ممنوع محبت
از عثمان خان
قسط نمبر 17
حسن کو اس طرح کی چدائی کرنے میں آب بہت ہی مزہ آ رہا تھا وہیں خدیجہ بھی پہلی بار دو مردوں سے اکٹھا چدوا کر پاگل ہو رہی تھی کچھ ہی دیر بعد تینو اکھٹے فارغ ہو گئے حسن خدیجہ کی پھدی میں اور حاجی خدیجہ کی گانڈ میں اب تو خدیجہ کے جسم کا ہر سوراخ بس منی سے بھرا ہوا تھا
وہ تینو ایسے ہی ننگے لیٹ گئے اور کچھ دیر بعد دوبارہ چدآئ شروع ہو گئی اس دن حسن اور حاجی نے مل کر کوئی 3بار خدیجہ کو چودھا اور پھر حسن وہاں سے دکان پر چلا گیا حسن کی حالت بہت خراب تھی اس کو بہت کمزوری محسوس ہو رہی تھی شام ہو چکی تھی
حسن نے دکان بند کر دی اور گھر آگیاخالہ کی حالت اب بہتر تھی اور وہ چل بھی ٹھیک رہی تھی حسن کا آج خالہ کی چدائی کرنے کا کوئی دل نہ تھا اور نہ خالہ دوبارہ حسن سے گانڈ پھڑوانا چاہتی تھی کیوں کہ وہ جان گئی تھی کہ اب حسن اس کی گانڈ زبردستی بھی مارے گا رات کو سب سو گئے مگر جب رات کا پچھلا پہر ہوا تو کشمالہ کی طبیعت خراب ہوئی اس کی ڈلیوری تھی اور اس بات کا اندازہ خالہ کو پہلے سے تھا اس لیے انہوں نے محلے کی دائی کو پہلے سے بتا رکھا تھا کہ کسی بھی وقت تمھیں بلایا جا سکتا ہے
حسن کو خالہ نے کہا اور حسن دوڑا اور جا کر دائی کو بلا لایا کمرے میں دائی گئی اور کوئی ایک گھنٹے بعد حسن کو بیٹی کی خوشخبری ملی حسن بہت خوش تھا اس نے فورآ زینب کو بھی کال کر کے خوشخبری سنائی اگلے ہی دن گھر مہمانوں سے بھر گیا زینب ماجد حاجی صاحب اور خدیجہ کے علاوہ محلے کی بھی کچھ عورتیں مبارک دینے پہنچ گئی ایک ہفتہ ایسے ہی گزر گیا
زینب تو دو دن ہی رکی اور واپس چلی گئی اس دوران مہمان ہونے کے باعث ان میں کوئی بات ویسی بات نہ ہو پائی حسن کا اب اگلا منصوبہ اپنی باجی زینب کو ماں بنا اور اس کو چودھنا تھا مگر وقت اسے کوئی موقع نہ دے رہا تھا وقت گزرتا گیا حسن حاجی کہ ساتھ مل کر خدیجہ کو چودھتا رہا اور خالہ کی گانڈ بھی اب کھلی ہو چکی تھی مگر خالہ کو چودھنے کا موقع اب مشکل سے ملتا تھا کیوں کہ اب کشمالہ کی بیٹی رات کو کئی بار اٹھ جاتی اور کشمالہ بھی تو حسن اور خالہ بہت محتاط رہتے اور زیادہ نہ کر پاتے ایک مہینہ گزرا کشمالہ اب خود کام کرنے لگ گئی تھی تو خالہ بھی گھر واپس چلی گئی اب حسن اور کشمالہ کا سیکس شروع ہو چکا تھا اور خدیجہ سے بھی حسن سیکس کر لیتا
مگر اتنی عورتوں کو چودھنے کہ بعد اب حسن کا دل کرتا کہ وہ روز الگ عورت کو چودھے ایک دن بیوی ایک دن خالہ بہن خدیجہ مگر ایسا ہونا کہاں ممکن تھا اب حسن اپنے اگلے منصوبہ پر سوچ رہا تھا کہ کس طرح وہ زینب کو بلاۓ اور اسے چودھ سکے اگر گھر پر بلاتا تو کشمالہ کا ڈر بھی تھا حسن کئی دن سے پلان بنا رہا تھا زینب کے ساتھ مل کر مگر ان کو کا کوئی منصوبہ نہیں بن پا رہا تھا
