ممنوع محبت
از عثمان خان
قسط نمبر 13
آخر کار وہ دن آ ہی گیا اور دونو بہن بھائی شادی کہ بندھن میں بندھ کر جدا ہونے والے تھے کچھ گنے چنے لوگوں میں سادگی سے دونو کی شادی ہو گئی زینب ماجد کے ساتھ چلی گئی اور کشمالہ اس کے پاس آ گئی زینب کو رخصت کرنے کے بعد جو حالت حسن کی تھی وہ جو کوئی بھی دیکھتا بہن بھائی کے پیار پہ رشک کرتا مگر کوئی اندر کا راز نہ جانتا تھا حسن بہت بجھا بجھا سا تھا رات کو کمرے میں گیا تو کشمالہ اس کے انتظار میں دلھن بنی کئی خواب لیے بیٹھی تھی کشمالہ بھی بہت چالاک لڑکی تھی اور اپنی ماں کہ جیسے مردوں کا اپنے قابو میں کرنا اسے خوب آتا تھا حسن نے کشمالہ سے کچھ خاص باتیں نہ کی اس کا کشمالہ کے ساتھ سہاگ رات منانے کا بلکل بھی دل نہ تھا اسے تو اپنی بہن کی یاد بری طرح ستا رہی تھی مگر وہ کیا کر سکتا تھا وہیں زینب کا بھی یہی حال تھا کمرے میں ماجد اس کے پاس تھا مگر زینب کہ بہتے آنسو حسن کو پکار رہے تھے ماجد انتہا کا پرسکون اور سست بندہ تھا جتنی اس کی ماں اور بہن چالاک تھی اتنا ہی وہ شریف اور سادہ تھا زینب سے کچھ پیار محبت کے وعدوں کے بعد اس ںے زینب سے سہاگ رات منانا شروع کی زینب کنواری تھی جیسے دیکھ کر ماجد کو اور بھی اچھا لگا وہیں حسن بھی کشمالہ کے ساتھ سہاگ رات منانے لگا کشمالہ بھی کنواری تھی حسن کو کشمالہ کے ساتھ سیکس کرنے یا اس کہ جسم میں وہ کشش محسوس نہ ہو رہی تھی جو کشش اسے باجی زینب کے جسم میں ہوتی تھی حسن نے بنا کشمالہ کا خیال کیسے دو تین جھٹکوں میں ہی اپنا۔لن ڈالا اور اسے چودھنے لگا کشمالہ کا تو درد سے برا حال تھا مگر حسن کے دماغ میں جیسے انتقام کی آگ جل رہی ہو وہ بنا ترس کھاۓ کشمالہ کو چودھتا گیا اور کچھ ہی دیر میں فارغ ہو کر سو گیا کشمالہ کو اس سب کی امید بلکل بھی نہ تھی وہ تو پھرپور رومانس اور اس کے بعد ایک پیار بھرے سیکس کی آمید لیے بیٹھی تھی مگر حسن بنا چومے اور کچھ رومانس کیے سیدھا کشمالہ کو چود کر سو چکا تھا کشمالہ کو یہ سب برا تو لگا مگر کیا کر سکتی تھی وہ بھی سو گئی وہیں زینب کو بہت پیار سے ماجد نے چودھا اقر خوب پیار دیا مگر زینب کو تو بس حسن چاہیے تھا شادی کو ایک ہفتہ گزرا مگر نہ زینب ماجد کو دل میں جگہ دے پائی اور نہ حسن کشمالہ کو دونو ایک دوسرے کی جدائی میں تڑپ رہے تھے کشمالہ نے بھی یہ بات نوٹ کی کہ حسن اس سے پیار نہیں کرتا اور اس نے حسن سے بات کرنے کی کوشش بھی کی مگر حسن نے اسے کوئی نہ جواب دیا اور نہ۔