ads

Mera Pyar ho Tum - Episode 1

میرا پیار ہو تم

قسط 1



ڈور بیل بجنے کی آواز پہ فریحہ چونکی اور اکتاہٹ بھرے انداز میں باہر کی طرف دیکھا_

 ناجانے کون آگیا تھا اس وقت_ شام ہونے کو تھی اور وہ کچن میں ڈنر بنانے کی تیاری کر رہی تھی_

وہ کچن سے نکل کر باہر کی طرف آئی اور مین گیٹ کی طرف بڑھی اس وقت گھر پہ وہ اکیلی تھی اور اسے ہی دروازے پہ جا کے دیکھنا تھا_

کون ہے؟ دروازے کے قریب رک اس نے دبی آواز میں پوچھا

یہ حسن فاروق کا گھر ہے؟ چند لمحوں کے سکوت کے بعد دروازے کی دوسری طرف سے بھاری مردانہ آواز میں پوچھا گیا تھا_

جی یہی گھر ہے ان کا آپ کون ہیں؟ کیا کام ہے ان سے؟

حسن اس کے شوہر کا نام تھا_ اس کی دو سال پہلے شادی ہوئی تھی اور وہ بیاہ کر اس گھر آگئی تھی جہاں وہ دونوں رہتے تھے چھوٹا سا یہ بنگلہ ان دونوں کے لئے کافی تھا_

میں اس کا دوست ہوں_ ہم کالج میں ساتھ پڑھتے رہے ہیں_ عامر نام ہے میرا_

اس نے کہا تو فریحہ تذبذب میں پڑگئی کہ دروازہ کھولے یا نہیں_ حسن گھر پہ نہیں تھا_

دیکھیں میرے شوہر گھر پہ نہیں ہیں_بلآخر وہ بولی

بھابی فکر نا کریں میری اس سے بات ہو گئی ہے_ وہ بولا آتے وقت میں نے کال کی تھی اسے وہ کراچی میں ہے نا؟

ہاں فریحہ نے کہا اور چند لمحوں کے توقف کے بعد دروازہ کھول دیا_

سامنے لمبے قد اور قدرے صاف رنگت کا جاذب نظر نوجوان کاندھے پہ ایک چھوٹا سا بیگ لٹکائے کھڑا تھا_ اس کے چہرے پہ ہلکی سی مسکراہٹ تھی_

فریحہ کو اس کا چہرہ شناسا لگا شاید وہ ان کی شادی میں آیا تھا_

اسلام و علیکم بھابی_ شکر ہے دروازہ کھول لیا آپ نے ورنہ مجھے لگا یہیں سے واپس لوٹا دینگی مجھے_

اس نے خوشدلی سے مسکراتے ہوئے کہا اور اندر آیا پھر ذرا چونک کر فریحہ کی طرف دیکھا_

اس کی نظروں میں تبدیلی کو فریحہ نے محسوس کیا اور وہ قدرے بوکھلائی اس نے دوپٹا نہیں پہن رکھا تھا اور ننگے سر ہی دروازے کی طرف آگئی تھی اب وہ اسے گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا_

آجائیں آپ_ وہ اسے لے کر ڈرائینگ روم میں آئی 

بیٹھ جائیں یہاں میں آتی ہوں_ اسے وہیں بٹھا کر وہ اپنے کمرے کی طرف آئی اور ایک دوپٹا اٹھا کر پہنا اور حسن کو کال ملائی_

ہیلو_ کیا بات ہے؟ حسن نے کال پک کرنے کے بعد کھردرے لہجے میں پوچھا تھا_

کیسے ہیں آپ؟ فریحہ نے تحمل سے کہا وہ ہمیشہ اس سے تلخ لہجے میں ہی بات کرتا تھا فریحہ کو نہیں یاد تھا کہ کبھی اس نے نرمی سے بات کی ہو_

ٹھیک ہوں_ کیوں فون کیا ہے تم نے جلدی بتاؤ میں کام کر رہا ہوں ٹائم نہیں میرے پاس_ وہ اکتائے ہوئے سے انداز میں بولا تھا_

