ads

Mamno Muhabbat - Episode 14

ممنوع محبت 

از عثمان خان

قسط نمبر 14



کیا مطلب باجی خالہ کی وجہ سے کیسے حسں خالہ کا ماجد کی بیوی کے باپ سے چکر تھا اور دونو کو رنگے ہاتھوں ماجد کی ساس نے پکڑ لیا تھا تو اس لیے طلاق لے لی یہ سب باتیں سن کر حسن بہت حیران تھا تبھی وہ زینب کے بازو سے پکڑتے بولا پریشان نہ ہو تمھارا بھائی ابھی زندہ ہے تم ماں بن جاؤ گی یہ سن کر زینب کہ چہرے پر ایک عجیب سی خوشی آگئی اور پھر ہنستے ہوۓ بولی ماں بناؤ گے یا خود مامو بنو گے حسن زینب کی بات سن کر ہنسنے لگا اور بولا دونو جس پر دونو ہنس پڑے اور پھر دونو ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے اور کچھ دیر بعد زینب کو نید ائی تو دونو جا کر سو گئے حسن زینب کو حاجی صاحب اور اس کی بیٹی والی بات بتانا تو چاہتا تھا مگر پھر اس نے نا بتائی اور اپنے تک ہی بات کو رکھا 4 دن زینب حسن کہ گھر رہی اور پھر ماجد آ کر خالہ اور زینب کو لے گیا اس دوران زینب اور حسن کہ بیچ کچھ بھی جسمانی نہیں ہو پایا تھا جس کی وجہ کشمالہ اور خالہ کا گھر پہ ہونا تھا اور ان کو کوئی موقع نہ مل پایا حسن اب کشمالہ سے سیکس نہیں کر سکتا تھا اور پیٹ سے ہونے کی وجہ سے کشمالہ میں بھی اب سیکس کی زیادہ طلب نہ تھی حسن نے ایک مہینہ بنا سیکس گزار لیا مگر اب اسے سیکس کرنے کی طلب ستانے لگی اور وہ سوچنے لگا کہ آخر وہ کس کو چودھے تبھی اسے خیال ایا کہ وہ حاجی صاحب کو وہ وڈیو دیکھا کر بلیک میل کرے اور پھر وہ خدیجہ کو چودھے کیوں کہ اس وڈیو کو دیکھ کر حاجی صاحب کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتے وہ روز سوچتا مگر وہ بات کرنے کی ہمت نہ جٹا پاتا اسے سمجھ نہ آتی کہ وہ کب اور کیسے بات کرے پھر ایک دن اس نے پکا ٹھان لیا کہ وہ آج ضرور بات کرے گا دوپہر کو جب حاجی صاحب کھانا کھانے گھر گئے تو کچھ دیر بعد حسن بھی ان کہ پیچھے گھر چلا گیا اور جا کر دروازہ کھٹکھٹایا حسن بہت ڈر رہا تھا اور اس کا دل بہت زور سے دھڑکنے لگا ایک بار تو اسنے سوچا کہ وہ واپس چلا جاۓ مگر تبھی حاجی صاحب نے دروازہ کھولا اور حسن کو دیکھ کر حیرانگی سے بولے حسن تم خیر تو ہے حسن کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا بولے تبھی اس نے کہا کہ حاجی صاحب مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے حاجی صاحب حسن کی ایسی حالت اور ڈر کودیکھ کر سوچوں میں گم بوکے ہاں بولو کیا بات ہے حسن نے کہا یہاں نہیں اندر چل کر جس پر حاجی صاحب اسے اندر لے گئے اور کمرے میں جا بٹھایا وہاں بیٹھتے ہی حاجی صاحب دوبارہ حسن سے بات پوچھنے لگے حسن عجیب کشمکش میں تھا اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اب کیسے بات کرے تبھی اس نے موبائل نکالا اور وہ وڈیو لگا کر حاجی صاحب کو تھما دیا حاجی صاحب نے موبائل ہاتھ میں لیا اور وڈیو دیکھنے لگے ان کہ چہرے کا رنگ اتر گیا اور آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی تھوڑی سی وڈیو دیکھ کر حاجی صاحب نے حسن کی طرف دیکھا اور پھر لڑکھڑاتی اور کانپتی آواز میں ڈرتے ہوۓ بوکے حسن بیٹا یہ کیا تم۔۔۔۔