ads

Mamno Muhabbat - Episode 12

ممنوع محبت

 از عثمان خان

قسط نمبر 12



بہن بھائی آج پہلی بار ایک دوسرے کا بھرپور مزہ لے کر اپنا پانی نکال چکے تھے حسن نے زینب کے اندر لن تو نا ڈالا تھا مگر پھر بھی وہ اندر سے بہت مطمعن اور خوش تھا وہیں زینب بھی اور زیادہ حسن کے پیار میں ڈوب گئی کچھ دیر لیٹے رہنے کے بعد حسن بولا باجی آپ بہت اچھی ہیں زینب حسن کی بات سن کر آنکھیں بند کیے لیٹے مسکرائی اور بولی اچھا جی وہ کیسے باجی آپ نے ہمیشہ میرا خیال رکھا ماں کی بیماری کے بعد سے مجھے ماں بن کے پالا بڑا ہوا تو ماں کے ساتھ ساتھ ایک بڑی بہن کا پیار بھی دیا ہمیشہ میرا خیال رکھا مجھے پیار دیا اور اب۔۔۔۔۔ حسن اتنا بول کر خاموش ہو گیا زینب حسن کو ایسے اچانک خاموش ہو جانے پہ آنکھیں کھول کر اسے دیکھنے لگی اور پھر حسن کے قریب ہو کر اس کی چھاتی پر اپنے ممے چپکا کر اس کے اوپر جھکی اور بولی" اور اب کیا؟؟" حسن: اور اب ایک بیوی کا پیار بھی دے رہی اپنا جسم سب اپنے بھائی کو سونپ کر زینب حسن کی بات سن کر پیار سے اسے چومنے لگی اور بولی حسن تم میرے بیٹے ہو بھائی بھی ہو اور ایک شوہر بھی میں نہیں جانتی باقی بہن بھائی کیسے ہوتے ہیں مگر تم جیسا بھائی ہو تو بہن اس پہ اپنی جان بھی وار دے زینب کی ایسی پیار بھری باتیں حسن کو اور زیادہ زینب باجی کہ پیار میں ڈوبا گئی اور وہ زینب کو اپنی باہوں میں دبوچ کر اس کے نرم ملائم ہونٹوں کو چوسنے لگا دونو ایک دوسرے کو چپکے چومتے رہے ساری رات دونو بہن بھائی کہ جسمانی پیار کا کھیل چلتا رہا اور وہیں دونو ننگے ایک دوسرے کی باہوں میں سو گئے صبح حسن کی آنکھ کھلی تو اس کی نظر زینب پر پڑی جو اس کی باہوں میں ننگی سو رہی تھی حسن اپنی باجی کا ایسا روپ دیکھ کر ایک بار پھر باجی کہ پیار میں ڈوب گیا اور زینب کی گالوں کو چومنے لگا حسن کے چومنے سے زینب کی بھی آنکھ کھل گئی اور خود کو بھائی کے ساتھ گلے لگ کر پیار کرواتے اسے بھی مزہ سا آ گیا یہ صبح دونو کہ لیے ایک نئی صبح تھی جس کا آغاز آج الگ انداز سے تھا دونو بہن بھائی اب اس پیار میں ایک قدم اور آگے بڑھ چکے تھے زینب نے حسن کو مسکرتے دیکھا اور اسے چوما کچھ دیر ایک دوسرے پر پیار نچھاور کرنے کہ بعد زینب بستر سے ننگی اٹھی اور اپنے کپڑے اتار کر پہننے لگی حسن باجی زینب کو دیکھے جا رہا تھا اور باجی کہ اتنے قریب ہو کر وہ بہت خوش تھا زینب کپڑے پہن کر ناشتہ بنانے چلی اور حسن بھی اٹھ کر تیار ہوا اور پھر ناشتہ کر کے دکان پر چلا گیا اب روز بہن