ads

Mera Pyar ho Tum - Episode 2

میرا پیار ہو تم

قسط 2



عامر کی آنکھ دبی دبی چیخ سے کھلی تھی وہ ہڑبڑا کر جاگ گیا اور اپنے حواس بحال کرنے لگا_ اس لمحے ہلکی سی چیخ پھر سنائی دی تھی اور یہ یقیناً فریحہ کے کمرے کی طرف سے آئی تھی وہ جلدی سے کمبل پرے کر کے اٹھا اور چپل پیروں میں پہن کر تیزی سے باہر کی طرف بھاگا_

اس کے بیڈروم کے سامنے پہنچ کر اس نے دروازے پر ہلکا سا دباؤ ڈالا دروازہ بند تھا_

فریحہ_ عامر نے اسے پکارا تھا_ تم ٹھیک تو ہو؟ کیا ہوا؟ 

یہاں کوئی ہے_ اندر سے فریحہ کی ڈری ہوئی سی آواز آئی تھی_

کہاں پہ دروازہ کھولو_ 

میرے کمرے کی کھڑکی کے باہر_ اس کی آواز ہلکی سی آئی تھی شاید وہ کمبل میں دبکی ہوئی تھی اور بے حد خوفزدہ تھی_

دروازہ کھولو میں دیکھتا ہوں_  

چند لمحے بعد اس نے دروازہ کھول دیا_

وہ اندر آیا اور اس کے ستے ہوئے چہرے کی طرف دیکھا وہ ڈھیلی سی نائٹی پہنے ننگے پاؤں دروازے کے قریب کھڑی تھی چہرہ خوف سے پیلا پڑا ہوا تھا_

یہاں کوئی ہے کھڑکی میں_ وہ ڈرے ہوئے انداز میں کھڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی_

میں سو رہی تھی کہ اچانک سے کھڑکی کھل گئی بہت زور سے_ وہ آنکھوں میں ہراس لئے بولے جا رہی تھی_

اچھا تم فکر نا کرو میں دیکھتاہوں_

وہ کھڑکی کی طرف بڑھا اور اس کا معائنہ کیا_ اس کا شیشہ صحیح سلامت تھا اور وہ کھڑکی صرف اندر سے کھلتی تھی اس لئے باہر سے اسے توڑے بغیر کھولنا ناممکن تھا_

پھروہ کیسے کھل گئی؟ عامر الجھ گیا_

تم اسے واقعی بند کر کے سوئی تھی نا؟ اس نے پوچھا

ہاں میری عادت ہےمیں دروازے کھڑکیاں اور لائیٹس آف کر کے سوتی ہوں_ یہ کسی نے باہر سے کھولا ہے_ وہ اب بھی زرد چہرہ لئے کمرے کے وسط میں کھڑی تھی_

مگر رات کو تم نے اپنے کمرے کی لائٹ آف نہیں کی تھی میں نے دیکھا تھا_ وہ بولا

ہاں مجھے ڈر لگ رہا تھا اس لئے روم کی لائیٹ جلنے دی آن رہنے دی تھی_ وہ کھسیائی ہوئی سی بولی

عامر پھر کھڑکی کی طرف متوجہ ہوا اور اسے بغور دیکھا اور چند لمحے بعد وہ اس کے کھلنے کا راز سمجھ گیا تھا وہ ہلکا سا مسکرایا_

کھڑکی اندر سے ہی بند ہوتی اور کھلتی تھی لیکن اس کا ہینڈل ذرا سا ڈھیلا ہو گیا تھا جو ہوا کےجھونکوں سے ہلتا رہا تھا اور بلاخر کھڑکی کھل گئی تھی_

اس نے کھڑکی واپس بند کی_

میرے خیال سے یہاں کوئی بھی نہیں ہےتم اطمینان سے سوجاؤ_ ریلیکس ہو کے_کھڑکی ہوا سے کھل گئی تھی_

ہوا سے کیسے کھل سکتی ہے_ وہ بے یقینی سے بولی اور خشک ہونٹوں پہ زبان پھیری_

کسی نے باہر سے کھولی تھی اور وہ اب بھی باہر ہوگا_ 

ایسا کچھ نہیں ہے تم اطمینان سے سوجاؤ_ 

اس کے ساتھ یوں کمرے میں کھڑے رہ کے عامر کو پھر سے بے چینی ہونےلگی تھی_ وہ باریک سی نائیٹی پہنے خوفزدہ سی کھڑی تھی_ نائٹی کا گلہ خاصا گہرا تھا اور اس کی گردن سے نیچے کا خاصا حصہ عریاں تھا_ شب خوابی کے اس مہین ملبوس میں اس کے جسم کے اتار چڑھاؤ شب کے اس پہر اسے خود سے بیگانہ کرنے لگے تھے_