تم نے یہ کب۔۔۔۔ حسن کچھ نہ بولا تبھی حاجی صاحب دوبارہ بولے تم نے اس کا ذکر کسی اور سے کیا حسن نے نا میں سر ہلایا حاجی صاحب بہت ڈرے ہوۓ تھے اور ان کو بھی اب سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کریں اگر کسی اور لڑکی کے ساتھ بھی وڈیو ہوتی تو شاید ان کی بدنامی ہوتی مگر یہاں تو ان کی اپنی بیٹی تھی اور یہ بات اگر باہر جاتی تو جو ہوتا وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے تبھی حاجی صاحب حسن کی منتیں کرنے لگے کہ وہ اس بات کو اپنے تک رکھے اور مجھے معاف کردو مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوئی میں وعدہ کرتا ہوں ایسا دوبارہ نہیں کروں گا حسن یہ سب نہیں چاہتا تھا اس کی چاہت تو کچھ اور تھی مگر اپنی چاہت بتانے میں وہ ڈر رہا تھا اور وہیں حاجی صاحب بیٹھے اس کی منتیں کر رہے رہے تبھی خدیجہ کمرے میں آئی اور حاجی صاحب کو حسن کی منتیں کرتا دیکھ کر حیران ہوئی حاجی صاحب فورآ اٹھے اور خدیجہ کو باہر لت گئے اور اسے سب بتانے لگے حسن اندر بیٹھا ڈر رہا تھا مگر حاجی صاحب کا ڈرنا اسے ہمت دے رہا تھا کچھ ہی دیر بعد حاجی صاحب اور خدیجہ دونو کمرے میں آۓ اور اس بار خدیجہ روتے ہوۓ حسن کی منتیں کرنے لگی کہ وہ یہ راز کسی کو نہ بتاۓ اور وہ دونو آیندہ ایسا گناہ نہیں کریں گے حسن نے ہمت کی اور بولا میری ایک شرط ہے اگر تم لوگ مانو تو میں کسی کو نہیں بتاؤ گا اور تم لوگ جو کر رہے کو بےشک کرتے رہنا حسن کی بات سن کر حاجی صاحب اور خدیجہ دونو فورآ بولے ہاں حسن بولو تم جو کہو۔ گے ہمیں منظور ہو گا اب حسن ہمت اکھٹی کرنے لگا اپنے دل کی بات بولنے کے لیے اور پھر سوچا کہ جو بیٹی سگے باپ سے چدوا رہی اس کے سامنے وہ کچھ بولنے سے کیوں ڈرے اور پھر حسن نے کہا اگر خدیجہ مجھے بھی مزے دے تو میں یہ بات کسی کو نہیں بتاؤ گا یہ سنتے ہی خدیجہ فورآ بولی ٹھیک ہے حسن تم جیسا چاہتے ہو ویسا ہو گا میرا جسم اب تمھارا ہے تم جیسے چاہو جب چاہو کرو اتنے میں حاجی صاحب بھی بولے ٹھیک ہے ہمیں منظور ہے مگر وعدہ کرو پھر تم یہ وڈیو ڈیلیٹ کر دو گے اور کسی سے اس بات کا ذکر بھی نہیں کرو گے حسن نے ہاں بولا اور حیران بھی ہوا کہ حاجی صاحب اور خدیجہ دونو کتنی جلدی مان گئے اور ان دونو کے انداز دیکھ کر ایسے لگ رہا تھا جیسے یہ سودا ان کا سستے میں بھگت گیا ہو پھر حاجی صاحب نے حسن کو خدیجہ کے ساتھ جو چاہے کرنے کا بول کر دکان پر چلے گئی خدیجہ بھی اٹھی اور منہ دھو کر