آپ کے ایک دوست آئے ہیں اور۔۔۔۔

عامر پہنچ گیا وہاں؟؟ حسن نے اس کی بات کاٹی تھی_ فون اسے دو_

جی ابھی آئے ہیں میں نے ڈرائینگ روم میں بٹھا دیا ہے_ فریحہ نے قدرے اطمینان سے کہا وہ اس کا دوست ہی تھا اور بات کر کے آیا تھا_

میری بات کراؤ اس سے جلدی_ حسن نے کہا توو فریحہ نے فون لا کر ڈرائینگ روم میں بیٹھے عامر کو تھما دیا_

وہ دونوں آپس میں بات کرنے لگے لگتا تھا کافی بے تکلفی تھی عامر اسے کئی القابات سے بھی نواز رہا تھا کئی منٹ بات کرنے کے بعد عامر نے فون اس کی طرف واپس بڑھایا وہ صوفے کے قریب ہی کھڑی تھی_

 فریحہ نے فون کان سے لگایا_

سنو_ حسن کہہ رہا تھا_ یہ میرا بہت خاص دوست ہے میں بھی کئی بار ان کے گھر جاتا رہا ہو اسے یہاں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہئیے ٹھیک ہے_ آخر میں اس کا لہجہ سخت ہو گیا تھا_

یہ شاید کچھ دن یہیں رہے تم خیال رکھو اس کا تب تک میں بھی آجاؤنگا_

ٹھیک ہے فکر نا کریں میں ان کے لئے گیسٹ روم کھول دیتی ہوں_

ٹھیک ہے اس نے کہا اور فون بند کر دیا_

آئیں میں آپ کو روم میں چھوڑ آؤں_ اس نے عامر سے کہا جو صوفے پہ بیٹھا اسے ہی دیکھ رہا تھا_

 یہ تو آپ کی بہت بڑی نیکی ہوگی اگر آپ مجھ جیسے تھکے ہوئے مسافر کو ٹھکانہ دے دیں_ 

اس نے کہا تو فریحہ مسکرائی حسن کئی دنوں سے کراچی گیا ہوا تھا اور وہ گھر میں بری طرح تنہائی کا شکار ہو گئی تھی یا تو ٹی وی دیکھتی رہتی تھی یا گھر کے چھوٹے موٹے کاموں میں خود کو مصروف رکھتی تھی_

کبھی کبھار تو اکتا کر دیواروں سے باتیں کرنے لگتی تھی_

اب وہ آیا تھا تو اس سے بات کرکے اس کی تنہائی تو کم ہوجاتی_

گیسٹ روم کا دروازہ کھول کر وہ بھورے رنگ کے کارپٹ پر قدم رکھتی اندر آئی وہ اس کے پیچھے اندر داخل ہوا تھا_

گیسٹ روم درمیانے سائز کا تھا جس کے ایک طرف ڈبل بیڈ تھا ساتھ ہی ایک سائیڈ ٹیبل پڑا تھا جس کے اوپر چھوٹی موٹی چیزیں پڑی تھیں سامنے ہی دو صوفے رکھے ہوئے تھے ایک کھڑکی تھی جس پہ پردے پڑے ہوئے تھے کمرے کے ایک کونے میں اٹیچ باتھ روم کا چھوٹا سا دروازہ تھا_

یہ رہا آپ کا روم آپ اطمینان سے یہاں آرام کریں ہر چیز یہاں موجود ہے یہاں پھر بھی کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے بتا دیں_ وہ اس کی طرف مڑ کر بولی جو روم کا جائزہ لے رہا تھا_ فریحہ نے اسے دیکھا وہ کافی پر کشش مرد تھا لیکن اس وقت چہرے پہ ہلکی سی تھکن تھی_

اس نے اثبات میں سر ہلایا تو وہ باہر آگئی_

اور واپس کچن میں آکر کام میں مصروف ہوگئی لیکن اس کا ذہن ذرا سا الجھ گیا تھا وہ مسلسل اپنے مہمان کے بارے میں سوچے جارہی تھی ابھی اس کا ہلکا سا تعارف ہوا تھا اور وہ اس سے زیادہ بات نہیں کر پائی تھی اسے نہیں پتا تھا وہ کیوں آیا ہے اور کسی ہوٹل میں کیوں نہیں ٹھہرا اس کی اور حسن کی دوستی کتنی گہری تھی_