اس کی کسی بات کو سیریئس لیا دن گزرنے لگے اور ایک مہینہ گزرا مگر سب ویسے کا ویسا رہا اس دوران حسن اور زینب دو بار مل چکے تھے مگر جسمانی کچھ نہ ہوا کیوں کہ کشمالہ اور ماجد اب ان کہ درمیان ہمیشہ موجود ہوتے اور وہ کوئی ایسی بات تک نہ کر پاتے ماجد نے زینب کو موبائل لے دیا تاکہ وہ جب چاہے حسن سے بات کر لے کشمالہ کے پاس موبائل تھا جس سے وہ گھر بات کرتی تھی تو زینب حسن سے اسی موبائل پر بات کر لیتی مگر کشمالہ کا موبائل تھا تو حسن سے یا تو بات کم ہو پاتی یا ہوتی بھی تو کشمالہ پاس موجود ہوتی جس سے دونو کہ بیچ ویسی کوئی بات نہ ہو سکتی اب حسن کشمالہ کو پیار اور سیکس کی ضرورت اس کی پوری کرنے لگا مگر وہ یہ سب دل سے نہ کرتا اور زینب بھی کسی حد تک ماجد سے خوش تھی مگر اسے بھی حسن کی کمی ابھی بھی محسوس ہوتی تھی مگر دونو مجبور ہو کر بس چپ تھے حسن روز دکان پر جاتا حاجی صاحب اب تو سب کچھ حسن پر چھوڑ چکے تھے اور حسن ہی دکان سنبھالتا تھا حسنِ کو اب زینب کی وہ بات یاد آئی جو حاجی صاحب اور اس کی بیٹی کے بارے زینب نے اسے بتائی تھی حسن کی اب جستجو بڑھی اور اس نے سوچا کہ وہ کسی طرح حاجی صاحب اور اس کی بیٹی خدیجہ کے بیچ جسمانی رشتے کہ راز کا پتا لگاۓ گا مگر کیسے وہ روز سوچتا اور کوشش کرتا مگر اسے کوئی ایسا موقع نہ ملتا ایک دن حسن نے نوٹ کیا کہ حاجی صاحب روز دوپہر کو کھانا کھانے گھر جاتے ہیں اور پھر کافی ٹائم بعد واپس آتے ہیں حسن کو لگا کہ شاید دوپہر کو حاجی صاحب اپنی بیٹی سے کچھ کرتے ہوں مگر وہ یہ سب کیسے معلوم کرے کچھ دن سوچنے کے بعد اس کہ دماغ میں ایک منصوبہ آیا صبح دکان پر جا کر اس نے حاجی صاحب کو کہا۔کہ آج اسے دوپہر کو چھٹی چاہیے بیوی کی طبیعت خراب ہے سو اسے ڈاکٹر کے پاس لے کر جانا ہے حاجی صاحب حسن پر بہت اعتماد کرتے تھے اور حسن نے یوں کبھی چھٹی بھی زیادہ نہ کی سو وہ مان گئے دوپہر کو جب حاجی صاحب کھانا کھانے گھر گئے تو کچھ دیر بعد حسن بھی دکان لڑکے کے سپرد کر کے حاجی صاحب کہ گھر کی طرف چل پڑا حاجی صاحب کا گھر محلے کے آخر میں تھا گھر کی ایک سائیڈ پہ گھر تھا اور دوسری سائیڈ پر گھاس اور گھلی جگہ تھی حاجی صاحب گھر جا چکے تھے حسن گھر کی دوسری سائیڈ پہ گیا اور گھاس میں گھس کر دیوار کے اوپر چڑھ کر چھپ کر گھر کہ اندر دیکھنے لگا گھاس لمبا تھا دوسرا گرمیوں کی دوپہر تھی تو کسی کہ دیکھنے کا ڈر بھی نہ۔تھا حسن بہت دیر حاجی صاحب کہ صحن میں دیکھتا رہا مگر باہر کوئی نہ آیا اور صحن ویران تھا حسن کی جستجو بہت بڑھ رہی تھی سو اس کے دماغ میں ایک اور منصوبہ آیا حاجی صاحب کے گھر کے پیچھے والی سائیڈ پر وہ اندر اتر گیا کمروں کے پیچھے تھوڑی جگہ تھی وہاں اتر کر حسن بہت ڈر رہا تھا اور ڈرتے ڈرتے چھپ کر اس نے ایک کمرے کی کھڑکی سے اندر دیکھا تو سامنے خدیجہ کے بچے سو رہے تھے وہ دوسرے کمرے کی کھڑکی کی طرف بڑھنے لگا تبھی اسے سسکیوں کی آوازیں آنے لگی جیسے ہی وہ اس کھڑکی کہ سامنے گیا کھڑکی تو بند تھی مگر اندر سے آتی آوازیں