میرا پیار ہو تم
قسط 3
عامر اس دروازے کے عین باہر کھڑا تھا جس کی دوسری وحشت کا کھیل کھیلا جا رہا تھا جس کا ایک منظر وہ کی ہول سے دیکھ چکا تھا مدھم مدہوشی بھری آوازیں اب بھی اس کے کانوں تک پہنچ رہی تھی_
اس نے دستک کے لئے اٹھا ہوا اپنا ہاتھ نیچے کیا اور دبے پیروں سے چلتا ہوا ڈرائینگ روم کی طرف آیا اور باہر کی طرف بڑھا_
مسز رحمانی جو گل کھلا رہی تھی اس سے عامر کا کوئی سروکار نہیں تھا_
وہ کچھ بھی کرے کسی کو بھی گھر بلا کر اپنا آپ سونپے مجھے اس سے کیا لینا دینا اسے نے سوچا اور لمبے قدموں سے بیرونی دروازے کی طرف بڑھا_
اس کا کام اس کے شوہر سے تھا وہ اس سے اپنے پلاٹ کی ڈائریکٹری لینے آیا تھا نا کہ اس کی بیوی پہ نظر رکھنے یہی سوچتے ہوئے وہ باہر آیا اور ٹیکسی پکڑ کر واپس حسن کے گھر کی طرف روانہ ہوگیا_
ٹیکسی سے اتر کر اس نے کرایہ ادا کیا اور دروازے پہ دستک دی_
دروازہ فریحہ نے کھولا تھا اسے دیکھ کر وہ مسکرائی_
اتنی جلدی آگئے مجھے لگا بہت دیر لگائینگے آپ؟
ہاں جس بندے سے مجھے کام تھا وہ موجود نہیں تھا_ شہزاد نے کہا اور اسے نظر بھر کر دیکھا_
وہ شاید شاور لے کر باہر نکلی تھی شفاف چہرہ میک اپ سے عاری ہو کر بھی شاداب سا لگ رہا تھا اوپری بدن قمیض کی باریکیوں سے عیاں ہو رہا تھا گھنیرے بالوں میں ہلکی سی نمی جاگ رہی تھی اور پانی کی کئی آوارہ بوندیں بالوں سے نکل کر مرمریں گردن پر سفر کرتی ہوئی قمیص میں جذب ہو رہی تھیں_
اوہ مطلب کام نہیں ہوا اس نے سر ہلایا چلیں کوئی بات نہیں کبھی تو وہ آئیگا وہ بولی اور اندر کی طرف بڑھی_
وہ اس کے پیچھے اندر کی طرف بڑھا تھا_
وہ مورنی کے طرح دلکش چال چلتی ہوئی جارہی تھی نازک کمر کسی شاخ کی مانند بل کھاتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی _
وہ سادہ سی آف وائٹ قمیض اور نیوی بلیو جینز میں تھی فٹنگ کی قمیص نے سیمیں بدن کی نزاکتوں کو سمیٹ رکھا تھا ایک ایک قدم پر اس کا ہوش ربا بدن جیسے تھرک رہا تھا جوانی کی لے پر رقص کر رہا تھا عامر مسحور سا ہوا_
اس لمحے اسے حسن کی خوش قسمتی پہ رشک آیا اتنی حسین بیوی اسے ملی تھی_
وہ ڈرائینگ روم میں آبیٹھی عامر ساتھ ہی بیٹھا تھا_
میں تو بور ہوگئی صبح سے_ وہ بیٹھتے ہوئے بولی تھی عامر مسکرایا
بور نہیں ہوئی ہوگی تمھیں اپنا میاں یاد آرہا ہوگا_ وہ دبی سی مسکراہٹ لئے بولا
جی نہیں_ گھر میں اکیلے رہ رہ کے بور ہو رہی تھی میں_
کیا مطلب تمھیں شوہر نہیں یاد آیا عامر نے اسے چھیڑا_
وہ سرخ سی ہو کر خاموش ہوئی_
وہ بے حد خوبصورت تھی اور صوفے پر بیٹھی ٹانگ پہ ٹانگ چڑھائے اک ادا سے بیٹھی تھی_
تم دونوں کی شادی کیسے ہوئی فریحہ؟ سوال عامر کے لبوں پہ مچلا تھا
کسی کی شادی؟
تمھاری اور حسن کی شادی کیسے ہوئی؟ لو میریج تھی یا ارینج؟
ارینج تھی ان کی ماما میری ممی کی دور پرے کی رشتہ دار ہیں_ انھوں نے مجھے کسی فیملی فنکشن میں دیکھا تھا پھر وہ رشتہ لے کر آگئیں اور دو ماہ کے اندر اندر سب ہوگیا_ میں شادی کرکے یہاں آگئی وہ بتاتی رہی آخر میں اس کی آواز میں اداسی سی گھل گئی عامر چونکا تھا_
شاید وہ حسن کے ساتھ شادی پہ خوش نا تھی یا پھر اسے مس کر رہی تھی تب ہی اداس تھی عامر نے سوچا_