بھائی کا یہ جسمانی کھیل کھیلا جانے لگا روز دونو ایک دوسرے کے جسم سے خوب کھیلتے اور اپنے اندر لگی جسمانی آگ کو ٹھنڈا کرتے مگر ابھی تک حسن نے زینب کے اندر لن نہ ڈالا اس کا دل تو بہت ہوتا اور زینب کا بھی مگر حسن زینب کا کنواراپن ختم نہیں کرنا چاہتاتھا اور زینب بھی یہی چاہتی تھی سو اگر کبھی لذت حد سے گزر جاتی تو حسن زینب کو انگلی ڈال کر ٹھنڈا کر دیتا اس کھیل کو چلتے دو ہفتے ہونے کو آۓ تھے دونو ہر گزرتے دن کہ ساتھ ایک دوسرے کے پیار میں ڈوبتے گئے اور دونو کہ بیچ کافی حد تک فری ماحول ہو چکا تھا زینب اب کبھی کبھار ننگی بھی حسن کہ سامنے گھومتی رہتی گھر میں یا صبح ننگا اٹھ کر ایسے ہی جا کر ناشتہ بنا دینا اور پھر ویسے ہی ننگا ہو کر حسن کو گھر سے رخصت کرنا دونو کہ لیے یہ سب اب نارمل ہو چکا تھا اور اب شاید ان کا نظریہ بھی یہی تھا کہ وہ کچھ غلط نہیں کر رہے بلکہ یہی اصل بہن بھائی کا پیار اور رشتہ ہے جس میں ایک دوسرے کا خیال رکھا جاۓ اور اس کی ضرورت کو پورا کیا جاے پھر چاہیے وہ جسمانی ضروریات ہی کیوں نہ۔ہوں حسن اور زینب دونو اپنے اس نئے رشتے کی لذت میں حاجی صاحب والی بات بھول چکے تھے حسن نے سوچا تو تھا کہ وہ کچھ نہ کچھ ضرور کرے گا مگر باجی زینب کا پیار اسے ہر سوچوں سے آزاد کر گیا اور وہ بہن کے پیار میں مصروف سب باتوں کو بھول گیا ایک دن حسن اپنی دکان پر تھا کہ ایک بچہ آیا اور اسے آکر بتایا کہ زینب اسے گھر پر بلا رہی کوئی مہمان آۓ ہیں حاجی صاحب نے بھی سنا اور حسن کو گھر بھیج دیا حسن گھر کی طرف چل پڑا اور راستے میں سوچنے لگا کہ یہ کونسے مہمان ہیں حسن کہ ماں باپ کے تو کوئی رشتے دار بچے نہ تھے اور اگر کوئی تھے بھی تو وہ کبھی ان کے گھر نہ آۓ نہ ہی حسن اور زینب کی کوئی ایسے دوست ہیں تو پھر گھر پہ کونسے مہمان ہیں حسن اسی سوچوں میں گم جلدی جلدی گھر کی طرف بڑھنے لگا حسن جیسے ہی گھر میں داخل ہوا تو اس کی نظر صحن میں پڑی جہاں اس کی خالہ بیٹھی زینب سے باتیں کر رہی تھیں اور ان کے ساتھ ہی ماجد بیٹھا تھا حسن کی خالہ شادی کے بعد حسن کے گھر بہت کم آتی تھیں حسن کو ان سے ملے عرصہ ہو چکا تھا خالہ کا جوان بیٹا ماجد بھی حسن کی پہچان میں نہ آیا کیوں کہ خالہ ان کے گھر بہت ہی کم آتی بس آخری بار اس کی ماں کی وفات پر آئی تھیں اکیلی اور پھر ایک دن میں ہی واپس چلی گئی تھی حسن کو دیکھتے ہی خالہ اٹھی اور حسن کو ماتھے پر چومتے اس سے ملنے لگی حسن ماجد سے بھی ملا حسن اور زینب دونو اندر سے حیران بھی تھی کہ آج خالہ کو کیسے ان کی یاد آ گئی کچھ دیر معمول کی باتیں ہوئی اور پھر خالہ نے حسن کا ہاتھ پکڑتے جو اس کے سامنے بیٹھا تھا بولی حسن بیٹا تمھاری ماں اور باپ کے چلے جانے کے بعد اب گھر کے بڑے تم ہی ہو زینب عمر میں تم سے بڑی ہے مگر تم مرد ہو اس لیے میں تم سے کچھ بات کرنا چاہتی ہوں حسن خالہ کی بات سن کر حیران تھا کہ آخر ایسی کیا بات ہے جو خالہ یوں اچانک آ کر اس سے کرنا چاہتی حسن بھی بولا جی خالہ بولیں کیا بات ہے خالہ نہ اپنے بیٹے ماجد کی طرف دیکھا اور پھر بولی حسن بیٹا میں چاہتی ہوں کہ زینب کو میں اپنی بیٹی بنا لوں اور کشمالہ کا رشتہ تم سے کردوں یہ سنتے ہی زینب اور حسن دونو ایک دم چونک گئے مگر خالہ اپنی بات کو جاری رکھتے ہوۓ بولی تم دونو میری بہن کے بچے ہو مگر میرے لیے تو میرے بچوں کہ جیسے ہو اور اگر گھر میں ہی رشتہ ہو جاۓ تو اس سے خوشی کی کیا بات حسن خالہ کی بات سن کر سوچ میں پڑ گیا وہ کچھ بولنا چاہتا تھا مگر سمجھ نہیں آ رہا تھا کیسے بولے مگر خالہ اس طرح کیسے رشتہ۔۔۔۔۔۔ حسن اتنا ہی بولا کہ خالہ اس کی بات کاٹ کر پھر بولی دیکھو بیٹا زینب کی عمر نکلی جا رہی تمھاری بھی شادی کی عمر ہے اور تم لوگوں کہ سر پہ ماں باپ کا سایہ بھی نہیں جو تم لوگوں کے لیے کچھ کر سکیں میں بھی تمھاری ماں جیسی ہوں بیٹا میری بات مانو تم ساری زندگی تم بہن کو گھر بیٹھا کر تو نہیں رکھ سکتے آخر ایک دن اسے اپنے گھر کا ہونا ہے اور ہم تو تمھارے اپنے ہیں پھر تم اتنا سوچ کیوں رہے حسن اور زینب دونو خالہ کی باتیں سن کر پریشان اور حیران تھے دونو سے کچھ بولا بھی نہیں جا رہا تھا تبھی خالہ نے ایک اور بات کر کے ان دونو کو اور حیران کیا اور کہا بیٹا ماجد کی پہلی بھی شادی ہوئی مگر لڑکی اچھی نہیں تھی اور ہمارا اس سے نبھا نہیں ہو سکا اب میں چاہتی ہوں کہ اس کا رشتہ اپنوں میں کروں یہ باتیں سن کر تو حسن اندر سے غصہ میں لال پیلا ہوا گیا اور زینب کو بھی بہت غصہ آیا مگر ان سے کچھ بولا بھی نہیں جا رہا تھا خالہ کچھ دیر بیٹھی اور پھر حسن کو اس معاملے پر سوچنے کا اور کچھ دن بعد دوبارہ آنے کا کہہ کر چلی گئی حسن کی خالہ حسن کی ماں سے عمر میں چھوٹی تھی مگر اس کی شادی حسن کی ماں سے پہلے ہو گئی تھی جس کا شوہر دوسرے شہر رہتا تھا خالہ کا ایک بیٹا ماجد اور اس سے چھوٹی بہن کشمالہ تھی حسن نے دونو کو بچپن میں ہی صرف دیکھا تھا اس کے بعد کبھی نہ خالہ آئیں اور نہ حسن ان سے ملا خالہ کہ شوہر کا انتقال ہو چکا تھا اور حسن کی ماں ہمیشہ اپنی