سو جاؤ ٹھیک ہے صبح بات ہوگی میں نے دیکھ لیا ہے تمھیں غلط فہمی ہوئی تھی_

وہ کمرے سے باہر کی طرف بڑھنے لگا کہ وہ اس کی راہ میں حائل ہوگئی_

مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے مجھے نیند نہیں آئیگی_ خوف جیسے اس کی آنکھوں میں جم سا گیا تھا_ تھوڑی دیر یہاں رہ جائیں یا پھر ہم جا ڈرائینگ روم میں جا کے بیٹھتے ہیں_

وہ ملتجی انداز میں بولی_

ٹھیک ہے تم سو جاؤ_ تب تک میں یہیں ہوں_

لیٹ جاؤ اپنے بیڈ پہ_ وہ بولا 

وہ متذبذب سی اپنے بیڈ کی طرف بڑھی اور بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی_ 

ایسے نہیں لیٹ جاؤ پھر نیند آئیگی تمھیں_ وہ اس کے قریب آبیٹھا تھا_ 

ایک ہی بستر پر بیٹھ کر وہ خاصے قریب آگئے تھے عامر کو اس کے چہرے پر خوف کے علاوہ ہلکی سی سرخی بھی نظر آنے لگی_

وہ چند لمحے بعد آہستگی سے بیڈ پہ دراز ہوگئی کمبل اس نے سینے تک اوڑھ لیا تھا_

تم ویسے ہی ڈر گئی تھی کوئی نہیں ہے یہاں اب سکون سے سوجاؤ_

وہ اس ک قریب بیٹھے بیٹے نیم دروز ہوگیا اور اپنا ہاتھ بڑھا کر فریحہ کے گال کو نرمی سے چھوا جس کا اس نے کوئی رد عمل نہیں دیا اور لمبی سانس لے کر آنکھیں بندکرلیں_ 

فریحہ کی قربت اس پہ اثر انداز ہورہی دل میں ہلچل سی ہونےلگی تھی اس کے نرم رسیلے ہونٹوں پر نظریں بہکنے لگیں ناجانے کب وہ سوگئی مگر عامر وہاں سے نا اٹھا اس کے پہلو میں موجود رہا_

اس کے صبیح چہرے کو نگاہوں کی آغوش میں بھر تا رہا رات ہولے ہولے سرکتی رہی_

نا جانے کتنے لمحے بیت گئے تھے وہ کب کی سو چکی تھی وہ اس کی سانسوں کی مدھم آواز کو سن پا رہا تھا اورخود کو اس کے قریب ہونے روکنے کی کوشش کرتا رہا_ 

بیتاب ہو کر اس نے آہستگی سے ہاتھ بڑھایا اور اس کے گلابی ہونٹوں کو انگلیوں کے پوروں سے چھوا اور ان پہ نرمی سے اپنی انگلیاں پھیریں وہ ہلکا سا کسمسائی اور اس کی طرف کروٹ لی_

عامر کا دل جیسے اچھل کر حلق میں آیا تھا_

کمبل ذرا سا نیچے کو کھسکا تھا اور اس کی نائٹی کا گہرا گلا کچھ اور عیاں ہو گیا تھا_ اس کے اوپری بدن کے موزوں ابھاروں کا کچھ حصہ اس کی نگاہوں کے سامنے آگیا تھا یوں جیسے باریک سی نائٹی نے انھیں مزید خود میں سمیٹے رکھنے سے انکار کردیا ہو_ عامر کی نگاہیں اس کے بدن کے پوشیدہ حصے سے عیاں ہونے والے ایک چھوٹے سے تل کے نشان پہ پڑی اور اس کی سانسیں جیسے تھمنے لگیں اور دھڑکنیں کانوں میں سنائی دینے لگیں_

اس کا دودھیا بدن پھول کی طرف شاداب اور روئی کے گالوں کی طرح شگفتہ تھا_

سردیوں کی اس رات میں بھی عامر کی پیشانی پہ پسینے کی بوندیں ابھرآئی تھیں_

وہ سرکے ہوئے لباس سے اس جوانی کے پیکر کے نشیلے بدن کا ہلکا سا حصہ ہی دیکھ پایا تھا اور بے خود ہونے لگا تھا اگر لباس کچھ اور سرک جات تو شاید وہ اپنا ہوش کھو بیٹھتا_

وہ اٹھا اور تیزی سے کمرے سے باہر نکل آیا اگر وہ کچھ دیر اور بیٹھتا تو ضبط کے بند ٹوٹ جاتے اور وہ خود کو دور نہ رکھ پاتا_

اپنے کمرے میں آکر اس نے پانی کے چند چھپاکے اپنے تپتے ہوئے چہرے پہ ڈالے اور سونے کے لئے لیٹ گیا وہ بہت دیر بعد سو پایا تھا_