ویسے وہ بہت خوش قسمت ہے_ عامر نے کہا
پر میں نہیں ہوں خوش قسمت_ وہ دبی آواز میں بڑبڑائی تھی مگر عامر نے سن لیا
ایسے کیوں؟ تم کیوں نہیں ہو خوش قسمت؟ وہ اس کے اداس چہرے پہ نظریں جما کے پوچھنے لگا
کچھ نہیں ویسے ہی کہا_ وہ پھیکا سا مسکرائی
لنچ کیا ہے آپ نے یا نہیں؟
وہ موضوع بدلنے کی کوشش کر رہی تھی عامر نے اسے ترچھی نظروں سے دیکھا_
بتاؤ کیا ہوا ہے تم دونوں کے بیچ؟_ اس نے ٹھہری ہوئی مدھم آواز میں پوچھا
کیا ہوجائیگا اگر میں آپ کو بتا بھی دوں تو_ آپ میری تقدیر بدل نہیں سکتے_
میں کچھ دیر آرام کرونگی وہ اٹھی اور اندر اپنے کمرے کی طرف بڑھی عامر اس کے پیچھے آیا تھا
کمرے میں آک وہ بیڈ کے کنارے رک کر مڑی_
ہو سکتا ہے میں کچھ کر لوں_ عامر نے اس کے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے کہا
کوئی کچھ نہیں کر سکتا مجھے اپنے نصیب کی خرابی کا تاوان بھرنا ہے ؟ وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولی_
تم مجھے بتاؤ تو سہی_ وہ اس کے قریب ہوا اور اپنے ہاتھ اس کے نازک کندھوں پر رکھ دیئے اور انھیں نرمی سے دبایا
فریحہ ہلکا سا کانپی مگر ہنوز کھڑی رہی_
مجھے سونا ہے تھوڑی دیر_ وہ ذرا سا کسمسائی
ہمممم تو تم نہیں بتاؤگی مجھے وہ ذرا سا اور قریب ہوتے ہوئے بولا
فریحہ کے جسم پہ لرزہ سا طاری ہو گیا تھا جسے وہ اس کے کندھوں پہ رکھے اپنے ہاتھوں سے محسوس کر پارہا تھا_
سو لوں نا تھوڑی دیر بہت تھک گئی ہوں_ وہ بولی اس کے گال دہکنے لگے تھے مگر اس کے ہاتھوں کو اپنے کندھوں سے ہٹانے کی کوشش نہیں کی تھی_
وہ ساکت سی کھڑی تھی گالوں پہ ہلکی سی سرخی ہلکورے لینے لگی تھی عامر کی نظریں پانی کی ایک بوند پہ پڑیں جو زلفوں کے کناروں سے نکل کر کان کے عقب سے ہوتی ہوئی دودھیا گردن پہ جھومتی ہوئی نیچے کی طرف پھسلی اور دودھیا گردن پہ اٹکھیلیاں کرتی ہوئی جا کر کھلے گریبان کی گہرائیوں میں جا چھپی_
عامر کی نگاہوں نے پانی کے اس ننھے شفاف قطرے کے ساتھ ساتھ سفر کیا تھا جہاں اس کا سفر اختتام پذیر ہوا وہاں جوانی کا کھچاؤ تھا وہاں اس کی کسی ہوئی چھاتیاں قمیض کی بندشوں میں قید تھیں ناجانے وہ قمیض ان کی منہ زوری کو کیسے سہہ پارہی تھی عامر کا دل کیا انھیں آزادی بخش دے اور اپنے لمس سے آشنا کرے_
اس پہ کل رات والی کیفیت طاری ہونے لگی تھی اس نے اپنے ہونٹوں کو دانتوں سے کچلا_
اور اس سے ذرا دور ہوا یہاں رہنا سچ میں ایک امتحان ثابت ہو رہا تھا
تم سو نہیں پاؤگی_ وہ بھاری سی آوز میں بولا_
کیوں؟
کیوںکہ تم ڈر جاتی ہو یاد ہے کل رات کسے ڈر گئی تھ؟
ہاں مجھے لگا کوئی باہر موجود ہے اور کھڑکی کھول رہا ہے تب ہی ڈر گئی لیکن اس وقت نہیں ڈرتی میں_
اس وقت نہیں ڈرتی لیکن رات کے وقت ڈر جاتی ہو عجیب بات ہے_
کیوںکہ رات کو اندھیرا ہوتا ہے نا_
اب میں کھانا بنالوں آپ نے بھی نہیں کھایا میں بھی بھوکی ہوں_
وہ دروازے کی طرف بڑھی_
اگر رات کو ڈر گئی تو پھر مجھے آنا پڑیگا کیا؟ اس نے کہا
باہر جاتی فریحہ رکی اورمڑ کر اس کی طرف دیکھا آنکھوں میں عجیب سا خمار نظر آیا تھا_ کیا پتہ اگر میں ڈرگئی تو شاید آنا ہی پڑے آپ کو اس نے کہا عامر نے اسے بغور دیکھا وہ تیزی سے باہر نکل گئی
جاری ہے
0 Comments