جس کی وجہ کشمالہ کا گھر پر ہونا تھا حسن دکان پر تھا رش کم تھا اور حاجی صاحب بھی اپنے کسی کام سے باہر تھے اسی سوچوں میں گم اچانک حسن کے دماغ میں ایک منصوبہ ایا اور اس نے فورآ زینب کو کال کی زینب نے کال اٹھائی تو حسن بولا باجی آپ میرے گھر آ سکتی ہو
زینب جانتی تھی کہ حسن اسے کس لیے بلا رہا اور وہ بھی حسن کے لیے تڑپ رہی تھی زینب بولی بھائی میں تو کسی نہ کسی طرح آ جاؤ گی مگر کشمالہ کا مسلہ جو ہے
یہ سن کر حسن بولا باجی میں نے سب سوچ لیا ہے بس آپ یہ بتاؤ کہ اپ کیا بول کر آؤ گی حسن میں بہانہ بنا لو گی ویسے بھی بھائی کہ گھر جانا ہے تو کوئی کیوں روکے گا تو بس باجی آپ پھر کل آ جاؤ میں آپ کا انتظار کروں گا نہیں حسن کل تو مشکل ہے کل ماجد کو چھٹی بھی نہیں ہے اسے پہلے بتانا ہو گا پھر وہ چھٹی لے کر آئے گا تو تب مجھے ادھر لے کے آۓ گا
یہ سن کر حسن بولا باجی مجھ سے اب اور صبر نہیں ہوتا بس آپ ان کو بتا دینا میں خود آپ کو کل لینے آ جاؤ گا
یہ سن کر زینب بہت خوش ہوئی اور بولی ٹھیک ہے میرے بےصبرے بھائی میں پھر رات کو بتا دون گی آپ کو
اور پھر کال بند کر دی رات کو حسن کو زینب کی کال کا انتظار تھا حسن اور کشمالہ اپنے کمرے میں لیٹے باتے کر رہے تھے کہ کشمالہ کے نمبر پر زینب کی کال آئی کشمالہ نے کال اٹھائی اور سلام۔دعا کہ بعد زینب کا حال پوچھنے لگی اور پھر زینب نے بھی کشمالہ اور چھوٹی بیٹی جس کا نام انہوں نے نادیہ رکھا تھا کشمالہ اور زینب کے بیچ کچھ دہر بات ہوئی اور پھر کشمالہ نے یہ کہتے حسن کو فون تھمایا کہ خود بھائی کو کہہ دو حسن نے فون لیا تو سلام کے بعد زینب نے حسن کو کہا کہ وہ اسے صبح لینے ا جاۓ جس پر پہلے حسن نے انجان ہونے کی ایکٹنگ کرتے کہا اچانک خیر تو ہے اور پھر بولا ٹھیک ہے میں آ جاؤ گا اور پھر نارمل باتیں ہوتی رہیں
صبح حسن 8 بجے ہی زینب کے گھر کو نکل گیا زینب کا گھر دوسرے شہر تھا جو حسن کے شہر سے تقریباً 2 گھنٹے کہ فاصلے پر تھا حسن زینب کے گھر پہنچا تو خالہ اور زینب ہی گھر پر موجود تھیں وہاں حسن کچھ دیر بیٹھا اور پھر زینب تیار ہو کر آئی اور وہ دونو گھر کو چل دیے
خالہ زینب کے سامنے بلکل بیٹوں جیسے حسن کے ساتھ باتیں کر رہی تھی اور کوئی ایسی بات اکیلے میں بھی نہ کی حسن زینب کو لے کر دوپہر ٹائم گھر پہنچا
زینب کشمالہ سے ملی اور نادیہ کو اٹھا کر پیار کرنے بیٹھ گئی اور باتیں کرنے لگی حسن بھی کچھ دیر بیٹھا اور پھر دکان پر آ گیا
حسن کو ویسے دکان پر جانا لازمی نہ تھا اب وہ جب چاہتا چھٹی کرتا سب اس پہ تھا مگر دکان پر آنا بھی اس کہ پلان کا ایک حصہ تھا دکان پر حاجی صاحب موجود تھے جو حسن کہ آتے ہی دکان۔حسن۔کو سونپ کر نکل گئے حسن دکان پر شام کا انتظار کرنے لگا اور زینب بھی انتظار میں تھی اور یہ بھی سوچ رہی تھی کہ آخر حسن نے ایسا کونسا منصوبہ بنایا جو کشمالہ کہ ہوتے ہوۓ بھی وہ بہن بھائی سیکس جیسا مزہ کر پاۓ گے
شام کو حسن دکان سے گھر لوٹا تو زینب کچن سے اسے آتا دیکھ کر اس کی طرف بڑھی اور اسے گلے لگا کر اس کہ ماتھے کو چوم لیا کشمالہ یہ سب دیکھ رہی تھی چونکہ زینب حسن کی بڑی سگی بہن تھی سو اسے ایسا چومنا اور ملنا بس ایک بہن بھائی کا پیار ہی لگا حسن کو زینب کا ایسا چومنا پرانے دنوں کی یاد دلا گیا جب وہ دونو اکیلے ایک دوسرے سے پیار کرتے رہتے تھے
حسن اور زینب کچن میں آۓ اور حسن نادیہ کو لے کر کھیلنے لگا شام کا کھانا کھا کر سب حسن کہ کمرے میں باتیں کرنے لگے ابھی زیادہ وقت نہ ہوا تھا کہ کشمالہ بولی حسن یا تو سو جاؤ یا باہر جا کر باتیں کرو مجھے بھی نید آئی ہے اور نادیہ بھی اٹھ جاتی ہے زیادہ شور ہو تو حسنِ تو چاہتا بھی یہی تھا اور اس کا منصوبہ یہی تھا وہ فوراً ہنستے بولا میں تو زینب کے ساتھ دوسرے کمرے میں سو گا ایک تو میں نے ناجی سے بہت ساری باتیں کرنی دوسرا نادیہ رات بار بار اٹھا دیتی جس پر کشمالہ ہنستے ہوۓ بولی یہ تمھاری بھی بیٹی ہے اس کا رونا اب تم بھی برداشت کرو نہ زینب بھی یہ باتیں سن کر ہنس رہی تھی اور بولی کشمالہ میرے بیچارے بھائی پہ ظلم نہ۔کرو اسے آج تو سکون سے سونے دو کشمالہ بولی ٹھیک ہے میں کب روک رہی اب دو بہن بھائی جو مل گئے ہو تم لوگوں سے کون جیت سکتا ہے حسن اقر زینب ہنس دے اور پھر کمرے سے باہر نکل کر ساتھ والے کمرے میں آ گئے کمرے میں آتے ہی حسن نے زینب کو اپنی باہوں میں بھر لیا جس پر زینب نے شرماتے ہوۓ اس کے بازو پر چٹکی کاٹی اور الگ ہوتے بولی بے صبرے کچھ صبر کر لو ابھی کشمالہ جاگ رہی اور ہو سکتا ہے وہ کسی کام سے آ گئی تو حسن منہ بناتے پیچھے ہٹا اور چارپائی پر بیٹھتے بولا باجی اب اور صبر نہیں ہوتا زینب حسن کی بات سن کر ہنس دی اور وہ بھی اپنی چارپائی پر بیٹھتے بولی بس اب تھوڑا اور کر لو ویسے بھائی کیا منصوبہ بنایا ہے داد دینی بنتی ہے حسن زینب کی بات سن کر ہنس پڑا اور بولا یہ سب باجی آپ کے پیار کی وجہ ہے دونو ایسے ہی اپنے اپنے بستر پر لیٹے باتیں کرنے لگے باجی ویسے یہ سب صحیح تو رہے گا نا حسن کا اچانک ایسی چھپی سی بات کرنا زینب کو سمجھ نہ۔