ممنوع محبت
از عثمان خان
قسط نمبر 15
حسن تم بھی کبھی ساتھ کام کروا دیا کرو میں بچاری تمھارے گھر آ کر کام والی ماصی بن گئی ہوں خالہ کی بات سنتے ہیں کشمالہ ہنس پڑی اور بولی حسن جاؤ امی کے ساتھ کام کرواؤ ورنہ ابھی تعنے مارنے لگ جائیں گی جس پر سب ہنس پڑے اور حسن بولا اوکے جی میں کام۔کروا دیتا ہوں اور اٹھ کر خالہ کہ ساتھ باہر آ گیا خالہ بنا کچھ بولے کچن کی طرف چل دی اور حسن بھی ان کہ پیچھے ہو لیا حسن سمجھ گیا کہ اب خالہ اس سے بات کریں گی کچن میں پونچ کر حسن دروازے میں رک کر خالہ کو اس امید سے دیکھنے لگا کہ وہ بات کریں جس کا وہ بول رہی تھی ۔گر خالہ تو کام میں لگ گئی تبھی حسن بولا خالہ آپ نے کیا بات کرنی ہے جو صبح بول رہی تھی یہ سن کر خالہ خاموش اپنا کام کرتی رہی اور پھر پیچھے مڑتے حسن کی جانب بڑھی حسن خالہ کو دیکھ کر خاصہ ڈر گیا خالہ کے چہرے سے کافی غصہ لگ رہا تھا خالہ حسن کہ قریب آئی اور بولی حسن تمھیں بہت گرمی چڑھی ہے تمھارے لوڑے میں اتنی آگ لگی ہوئی کہ اب اپنی خالہ کو گندی نظروں سے دیکھنے لگی خالہ انتہا کی رنڈی تھی مردوں کو چرانا تو خالہ کہ بائیں ہاتھ کا کھیل تھا اور خالہ کی ایسی زبان اور گالیاں دینا بھی ان کی نیچر تھی جو ایک چالو عورت کا خاصہ ہوتی ہے حسن خالہ کا ایسا انداز دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا اس کے تو پاؤں تکے زمین نکل گئی وہ کچھ بول بھی نہیں پا رہا تھا تبھی خالہ دوبارہ اسی غصیلے انداز میں بولی اب چپ کیوں ہوں بولو ٹھنڈا کروں تمھارا لن اپنی خالہ کو چودھو کہ بے شرم اگر اب تم نے مجھے ایسے دیکھا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا حسن سب چپ چاپ سنتا رہا اور کچھ نہ بول سکا خالہ کی ڈانٹ اور گالیاں سن کر حسن کمرے میں آ گیا جہاں کشمالہ اس سے باتیں کرنے لگی مگر حسن اسے کوئی جواب نہ دے رہا تھا بلکہ اپنی سوچوں میں گم تھا اور بہت ڈرا ہوا بھی تھا اس سب کہ ںعد حسن خالہ سے نظریں چرانے لگا اور ان کی طرف دیکھتا بھی نہ اس ڈانٹ اور بے عزتی کے بعد حسن اپنے اپ کو روک چکا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ خالہ ایک نمبر کی رنڈی ہے اور وہ کچھ بھی کر سکتی ہیں اب حسن صرف خدیجہ کو چودھ کر خود کو ٹھنڈا کر لیتا مگر اب اس کا یہ مزہ بھی کچھ دن کہ لیے ختم ہو چکا تھا کیونکہ خدیجہ کا۔شوہر دوبئی سے ایک مہنہ کے لیے آیا ہوا تھا اور اس دوران وہ خدیجہ کہ ساتھ کچھ نہ کر سکتا تھا اور نہ ہی ہو کوئی رسک لینا چاہتا تھا حسن اب زینب سے بھی باتیں کرتا اور اس سے ملنے آنے کے لیے کہتا مگر ماجد کو کام سے چھٹی نہ۔مل پانے کی وجہ سے وہ نہ آ پاتی اور خالہ حسن کہ گھر تھی تو زینب گھر کو اکیلا بھی نہیں چھوڑ سکتی تھی حسن اور زینب کہ بیچ اب بس فون پر باتیں ہوتی اور کبھی کبھار وہ دونو ننگی باتیں کر کے بھی مزے لیتے ایک دن حسن دکان پر تھا زینب کی یاد اسے ستانے لگی تو وہ دکان سے نکل کر سائیڈ پہ جا بیٹھا اور زینب کو کال کر دی دن ٹائم زینب گھر پر اکیلی ہوتی تھی زینب نے حسن کی کال لی اور سلام دعا کہ بعد حسن بولا باجی آپ کی بہت یاد آتی ہے دوسری طرف یہ سن کر زینب بولی اچھا جی میرے بھائی کو بہن کی ہاد آتی ہے یا بہن کے جسم کی یہ بات سن کر حسن ہنس دیا سور بولا باجی دونو کی اچھا تو یہ بات ہے اس کیے اتنا یاد کیا جا رہا ویسے اب تو تم بیوی کہ قریب بھی نہیں جا سکتے یہ بول کر زینب ہنسنے لگی حسن بولا باجی اسی لیے اپنی دوسری بیوی کو بلا رہا ہوں زینب یہ بات سنتے ہی بہت زور کا ہنسی اور بوکی میری جان میرے بس میں ہوتا تو ابھی اڑ کر آ جاتی مگر مجبور ہوں کیا کر سکتی ہوں مگر تم کشمالہ کی ڈلیوری تک انتظار کرو پھر اس کہ بعد میں کوئی نہ۔کوئی موقع ڈھونڈ لوں گی حسن: باجی مگر اتنا دیر مجھ سے انتظار نہیں ہوتا زینب: میری جان بس تھوڑا اور انتظار کر لو پھر تمھاری بہن اپنے بھائی ہی ہر خواہش پوری کرے گی حسن بیٹھا کچھ دیر یونہی زینب سے باتیں کرتا رہا حسن کو اب سیکس کی طلب بری طرح ستا رہی تھی مگر سیکس کرنے کو اس کہ پاس کوئی عورت نہ تھی زینب اپنے گھر خدیجہ کے شوہر آنے کی وجہ اور کشمالہ کا پیٹ سے ہونا یہ سب آپشن حسن کہ لیے بند تھے اب بچتی تھی خالہ جس کو چودھنے کی خواہش تو موجود تھی مگر اس پر ڈر ہاوی تھا جس کی وجہ سے حسن اب سوچ بھی نہیں سکتا تھا دن گزرنے لگے پھر ایک دن صبح کا ٹائم تھا رات کا اندھیرا ہلکا ہلکا ختم کو رہا تھا اور صبح کی ہلکی روشنی پھیل رہی تھی خالہ معمول کے مطابق اٹھی خالہ روز اسی ٹائم اٹھا کرتی تھی کشمالہ اور حسن دونو نید میں تھے خالہ بستر سے اتری اور باہر جانے لگی باہر جاتے خالہ کی نظر حسن پر پڑی تو ایک دم ان کے قدم رک گئے اور ان کی آنکھیں بھٹی رہ گئی ان کی نظر حسن پر تھی جو سو رہا تھا اور اس کا لن پورا تنا شلوار میں تمبو بناۓ کھڑا تھا حسن کا 8 انچ کا لن یوں تنا دیکھ کر خالہ کہ ہوش اڑ گئے بہت دن بعد خالہ ایسا لن دیکھ رہی تھی خالہ ایک چالو عورت تھی مگر لن ایسے کے پانا ان کے کیے بھی کافی مشکل ہو جاتا جس کی وجہ گھر پر سب کا ہونا تھا اور کوئی ایسا اب مرد بھی نہ تھا جو ان کی خواہش کو پورا کرتا کئی سالوں کی پیاسی خالہ نے جیسے ہی حسن کا وہ مضبوط تنالن دیکھا تو وہ سب بھول گئی اور وہاں رکے حسن کہ لن کو تاڑتی رہی ان کا جسم گرم ہونے لگا اور بجلی دوڑنے لگی شوہر کے مرنے کہ بعد خالہ بہت مردوں سے چدوا چکی تھی مگر ایسا موقع ان کو بہت کم ملتا تھا اور اگر حسن اس کا بھانجا اور داماد نہ ہوتا تو حسن سے پہلے ہی خالہ اسے اپنے پیار میں