ads

Mamno Muhabbat - Last Episode

ممنوع محبت

 از عثمان خان 

۔۔۔۔؟۔۔۔۔؟۔۔۔۔آخری قسط۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔



پھر حسن نے منہ اوپر کیا اور زینب کے اوپر ہوتا اسے چومنے لگا حسن زینب کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں دباۓ چوس رہا تھا اور زینب حسن کا ایسا پیار کرنے کے سکون میں آنکھیں بند کیے لیٹی رہی حسن اپنی زبان کو زینب کے منہ میں ڈالتا اور پھر اس کے ہونٹوں کو چوس لیتا زینب بھی اب بھائی کا ساتھ دیتے اس کے ہونٹوں کو چوسنے لگے حسن کے دونو ہاتھ اب باجی کہ مموں پر پونچ چکے تھے جنہیں حسن کپڑوں کے اوپر سے بہت پیار سے مسل رہا تھا باجی بھی اپنے نرم ہاتھوں میں حسن کا لن پکڑے مسل رہی تھی حسن اور زینب اب دونوں گرم ہو چکے تھے اور اب کھیل شروع ہو چکا تھا حسن نے زینب کو اوپر اٹھایا اور اس کے کپڑے اتار دیے اور اپنے بھی اب دونو مکمل ننگے تھے کمرے میں زیرو بلب کی روشنی ہی تھی جس میں زینب کا دودھ جیسا چمکتا جسم اپنی خوبصورتی دیکھا رہا تھا حسن ویسے ہی ننگا زینب کے اوپر لیٹ گیا اور اس کے ہونٹوں کو چوستا نیچے بڑھنے لگا گردن سے مموں کے اوپر چوما اور پھر باجی کے نپل کو منہ میں لے کر چوسنے لگا حسن اس قدر مزے میں تھا کہ اس کو اب کسی بات کا خیال نہ تھا بس باجی کہ مموں میں ڈوبا مست چوسے جا رہا تھا زینب جو ماجد نے کبھی بھی ایسے نہ چودھا تھا وہ تو بس آتآ اور زینب کو لن ڈال کر 5منٹ میں سائیڈ ہو جاتا وہیں حسن باجی کے جسم کے ایک ایک حصہ کو چوم اور چاٹ رہا تھا حسن پیٹ سے چومتا باجی کہ پھدے تک پہنچ چکا تھا اور بنا ہچکچاۓ ایک دم اپنے ہونٹ باجی کی پھدی پر سیٹ کیے اور پوری طاقت سے چوسنے لگا حسن ایسے چوس رہا تھا جیسے پھدی سے میٹھا شہد نکل رہا ہو زینب زندگی میں دوسری بار پھدی چٹوانے کا مزہ لے رہی تھی پہلی بار بھی اسے یہ مزہ اپنے سگے بھائی سے ملا تھا زینب لزت میں اتنی ڈوبی تھی کہ اس کی نکلتی سکون بھری سسکیاں کمرے میں گونج رہی تھیں دونو سیکس اور بہن بھائی کہ پیار میں سب بھول چکے تھے اور ایک دوسرے کو پاگلوں کی طرح پیار کر رہے تھے انہیں یہ خیال بھی نہ رہا کہ ساتھ کمرے میں حسن کی بیوی سو رہی زینب اپنی آوازیں روکنے کی پوری کوشش کر رہی تھی مگر حسن کا یوں اس کی پھدی کو چوسنا اسے آپے سے باہر کر رہا تھا اور وہ اپنے آوازوں پر قابو نا رکھ پا رہی تھی اسی لیے اپنا ایک ہاتھ منہ پر رکھ کر اپنی سیکس بھری آہوں کو دبانے لگی لڑکی کی پھدی چوسی جاۓ اور وہ دیر تک ٹک پاۓ ممکن ہی نہیں زینب کو جب لگا کہ اس کی پھدی پانی چھوڑنے والی تبھی