+++++++ 

عامر ناشتے کے بعد جلد ہی حسن کے گھر سے نکل آیا تھا فریحہ سے اس کی زیادہ بات نہیں ہو پائی تھی وہ رات کو اپنے ڈر جانے کی وجہ سے شرمندہ سی تھی_

اس کا رخ اپنے پلاٹ کی طرف تھا_

وہ اسے کے مالک سے ملنے جا رہا تھا اس نے جیب سے فون نکال کر اسے کال ملائی_

ہیلو کون بول رہا ہے؟ کسی خاتون کی آواز آئی تھی انداز میں عجلت تھی_ عمر کا اندازہ عامر نے 35 سال لگایا تھا_

جی میرا نام عامر داؤد ہے کیا یہ اسلم رحمانی پراپرٹی ڈیلر کا گھر ہے؟ اس نے کنفرم کرنا چاہا

جی یہ ان کا ہی گھر ہے مگر وہ اس وقت گھرپہ نہیں ہیں_ خاتون نے تیزی سے کہا عامر کو لگا وہ کال کاٹنے لگی ہے_

کب تک گھر آئینگے وہ؟ اس نے جلدی سے پوچھا

رات تک فون کر کے پتا کر لیجئیے گا_ خاتون نے کہا 

لیکن اس سے پہلے کہ وہ کال کاٹتی عامر کے کانوں میں کسی مرد کی دبی دبی آواز آئی تھی جو کہیں قریب ہی موجود تھا شاید اسلم رحمانی گھر پہ تھا اورکسی وجہ سے اس سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا_

عامر نے فون واپس جیب میں رکھ کر چند لمحے سوچا اور ایک ٹیکسی روک کر اس کے گھر کی طرف روانہ ہو گیا_

اسکا گھر درمیانے سائز کے ایک بنگلے میں تھا عامر نے مین گیٹ پر رک کر گھنٹی کا بٹن دبایا لیکن گھنٹی بجنے کی آواز نہیں آئی تھی شاید وہ خراب تھی_ اس نے بڑے سے مین گیٹ پہ دستک دی اور سائیڈ پہ کھڑا ہو گیا_ کچھ دیر انتظار کرتا رہا لیکن کوئی نہیں آیا تھا_

اس نے پھر زیادہ شدت سے دستک دی مگر اندر سناٹا چھایا ہوا تھا جیسے اندر کوئی زی روح موجود نہ ہو_

اس نے دروازے پہ ہلکا سا دباؤ ڈالا تو وہ ذرا سا کھل گیا اس نے اندر ہاتھ ڈال کر کنڈی گرادی اور گیٹ کھول دیا_

اندر آکر اس نے دروازہ بند کیا اور ارد گرد نگاہ دوڑائی لان بے حد خوبصورت تھا اور بنگلہ چھوٹا مگر جدید تراش خراش کا تھا_ وہ لان کو عبور کرتا ہوا اندر کی طرف بڑھا_

ڈرائینگ روم یں کوئی نا تھا مگر ساتھ کے کمرے سے دبی دبی آوازیں آرہی تھیں_ وہ محتاط قدموں سے اس جانب بڑھا_

میں نے خود دستک کی آواز سنی ہے سہیل_ تم یقین کیوں نہیں کر رہے؟ کوئی دبی دبی سی نسوانی آواز آئی تھی_

مجھے تو کوئی آواز نہیں آئی شاید غلط فہمی ہوئی ہے تمھیں جان من یہاں آؤ چھوڑو سب فکر اور اندیشے اگر کوئی باہر ہوا بھی تو چلا جائیگا_ مرد نے بھاری آواز میں کہا عورت نے جواب میں کچھ کہنا چاہا مگر اس کا جملہ عامر کو سنائی نا دیا_

عامر نے جھک کر اپنی آنکھ کی ہول سے لگائی اور اندر جھانکا اور اندر کا منظر دیکھ کر اس کا سارا جسم سنسنا اٹھا تھا_

ایک جوانسال مرد اور عورت بیڈ پہ دو جسم ایک جان ہوئے جا رہے تھے_ اس وقت وہ ایک دوسرے کے سوا ارد گرد کی ہر چیز سے بے گانہ ہو کر جسم کا کھیل، کھیل رہے تھے عورت کی پشت اس کی طرف تھی اور اس کے گھنے سیاہ بال عقب سے اس کی پردہ پوشی کی ناکام کوشش کر رہے تھے_

عامر نے مرد کا چہرہ دیکھا جسے اس جوان سال خوبرو عورت نے سہیل کہہ کر پکارا تھا وہ اس کے لئے اجنبی تھا_ 

اس کا ہاتھ دروازے پہ دستک کے لئے اٹھا_



جاری ہے

Post a Comment

0 Comments