پھنسا کر اس کے لن کا مزہ لیتی اور اسی رشتوں کی وجہ سے خالہ نے حسن کی بے عزتی بھی کی تھی مگر آج حسن کا تنا لن دیکھ کر وہ بھی بہک گئی اور سب رشتوں کو بھول کر اس لن کو ترستی آنکھوں سے دیکھتی رہیں حسن نید میں گم تھا اور وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ جس عورت کا مزہ لینے اور اس کہ جسم کو دیکھتا تھا آج وہی عورت اس کہ تنے لن کو تاڑ رہی خالہ کچھ دیر رکے دیکھتی رہی اور پھر باہر چلی گئی لن کی ترسی عورت اب اس منظر کو نہیں بھول پا رہی تھی اور اسے رشتوں کو بھولنے میں اب ایک منٹ بھی نہ لگا وہ سوچنے لگی کہ حسن کا لن بہت مست ہے اور اس کا مزہ بہت ہی زیادہ ہو گا ایک جوان لڑکے کی چدائی اففف یہ سوچ کر خالہ گرم ہوتی گئی مگر وہ تو میری بیٹی کا شوہر اور بھانجا ہے مگر کیا ہوا آخر ہے تو مرد ہی نہ اور اس کا تو اپنا دل بھی ہے اپنی خالہ کو چودھنے کا اور مجھے چود بھی کیا تو کونسا بیٹی کا حق مارا جانا وہ اسے بھی چودھتا رہے گا خالہ یہ سب باتیں سوچتی گرم ہوتی گئی اور حسن سے چدوانے میں بھی مطمئن ہوتی گئی اگر حسن کہ ساتھ سیکس کرے تو وہ جب چاہے اس سے چدوا سکتی اسے باہر جا کر موقع ڈھونڈنے اور ڈرنے کی بھی ضرورت نہیں رہے گی یہ سب باتیں سوچ کر خالہ اب فیصلہ کر چکی اور اب حسن کے لیے بھی وہ باقی مردوں جیسا سوچنے لگی حسن کی انکھ کھلی تو اس کا لن تنا ہوا تھا حسن نے لن کو ہاتھ سے مسلا اور دل میں سوچتے بولا اب تمھاری آگ کیسے بجاؤں ہر راستہ بند ہے کچھ دن صبر بھی کر لو اور پھر کچھ دیر لیٹا لن کے بیٹھ جانے کا انتظار کرنے لگا اور پھر اٹھ کر باتھروم چلا گیا باتھروم سے حسن واپس آ رہا تھا کہ کچن کہ سامنے سے گزرتے اس کی نظر خالہ پر پڑی جو دوبٹا گلے میں ڈالے ناشتہ بنا رہی تھی حسن نے ایک نظر دیکھا اور پھر کمرے میں آ گیا حسن اب ایسے ہی کبھی کبھی بہت تھوڑا دیکھ لیتا مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ اب خالہ بھی اسے ایسا دیکھانا چاہتی ہیں حسن تیار ہوا اور پھر کشمالہ بھی اٹھ گئی حسن اسے باتھروم تک لے گیا ویسے کشمالہ خود چل تو سکتی تھی حسن اس کے ساتھ اس لیے گیا کہ ایسی حالت میں اس کو اگر کوئی پرابلم ہو تو اس کو سنبھال سکے اور پھر کمرے میں بیٹھ کر ناشتے کا انتظار کرنے لگا تھوڑی ہی دیر بعد خالہ کمرے میں ناشتہ لے کر آئیں اور تینو ناشتہ کرنے لگے حسن کی ایک نظر خالہ پر پڑی تو وہ حیران سا ہوا خالہ نے آج پھر ڈوبٹا گلے میں ڈالا ہوا تھا اور اپنے ممے نکالے حسن کے سامنے بیٹھی تھی حسن سوچ میں پڑ گیا کہ پہلے تو خالہ اپنا جسم ڈوبٹے سے ڈھانپ کہ رکھتی تھی مگر آج پھر وہ ایسے مزے سے بیٹھی ہیں شاید وہ بھول گئی ہو گی اور پھر حسن خالہ سے نظریں ہٹا کر ناشتہ کرنے لگا اور دکان پر چلا گیا خالہ کا دل تھا کہ اب حسن اسے دیکھے مگر حسن نے اسے زیادہ نہیں دیکھا تھا خالہ سمجھ گئی کہ اب حسن ڈرا ہوا ہے اس دن کی ڈانٹ کے بعد وہ نہیں دیکھے گا سو اس کو پھنسانے کے لیے کچھ اور کرنا چاہیے خالہ نہ سوچا کہ حسن ویسے بھی اس پر گندی نظریں ڈال کر اپنا ارادہ بتا چکا تھا تو اگر اب وہ صاف لفظوں میں اگر حسن کو بول دے تو اس سے کچھ گڑبڑ نہیں ہو گی اور ویسے بھی خالہ جیسی چالو عورت کہ لیے یہ کرنا مشکل نہ تھا انہوں نے ایسے نظارے کروا کر حسن کو اپنے جسم کی ہوس میں گرفتار کرنے کی بجاۓ سیدھا بات کرنے کو ترجیح دی اور شام کا انتظار کرنے لگی شام کو حسن گھر آیا تو ویسے تو سب نارمل تھا مگر ایک بات تھی جو بار بار حسن کو سوچنے پر مجبور کر رہی تھی اور وہ یہ کہ خالہ اب بنا ڈوبٹے اس کے سامنے گھوم دہی تھی اور باتیں بھی بڑی ہنس ہنس کے کر رہی تھی حسن کو لگا کہ شاید خالہ اب یہ جان چکی ہیں کہ حسن انہیں نہیں دیکھتا اس لیے اب وہ دوبارہ نارمل ہو گئی ہیں حسن انہیں سوچوں میں گم کچن میں تھا جہاں خالہ روٹی بنا رہی تھی اور کشمالہ ان کہ ساتھ بیٹھی باتیں کر رہی تھی خالہ نہ پھر ڈوبٹا نہیں کیا ہوا تھا سور روٹی بناتے ان کے تھرتھراتے موٹے ممے صاف دیکھائی دے رہے تھے مگر حسن پوری کوشش کر کے ان کو نہیں دیکھ رہا تھا مگر اس کے کیے بنا دیکھے وہاں رک پانا مشکل ہو رہا تھا اسی لیے وہ پیچھے مڑا اور کمرے میں آ کر بیٹھ گیا15 دن ہونے کو آۓ تھے روز پھدی کا مزہ لینے والا 15 دن سے سیکس کا بھوکا تھا حسن کا اب موڈ بہت خراب تھا اور وہ سوچ رہا تھا کہ اب وہ حاجی صاحب کو مجبور کرے اور کسی نہ کسی طرح خدیجہ کو چودھے وہ اسی سوچ میں تھا کہ کمرے میں کشمالہ آئی اور آتے ہی حسن کو بولی حسن امی بلا رہی کچن میں اور خود بستر پر آ کر لیٹ گئی حسن اٹھا اور کچن کی طرف چلنے لگا وہ جیسے ہی کچن کہ دروازے میں پہنچا تو سامنے خالہ کھڑی تھی حسن ان کو ایک دم سامنے دیکھ کر چونکا اور پھر سنبھل کر کچھ بولتا اس سے پہلے ہی خالہ ایک کمینگی مسکریٹ کے ساتھ بولی آؤ گدھے۔۔۔ حسن خالہ کہ منہ سے ایسا لفظ سن کا ایک دم حیران ہوا کہ خالہ اسے گدھا کیوں بول رہی اور پھر حیرانگی سے بولا کیا ہوا خالہ حسن سمجھا کہ شاید خالہ نے پھر حسن کو ان کہ ممے تاڑتے دیکھ لیا تبھی خالہ ہنستے ہوئے بولی یہ جو گدھے کا لن لگوا کر گھوم رہے اب گدھا نہ بولو تو کیا بولو اور پھر کھل کر ہنسنے لگیحسن کو خالہ کا یہ انداز حیران کر گیا اس دن کی ڈانٹ کہ بعد حسن خالہ سے ڈر رہا تھا مگر خالہ کہ منہ سے ایسے لن کا سننا اسے حیران کر گیا حسن کچھ بولتا یا خالہ اس سے پہلے کشمالہ کی کمرے سے آواز آئی امی جس پر دونو کمرے میں دوڑے جب کمرے میں پہنچے تو کشمالہ بولی کھانا لے بھی آؤ بہت بھوک لگی ہے جس کو سن کر