آگئی اور آتے ہی حسن کو اپنی سیکسی ادائیں دیکھانے لگی ایک دم سب چینج ہو چکا تھا اور اب حسن کہ سامنے خدیجہ اسے اپنا جسم دیکھا کر گرم کر رہی تھی یہ سب دیکھ کر حسن کا لن تن گیا اور وہ بھی اٹھ کر خدیجہ کے مموں مو مسلنے اور اس کے ہونٹوں کو چوسنے لگا پھر خدیجہ نے اپنے کپڑے اتار دیے اور حسن کو بھی ننگا کر دیا حسن کا موٹااور لمبا لن دیکھ کر خدیجہ ہنستے ہوۓ بالی افف کافر اس جوان کو کہاں چھپاۓ ہوۓ تھا اور اپنے ہاتھ میں لے کر کھٹنوں کے بل بیٹھ کر مسلنے لگی اور پھر لن کو منہ میں لے لیا خدیجہ لن چوسنے کی پرانی کھلاڑی تھی اس کہ منہ میں لن جاتے ہی حسن کی جان نکلنے لگی اسے وہ مزہ اور سرور مل رہا تھا جو مزہ اسے کشمالہ کی پھدی میں بھی ڈال کر نہ ملتا تھا خدیجہ حسن کہ لن کہ بھرپور چوپے لگا رہی تھی اور حسن مستی میں مگن مزے میں گم کسی اور دنیا میں پہنچا ہوا تھا تبھی اس کو پتا بھی نہ چلا اور اس کے لن نے پانی چھوڑ دیا جو تھوڑا خدیجہ کے منہ میں گرا اقر باقی اس کہ چہرے پر گر گیا فارغ ہو کر حسن بیڈ پر لیٹ گیا اور سانسیں بحال کرنے لگا اور خدیجہ ویسے ہی ننگی باتھروم میں گئی اور منہ دھو کر دوبارہ حسن کے پاس آ لیٹی کچھ دیر بعد حسن دوبارہ خدیجہ کے مموں کو چوسنے لگا اور اس کہ جسم کو چومنے لگا اس کا لن ابھی نیم کھڑا تھا حسن پاگلوں کہ جیسے خدیجہ کے مموں مو چوس رہا تھا اور خدیجہ میں مزے میں گم سسکیاں لے رہی تھی تھوڑی دیر بعد دوبارہ حسن کا لن تن کر اپنے جوبن پر آگیا حسن نے خدیجہ کو لٹیا اور اس نے خود ہی ٹانگیں اٹھا کر حسن کو پھدی پیش کر دی حسن نے اپنا لن پھدی میں گھسایا جو بڑی ارام سے پورا اندر گھس گیا اور زور زور سے چودھنے لگا خدیجہ بھی حسن کا پورا ساتھ دے رہی تھی حسن کبھی لن گانڈ کے سوراخ میں تو کبھی پھدی میں ڈال دیتا اور خدیجہ کو چودھتا رہا اور پھر دوبارہ خدیجہ کی پھدی میں فارغ ہو گیا اور ساتھ خدیجہ نے بھی اپنا پانی چھوڑ دیا اور پھر حسن وہیں لیٹ گیا تھوڑی دیر بعد حسن اٹھا اور کپڑے پہن کر آنے لگا تو خدیجہ نے ااسے چوما اور بولی اب پھر کب آؤ گے میرے شیر حسن کو خدیجہ کی بات مست لگی اور وہ بھی ہنستے ہوۓ بولا بہت جلد اور پھر خدیجہ کا موبائل نمبر لے کر واپس دکان پر آ گیا حسن حاجی صاحب سے نظریں نہیں ملا پا رہا تھا مگر حاجی صاحب ایسے شو کر رہے تھے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں اس دن کے بعد اب حسین جب چاہتا خدیجہ کو جا کر چودھ آتا اور خدیجہ بھی اب اس سے قر زیادہ چدائی کہ مزے لیتی اور کبھی کبھی خود کال کر کے بلا لیتی حسن کی تو لاٹری لگ گئی تھی اسے مفت میں ایک زبردست عورت چودھنے کو مل گئی تھی حاجی صاحب اب اور زیادہ حسن پر مہربانیاں کرنا شروع کو گئسے اور حسن بھی اب حاجی صاحب کا پابند نہ۔