مزے سے روشناس ہوئی جس کا اسے پہلے گما تک نہ ہوا تھا حسن مستی میں زینب کی پھدی کو چومے اور چاٹے جا رہا تھا اور زینب لذت کی وادیوں میں گم سسکیاں بھرے جا رہی تھی حسن ک یوں پھدی چوسنا زینب کو اپنی منزل کے قریب لے گیا اور وہ فارغ ہونے کے قریب آگئی زینب اب اپنی منزل پر پہنچنے کو تیار تھی اور حسن کا ایسے اس کی پھدی سے کھیلنا اسے اور قریب لے گیا اور کچھ ہی دیر میں زینب کا جسم کانپنے لگا اور وہ زور دار جھٹکے لینے لگی اس کی پھدی سے نکلتی بچکاریا ایسے لگ رہی تھیں جیسے کسی پانی کے پائپ میں کسی سے سوراخ کر دیا ہو اور پانی پریشر سے نکل رہا کو زینب اب فارغ ہو کر سدھ لیٹ گئی اس کی پھدی سے اچھی خاصی منی نکلی جو تھوڑی حسن کہ منہ اور باقی نیچے بستر پر جا لگی حسن ابھی تک فارغ نہیں ہوا تھا مگر اپنی باجی کو فارغ کر کے وہ بھی اس کے ساتھ لیٹ گیا زینب کچھ دیر بے سدھ پڑی لمبی سانسیں لیتی رہی اور پھر جب اس کی حالت کچھ سنبھل تو اس نے ساتھ لیٹے حسن کی طرف دیکھا حسن بھی زینب کی طرف دیکھنے لگا کچھ دیر آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھتے رہے تبھی زینب بولی " لو یو" حسن بھی زینب کی آنکھوں میں دیکھتے بولا"لو یو ٹو باجی" زینب یہ سنتے ہی مسکرائی اور پیار سے چومتے ہوۓ حسن کے اوپر لیٹ گئی زینب کی پھدی سیدھا لن سے جا چپکی اور زینب کے ممے حسن کی چھاتی پر اور حسن کو ہونٹوں اور گالوں سے چومنے لگی زینب اب ایک وفاد بہن کا ثبوت دیتے ہوۓ حسن کو بھی فارغ کر رہی تھی اور اس کہ اوپر لیٹی اپنی پھدی کو حسن کہ لن پر مسلنے لگی پھدی پر اب بھی زینب کی منی لگی ہوئی تھی جس سے لن بھی گیلا ہو گیا اور پھدی لن پر پھسلنے لگی حسن پھدی لن پر محسوس کر کے مستی میں کھو گیا اور وہ بھی ساتھ اپنے جسم۔کو ہلا کر زینب کا ساتھ دینے لگا زینب بھی اب دوبارہ گرم ہو چکی تھی اور اس کی پھدی رکڑنے کی سپیڈ بھی زیادہ ہو چکی تھی کچھ ہی دیر میں حسن کی ہمت نے جواب دیا اور وہ اپنا پانی چھوڑنے کے قریب آ گیا اس نے زور سے زینب مو جکڑا اور اس کی پھدی پر لن رگڑنے لگا زینب بھی اب قریب تھی دونو ایک دوسرے کو زور سے چپکے اپنا پانی نکالنے لگے حسن کو اپنے لن پر پھدی کا گرم پانی محسوس ہو رہا تھا وہیں زینب کو بھی حسن کے لن کا سیلاب اپنی پھدی پر پڑتا محسوس ہوا اور دونو فارغ ہو کر وہیں بے سود لیٹ گئے 




جاری ہے

Post a Comment

0 Comments