اس سے پہلے حسن کا کوئی دوست ایسے گھر پہ نہیں آیا تھا_ حسن بہت سخت گیر مرد تھا لیکن آج اس نے خود ہی اسے گھر پہ ٹھہرا لیا یقیناً ان کی دوستی خاصی گہری تھی اس نے سوچا_

شام گہری ہونے لگی تھی ویسے تو وہ کچھ بھی بنا لیتی لیکن اب مہمان آیا تھا تو اس کی پسند ناپسند ضروری تھی وہ یہی سوچتی کچن سے نکل کر اس کے کمرے کی طرف آئی_

دروازے کے قریب رک کر اس نے دستک دینے کے لئے ہاتھ اٹھایا مگر دروازہ لاک نہیں تھا اور ہلکا سا ہاتھ لگتے ہی کھل گیا نیم وا دروازے سے اس کی نظر اندر آگئی وہ بیڈ پہ چت لیٹا سو رہا تھا اس نے کپڑے بھی نہیں بدلے تھے_

فریحہ دھیمے قدموں سے چلتی اندر آئی اور بیڈ سے ذرا دور آکر کھڑی ہوگئی وہ ایک ہاتھ سر تلے رکھے سو رہا تھا سینے میں ہلکا سا ارتعاش سانسوں کی آمد و رفت کا پتہ دے رہا تھا وہ گہری نیند میں تھا_

بال پیشانی پہ بکھرے ہوئے تھے اور شرٹ کے کئی بٹن کھلے تھے_ فریحہ کو اسے یوں لیٹے دیکھ کر عجیب سا محسوس ہوا اس کا گلہ سوکھنے لگا تھا سر جھٹک کر وہ جلدی سے باہر نکل آئی_

++++++

نا جانے کب اس کی آنکھ کھلی تھی_

اسلام آباد سے کئی گھنٹے کی فلائیٹ لے کر وہ لاہور آیا تھا اور کافی تھک چکا تھا اس کے پاپا نے یہاں ایک پلاٹ لیا تھا اور پیشگی ادائیگی کر دی تھی مگر اس میں کچھ پیچیدگیاں پیدا ہو گئی تھیں اسے اس مسئلے کو نمٹانا تھا_ آنے سے پہلے اس نے حسن کو کال کی تھی اور اسے بتا دیا تھا کہ وہ لاہور آرہا ہے_

اب وہ یہاں موجود تھا مگر حسن یہاں نہیں تھا صرف اس کی بیوی تھی جس سے وہ ملا تھا اور اسے حسن پہ رشک آیا تھا_ حسن جیسے معمولی شکل و صورت کی بیوی کافی خوبصورت تھی اس نے فریحہ کو سادہ سے حلئیے میں دیکھا تھا جس میں وہ بے حد خوبرو لگی تھی اس نے دوپٹہ نہیں پہن رکھا تھا اور جوان بدن کی اٹھان نے عامر کو چونکا دیا تھا اسے یقین تھا کا اگر وہ بن سنور جاتی تو اس سے نظریں ہٹانی مشکل ہو جاتیں_

یقیناً اس گھر میں کچھ دن اس کے صبر کو آزمانے والے تھے_

+++++

وہ نیم گرم پانی سے شاور لے کر باہر نکلا اور شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر شرٹ کے بٹن بند کرنے لگا کف اس نے پیچھے کو اڑس لئے تھے اور اس کی مضبوط کلائیاں دکھنے لگی تھی_

کچھ گھنٹے کی نیند اور نیم گرم پانی کے شاور نے اس کی تھکن اتار پھینکی تھی اور وہ بے حد فریش ہو گیا تھا دیوار پہ لگی گھڑی بجا رہی تھی گھر کی تمام لائیٹس آن تھیں اور کچن کی طرف سے کھٹر پٹر کی مدھم آوازیں آرہی تھیں شاید فریحہ وہیں مصروف تھی_