رہا جب چاہتا چھٹی کر لیتا اور جب چاہتا دکان سے واپس آ جاتا دن گزرنے لگے اور کشمالہ کی حالت بھی اب زیادہ خراب رہنے لگی اسے اب زیادہ خیال کی ضرورت تھی مگر حسن تو سارا دن دکان پر ہوتا اور کشمالہ گھر پر اکیلی ہوتی جو کشمالہ کی صحت اور اس حالت میں اکیلا رہنا مشکل تھا کشمالہ نے اپنی ماں کو کال کر کے بلایا یہاں یہ رواج بھی تھا کہ بیٹی جب پیٹ سے ہو تو اس کی ماں اس کے پاس رہتی ہے سو کشمالہ نے بھی ماں کو بلایا ماجد کو کام سے چھٹی ملنا خاصہ مشکل تھا سو اگلے ہی دن حسن جا کر خالہ کو لے آیا اب خالہ سارے گھر کو سنبھال رہی تھی کھانے سے لے کر کشمالہ کا خیال رکھنے تک سب خالہ کر رہی تھی خالہ کا حسن کے گھر آ جانے کہ بعد حسن اب کشمالہ کی فکر سے آزاد ہو چکا تھا سو کبھی کبھار وہ رات کو بھی خدیجہ کو چودھنے چلا جاتا اور گھر لیٹ آ کر دکان کا بہانہ بنا دیتا حسن کی سیکس کی ضرورت پوری ہو رہی تھی اور وہ جب چاہتا خدیجہ کو چودھ آتا مگر شیر کہ منہ خون لگ چکا تھا نئی نئی عورتوں کو چودھنے کہ بعد اب حسن کا دل تھا کہ وہ کسی اور کہ بھی مزے کے پہلے بہن پھر کشمالہ اس کی بیوی اور اب خدیجہ کا پھدا چودھ لینے کے بعد حسن پوری طرح استاد بن چکا تھا اور نئی نئی پھدیوں کو چودھنے کی اس کی خواہش بھی بڑھتی مگر کسی اور لڑکی کو چودھ پانا مشکل تھا کیونکہ اس کی نا کوئی اور دوست تھی اور نہ وہ اپنے محلے کی کسی لڑکی سے ایسا کچھ کر کے پھسنا چاہتا تھا سو جو مل رہا تھا اسی میں گزارا کر رہا تھا خالہ کو حسن کے گھر آۓ ایک ہفتہ ہو چکا تھا خالہ کشمالہ کے پاس اس کے کمرے میں سوتی تھی اور حسن کبھی اسی کمرے میں علیحدہ چارپائی پر سو جاتا یا کبھی علیحدہ کمرے میں ایک شام حسن کا سیکس کرنے کا موڈ تھا اس نے خدیجہ کو فون کیا تاکہ اسے اپنے آنے کا بتا دے مگر خدیجہ نے اسے منع کر دیا منع کرنے کی وجہ خدیجہ کی طبیعت تھی اسکی طبیعت بھی خراب تھی اور اس کے ماہواری کے دن بھی چل رہے تھے یہ سن کر حسن کا موڈ خراب ہوا مگر وہ کر بھی کیا سکتا تھا سو گھر کی طرف چل پڑا گھر پہنچا تو خالہ کچن میں کھانا بنانے میں مصروف تھی حسن نے ان کو سلام کیا جس کا جواب خالہ نے دیا اور نارمل بات کر کے وہ کشمالہ کے پاس جا بیٹھا کشمالہ سے حسن اس کی طبیعت کے بارے پوچھتا رہا اور پھر کپڑے چینج کر کے کشمالہ کے پاس بیٹھ گیا رات کا کھانا سب نے اکٹھا کھایا اور پھر باتوں میں بیٹھ گئے یہ سب معمول کے مطابق تھا کشمالہ اور خالہ دونو بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی اور حسن ساتھ چارپائی پر تھا کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد سب سو گئے تقریباً رات کے 12 بج رہے تھے حسن کو پیشاب نے تنگ کیا تو اس کی آنکھ کھل گئی وہ چارپائی سے اٹھا اور باہر باتھروم میں آ گیا وہاں پیشاب کی اور وآپس جا کر چارپائی پر لیٹ گیا کمرے میں ویسے تو اندھیرا تھا مگر کمرے میں ایک زیو بلب آن تھا جس کی روشنی اتنی تھی کہ کمرے میں سب دیکھائی دے رہا تھا حسن بستر پر لیٹے سونے لگا تبھی اس کی نظر ساتھ بیڈ پر پڑی جہاں خالہ اور زینب سو رہی تھی حسن نے جیسے ہی بیڈ کی طرف دیکھا اس کی نید ہی اڑ گئی بیڈ پہ سامنے خالہ تھی جو حسن کی جانب پیٹھ کیے سو رہی تھی اور ان کی موٹی ابھری گانڈ صاف دیکھائی دے رہی تھی ان کی گانڈ پر قمیض کا پلو بھی نہیں تھا حسن یہ نظارہ دیکھ کر ایک دم دنگ رہ گیا حسن خود کو روکنے کی بہت کوشش کر رہا تھا یہ بات بھی سچ تھی کہ خالہ ایک نمبر کی چالو عورت تھی اور لن لینے کو تیار رہنے والی مگر کبھی بھی حسن نے ان کو اس نظر سے نہ دیکھا تھا جس کی وجہ وہ حسن کی خالہ کم ماں کہ جیسے زیادہ تھی اور دوسرا اب وہ اس کی ساس بھی تھی مگر حسن اپنے نظروں کو خالہ کی ابھری گانڈ سے ہٹا نہیں پا رہا تھا حسن کا دل اسے بار بار ملامت کر رہا تھا کہ تم غلط کر رہے ہو یہ تمھاری ماں کہ جیسی ہیں مگر خالہ کی گانڈ نے حسن کی آنکھوں کو جکڑ لیا تھا خالہ عمر میں تو زیادہ تھی مگر ان کا سڈول بھرا جسم کسی کو بھی اپنا دیوانا بنا لیتا خالہ ایک مست آنٹی تھی جن کہ جسم کہ سامنے اچھی اچھی لڑکیاں بھیکی پڑھ جاتی حسن اپنی چارپائی پہ لیٹا سامنے بیڈ پر لیٹی خالہ کی مست گانڈ کو تاڑتا رہا اس کا لن تو پہلے لمحہ ہی تن کر راڈ بن گیا تھا اور آج تو وہ پہلے سے بھی سیکس کی بھوک لیے سویا تھا حسن کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ اپنے ضمیر کی سنے یا اس مست گانڈ کی جو اسے بلا رہی حسن لیٹے اس کشمکش میں خالہ کی گانڈ کو تاڑتا رہا اور اس کے دماغ کی ہوس اب اس کے ضمیر پر ہاوی ہونے لگی تھی حسن سوچنے لگا کہ جب اس نے سگی بہن سے اتنا کچھ کر لیا اب اس کہ بعد رشتوں کا ادب کرنے کا مادہ اس میں نہیں بچا وہ اپنے دل کو سمجھانے لگا کہ وہ کچھ غلط نہیں کر رہا اور کچھ ہی دیر میں وہ بنا کسی شرم یا ڈر کے خالہ کی گانڈ کو بھرپور تاڑنے لگا اور دل ہی دل میں اس گانڈ کہ مزے لینے کا سوچنے لگا مگر حسن یہ بھی جانتا تھا کہ خالہ جتنی بھی چالو عورت کیوں نہ ہوں وہ کبھی بھی حسن سے ایسا ویسا کچھ نہ کریں گی اور اس کی وجہ حسن اس کی بہن کا بیٹا اور اب اس کی بیٹی کا شوہر بھی تھا حسن اور تو کچھ کر نہ سکتا تھا سو بس لیٹے لیٹے خالہ کی گانڈ کے نظارے لیتا اور آپنے لن کو سہلاتا رہا لن کو سہلاتے نہ جانے کب حسن اس لیول کو جا پہنچا جہاں اس کہ لن نے ایک منی کا سیلاب چھوڑ دیا لن کو ٹھنڈا کر لینے کے بعد بھی خالہ کہ جسم کی ہوس حسن میں کم نہ ہوئی اب حسن کا اگلا ٹارگٹ خالہ تھی مگر یہ ایک انتہائی خطرناک اور دشوار تھا حسن یہ سب سوچتے سو گیا صبح اس کی آنکھ کھلی تو کمرے میں خالہ نہ تھی اور کشمالہ سو رہی تھی حسن کی آنکھ کھلتے ہی اس کو رات خالہ کی گانڈ یاد آئی اور گانڈ یاد آتے ہی اس کا لن ایک جھٹکا کھا کر تن گیا یہ دیکھ کر حسن نہ ایک سمائل کی اور لن کو سہلاتے سوچنے لگا کہ صبر کرو تمھاری اب یہ خواہش بھی پوری ہو گی حسن کمرے سے نکلا اور باتھروم جانے لگا راستے میں اس نے کچن میں جہانکا تو وہاں خالہ بیٹھی ناشتہ بنا رہی تھی خالہ نے ڈوبٹا صرف گلے میں کیا ہوا تھا اور ان کے ممے اپنا جوبن دیکھا رہے تھے اب حسن خالہ کو بھی حوس بھری نظروں سے دیکھنے لگا ناشتہ کر کے حسن دکان پر گیا اور سارا دن اب اپنے اگلے ٹارگٹ یعنی خالہ کے مزے لینے کے بارے سوچتا رہا مگر یہ کام بہت مشکل تھا اور اسے کوئی راستہ بھی نہ مل رہا تھا اس سب کو ایک ہفتہ گزرا حسن خالہ کو روز تاڑتا ان کے مموں اور گانڈ کو ہوس بھری نظروں سے دیکھتا رہتا رات کو بھی خالہ کہ جسم کو دیکھ دیکھ کر تڑپتا رہتا مگر اس میں ہمت نہ تھی کہ وہ اس سے بڑھ کر کچھ کر پاتا روز نئے منصوبے بناتا مگر آخر میں ہمت ساتھ نہ دیتی اور حسن کچھ نہ کر پاتا ایک رات حسن اپنے کمرے میں موجود خالہ اور کشمالہ سے باتیں کرنے میں مصروف تھا تینوں ادھر ادھر کی باتیں کر رہے تھے مگر حسن کے دماغ میں بس خالہ کا بھرا جسم چل رہا تھا اور وہ بار بار خالہ کہ مموں کو تاڑ رہا تھا خالہ نے ڈوبٹا سائیڈ پہ رکھا ہوا تھا اور وہ بیڈ پر کشمالہ کے ساتھ لیٹی حسن سے باتیں کر رہی تھی کہ تبھی خالہ نے نوٹ کیا کہ حسن ان کہ مموں کو تاڑ رہا ہے حسن کی نظر تو مموں پر تھی سو وہ اس بات سے انجان تھا کہ خالہ نے اس کی نظروں کو پہچان لیا ہے حسن آپنی طرف سے تو پوری کوشش کرتا تھا۔کہ خالہ اور کشمالہ کو شک نہ۔ہو مگر آج خالہ کہ مموں میں ڈوبا وہ بھول گیا اور خالہ نے اسے دیکھ لیا خالہ یہ دیکھ کر حیران پریشان ہو گئی کیونکہ انہوں نے ہمیشہ حسن کو بیٹے جیسے سمجھا تھا اور کبھی بھی ایسا نہ سوچا تھا مگر آج حسن کو یوں اپنا جسم تاڑتے دیکھ کر ان کو غصہ بھی آیا کشمالہ پوری لیٹی ہوئی تھی اور وہ اس سب کو نہ دیکھ پائی حسن کی نظر اب کی خالہ کہ مموں پر ٹکی تھی اور اسے ہوش تب آیآ جب خالہ نے ساتھ پڑے ڈوبٹے کو اٹھا اور اپنے جسم کو ڈھانپ کر بیٹھی حسن نے جونہی اوپر دیکھا تو خالہ کی کھا جانے والی غصیلی آنکھیں اسے دیکھ رہی تھی حسن ایک دم ڈر گیا اس کی تو سانس رک گئی وہ خود کو کوسنے لگا کہ اس سے ایسی غلطی کیسے ہو گئی اب خالہ غصے میں تھی اور کچھ نہیں بول رہی تھی بس کشمالہ نارمل باتیں کیے جا رہی تھی حسن بھی اند سے پانی پانی تھا اور پھر کچھ دیر بعد خالہ نے سونے کا کہا اور لائیٹس بند کر کے سب اپنی جگہ سونے لگے حسن کی حالت خراب تھی اسے بار بار خالہ کی وہ غصیلی آنکھیں دیکھائی دے رہی تھی اور وہ خود جو کوستا نہ جانے کب سو گیا صبح اٹھا تو حسن نے نوٹ کیا کہ خالہ اس سے نارمل بات بھی غصہ سے کر رہی تھی ان کہ لہجے میں کرواہٹ تھی اور اب وہ گھر میں پوری چادر لیٹے رہنے لگی حسن اس سب سے ڈر تو گیا مگر کہتے ہیں نا ہوس انسان کو درندہ بنا دیتی اور ہر ڈر سے آزاد بھی یہ سب ہونے کہ بعد بھی خالہ کہ جسم کی ہوس حسن سے نہ نکل پائی اس بات کو دو ہفتے گزرے اس دوران حسن خدیجہ کو تین چار بار چودھ کر اپنی آگ بجا چکا تھا مگر پھر بھی خالہ کہ جسم کا مزہ لینے کی خواہش کم ہونے کی بجاۓ اس میں بڑھتی جا رہی تھی دوسری طرف خالہ کا لہجہ بھی حسن کہ ساتھ صحیح نہ رہا اور وہ اب کوئی بھی ایسا موقع نہ دیتی جس سے ان کا جسم کھل کر حسن دیکھ پاتا یہ انسانی فطرت ہے جو چیز اسے نہ ملے اس کی طلب اور بڑھ جاتی ہے دوسرا گناہ کی لذت بھی انسان کو پاگل کر دیتی ہے حسن کو سیکس کی اب کمی نہ تھی خدیجہ کو بھی چودھ رہا تھا اور اپنی بیوی کو بھی چودھ سکتا تھا مگر جو مزہ اسے زینب اپنی بہن اور خالہ کہ بارے سوچ کہ ملتا وہ اسے کسی میں نہ آتا یہ فطرت ہے انسان کو زیادہ لزت بھی وہیں ملتی ہے جہاں گناہ ہو خالہ پوری کوشش کرتی کہ ان کا جسم حسن کہ سامنے نہ آئے مگر عورت کا جسم ایک ایسی چیز ہے جسے چھپا پانا مشکل ہوتا ہے اور گھر میں بار بار خیال رکھنا اور جسم کو چھپا پانا مشکل ہو جاتا ہے اسی لیے کبھی کبھار حسن کو خالہ کہ جسم کو دیکھنے کا موقع مل جاتا کبھی چلتے ان کی مٹکتی موٹی گانڈ کا نظارہ تو کبھی ڈوبٹا اتر جانے پہ مموں کا ابھار دکھ جانا خالہ کا جسم تھا بھی ایسا سڈول بھرا ہوا جسے چھپا پانا خاصہ مشکل تھا اور حسن بھی ایسے موقعوں کی تلاش میں رہتا اور موقع ملتے ہی خوب تاڑتا سب ایسا ہی چلتا رہا اس سے بڑھ کر کچھ کر پانے کی ہمت حسن میں نہ تھی پھر ایک دن صبح حسن کام پر جانے لگا تو خالہ نے اسے پیچھے سے آواز دی حسن رکو خالہ کی آواز سن کر حسن پیچھے مڑا تب تک خالہ اس کہ پاس پونچ چکی تھی اور بولی حسن شام کو مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے اس کیے جلدی گھر آ جانا حسن نے پوچنا تو چاہا کہ آخر کیا بات ہے مگر اس سے پہلے ہی خالہ یہ بول کر واپس چلی گئی اور پھر حسن دوکان پر چلا گیا سارا دن حسن یہی سوچتا رہا کہ آخر خالہ کونسی بات کرنا چاہتی ہیں اود پھر شام کو وہ جلدی گھر چلا گیا گھر پونچا تو خالہ کشمالہ کہ کمرے میں تھی حسن نے سلام۔کیا جس کا جواب دونو نے دیا اور پھر حسن بھی وہیں بیٹھ گیا کشمالہ حسن سے نارمل باتیں کرتی رہی مگر حسن اسی سوچ میں تھا کہ خالہ کیا بات کرنا چاہتی ہیں اس کا دل بھی کیا کہ وہ خالہ سے پوچھے مگر یہ سوچ کر چپ ہو گیا کہ جس انداز میں خالہ نے اسے کہا تھا یقیناً وہ بات کشمالہ کہ سامنے کرنے والی نہ۔ہو گی کچھ دیر ہی گزری کہ خالہ کھانا بناے کا کہہ کر اٹھی اور باہر جانے لگی اور پھر ہنستے ہوۓ بولی



جاری ہے

Post a Comment

0 Comments