مشکل سے اس نے حسن کو دور کیا اور اپنے جزبات کو سنبھالنے لگی حسن باجی کی اس حرکت سے حیران ہوا کہ باجی کو کیا ہوا وہ پہلے بھی باجی کو چوس کر فارغ کرتا تھا مگر آج اسے باجی نے روک کیوں دیا تبھی زینب حسن کی حالت سمجھ کر بولی بھائی آپ کے بچے کی ماں بننا ہے مجھے میں چاہتی ہوں کہ آپ پہلے وہی کریں حسن باجی کی بات سن کر اور مستی میں آ گیا اور مسکراتے ہوۓ ضرور باجی بول کر زینب کی ٹانگیں اوپر کو اٹھا دی زینب نے بھی اپنی ٹانگوں کو ہوا میں اٹھا کر پکڑ لیا ایک بہن اپنے سگے بھائی کو خود اپنی ٹانگیں اٹھا کر زنا کی دعوت دے رہی تھی تاکہ وہ اپنے بھائی کہ ہی بچے کی ماں بن سکے یقیناً ایسا انداز حسن کو پاگل کر گیا اور حسن زینب کی پھدی پر لن ٹکا کر رگڑتے اس کی ہونٹوں کو چوسنے لگا اور مموں کو ہاتھوں میں لے کر دبانے لگا حسن کچھ دیر لن کو پھدی پر رگڑتا رہا جس سے زینب کی تڑپ بڑھنے لگی زینب سے اب اور برداشت کر پانا نا ممکن تھا تبھی وہ بولی بھائی اندر ڈالو اففففحسن کو زینب کی سیکس کے دوران ایسی باتیں بہت مزہ کر رہی تھی اپنی بہن سے لن ڈالنے کی منتیں سن کر اس کے لن میں اور جان آ جاتی اور اس کی مستی انتہا کو پہنچ جاتی حسن نے اپنا لن باجی کی پھدی پر فٹ کیا اور اس کو آہستہ آہستہ پھدی میں دھکیلتا ہوا اس کہ اندر اترتا گیا باجی زینب کنواری نہ تھی اس لیے حسن کا لن آسانی سے لے گئی اسے تھوڑا درد تو ہوا کیونکہ حسن کا لن ماجد سے کافی موٹا اور لمبا تھا مگر یہ درد ہی اس کی اصل لزت اور سکون تھا زینب کی آہیں اور سسکیوں کو آوازیں اب کافی بڑھ چکی تھی اور حسن زینب کو لن ڈال کو چودھ رہا تھا حسن اپنا لن پھدی میں پورا ڈالتا پھر نکال کر پھر ڈالتا زینب باجی کی پھدی حسن کہ لن کو چپکی ہوئی تھی حسن کی مستی اب ںڑھ چکی تھی جس سے لن کی سپیڈ میں بھی اضافہ ہو چکا تھا حسن زینب کی ٹانگیں اٹھاۓ اب بری طرح باجی کو چودھ رہا تھا اور کمرے میں گونجتی لن اور پھری کی آواز میں زینب کی مست بھری سسکاریاں تھیں دونو اب تمام سوچوں سے انجان تھے ان کو یہ خیال بھی نہ رہا کہ ساتھ کمرے میں کشمالہ سو رہی کچھ ہی دیر میں دونو اپنے مقام کو پہنچنے کو تیار تھے حسن کا لن اپنا پانی چھوڑنے لگا اور زینب کی پھدی بھی اپنا پانی چھوڑنے لگی حسن کو ایسے لگا جیسے زینب کی پھدی سے زور سے حسن کہ لن کو جھگڑ لیا ہو اور اس کے منی کا ایک ایک قطرہ نچوڑ لیا ہو حسن وہیں زینب کہ اوپر لیٹ گیا اور ہانپنے لگا اس کا لن ابھی بھی زینب کی پھدی میں تھا دونو بہن بھائی ایک دوسرے کے پیار کا آخری قدم اٹھا چکے تھے زینب اور حسن کچھ دیر وہیں لیٹے رہے چپ چاپ یہ خاموشی شاید ان کہ درمیان سکون اور اطمینان کی تھیحسن بہت شکریہ مجھے ماں بنانے کے لیے حسن باجی کو چومتے ہوۓ بولا باجی ابھی کہاں ابھی تو آپ کو ایک بار اور کرنا ہے تاکہ آپ لازمی ماں بن جاؤ زینب حسن کی بات سن کر مسکرا دی اور اس سے چپک گئیحسن اور زینب کچھ دیر لیٹے رہے اور کچھ ہی دیر بعد حسن کا جوان گدھے جیسا لن پھر سر اٹھانے لگا حسن لن کی مدد کرتے زینب کے اوپر رگڑتے اسے چومنے لگا حسن کبھی کبھی زینب کے مموں کو زور سے ہاتھ میں پکڑ کر دبا دیتا جس سے زینب کی سسکی نکل جاتی زینب حسن کا نیم کھڑا لن پکڑ کر سہلانے لگی جو زینب کے ہاتھ میں آتے ہیں تن گیا کچھ دیر ایک دوسرے کے جسموں سے کھیلنے کہ بعد حسن اب دوبارہ لن ڈالنے کو تیار تھا حسن باجی کو پھر ویسے ہی ٹانگیں اٹھا کر لن ڈالنا چاہتا تھا کیوں کہ اس انداز میں اسے باجی کو چودھنے کا الگ ہی مزہ آ رہا تھا اس نے دوبارہ زینب کی ٹانگوں کو اوپر اٹھایا اور اپنا لن اس بار سیدھا اندر گھسا دیا پھدی پہلے سے منی سے بھری پڑی تھی لن اوپر رکھتے ہی پھسل کر اندر تک اتر گیا اور چدائی شروع ہو گئی حسن اب کی بار پھر باجی زینب کی پھدی کو بری طرح اپنے گدھے جیسے لن سے چودھے جا رہا تھا دونو ایک بار فارغ ہو چکے تھے اس کیے کافی ٹائم تک حسن لن ڈال کر جھٹکے لگاتا رہا اور دوسری بار بھی زینب باجی کہ پھدے میں لن کا پانی ڈال کر فارغ ہو گیا حسن زینب کو دوبارہ کرنا چاہتا تھا مگر اب اس کی ہمت جواب دے چکی تھی اور وہ زینب کے بازو میں لیٹ کر لمبی سانسیں لیتا ہانپنے لگا زینب باجی کے پھدے میں کافی تکلیف اور جلن ہو رہی تھی اس کا پھدا اس قدر لمبی چدائی سے لال ہو گیا تھا جیسے اس کہ ہونٹوں کو کسی نے خراش ڈالا ہو زینب کو یہ درد اس قدر پیارا لک رہا تھا اور مزہ دے رہا تھا کہ وہ جان بوجھ کر بھی پھدی کو مسل دیتی جب وہ درد کم ہونے لگتا تو کیونکہ یہ درد اس کے بھائی کی دی ہوئی محبت کی نشانی تھی دونو وہیں لیٹے تھکن کی وجہ سے جلد سو گئے صبح حسن کی آنکھ دروازہ کھٹکنے سے کھلی مگر وہ ارد گرد کا منظر دیکھ کر ایک دم چونک سا گیا باہر کشمالہ کھڑی اسے دروازہ کھٹکھٹا کر آوازیں دے رہی تھی اور اندر حسن اور زینب ننگے ایک ہی بستر پر لیٹے ہوۓ تھے حسن کے تو ہوش اڑ گئے اس نے جلدی سے زینب کو جگایا اور کپڑے پہننے لگا زینب کی بھی آنکھ کھلی تو کشمالہ کی آواز اور دروازے کی کھٹکھٹاہٹ سن کر سمجھ گئی اور جلدی سے شلوار اور بنا بریزیئر قمیض پہن کر کمبل کر کے سونے کی ایکٹنگ کرنے لگی حسن بھی کپڑے پہن چکا تھا اور دروازہ کھولنے لگا دروازہ کھلا تو کشمالہ اسے دیکھ کر