حسن اور خالہ دونو نے کشمالہ کو ڈانٹا کہ وہ تو ڈر گئے کہ آخر کیا ہواپھر خالہ کھانا لگانے لگی اور تینوں نے مل کر کھایا اور پھر معمول کے مطابق باتیں کرنے لگےحسن اس سب ٹائم میں خالہ کا وہ انداز اور باتیں سوچتا رہا وہ خالہ کہ ایسے انداز سے واقف تو تھا مگر اچانک ایسا پھر بولنا اسے حیران کر گیاکچھ دیر باتیں کرنے کے کشمالہ نے سونے کا کہا کشمالہ کو نیند آنے کی وجہ اس کی دوائیاں تھی جو وہ رات کو لیتی تھی جس میں نید کی گولی بھی شامل تھی اور پھر کمرے کی لائٹ بند کر جے سب سونے لگے حسن بھی کروٹ بدلے کچھ دیر سوچوں میں گم سو گیاحسن کی آنکھ کسی کہ ہلانے پر کھلی جب حسن نے آنکھ کھول کر دیکھا تو سامنے خالہ تھی جو اسے بازو سے ہلا کر جگا رہی تھی حسن انہیں دیکھ کر اتھ بیٹھا اور بولا جی خالہ کیا ہوا مگر خالہ حسن کے سوال کا بنا جواب دیے کمرے کے دروازے کی طرف چلی اور باہر نکل گئی حسن سوچنے لگا کہ آخر ہوا کیا اور خالہ ایسے اسے جگا کر بنا کچھ بولے کہاں چلی گئی یہی سوچتے وہ بھی اٹھا اور کمرے سے باہر نکل آیا مگر اسے باہر خالہ نظر نہ آئیں حسن حیران تھا کہ خالہ کر کیا رہی ہیں تبھی اسے خالہ کی آواز آئی اور جب نے آواز کے تعاقب میں دیکھا تو ساتھ والے کمرے میں کھڑی حسن کو آواز دے رہی تھی حسن انہیں دیکھتے ہی ان کی طرف جاتے بولنے لگا خالہ کیا ہوا خیر تو ہے اور اتنے میں وہ کمرے کے دروازے پہ کھڑی خالہ کہ قریب پہنچ گیا ابھی حسن بول ہی رہا تھا کہ خالہ نے اسے بازو سے کھنچ کر کمرے کہ اندر کر لیا کمرے کی لائٹ آن تھی حسن حیران پریشان تھا کہ خالہ عجیب حرکتیں کیوں کر رہی خالہ کی ڈانٹ کے بعد تو حسنِ خالہ کے بارے ویسا سوچنا بھول چکا تھا وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ خالہ اس سے کیا کرنے والی تبھی خالہ حسن کہ قریب ہوتے گندے آنداز میں ہنستے بولی آؤ میرے گدھے کہ لن۔والے شیر حسن خالہ کی دوبارہ ایسی بات سے حیران ہوا اور بولا خالہ آپ کیسی باتیں کر رہی تبھی خالہ نے حسن کو گریبان سے پکڑا اور بولی کل۔تک تو میرے ممے اور کانڈ دیکھتا تھا اب بول رہا کیا ہوا تم میرے جسم کا مزہ لینا چاہتے ہو نا تو لو میں کچھ نہیں بولوں گی مگر میری بات سن کو اس بات کا کسی کو پتا نہیں چلنا چاہیےحسن یہ سب سن کر دنگ رہ گیا کہ اس کی خالہ اسے یہ سب بول رہی حسن کو یوں دنگ دیکھ کر خالہ ہنسی اور حسن کا لن شلوار کہ اوپر سے پکڑ کر بولی ظالم کیا لن اٹھایا ہوا ہے جسے دیکھ کر میری پھدی بھی جل اٹھی مزے تو میری بیٹی کے ہیں حسن اب سب سمجھ گیا کہ خالہ اب پوری تیار ہے سو اس نے بھی سوچا کہ اب چپ رہا تو شاید وہ سب کھو دے اسی لیے حسن بھی بولا خالہ اس دن تو آپ نے مجھے ڈانٹا تھا اور آج خد۔۔۔