ads

Mera Pyar ho Tum - Last Episode

میرا پیار ہو تم

آخری قسط




(یہ میرا تیسرا ناول تھا جو آج ختم ہوگیا جن لوگوں نے ناول کو پڑھا وہ کمنٹ کر کے اپنی رائے ضرور دیں اس میں آپ کا زیادہ وقت نہیں لگیگا لیکن مجھے آگے اپنی تحریر کو بہتر کرنے میں مدد ملے گی)

لنچ کے بعد عامر اسلم رحمانی کی کوٹھی پہ پہنچ گیا تھا فریدہ نے اسے 2 بجے آنے کا کہا تھا اس وقت دو بجنے ہی والے تھے_

پورچ میں گاڑی روک کر وہ اترا اور اندر آگیا فریدہ نے ڈرائینگ روم سے باہر اس کا استقبال کیا تھا اسے دیکھ کر عامر چونکا_

وہ کافی تیار سی لگ رہی تھی ہونٹوں پہ ایک دل آویز مسکراہٹ تھی اس نے ایک سٹائلس سی شارٹ کُرتی اور پاجامہ پہن رکھا تھا اس تنگ سے لباس میں اس کا دلفریب بدن پھنسا ہوا سا تھا بال جوڑے کی شکل میں پشت پر تھے عامر اسے دیکھ کر رہ گیا_

آپ دس منٹ لیٹ ہوگئے ہیں عامر صاحب_ اس نے اپنے ہاتھ سینے پہ باندھتے ہوئے کہا اور ذرا سا مسکرائی

کوئی بات نہیں میں آ گیا ہوں امید ہے تم نے میرا کام کر دیا ہوگا_

میں اسلم کے آفس گئی تھی اور کافی مشکل ہوئی مجھے اس کے لاکر سے وہ ڈاکومنٹس نکالتے ہوئے اگر وہ مجھے دیکھ لیتا تو میری ٹانگیں توڑ دیتا_ فریدہ نے منہ بنا کر کہا تو عامر مطمئن سا ہوا

نہیں رحمانی اتنا ظالم نہیں ہو سکتا کہ ان ٹانگوں کو توڑ دے_ عامر نے پاجامے کی چستی سے جھانکتی اس کی سڈول ٹانگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا_

فریدہ ہنسی تھی_

نہیں یہ مرد بڑے ظالم ہوتے ہیں بہت تکلیف دیتے ہیں_ وہ معنی خیز انداز میں بولی 

وہ دونوں صوفے پہ آبیٹھے تھے وہ ٹانگ پہ ٹانگ ٹکا کر بیٹھی تھی اور اس کے جسم کے نشیب و فراز واضح ہو رہے تھے_

پتہ نہیں تم اپنے کون سے تجربے کی وجہ سے ایسا بول رہی ہو_ کس کس نے تکلیف دی ہے تمھیں؟ اس کا لہجہ بھی ذرا سا معنی خیز ہوا_

بہت شریر ہیں آپ_ وہ جھینپی 

ہاں وہ تو میں ہوں خیر تم مجھے میرے ڈاکومنٹس دے دو تاکہ میں جاؤں_

کیا جلدی ہے آپ کو جانے کی وہ بولی اور صوفے پہ پہلو بدلا تھا ڈاکومنٹس بیڈروم میں پڑے ہیں_

تو جا کے لے آؤ_

آپ بھی چلو میرے ساتھ_

کیوں اکیلے نہیں جاسکتی تم عامر نے اسے گھورا اس لمحے اسے ایک خیال آیا تھا اس نے اپنا ایک ہاتھ جیب میں ڈال دیا_

فریدہ مجھے ایک بات بتاؤ_

جی پوچھیں وہ آگے کو جھک کر بولی 

یہ سہیل کون ہے؟ اس نے جیب میں ہاتھ ڈالے ڈالے پوچھا

وہ چھوڑیں آپ اس کو آپ کا اس سے کیا لینا دینا

نہیں مجھے بتاؤ کون ہے وہ؟ اور تم لوگ ایک ساتھ کب سے ہو میں تمھیں اس کے ساتھ کمرے میں ایک بستر پر دیکھ چکا ہوں اس لئے اب مجھ سے نہ چھپاؤ_

کیا دیکھا تھا آپ نے؟ وہ ہنستے ہوئے بولی عامر نے لب بھینچے

وہ بستر پر دروازے کی مخالف سمت کروٹ لئے سہیل سے گتھم گتھا تھی تب وہ اس کا چہرہ نہیں دیکھ پایا تھا اس کے ڈائی کئے گئے بھورے رنگ کے بال اس کی عریاں کمر کو جزوی طور پر ڈھانپے ہوئے تھے عامر کی سانس ایک لمحے کے لئے تیز ہوئی_

جو بھی تم لوگ کر رہے تھے میں ساری باتیں دیکھ کے گیا تھا_ اس لئے بتاؤ اب کہ وہ کون ہے؟ 

عامر نے کہا اس سے یہ بات نکلوانی بہت ضروری تھی_

وہ جو کوئی بھی ہے لیکن آپ اتنا کیوں پوچھ رہے ہیں؟

ٹھیک ہے نہیں پوچھتا تم میرے ڈاکومنٹس لے آؤ_ عامر نے گہری سانس لے کر کہا وہ بتا ہی نہیں رہی تھی

وہ بیڈروم میں پڑے ہیں چلیں انھیں لاتے ہیں_ فریدہ اس پہ مسکراہٹ کی بجلیاں گراتے ہوئے بولی

اور اٹھ کر اس کی طرف آئی اور اس کا ہاتھ تھام کر کھینچا عامر اٹھ کھڑا ہوا اوراس کے ہمراہ اندر کی طرف بڑھا