بولی بہن ائی ہوئی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ سارا دن سوتے رہو دیکھو تو ٹائم کیا ہو گیا حسن کشمالہ کی باتوں پر دیھان نہیں دے رہا تھا اور بنا کچھ بولے باتھروم کی طرف چل پڑا کشمالہ بھی حسن کو تنز مارتے کچن میں چلی گئیحسن جب تیار ہو کر کمرے میں گیا تو زینب اور کشمالہ دونو بیٹھی اس کا ناشتہ لیے انتظار کر رہی تھی حسن نے ناشتہ کیا اور دکان پر چلا گیا زینب حسن سے چدوا کر آج بہت خوش تھی اسے برسوں بعد بھائی کا پیار اور وہ قربت حاصل ہوئی تھی جو وہ چاہتی تھی وہیں حسن بھی دکان پر پہنچ کر بس ناجی کہ بارے اور رات کی چدائی کو سوچ رہا تھا حسن کا دل چاہتا تھا کہ کاش کشمالہ کی جگہ اس کی بیوی زینب باجی ہوتی زینب سے اس کا پیار اور بڑھ چکا تھا اور اس سب کہ بعد تو معاملہ اپنی حد پار کر چکا تھا زینب حسن کہ گھر تیں دن رہنے کہ لیے آئی تھی تینوں راتیں حسن اور زینب کا جسمانی پیار چلا اور حسن نے باجی کو ماں بنانے کے لیے اس کے پھدے میں لن کا پانی ڈال کر اپنا بیج ڈال دیا اب زینب کہ گھر جانے کا دن آ چکا تھا حسن اور زینب دونو اندر سے یہ نہ چاہتے تھے مگر وقت کا یہی تقاضا تھا صبح حسن تیار ہوا اور ناشتہ کر کے زینب کو گھر چھوڑنے جانے لگا کشمالہ نے دونو کو الوداع کیا اور وہ دونو گھر سے نکل آۓ راستے میں دونو کہ درمیان کوئی خاص بات نہ ہوئی دونو بہن بھائی ایک دوسرے سے پھر جدا ہو رہے تھے حسن زینب کو گھر چھوڑ کر عصر تک گھر لوٹ آیا حسن کا کسی بھی کام میں دل نہیں لگ رہا تھا زینب کی جدائی اسے ستا رہی تھی مگر وہ مجبور کر بھی کیا سکتا تھا کشمالہ ںے بھی حسن کی اداسی اور چپ کو نوٹ کیا مگر خاموش رہیرات کو جب دوںو اپنے بیڈ پر لیٹے تھے تبھی کشمالہ نے حسن کے قریب ہوتے اسے گلے لگایا اور چومنے لگی یہ سیکس کا اشارہ تھا مگر حسن اپنی بہن کے پیار میں ڈوبا اس کی جدائی میں پریشان تھا اس کا سیکس کرنے کا بلکل موڈ نہ تھا اسی لیے اس نے کشمالہ کو پیچھے کو کر دیا اور سیدھا لیٹ کر سونے لگا کشمالہ کو حسن کا یوں کرنا اچھا تو نہ لگا مگر وہ چپ ہو گئی اور بنا کچھ بولے سوگئی ایک دو دن بعد ہی حسن کا رویہ کشمالہ سے صحیح ہو گیا اور اب وہ اسے سیکس کرنے لگ گیا دن گزرنے لگے حسن کشمالہ اور خدیجہ کو تقریباً روز چودھتا خالہ کو بھی چودھنے کا کبھی کبھی اسے موقع مل جاتا اور زینب کو بھی بہت بار وہ چودھ چکا تھا وہ بہت خوش تھا اور مطمئن بھی وہیں زینب بھی اب پیٹ سے کو چکی تھی سب یہی سمجھے کہ یہ شاید ڈاکٹر کی دوائیوں کا اثر ہے مگر اندر کا راز صرف زینب اور حسن ہی جانتے تھے اور آخر کار وہ دن