وہ نم بالوں کو تولیے سے خشک کرنے کے بعد کمرے سے باہر آیا_ 

کچن کی طرف آیا اور دروازے پہ رک گیا فریحہ اس کی طرف پشت کئے کچن کی سلیب پر کچھ بنا رہی تھی دوپٹا سر سے سرک کر کندھوں پر آیا تھا اور اب فرش کو چھو رہا تھا_

 اس نے اپیرن باندھ رکھا تھا جس کی ڈوریوں نے اس کی نازک سی کمر کے آخری حصے کو جکڑ رکھا تھا اس کی کمر کا جان لیوا خم عیاں ہو رہا تھا عامر کی نگاہیں بہکی تھیں_

اس نے اپنے نچلے لب کو دانتوں میں دبایا اور کچن میں آگیا نگاہیں اس نے بمشکل ہٹائی تھیں_

 وہ اس کی آہٹ پا کر مڑی تھی_

اٹھ گئے آپ مجھے لگا اب صبح ہی ملاقات ہوگی آپ سے_ وہ مسکرائی_ یا پھر اجنبی جگہ میں آپ سو نہیں پائے_

نہیں سو تو میں گیا تھا مگر شاید بھوک نے پھر سے جگا دیا_ وہ کرسی کھینچ کر وہیں بیٹھ گیا

کچن میں کھانے کی اشتہا انگیز خوشبو پھیلی ہوئی تھی_

میں آئی تھی آپ کے روم کھانے کا پوچھنے مگر آپ سو گئے تھے_ فریحہ نے کہا ناجانے کیوں اس نے نظریں چرائیں تھیں_

میری پسند پوچھنے کا کیا فائدہ؟ میں سب کچھ کھا لیتاہوں 

بہت تھک گیا تھا تو سوگیا اب فریش ہوگیا ہوں اور بھوک بھی چمک اٹھی ہے_ وہ فریحہ کو دیکھتے ہوئے بولا جس نے دوپٹہ بے پروائی سے کندھوں پہ ڈال رکھا تھا اور سیاہ ریشمی بال کمر کی لمبائی ناپ رہے تھے_ 

ہاں اب تو آپ کو میری پسند کا کھانا کھانا پڑیگا ویسے اتنا برا نہیں بناتی میں_ وہ بولی

یہ تو کھا کے ہی پتہ چلیگا کہ کیسے بناتی ہیں آپ_ اس نے شرارت سے کہا فریحہ نے ابرو سکیڑ کر اسے دیکھا تھا

ٹھیک ہے کھا کے بتائیے گا_ وہ کھانا برتنوں میں ڈال کر ٹیبل پر رکھنے لگی_ اور اپیرن اتار کر خود بھی ٹیبل کی دوسری سائیڈ پہ آبیٹھی_

درمیان میں صرف ٹیبل حائل تھی_ 

 

وہ تیکھے نین نقش والی لڑکی تھی شفاف رنگت اور گلابی ترشے ہوئے ہونٹ اور بڑی بڑی سیاہ آنکھیں جو بولتے وقت ذرا چھوٹی ہو جاتی تھیں کچن میں کام کرنے کی وجہ سے اس کی دودھیا گردن پہ پسینے کی ہلکی سی بوندیں ابھر آئی تھیں_عامر نے اسے دیکھا اس کا تنا ہوا جوان اوپری بدن ریشمی قمیض کے اندر سے چھلک رہا تھا جیسے وہاں اپنی موجودگی کا پتہ دے رہا ہو_ عامر کی نگاہیں ان دلکش ابھاروں میں الجھ گئیں_

وہ کھانے کی طرف متوجہ ہو گیا اور وہ ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے مگر اس کی نگاہیں گاہے بگاہے بہک رہی تھیں_

ایک موقعے پہ اسے لگا جیسے وہ بھی اس کی نظروں کی آوارگی کو جان گئی ہے مگر انجان بنی ہوئی ہے یہ اس کی غلط فہمی بھی ہو سکتی تھی_

وہ اسے یہاں آنے کے مقصد کے بارے میں بتانے لگا_

تو کتنے دن رہیںگے یہاں آپ_ اس نے پوچھا تھا عامر چونکا

کئی دن لگ جائینگے_ ویسے اگر آپ کو نہیں پسند تو میں شفٹ ہو جاؤنگا کسی ہوٹل_ وہ کھانا کھاتے ہوئے رسان سے بولا