ایسی تھی جیسے کوئی سیکس کر رہا حسن کو یقین ہو گیا کہ زینب کی بات سچ تھی مگر اب وہ اس سب کو دیکھے کیسے وہ کھڑکی کو غور سے دیکھنے لگا کہ اسے شاید کوئی سوراخ مل جاۓ جس سے وہ اندد کا نظارہ دیکھ سکے تبھی اس کی نظر ایک سوراخ پر پڑی اور ایک آنکھ لگا کر وہ اندر دیکھنے لگا اندر کا منظر دیکھ کر اس کی تو جان نکل گئی کمرے میں حاجی صاحب ننگے تھے اور خدیجہ کو لیٹا کر اسے پورے زور سے چودھ رہے تھے حسن یہ دیکھ کر ایک دم حیران سا ہو گیا اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں ہو پا رہا تھا کہ ایک سگا باپ اپنی سگی شادی شدہ بیٹی کو چودھ رہا حسن پھر اندر کا منظر دیکھنے لگا خدیجہ ٹانگیں اٹھائی اپنے باپ سے چدوا رہی تھی خدیجہ کی ٹانگیں ہوا میں تھی اس کی موٹی گانڈ حسن کو صاف دیکھائی دے رہی تھی اور حاجی صاحب اس کی پھدی میں لن ڈالے اس کے مموں کو مسل رہے تھے اور بری طرح چودھے جا رہے تھے یہ منظر دیکھ کر اور خدیجہ کا مست جسم دیکھ کر حسن کا لن بھی تن گیا اندر کا منظر ایسا تھا جو کسی بھی مرد کو پاگل کر دیتا حسن ناجانے کب یہ سب دیکھتے اپنے لن کو مسلنے لگا وہ یہ بھی مستی میں بھول گیا کہ وہ کہاں کھڑا ہے اور کیا کر رہا اسے ہوش تب آیا جب حاجی صاحب اور خدیجہ فارغ ہو گئے خدیجہ اٹھی اور کپڑے پہننے لگی اس کا جسم دیکھ کر حسن کو زینب کی یاد آئی اس کا جسم بھی ایک مضبوط عورت کے جیسے بہت مست تھا خدیجہ نے کپڑے پہنے اور کمرے سے باہر نکل گئی حسن بھی جلدی سے دیوار پھلانگ کر باہر آیا اور گھر کی طرف چل پڑا اس کی دماغ میں بس یہی سب چلتا رہا اس پہ بھی سیکس کی کرنے کی خواہش اور وہ سب دیکھ کر مستی طاری تھی گھر پونچا تو کشمالہ اسے جلدی گھر آتا دیکھ کر حیران ہوئی اور اس سے جلدی آنے کی وجہ پوچھی مگر حسن سیکس کی طلب میں تڑپ رہا تھا کشمالہ کا بنا کوئی جواب دیے کمرے میں لے گیا اور اس کے کپڑے اتارنے لگا کشمالہ بھی سمجھ گئی اور وہ تو خود حسن سے سیکس چاہتی تھی حسن سے بولی خیر تو ہے میری جان آج بہت اوتاولے ہو رہے ہو حسن جلدی جلدی کشمالہ کی قمیض اتار رہا تھا اور مستی میں پاگل ہونے کی وجہ سے وہ بولا ماں کی لوڑی جلدی اتر آج تیری پھدی ماروں گا ایسے کشمالہ کو سیکس کرتے پہلی بار گالی دی تھی اور کشمالہ جیسی مست لڑکی گالی سن کر ہنسنے لگی اور سمجھ گئی کہ حسن آج صحیح گرمی میں ہے حسن نے کشمالہ کے اور اپنے کپڑے اتارتے ہی اسے بیڈ پر پٹکا اور اوپر چڑھ گیا کشمالہ کو ایسا وحشیانہ انداز مزہ دے رہا تھا بیڈ پر لیٹاتے ہی حسن زینب کے اوپر چڑھ گیا اور اپنا لن۔