آیا کہ وہ کس بارے بات کر رہا اور انجانے انداز میں بولی حسن کس بارے بات کر رہے یہ سب تو ہم کب سے کر رہے آج تک کوئی پربلم ہوئی کیا حسن: نہیں نہیں باجی میرا مطلب تھا کہ وہ آپ کہ ماں بننے والی بات زینب حسن کی بات سن کر سمجھی کہ حسن کیا پوچھ رہا اور بولی نہیں حسن کچھ نہیں ہو گا مگر تمھارا دل نہیں تو ہم ویسا کچھ نہیں کریں گے حسن باجی کی بات سن کر فوراً بولا نہیں باجی میرا دل ہے میرے کہنے کا مطلب تھا کہ ماجد جانتا ہے کہ وہ باپ نہیں بن سکتا اور اس کو ایسا ڈاکٹر نے بتایا تھا یہ بات آپ نے مجھے بتائی تھی تو اگر اب آپ ماں بنی تو ماجد اور خالہ تمھارے کریٹر پر شک کریں گے اور آپ کو پرابلم ہو گی یہ سن کر زینب اطمینان سے بولی نہیں حسن ایسا نہیں ہو گا کیونکہ ماجد اولاد پیدا کرنے کے لیے آرٹیفیشل پریگنینٹ کروانے کی کوشش کر رہا ( اگر سادہ لفظوں میں سمجھا جاۓ اس عمل میں عورت کی پھدی میں کسی اور مرد کی منی ڈالی جاتی ہے جو ڈاکٹر دیتے ہیں اس عمل کو artificial insemination کہا جاتا ہے ) اور میں ایک بار وہ عمل کروا چکی ہوں مگر میں نے اسے خود ضائع کر دیا تھا کیوں کہ میں اپنے بھائی سے ہی وہ سب کروانا چاہتی تھی کسی اور مرد کی منی سے بچہ پیدا کرنے سے اچھا نہیں میں وہی اپنے بھائی سے کر لوں اب اگر بچہ ہوا بھی تو ماجد اور خالہ اسے ڈاکٹر کا علاج سمجھیں گے کہ یہ اسی عمل سے ہوا اور ان کو سچ پتا نہیں چلے گا یہ سن کر حسن کو زینب پر بہت پیار آیا اور وہ بھی مطمئن ہو کر بولا واہ باجی آپ نے تو پورا پلین بنایا ہوا
جس پر زینب ہنستے بولی کیا کروں بھائی سے پیار جو بہت ہے جس پر حسن بھی ہنس دیا
حسن اور زینب کا یوں بنا کچھ کیے باتیں کرنے کا مقصد وقت گزرانا تھا وہ۔کوئی بھی خطرہ مول نہیں لینا۔چاہتے تھے اس لیے وہ اس انتظار میں تھے کہ جب رات گہری ہو تو وہ جسمانی کھیل شروع کریں گے اور تب تک وہ باتیں کر کے مزے لیتے رہے
باجی آج آپ سے ایک بات پوچھوں حسن نے باجی کی جانب دیکھتے بولا جس پر زینب نے کہا جی بھائی پوچھو
باجی آپ کے دل میں بھائی کا پیار کب آیا تھا حسن کا اس سوال سے مقصد یہ تھا کہ وہ جاننا چاہتا تھا کہ زینب کب اس کے ساتھ جسمانی پیار میں ڈوبی کیوں کہ جب حسن کو پتا چلا تھا تب تک تو زینب خود اسے گرین سگنل دیتی تھی