نہیں نہیں آپ رہیں یہاں مجھے کوئی پرابلم نہیں ہے_ میں ویسے بھی بہت بور ہو جاتی کوئی تو ہوگا جس سے بات کر پاؤنگی_

ہاں میں آگیا ہوں آپ کو کمپنی دینے_ اب آپ اکیلی نہیں_

لیکن آپ اکیلی کیوں رہتی ہو؟ میرا مطلب حسن کی فیملی کہاں ہے؟ 

ہم الگ ہو گئے تھے شادی کے فوراً بعد_ اس گھر میں شفٹ ہوگئے جو حسن کو کمپنی کی طرف سے ملا ہے لیکن ہم لوگ اب اسے قسطوں میں خرید رہے ہیں آدھی قیمت ادا کی جاچکی ہے_ وہ اسے بتانے لگی عامر اس کی مدھ بھری آواز سنتا گیا_

وہ اس کے بے حد قریبی دوست کی بیوی تھی مگر اس کے بارے میں عامر کی سوچ یوں اس تنہائی میں بدلنے لگی تھی_

اس کا حسن اور جوانی اسے بری طرح کشش کرنے لگے تھے اور اس کی نظریں فریحہ کے جسم میں گڑھنے لگی تھیں_ اس کا دل اس کی قرب کی چاہ کرنے لگا اور ایک الگ ہے لے پر دھڑکنے لگا_ 

وہ اس کے قریب جانا چاہتا تھا اسے محسوس کرنا چاہتا تھا اس کے ہونٹوں کی نرمی کو اس کے وجود کی گرمی کو جسم کی گہرائی سے آنے والی سانسوں کی حدت کو اور پشت پہ پھییلے خمیدہ زلفوں کے لمس کو_  

وہ ہر چیز کو محسوس کرنا چاہتا تھا_

+++++++

فریحہ نے کپڑے بدلے ڈھیلی سی نائٹی پہنی اور دروازہ بند کر کے بیڈ پہ آلیٹی بالوں کو اس نے چھوٹی سی پونی میں قید کر لیا تھا_ کچھ دیر یوں ہی کروٹیں بدلتی رہی مگر نیند کا نام و نشان نہ تھا_

جب سے حسن گیا تھا وہ ٹھیک سے سو نہیں پارہی تھی اسے ڈر لگتا تھا تنہا گھر میں رہنے سے ہلکی آہٹوں پہ وہ ڈر کے جاگ جاتی تھی گو کہ حسن کا رویہ اس سے ہمیشہ تضحیک آمیز رہا تھا وہ بہت کم گفتگو کرتا تھا عجیب مردم بیزار انسان تھا فریحہ کو نہیں یاد تھا اگر کبھی انھوں نے لگاتار 5 منٹ سے زیادہ بات کی ہو اسے رات کو ایک خاتون کے کال آجاتے تھے جنھیں سننے کے لئے وہ چھت پہ چلا جاتا تھا اس نے کئی بار فریحہ کو دبے لفظوں میں باور کرایا تھا کہ اس سے شادی میں حسن کی مرضی شامل نا تھی ان گنت راتیں فریحہ نے رو کر گزاری تھیں پھر اپنے نصیب پر صبر کر لیا تھا وہ دونوں بس ضرورت کے تحت ہی بات کرتے تھے_ 

لیکن آج اس کے جاگنے کی وجہ الگ تھی 

عامر کو اپنے گھر میں ٹھہرا کر وہ بے چین ہوگئی تھی وہ اسے نگاہیں بھر کے دیکھتا رہا تھا اس کے اندر ہلچل سی جاگی تھی وہ اسے منع نہیں کر سکی تھی_ شاید جو محبت اور آسودگی اسے اپنے شوہر سے نا مل سکی تھی وہ کسی اور میں تلاش کرنے لگی تھی اس کے بارے میں سوچتے سوچتے ناجانے کب وہ سوگئی_




جاری ہے

Post a Comment

0 Comments