بہن یعنی اں کی خالہ کا گلا کرتی تھیں کہ وہ اچھی عورت نہیں ہیں اور حسن اور زینب دونو کو یہ بات یاد تھی خالہ کہ چلے جانے کہ بعد حسن اور زینب دونو بہت پریشان تھے حسن نے زینب سے کچھ بات نہ کی اور دوبارہ دوکان پر چلا گیا حسن کء دماغ میں بس یہی سب چل رہا تھا اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا فیصلہ کرے اور بہن سے جدا ہو جانے کا خوف بھی اسے کسی بھی فیصلہ لینے سے روک رہا تھا رات کو جب دونو بہن بھائی ایک ہی بستر میں لیٹے ہوۓ تھے تبھی زینب نے حسن سے کہا حسن خالہ کو اچانک ہماری کیسے یاد آگئی حسن زینب کی بات سن کر سوچوں میں گم بولا پتا نہیں باجی زینب: حسن ہم خالہ کو منع کر دیں گے حسن مجھے تمھیں چھوڑ کر کہیں نہیں جانا اور اوپر سے وہ ماجد پہلے سے شادی شدہ ہے حسن: ہاں باجی آپ کی بات صحیح ہے اور میں نے بھی یہی سوچا ہے کہ ہم منع کر دیں گے زینب:۔ ہاں بھائی اور تمھیں یاد ہو گا کہ امی خالہ کے بارے کیا کہتی تھی وہ اچھی عورت نہیں ہیں حسن: ہاں باجی یاد ہے آپ ٹینشن نہ لو میں بات کروں گا دونو اسی پریشانی میں گم سوچتے سو گئے صبح اٹھ کر حسن کام پر چلا گیا اور زینب اپنے کاموں میں لگ گئی مگر دونو کے دماغ میں یہی سب چلتا رہا دکان پر حسن اسی بات کو سوچ رہا تھا تبھی اسے خیال آیا کہ اس کا زینب کے ساتھ جسمانی تعلقات کو بھول کر اگر سوچا جائے تو حسن کیا فیصلہ کرے گا تبھی اسے لگا کہ باجی کا رشتہ تو کہیں سے مل نہیں رہا اور نہ کوئی امید ہے اوپر سے باجی کی بڑھتی عمر اسے خالہ کو ہاں کر دینی چاہیے ان کا جسمانی تعلقات اپنی جگہ مگر یہ معاشرہ میں ناپسند ہے اور سچ یہی ہے کہ زینب کی شادی کرنی چاہیے یہ بات سوچ کر حسن اسی بات پہ پکا ہو گیا اور نا چاہتے ہوۓ بھی دل کو سمجھانے لگا اقر رشتے کے لیے ہاں بولنے کا سوچ لیا حسن اب جسمانی ہوس کو بھول کر ایک بھائی بن کر سوچ رہا تھا گھر آ کر اس نے زینب کو جب یہ فیصلہ سنایا تو جیسے زینب پر تو قیامت ٹوٹ پڑی اسے صرف حسن سے تو آمید تھی مگر وہ بھی اب اس کا رشتہ کروانے کی بات کر رہا تھا زینب نے حسن کو غصہ میں بولا کہ وہ ہوش میں تو ہے وہ کیا بات کر رہا اقر زینب کے اس انداز کو دیکھ کر حسن مطمعن ہو کر بولا کے ہاں وہ صحیح فیصلہ کر رہا ہے زینب حسن کا یوں اپنے خلاف ہو جانا برداشت نہ کر پائی اور روتے ہوئے حسن کو گریبان سے پکڑ کر جھنجوڑتے ہوۓ بولیکیا ہوا اب پیار ختم ہو گیا کسی دوسری لڑکی کا سن کے بہن کو بھول گئے حسن زینب کی بات سنتے ہی اپنی آنکھوں میں آنسو مشکل سے روک پایا اور زینب کو گلے لگا کر بولا نہیں باجی ایسی بات نہیں آپ سے پیار تو میں اتنا کرتا ہوں جتنا کسی اور سے نہیں میرا صرف آپ سے جسمانی رشتہ نہیں بلکہ اب روح کا رشتہ بن چکا ہے مگر باجی آپ بھی سمجھو ہم اس معاشرے میں ایسے نہیں رہ سکتے ہماری بہن بھائی کی محبت ممنوع ہے زینب حسن کی باتیں سنتے مسلسل اس کے سینے سے لگی روۓ جا رہی تھی حسن بھی اپنے آنسو نہ روک پایا اور زینب کو سینے لگا کر آنسو بہانے لگا دن گزرنے لگے اور حسن اپنی بات پر قائم رہا زینب نہ چاہتے ہوئے بھی حسن کی بات ماننے کو تیار تھی اور اب سب کچھ حسن پر چھوڑ چکی تھی یہ فیصلہ حسن کے لیے بھی کسی قیامت سے کم نہ تھا پہلے تو صرف حسن کو جسمانی حوس تھی باجی سے مگر اب وہ باجی سے پیار کر بیٹھا تھا مگر اس معاشرے میں جینے کہ لیے اسے یہ فیصلہ لینا پڑا دو ہفتے ہی گزرے تھے کہ خالہ دوبارہ حسن کہ گھر آئیں اس بار ان کہ ساتھ کشمالہ بھی تھی کشمالہ عمر میں حسن کے برابر تھی اور چہرے سے کچھ خاص پیاری نہ تھی مگر جسمانی خدوخال سے کسی سے کم نہ تھی مگر حسن تو باجی کہ پیار میں ڈوبا تھا اسے اب کہاں کوئی اچھا لگنا تھا حسن نے خالہ کو اس رشتہ کہ لیے ہاں کہاں تو خالہ خوشی سے پاگل ہونے لگی اور اسی وقت جلد شادی کرنے کا بولنے لگی اور یہ بھی کہا کہ انہیں بس سادگی سے شادی کرنی ہے اور پھر ایک مہینے بعد کی تاریخ دے کر چلی گئی حسن نے حاجی صاحب کو بھی سب بتایا اور وہ بھی حسن کہ ساتھ شادی کی تیاریاں کروانے لگے مگر زینب اندر سے ٹوٹے جا رہی تھی شادی میں ایک ہفتہ باقی تھا زینب اپنی چارپائی پر لیٹی ہوئی تھی اور حسن بھی اپنی چارپائی پہ شادی کی بات کے بعد سے ان دونو کہ بیچ جسمانی کچھ نہ ہوا تھا بلکہ زینب تو بس اب اس غم کو لیے چپ تھی اور حسن بھی مگر وہ مجبور تھا حسن اپنی چارپائی سے اٹھا اور زینب کے پاس جا بیٹھا اور اس کہ سر کو چوم کر بولا باجی کیوں پریشان ہو رہی ہیں زینب حسن سے ناراض اور غصہ تھی اور غصہ کے انداز میں حسن سے دور ہوتے بولی تمھیں کیا فرق پڑتا ہے تم تو خوش ہو نا اپنی نئی بیوی کے کیے حسن کو زینب کی یہ بات سمجھنا کہ حسن نے یہ فیصلہ کشمالہ کے مزےلینے کہ لیے کیا ہے اسے بہت برا لگتا اور حسن زینب کو باہوں میں بھرتے اس کی ہونٹوں کو چوم کر بولا نہیں باجی آپ کی قسم آپ کہ سوا میں اپنے قریب کسی کو برداشت نہیں کر سکتا مگر ہم اس طرح ساری عمر ایک دوسرے کے ساتھ نہیں رہ سکتے ہمارے احساسات ی جزبات اسے اس معاشرے کو کوئی فرق نہیں پڑتا ہمارا رشتہ اس معاشرے میں غلط ہے زینب کئی دن سے حسن کی یہ باتیں سن رہی تھی اور اس بار حسن کی اس بات پر آپنے آنسوں پوچھتے اتھ بیٹھی اور بولی ٹھیک ہے حسن میں شادی کہ لیے مان جاؤ گی اور کسی حد تک خوش بھی رہو گی مگر میری ایک شرط ہے یہ سن کر حسن فوراً بولا کسی شرط باجی زینب نے حسن کی آنکھوں میں دیکھتے بولا تم اپنا میرے اندر ڈالو گے یہ سن کر حسن چونک سا گیا اور بولا باجی آپ۔ہوش میں تو ہو شادی ہونے والی آپ کی اور آپ۔۔۔۔۔زیںب:۔ پیچھے سے ڈالو زینب نے اتنا بولا اور حسن چپ ہو کر زینب کی آنکھوں میں دیکھنے لگا زینب کی گانڈ مارنے سے کوئی خطرہ نہ تھا حسن کا بھی اب دل بہن کے لیے تڑپ اٹھا زینب پھر بولی اور قدرے غصے میں تھی حسن بولو ہاں یا نا حسن باجی کی بات سن کر بولا اوکے باجی حسن کی ہاں سنتے ہی زینب نے اس کو اپنی باہوں میں بھینچا اور اس کی ہونٹوں کو چومنے لگی دونو ایک دوسرے کو چومتے ایک دوسرے کے کپڑے اتارنے لگے اب کمرے میں پہلے کہ جیسے دونو بہن بھائی ایک ہی بستر پر لیٹے بے تحاشا ایک دوسرے کو چومے جا رہے تھے حسن زینب کہ جسم کہ ایک ایک حصہ کو پاگلوں کہ جیسے چوم رہا تھا اور زینب بھی حسن کو چوم کر اپنا پیار برسا رہی تھی کچھ ہی دیر بعد زینب الٹی ہو گئی حسن سمجھ گیا کہ اب ایک بہن بھائی کا ایک جسم ہونے کا وقت آ گیا زینب کے پیٹ کے نیچے حسن نے تکیا دیا اور زینب گانڈ اٹھا کر گھوڑی کی مانند لیٹی تھی اس کی سفید موٹی گانڈ کو یوں دیکھ کر حسن کی کو مستی ڈبل ہو گئی حسن نے اپنا منہ زینب کی گانڈ پر رکھا اور چاٹنے لگا زینب کی گانڈ کو گیلا کرنے کے بعد حسن نے اپنا لن زینب کی گاند کہ ہول پر رکھا اور آہستہ آہستہ رگڑنے لگا زینب لن کا لمس پا کر مستی سے پاگل ہونے لگی حسن نے لن کو گانڈ کے سوراخ پر رکھا اور ہلکا دا دبایا مگر لن پھسل کر سائیڈ پہ ہو جاتا زینب نے اپنی گانڈ میں انگلیاں کر کر کے اسے کھلا کیا ہوا تو تھا مگر اتنا بھی نہیں کہ۔وہ۔حسن۔کہ موٹے لن کو آسانی سے اپنے اندر لے جاتی حسن نے زینب کی گاند کو پھر چاٹا اور تھوڑی تھوک لگا کر لن کو پکڑ کر اندر ڈالنے لگا اب کی بار حسن نے قدرے زور سے لن۔کو اندر ڈالا اور لن کا ٹوپا زینب کی نرم گانڈ کا منہ کھولتا اندر گھس گیا زینب درد سے تڑپ اٹھی اور تبھی لن اس کہ تڑپنے سے باہر نکل گیا حسن کچھ دیر رکا اور دوبارہ اپنا لن زینب کی گانڈ کی موری پر رکھ کر دبایا اور اس کا لن زینب میں گھس گیا زینب کی ایک دم چینخ نکلی اور حسن وہیں رک گیا حسن باجی کو کرتے ہوۓ اس کے درد کا خیال رکھ رہا تھا