ہاں تو تب مجھے کیا پتا تھا کہ میرے داماد اور بانجھا کسی گدھے کہ لن جیسا لن لیے پھر رہا اور اس دن ڈانٹا تو اب اتنے مزے دوں گی کہ سب بھول جاۓ گا سور یہ بولتے ہی حسن کو اپنی باہوں میں کے کر چومنے لگی حسن کو یقین نہیں ہو پا رہا تھا کہ یہ سب اصل میں ہو رہا ہے وہ جب تک یقین کرتا خالہ اس کا نالا کھول چکی تھی اور اس کی شلوار اس کے قدموں میں گر چکی تھی حسن کو یقین آ گیا کہ یہ خواب نہیں بلکہ حقیقت ہے اور وہ خوشی کہ مارے اندر ہی اندر اچھلنے لگا اس کی سیکس کی بھوکھ جو آج پوری ہونے جا رہی تھی اس کی خالہ سے حسن کا۔لن راڈ بنا کھرا تھا جسے خالہ ہاتھ میں لیتے ہی بولی اففف حسن کیا لن لے کے پھر رہا اود پھر حسن کا لن منہ میں ڈال کر چوسنے لگی حسن کو خالہ کا یہ رنڈیوں والا انداز پاگل کر رہا تھا اب حسن نے بھی ہمت پکڑی اور خالہ کہ سر کو پکڑے اسے لن پر دبانے لگا حسن لذت کی وادیوں میں گم تھا کہ خالہ نے اس کا لن چھوڑا سور اٹھ کھڑی ہوئیاور حسن کی قمیض بھی اتر دی حسن اب بلکل ننگا تھا حسن نے بھی اپنا ہاتھ خالہ کی قمیض میں ڈالا اور ان کی قمیض اتار دی خالہ نے بریزیئر خود ہی اتار دیا حسن خالہ کہ سخت گول مڈول مموں کو دیکھ کر پاگل سا ہو گیا اور ہاتھ بڑھا کر مموں کو پکڑنے ہی والا تھا کہ خالہ نے اس کے ہاتھوں کو پکڑا اور روک دیا حسن حیران سا ہو گیا کہ آخر اب کیا ہوا تبھی خالہ نے اسے بستر پر لیٹا دیا اور خود اس کے اوپر لیٹ گئی اور اپنا ایک مما حسن کہ منہ میں دے دیا حسن کہ منہ میں مما آتے ہی حسن پاگلوں کے جیسے اسے چوسنے لگا اور دوسرے ہاتھ سے خالہ کا دوسرا مما دبانے لگا حسن 15 دن سے سیکس کے لیے تڑپ رہا تھا اس لیے وہ بہت وحشیانہ انداز میں پاگلوں کہ جیسے خالہ کہ مموں کو چوس رہا تھا اور دبا رہا تھا اور پھر سیکس کہ دوران خالہ بولی چوسو اور چوسو بہت تاڑتے تھے اپنی خالہ کے ممے آج چوس لو دل پھر کہ بہن چودخالہ گالیاں دینے میں ماہر تھی ایسی گندی گندی گالیاں جو سن کر کوئی مرد بھی شرما جاۓ اور حسن کو خالہ کی گالیاں اور مزہ دے رہی تھی حسن خالہ کہ مموں کو چوسے جا رہا تھا اور خالہ اس کا لن پکڑے سہلاتے اسے گالیاں دیے جا ری تھیکتے کیا گدھے کا لن لیا ہوا آج تو اپنی خالہ کی بھی اس جوان لن سے پھدی ماپھر حسن اٹھا اور خالہ کی شلوار اتارنے لگا خالہ کی پھدی دیکھ کر حسن کے ہوش اڑ گئے وہ پھدی نہیں بلکہ پھدا تھا جس کہ موٹے موٹے ہونٹ تھے حسن اب صبر کھو چکا تھا اور بنا کچھ اور کیے خالہ کہ اوپر چڑھ گیا اور اپنا لن خالہ کہ پھدے پر رکھ کر پھدے کے ہونٹوں پر مسلنے لگا خالہ مستی اور مزے میں پاگل ہو رہی تھی اتنے دنوں بعد لن کی رگڑ انہیں پاگل کر رہی تھی خالہ نے کڑوٹ لی اور حسن کو نیچے کرتے خود اوپر آگئی اور لن پر خود پھدی کو مسلنے لگی خالہ کی پھدی حسن کہ پانی سے نہلا