سیدھا پھدے میں گھسا دیا لن اور پھدی دونو خشک تھے تو لن جاتے ہی کشمالہ درد سے تڑپ اٹھی اور اس نے درد میں حسن کو گالی دی بہن چودھ آرام سے حسن کشمالہ کہ منہ سے بہن کی گالی سن کر اور مستی میں آ گیا اور کشمالہ کو ایک اور زور دار جھٹکا مار کر اپنا پورا لن گھسا کر بولا کیوں رنڈی لن لینے کو تو بہت تڑپ رہی ہوتی ہو اب لو مزے آج تیری ماں کی پھدی پھاڑوں گا کشمالہ کو درد تو ہو رہا تھا مگر اس وحشیانہ انداز کے سیکس میں اسے بہت مزہ ا رہا تھا دونو ایک دوسرے کو گالیاں دیتے دہے حسن کشمالہ کو ماں کی اور کشمالہ اسے بہن کی گالیاں دیتی جو سیکس میں اور مزہ بھر رہی تھی حسن پورے زور سے کشمالہ کی ٹانگیں اٹھاۓ اسے چودھ رہا تھا اور کچھ ہی دیر بعد حسن اور کشمالہ دونو فارغ ہو گئے اور وہیں لیٹ گئے شادی کہ بعد پہلی بار حسن کو کشمالہ سے سیکس کا مزہ آیا تھا اور کشمالہ نے بھی پہلی بار زیادہ مزہ لیا اب روز حسن اور کشمالہ ایسا ہی وحشیانہ سیکس کرتے اور ایک دوسرے کو گالیاں دیتے اور اب اتنے فری ہو چکے تھے کہ نارمل باتوں میں بھی گالیاں دیتے جیسے کوئی دو جگری یار لڑکے ہوں حسن حاجی صاحب کا راز جان چکا تھا مگر اس کے بعد دوبارہ اسے وہ سب دیکھنے کا موقع نہ ملا اور نہ اس نے حاجی صاحب کو کچھ شک ہونے دیا اب حسن حاجی صاحب سے بدلا لینا چاہتا تھا جو اس نے زینب کی ساتھ ایک بار کیا تھا مگر وہ کیسے حاجی صاحب کو پکڑے تبھی اسے پھر ایک اور منصوبہ بنایا حسن نے ایک موبائل لیا اور سم بھی اور اب وہ زینب سے جب اچاہتا بات کرتا مگر سارا دن دکان یہ ہوتا اور شام کو گھر پر کشمالہ تو وہ زینب سے زیادہ سیکس کے بارے بات نہ کر پاتا اور نہ وہ زینب کو حاجی صاحب والی بات بتا سکا دن گزرنے لگے ایک دن پھر حسن نے پلان بنا کر دوپہر کو چھٹی لی اور ویسے ہی حاجی صاحب کہ گھر جا کر دیکھا مگر اس بار اسے کچھ ویسا دیکھنے کو نہ ملا وہ بہت مایوس ہوا اور گھر آ گیا وہ سمجھ گیا کہ حاجی صاحب اور خدیجہ رات کو بھی تو گھر میں اکیلے ہوتے ہیں سو وہ زیادہ تر رات کو کرتے ہونگے سیکس مگر حسن ان کو پکڑنا چاہتا تھا اور کیسے یہ اب اسے سوچنا تھا وہ روز بھی دوپہر کو چھٹی کر کے نہیں جا سکتا تھا پھر ایک دن حسن نے نوٹ کیا کہ دکان پر کوئی عورت کپڑے لینے آئی اس عورت نے حجاب پہنا ہوا تھا مگر اس کا جسم اچھا خاصا موٹا تھا اور حجاب میں سے بھی اس کی موٹی گانڈ اور ممے خوب ابھرے صاف ظاہر ہو رہے تھے وہاں موجود سب مرد اس عورت کی تھرکتی گانڈ اور مموں کو ہی تاڑ رہے تھے اور حاجی صاحب کی نظر بھی اسی پر تھی بہت ہی کمال جسم کی مالک تھی بالکل حاجی صاحب کی بیٹی خدیجہ کہ جیسی حاجی صاحب اس عورت کو خوب گندی نظروں سے تاڑ رہے تھے پھر اس عورت نے کچھ کپڑے لیے اور چلی گئی اس عورت کے جاتے ہی حاجی صاحب بھی اٹھے اور گھر کھانا کھانے چل دے حسن سمجھ گیا کہ آج حاجی صاحب گرم ہو چکے ہیں اور ضرور وہ گھر جا کر اپنی بیٹی کو چودیں گے حاجی صاحب کہ جانے کے کچھ دیر بعد حسن بھی لڑکے کو گھر تک جانے کا بول کر نکل آیا اور حاجی صاحب کہ گھر کی طرف چل پڑا وہاں پہنچ کر اس نے بنا شور کیے دیوار پھلانگی اور اسی کھڑکی کہ سامنے جا کر سوراخ سے دیکھنے لگا اندر کا منظر ویسا نہ تھا جیسا حسن سوچ کر آیا تھا اندر حاجی صاحب بیڈ پر بیٹھے تھے اور کمرے میں اور کوئی نہ تھا حسن کو لگا کہ اج بھی وہ سب کچھ نہیں دیکھ پاۓ گا وہ وہیں کھڑا تھا کہ اسنے دیکھا کہ خدیجہ کمرے میں آئی اس کہ ہاتھ میں حجاب تھا جو وہ اکثر باہر پہن کہ جاتی تھی اور وہ کھڑی حجاب پہننے لگی حسن سوچ میں پڑ گیا کہ آخر وہ جا کہاں رہی ہیں جب خدیجہ نے حجاب پہن لیا تو اپنے باپ کو دیکھ کر مسکرانے لگی اور گندی کافرانہ اداؤں سے حاجی صاحب کو اشارے کرنے لگی حسن کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ چل کیا رہا ہے تبھی خدیجہ کمرے میں گانڈ مٹکا کر حاجی صاحب کہ سامنے چلنے لگی کبھی وہ جھک جاتی تو کبھی گانڈ مٹکا کر چلتے اپنی گانڈ پر کھجلی بھی کرتی اور حاجی صاحب اسے بیٹھے دیکھ کر مسکرا رہے تھے حسن نے اپنے موبائل کا کیمرہ آن کیا اور اس سوراخ پر رکھ کہ وڈیو بنانے لگا اور خود اس موبائل کی سکرین سے سب دیکھنے لگا حسن سمجھ گیا کہ حاجی صاحب خدیجہ کو حجاب پہنا کر اسی عورت کا مزہ لے رہے حسن آج پہلی بار اس طرح حجاب میں سیکسی ادائیں دیکھ کر پاگل ہو رہا تھا خدیجہ حاجی صاحب کہ سامنے حجاب پہننے گندی آدائیں دیکھاتی رہی پھر حاجی صاحب اٹھے اور خدیجہ کو پیچھے سے جا چپکے اور حجاب کہ اوپر سے ہی اس کہ مموں کو مسلنے لگے خدیجہ حجاب میں اس عورت سے بھی زیادہ مست لگ رہی تھی اور حسن کا یہ سب دیکھ کر دل کر رہا تھا کہ وہ بھی اندر گھس جاۓ اور خدیجہ کہ مزے لے کچھ دیر حاجی صاحب وہیں اپنی بیٹی کے حجابی جسم سے کھیلتے رہے اور پھر حاجی صاحب نے خدیجہ کا۔حجاب اتارا اور کپڑے بھی اتار کر اسے ننگا کر دیا خدیجہ جیسے حاجی صاحب کو مزے اور سیکسی ادائیں دیکھا رہی تھی حسن کو یقین نہیں ہو رہا تھا وہ اس کی سگی بیٹی ہے حاجی صاحب اپنی بیٹی کو ننگا کر کے اس کے سامنے کھڑے ہو گئے اور پھر خدیجہ اپنے باپ کہ کپڑے اتارنے لگی اور دونو فل ننگے ہو گئے حاجی صاحب کھڑے تھے اور خدیجہ فرش پر گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی اور حاجی صاحب کا لن اپنے ہاتھوں سے مسلنے لگی خدیجہ لن مسلتے ایسی ادائیں کر رہی تھی جیسے کسی ننگی فلم کی ہیروئن ہو خدیجہ حاجی صاحب کے لن پر اپنے ہونٹ لگا کر چومتی اور پھر ایک کافرانہ مسکراہٹ سے ساتھ حاجی صاحب کو دیکھتی اور حاجی صاحب اپنی بیٹی کی ادائیں دیکھ کر مسکرتے حسن یہ سب دیکھ کر پاگل ہو رہا تھا اور حاجی صاحب پر اسے رشک آ رہا تھا پھر خدیجہ نے حاجی صاحب کا لن منہ میں کیا اور اس کہ خوپ چوپے لگانے لگی کچھ دیر بعد دونو اٹھے اود بستر پر جا لیٹے خدیجہ نے لیٹ کر اپنی ٹانگیں ہوا میں اٹھا لیں ایسا لگ رہا تھ جیسے اپنے باپ کو اپنی پھدی پیش کر رہی کو اس کی ایسی ادائیں حسن کو پاگل کر رہی تھی حاجی صاحب بھی خدیجہ کی ٹانگوں میں بیٹھ کر اپنا۔لن اس کی پھدی میں ڈال دیا جو ایک ہی بار آرام سے پورا اندر چلاگیا اور حاجی صاحب خدیجہ کو چودھنے لگے حسن یہ سب دیکھتا رہا اور وہ بھی اپنے لن کو مسلنے لگا حاجی صاحب کچھ ہی دیر بعد فارغ ہو گئے اور خدیجہ کی پھدی ںے بھی پانی چھوڑ دیا اور پھر کپڑے پہننے لگے حسن کا کام ہو چکا تھا اس نے جلدی سے وڈیو کو موبائل میں محفوظ کیا اور دکان پر چلا گیا کوئی آدھا گھنٹہ گزر کہ حاجی صاحب بھی آ گئے حسن کے پاس اب ایسا ثبوت ا چکا تھا جس کو دیکھا کر وہ حاجی صاحب سے کچھ بھی کروا سکتا تھا شام کو حسن گھر آیا تو اس کا سیکس کرنے کو بہت دل تھا کمرے میں آتے ہی حسن نے کشمالہ کو حجاب پہننے کا کہا وہ یہ سن کر حیرانگی میں بوکی کیوں حسن خیر تو ہے کہاں جانا ہے حسن کشمالہ کی بات سن کر بولا کہیں نہیں جانا جتنا بولا ہے کرو یہ سن کر کشمالہ سوچتے ہوۓ کہ آخر حسن کر کیا رہا اور الماری سے حجاب نکال کر پہننے لگی جب حجاب پہن لیا تو بولی حسن پہن لیا اب تو بتاؤ کہاں جانا ہے کشمالہ کا حجاب بہت کھلا تھا جس میں اس کا جسم کوئی خاص نظر نہ آ رہا تھا اور نہ ہی اس کا جسم باجی خدیجہ جیسا بھرا ہوا تھا حسن کو وہ مزہ تو نہ آیا مگر پھر بھی وہ اٹھا اور کشمالہ کو پیچھے سے گلے لگا کر اپنا لن اس کی گانڈ پر جا ٹکایا اور اس کے مموں کو پکڑ کر مسلنے لگا کشمالہ کو شروع میں سمجھ تو نہ آیا کہ آخر حسن کر کیا رہا مگر کچھ ہی دیر بعد اسے سب سمجھ آ گیا اسے بھی مزہ آنے لگا اور حسن کو۔اب روز یوں نئے نئے طریقوں سے سیکس کرنا کشمالہ کو تو پاگل کر رہا تھا حسن کچھ دیر حجاب میں چھپے کشمالہ کے جسم سے کھیلتا رہا اور پھر اس نے اس کو ننگا کر دیا اور خود بھی ننگا ہو گیا حسن نے کشمالہ کو لن چوسنے کا کہا کشمالہ نے اس سے پہلے کبھی بھی حسن کا۔لن نہ چوسا تھا اس کا دل ابھی بھی نہیں تھا مگر وہ یہ بھی نہیں چاہتی تھی کہ لن کو چوسنے سے انکار پر حسن کا موڈ خراب ہو اور وہ سیکس کہ مزے سےبھی جاۓ تواسنے لن کو تھوڑا سا منہ میں لیا اور چوسنے لگی حسن کو مزہ نہیں آ رہا تھا کیوں کہ کشمالہ لن کو پورا منہ میں نہیں لے رہی تھی حسن نے کشمالہ کو سر سے پکڑا اور اس کو اپنے لن۔