اور کم سے کم درد دینا چاہتا تھا کیوں کہ اب اس کی بہن صرف اس کے لیے کھیلنے کی چیز نہیں بلکہ اس کا پیار بھی تھا حسن زینب کے مموں کو ملتا آہستہ آہستہ اپنا لن زینب کی نرم وملائم گانڈ میں اترتا گیا اور تقریباً 20 منٹ کی محنت کے بعد حسن کا پورا لن زینب کی گانڈ میں اتر گیا دونو بہن بھائی اب ایک جسم ہو چکے تھے زینب حسن کا لن اپنے اندر محسوس کر کے ایک سکون اور لذت کی وادی میں گم تھی حسن بھی باجی کی دودھ جسی نرم گانڈ میں لن گھسا کر جنت جیسے محسوس کر رہا تھا حسن ںے اپنا لن آہستہ آہستہ اندر باہر کرنا شروع کر دیا زینب کو اچھا خاصا درد ہو رہا تھا مگر وہی درد تو زینب چاہتی تھی اس درد میں جو سکون اور لذت زینب کو مل رہی تھی اس کا بس چلتا تو یونہی بھائی کہ نیچے لیٹی رہتی حسن کا موٹا سخت لن زینب کی نرم گانڈ میں اندر باہر ہونے لگا حسن نے اپنی سپیڈ بڑھا دی اور اب کمرے میں زینب کی لذت بھری سسکاریاں اور لن کے اندر باہر ہونے کی آواز گونج رہی تھی ایک سگے بہن اور بھائی کے پیار کی آواز حسن زینب کو خوب چودھ رہا تھا حسن پہلی بار کسی لڑکی کہ اندر لن ڈالے اس کا خوب مزہ لے رہا تھا مگر جب مزے اور لذت زیادہ ہو تو بندہ جلدی فارغ ہو جاتا حسن کو جب محسوس ہوتا کہ اس کا پانی نکلنے والا وہ اپنا لن زینب کی گانڈ سے نکال لیتا اور پھر کچھ دیر بعد دوبارہ ڈال کر چودتا اس طرح حسن کافی دیر زینب کی گانڈ چودتا رہا مگر اب اس کی ہمت جواب دے چکی تھی اور اس نے لن نکال کر ہاتھ میں مسلنا شروع کیا تو زینب جلدی سے تڑپ اٹھی اور اپنے ہاتھ سے حسن کا لن پکڑ کر اپنی گانڈ میں ڈالا اور بولی بھائی اپنی منی کا تحفہ اپنی بہن کے اندر چھوڑو حسن کچھ نہ بولا مگر اسے عجیب لگا مگر اس وقت وہ جس مقام پہ تھا وہاں رک پانا ناممکن تھا حسن زینب کی گانڈ میں لن کو زور سے اندر باہر کرنے لگا اور کچھ ہی دیر میں اس کے لن نے اپنا پانی زینب کی گانڈ میں چھوڑ دیا زینب کا بھی پانی نکل گیا اور حسن وہیں لن ڈاکے زینب کے اوپر لیٹ کر ہانپنے لگا سگے بھائی کے لں کا پانی اپنی سگی بہن میں جا چکا تھا دونو کا پیار ہر قدم پہ بڑھتا جا رہا تھا اور اس کے بعد دونو اور ایک دوسرے کے پیار میں دھنس گئے اس رات حسن نے زینب کو تین بار چودھا اور تینوں بار اپنا پانی زینب کی گانڈ میں چھوڑا زینب کی گانڈ کا اب یہ حال تھا کہ حسن کی منی اس کی گانڈ سے نکلنے لگی وہ دونو وہیں پیار کرتے سو گئے کیوں کہ وہ جانتے تھے آج ان کے پیار کی آخری رات ہے 



جاری ہے

Post a Comment

0 Comments