چکی تھی اور پھر خالہ نے لن کو پکڑ کر پھدی پر سیٹ کیا اور آہستہ آہستہ اس پہ بیٹھتی گئی اور لن اندر گھستا چلا گیا حسن تو مزے میں گم لذت میں تھا ایسی لزت جس کا کوئی توڑ نہیں تھا حسن کا لن پورا خالہ کی پھدی میں تھا جسے خالہ پورا اندر لے کر ایک سکون کی آہیں بھر رہی تھیں جیسے کسی پیاسے کو پانی ملا ہو خالہ اوپر ہوتی اور پھر لن کو اندر تک لے لیتی ایسے ہی کچھ دیر وہ کرتی رہیں اور پھر ان کی سپیڈ آہستہ آہستہ بڑھنے لگی خالہ حسن کہ لن پر پورے زور سے اچھل رہی تھی سور حسن کا لن خالہ کے پھدے میں اندر باہر ہو رہا تھا حسن جس مستی اور مزے میں تھا اس کا اندازہ اس کے انداز سے ہو رہا تھا حسن بار بار اچھل رہا تھا اور خالہ کا ساتھ دے رہا تھا ایک میچور آنٹی ٹائپ عورت کو چودھنے کا یہی تو مزہ ہوتا ہے کہ وہ پوری تجربہ کار ہوتی ہے اور سامنے والے کو خوب مزہ دیتی ہے وہیں خالہ میچور آنٹی ہونے کے ساتھ ساتھ بہت بے شرم بھی تھیسیکس کے دوران خالہ کہ منہ سے کل جہاں کی گندی گالیاں نکل رہی تھی حسن کے لن پر اچلتی خالہ منہ سے گالیاں بکے جا رہی تھی اور حسن کو یہ گالیاں اور زیادہ مزہ دے رہی تھی جیسے سونے پر سہاگا ہوگدھے کہ لن والے بہن چود جب تمھارے لن کا پانی نکلنے لگے تو بتانا کہیں میرے پھدے میں ہی نہ چھوڑ دینا خالہ نے حسن کے لن پر اچلتے بولا جیسے سن کر حسن بھی بولاہاں رنڈی تیری پھدے میں پانی نہیں ڈالتا اور خالہ کے مزے لینے لگا 10 منٹ تک یہ سب چلتا رہا مگر اب حسن میں اور صبر باقی نہ رہا اس کو لگا کہ اب اس کا لن اپنا پانی چھوڑنے والا ہے تو اس نے جلدی سے لن کو باہر نکالا اور سائیڈ پر ہو گیا حسن کا لن جھٹکے کھاتا منی کا سیلاب بہانے لگا جو کئی۔دن۔سے اس میں جمع تھا حسن فارغ ہو چکا تھا مگر خالہ کا پھدا ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا تھا خالہ کو حسن کا فارغ ہونا پسند نہ آیا اور بولیکتے اتنی جلدی فارغ ہو گئے اتنا بڑا لن لیا ہوا مگر ٹائمنگ بلکل بھی نہیں حسن خالہ کی بات سن کر حیران ہوا اور بولا 10 منٹ سے تو تمھارا پھدا چودھ رہا اب اس سے زیادہ اور کتنی ٹائمنگ ہو جس پر خالہ بوکھلا اٹھی اور حسن کو ایک دو گالیاں دے کر لیٹ گئی حسن کی بات ٹھیک تھی مگر خالہ۔کہ۔پھدے کو ٹھنڈا کرنا بھی آسان نہ تھا دونو کچھ دیر لیٹے رہے حسن دوسری بار کرنا تو نہ چاہتا تھا کیوں کہ اسے کشمالہ کا۔ڈر بھی تھا کہ کہیں وہ اٹھ گئی تو کمرے میں خالہ اور حسن کو غائب دیکھ کر وہ باہر نہ۔آ جاۓ مگر وہ اس بات سے مطمئن بھی تھا کہ کشمالہ نید کی گولیاں لے کہ۔سو رہی سو اس کا اٹھ جانے کا چانس کم ہے حسن اب خالہ کو ٹھنڈا کرنا چاہتا تھا کیوں کہ اگر وہ خالہ کو ایسے ہی چھوڑ دیتا تو دوبارہ خالہ اس کو مزہ۔نہ لینے دیتی
جاری ہے
0 Comments