پر دبایا اور گالی یتے بولا گشتی کی بچی لن کو لورا چوس اب حسن کا لن کچھ زیادہ کشمالہ کہ منہ میں تھا اور اسے تھوڑا مزہ آنے لگا کچھ دیر بعد حسن نے اسے لٹایا اور خدیجہ کے جیسے اس کی ٹانگیں اٹھا کر چودھنے لگا روز کہ جیسے سیکس کے ساتھ گالیوں کی بوچھاڑ میں سیکس شروع ہو چکا تھا اور دونو کچھ ہی دیر میں اپنی آگ بجھا کر سو گئے صبح حسن دکان پر تھا تبھی اسے کشمالہ کی کال آئی کہ اس کی طبیعت خراب ہے گھر آؤ حسن گھر گیا اور کشمالہ کو ڈاکٹر کے پاس لے گیا وہاں جا کر معلوم پڑا کہ کشمالہ پیٹ سے ہے یہ سن کر حسن کو بہت خوشی ہوئی کہ اب وہ بھی باپ بن جاۓ گا مگر یہ سوچ بھی آئی کہ اب وہ بچہ پیدا ہونے تک کشمالہ سے سیکس نہیں کر پاۓ گا گھر آکر یہ بات انہوں نے زینب اور خالہ لوگوں کو بھی بتائی اور وہ بھی یہ سن کر بہت خوش ہوۓ اور اگلے ہی دن سب حسن کہ گھر آ گئے حسن زینب سے مل کر بہت خوش ہو اور خالہ نے بھی کشمالہ اور حسن کو چوم کر ڈھیر ساری دعائیں دی حاجی صاحب کو بھی اس بات کا علم ہوا تو وہ شام کو گھر آ کئے حسن کو مبارک باد دی اور خالہ لوگوں سے باتیں کرنے لگا حسن کی شادی کہ دوران حسن نے نوٹ کیا تھا کہ خالہ اور حاجی صاحب بہت ایک دوسرے کے قریب ہو رہے تھے اور اب بھی مل۔کر بہت ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے خالہ عمر تو اچھی خاصی تھی مگر ان کا جسم سڈول قسم کا بھرا ہو تھا اور اس عمر میں بھی اچھی خاصی جسم کی مالک تھی جو کسی بھی مرد کو اپنا دیوانا بنا سکتی تھی اور خالہ تو تھی بھی چالو عورت کئی مردوں سے یاریاں لگانے والی اور اب حاجی صاحب کو بھی پھنسا رہی تھی حاجی صاحب بھی خالہ پر لال ٹپکانے لگے مگر کچھ دیر بیٹھے اور چلے گئے خالہ اور زینب کو ماجد چھوڑنے آیا تھا مگر اس کو کام سے چھٹی نا ملنے کی وجہ سے وہ خالہ اقر زینب کو چھوڑ کر واپس چلا گیا تھا رات کا ٹائم تھا سب حسن کہ کمرے میں بیٹھے کچھ دیر باتیں کرتے رہے اور پھر خالہ بولی اچھا بیٹا اب سو جاؤ کشمالہ اب تم اپنی نید کا خیال رکھا کرو اور ٹائم پہ سویا کرو حسن نے بھی کہا کہ آپ لوگ سو جاؤ میں اور زینب تو باتیں کریں گے اور اٹھ کر صحن میں آ بیٹھے کشمالہ اپنے کمرے میں اور خالہ ساتھ والے کمرے میں جا کر سو گئے حسن اور زینب دونو بہن بھائی تھے سو خالہ اور کشمالہ دونو کو کوئی شک نہ گزرا زینب اور حسن باہر چارپائی پہ بیٹھے اور باتیں کرنے لگے حسن نے باجی کو بولا باجی اب میں کب مامو بن رہا اقر ہنسنے لگا حسن کی یہ بات سن کر زینب نے سیریس انداز میں کہا ہر لڑکی کہ نصیب میں تم جیسا مرد نہیں ہوتا زینب کی یہ بات حسن کو سوچ میں ڈال گئی اور حسن بولا باجی کیا مطلب حسن اقر زینب ایک دوسرے سے کافی فری تھی کوئی بھی بات وہ بنا شرماۓ بول دیتے تھے تبھی زینب بولی بھائی ماجد میں شاید کوئی مسلہ ہے وہ باپ نہیں بن سکتا یہ سن کر تو حسن کے پاؤں تلے زمیں نکل گئی باجی یہ کیا کہہ رہی آپ حسن میں سچ بول رہی اس کی پہلی بیوی سے طلاق بھی اسی لیے ہوئی تھی اور خالہ کی وجہ سے
جاری ہے
0 Comments