آ ہی گیا زینب کو ہسپتال لے کر گئے تو پتا چلا کہ اس کو بیٹی ہوئی ہے حسن باجی سے ملنے جب کمرے میں گیا تو زینب بستر پر لیٹی تھی اور اس کے ساتھ بچا بھی حسن کشمالہ سے قریب گیا اس کے ماتھے کو چوما اور بچی پر نظر ڈالی تو بہت ہی پیاری تھی تبھی زینب آہستہ سے حسن کو بولی بھائی مبارک ہو آپ کی بیٹی ہوئی ہے جس پر حسن مسکراتے ہوۓ بولا خیر مبارک میری باجی کو بھی بہت مبارک ہو اور پھر وہاں موجود ماجد خالہ اور کشمالہ سب زینب مو مبارک دیتے باتیں کرنے لگے حسن کچھ دیر زینب کے پاس بیٹھا اور پھر باہر نکل آیا حسن بہت خوش تھا اتنی خوشی اسے اپنے بیٹے پر بھی نہ ہوئی تھی جتنی کشمالہ کے ماں بننے پر تھیوہ ہسپتال میں بنے پارک میں جا بیٹھا اور کال کر کے حاجی صاحب کو بتایا حسن ابھی وہیں بیٹھا تھا کہ اسے کسی کہ سلام کہ آواز آئی حسن نہ جب پلٹ کر دیکھا تو وہ کاشف تھا وہی کاشف اس کے سکول کا دوست اسے دیکھتے ہی حسن اٹھا اور دونو ایک دوسرے کو بہت گرم جوشی سے ملے کاشف حسن بولا تم یہاں کیسے حسن نے اسے بتایا کہ اس کی بہن کو بچا ہوا جس پر کاشف ںے اسے مبارک باد دی حسن کاشف سے بہت عرصہ بعد مل رہا تھا مگر کاشف تم یہاں کیسے کاشف: اصل میں میری بیوی کی بھی آج ڈلیوری ہوئی میری بھی بیٹی ہوئی ہے یہ سن کر حسن حیران ہوتے اسے مبارکباد دیتا بولا یار شادی بھی کر لی بتایا بھی نہیں اور یہاں اس شہر کیسے آۓ ہوجس پر کاشف بولا بس یار لمبی کہانی ہے یہاں میں پڑھتا تھا تمھیں بتایا تھا نا کہ۔میری اک کزن ہے جس سے میں چدائی کرتا تھا یار اب تم سے کیا چھپا ہوا ہے ایک دن ہمیں گھر والوثنے پکڑ لیا اور پھر میری شادی اسی کزن سے کروا دی اس شہر میں اس کہ ابو کا بزنس تھا تو ہم ادھر ہی آگئےحسن کاشف کی بات سن کر حیران بھی اور پھر ہنستے ہوۓ بولا کوئی نہیں یار پھر تو شادی کی بھی مبارک ہو جس پر کاشف ہنس پڑاکاشف: یار حسن تم سناؤ میں نے تمھاری شادی کا سنا تھا اور یہ بھی کہ تمھارا بیٹا بھی ہے بہت دل کرتا تھا ملنے کو مگر موقع نا ملاجس پر حسن نے کہا ہاں یار بس شادی سب بہت جلدی اود چپ چاپ ہوئی کسی کو بلا بھی نا سکا جس پر کاشف بولا کوئی بات نہیں چلو آخر کار تمھیں کوئی چودھنے کو تو ملاکاشف کی یات بات سن کر حسن مسکرا دیا اور دل میں سوچنے لگا کہ میرے دوست تم کیا جانو اب کیا کیا چودھنے کو مل رہا


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


یہ کہانی اپ کو کیسی لگی پلیز اپنی راۓ ضرور دیجیۓ گا شاید اس کہانی۔ میں کچھ کمی رہی ہو یا کسی کو پسند نا آئی ہو تو اس کہ لیے معذرت خوش رہیں






Post a Comment

0 Comments