]حسن کی بات سن کر زینب مسکرائی اور پھر کروٹ لے کر حسن کی جانب منہ کر کے بولنے لگی بھائی جب تم میرے ساتھ سوتے تھے نہ تب میں تو پوری جوان تھی مگر تم ابھی نئے نئے جوان ہو رہے تھے تو رات کو کئی بار تمھاری للی میری گانڈ پر لگ جاتی یا کبھی تم مجھے جب گلے لگتے تو تمھارا جسم میرے مموں سے ٹکراتا تو مجھے بہت مزہ آتا تھا مگر تب میں اپنے جزبات کو قابو کر لیتی اور پھر اس سب کو۔بھول جاتی کہ تم میرے چھوٹے بھائی ہو اور یہ بہت بڑا گناہ ہے مگر وقت کے ساتھ تمھارا نیند میں مجھ سے چپکنا پڑھنے لگا جو مجھے بھی بہکانے لگا تھا تو تب میں علیحدہ سونے لگی کہ اب تم بڑے ہو گئے ہو اور پھر کچھ ہی دنوں میں سب بھول کر میں نارمل ہو گئی اور پھر تمھارے بارے ایسا کبھی نہ سوچا مگر میرے دل میں ایک مرد کی خواہش بہت ہوتی تھی جس کی وجہ امی اور ابو کا رات کو سیکس ہوتا تھا جو میں دیکھا کرتی اور پھر تمھاری منی لگی شلواریں دھو دھو کر مجھ میں بھی جزبات جاگ اٹھے پھر تمھیں روز مٹھ مارتا دیکھتی تھی
حسن نے جیسے ہی یہ سنا وہ شرما سا گیا اور حیران بھی باجی کیا آپ مجھے دیکھتی تھی مجھے معلوم کیوں نہ۔پڑا
زینب حسن کی بات سنتے ہنستے بولی میں چھپ کہ دیکھتی تھی مگر بعد میں مجھے اس بات کا اندازہ ہوا کہ تم بھی میرے جسم کو دیکھتے ہو تو مجھے بہت اچھا لگا اور ایک بار جان بوجھ کر باتھروم میں بنا کنڈی لگاۓ ننگی بھی ہوئی تاکہ تم دیکھو اور اپنے دل کی بات بولو مگر یہ سب تب شاید اتنا آسان نہیں تھا حسن پر آج یہ سب راز کھل چکے تھے اور وہ حیران بھی تھا کہ جو وہ سمجھ رہا تھا وہ تو باجی کا پلان۔تھا
حسن ہنستے ہوۓ بولا باجی آج میں بہت خوش ہوں کہ۔مجھے آپ سے پیار ہوا جس پر زینب بھی مسکراتے بولی مجھے بھی اپنے بھائی سے بہت پیار ہے
یہ سچ تھا کہ زینب کو سچا پیار صرف اپنی باجی زینب سے تھا اور حسن کو بھی صرف زینب سے ویسا پیار تھا حسن ویسے تو اب بہت عورتوں کو چودھ چکا تھا مگر ایک دل کا رشتہ اس کا زینب سے ہی تھا
حسن کا دل کیا کہ وہ زینب کو اپنا ہم راز بنا لے اور خدیجہ اور خالہ والی بات بتا دے مگر اسے پھر لگا کہ آج نہیں پھر کبھی وہ بتا دے گا آج تو وہ صرف زینب کے ساتھ سوہاگ رات منا کر اپنی باجی کو ماں بنانا چاہتا تھا
]اب رات کافی کو چکی تھی حسن اٹھا اور باجی زینب کے چارپائی پر جا اس کے ساتھ لیٹنے لگا زینب بھی سائیڈ پر ہو کر اسے جگہ دیتے سائیڈ پر ہو گئی
حسن زینب کے پاس اس کو گلے لگا کر لیٹ گیا زینب کے ممے حسن کی چھاتی سے لگ رہے تھے اور حسن کا کھڑا لن زینب کی پھدی پر جا لگا حسن زینب کو ایسے گلے لگا ہوا تھا جیسے کوئی بچہ ماں کو چپکا ہوا ہو حسن کا منہ زینب کے مموں کے اوپر تھا اور زینب اس کو گلے لگاۓ اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگی حسن اور زینب آج اتنے عرصے بعد دوبارہ ایک دوسرے کے جسم کا لمس پا کر سکون کی وادیوں میں کھو گئے بنا کچھ اور کئے وہ دونو یونہی ایک دوسرے کو چپکے لیٹے رہے
جاری ہے
0 Comments