وہ بے حد دلکش چال چلتی ہوئی جارہی تھی تنگ لباس میں اس کی کمر بل کھا رہی تھی اور سڈول کولہے مستی سے تھرک رہے تھے

یہاں ہیں آپ کے ڈاکومنٹس وہ بیڈ ٹیبل کے پاس رک کر جھکی اور دراز کھول کر اس کے کاغذات نکال کر لہرائے

عامر نے انھیں تھامنا چاہا مگر اس نے انھیں جھٹ سے اپنی کمر کے پیچھے چھپا لیا

عامر نے اسے گھورا

لے لو اگر لے سکتے ہو تو وہ دونے ہاتھ پیچھے کئے سینہ تان کر بولی

اس کی صحت مند چھاتیاں کُرتی کے اندر تن گئیں اور ہونٹوں پہ گہری مسکراہٹ ابھر آئی_  

عامر اس کے ساتھ آلگا

اس کا بھرپور سینہ عامر کے بدن میں دبنے لگا اور عامر کے ہاتھ اس کی کمر پر جم گئے جہاں وہ دونوں ہاتھوں میں ڈاکومنٹس تھامے ہوئے تھی_

اس کی جوانی کا لمس پھر سے عامر کے حواس پہ چھانے لگا تھا اور اس کے بدن کی خوشبو عامر کے اندر ہیجان برپا کر رہی تھی 

وہ کھینچ کر اسے بیڈ کی طرف لایا اور ہلکا سا دھکا دے کر اسے چت لٹا دیا اور اس کےمنہ زور بدن پہ چھا گیا اور اس کے تپتے ہونٹوں سے رس چرانے لگا_

وہ اس کے گلے میں بانہیں ڈال کر ایک لمحے کے لئے کسمسائی پھر ہلکا سا کراہی تھی عامر نے اس کے لبوں کو سختی سے بھینچا تھا_

بتاؤ مجھے وہ کون ہے؟ عامر بولا

کون کس کی بات کر رہے ہو؟ وہ بہکی بہکی سانسوں کے درمیان بولی

سہیل کی بات کر رہا ہوں_

وہ بھی حسن کی طرح میرا ایک پروانہ ہے جس سے میری راتیں آباد رہتی ہیں وہ لمبی سانس لیتے ہوئے بولی اور اپنے نیم وا لب عامر کی طرف اٹھائے 

کتنے سال سے تم اس کے ساتھ ہو؟عامر نے اسے کے لبوں کو ہاتھ کی انگلیوں سے چھوتے ہوئے پوچھا

بہت عرصہ ہوگیا ہے مگرتم اس وقت یہ باتیں جانے دو_ وہ ہونٹوں کو دانتوں تلے دباتے ہوئے بولی اور اسے پھر خود میں بھینچنا چاہا_

عامر نے جیب میں ہاتھ ڈال کر فون نکالا اور ریکارڈنگ کا بٹن آف کردیا اور اس کے اوپر سے اٹھ آیا اس کا مقصد پورا ہوچکا تھا اس نے بیڈ پہ ایک طرف رکھے اپنے ڈاکومنٹس اٹھائے_ 

میں جا رہا ہوں اس نے کہا اور فریدہ کو دیکھا جو بستر پہ چت لیٹی سے مایوسی سے دیکھ رہی تھی ایسے لیٹنے سے اس کا بھرپور سینہ فلیٹ نظر آرہا تھا_

وہ اس سے نظریں چراتا ضبط کرتا ہوا باہر آگیا_

+++++++

عامر حسن کو ٹیرس پہ بیٹھا دیکھ کر اس کی طرف آیا وہ وہاں بیٹھا چائے پی رہا تھا اور چپس کھا رہا تھا جو فریحہ نے بنائے تھے_

وہ اس کے قریب پڑی کرسی پہ آبیٹھا_

تمھارے لئے میرے پاس کچھ ہے_ اس نے حسن کو مخاطب کیا

کیا ہے؟

عامر نے جیب سے ایک میموری کارڈ نکال کر اسے دکھایا یہ لو اس میں ایک آڈیو ریکارڈنگ ہے اسے سنو_ 

حسن نے جانچتی ہوئی نظروں سے کارڈ لے لیا_

کیا ہے اس میں؟ اس میں میرے اس دعوے کا ثبوت ہے جو میں نے کل کیا تھا اور تم نے اس کا یقین نہیں کیا تھا_

عامر نے ٹھہرے ہوئے انداز میں کہا حسن کے ماتھے پر بل پڑے تھے

تم پھر وہی فضول موضوع لے کے بیٹھ گئے ہو_ 

یہ بہت ضروری ہے بہتر ہوگا تم پہلے یہ آڈیو سن لو_

حسن چند لمحے اسے ہونٹ بھینچے دیکھتا رہا پھر اندرکیطرف بڑھ گیا شاید اس کا فون اندر تھا_

عامر سکون سے وہاں بیٹھا نیلے آسمان تلے سورج کو مغرب کی آغوش میں ڈوبتے دیکھتا رہا وہ اپنا قضیہ نمٹا آیا تھا ڈاکومنٹس اس کے پاس تھے جو رقم باقی تھی وہ بعد میں رحمانی کو بھیج دیتا_

وہ فریدہ کی آواز ریکارڈ کر آیا تھا اس نے عامر کی قربت میں بہک کرسہیل کے بارے میں بتایا تھا وہ آڈیو اس نے عامر کو دے دی تھی ہو سکتا ہے وہ سنبھل جات اور فریحہ کی زندگی میں آسودگی کے پھول کھل اٹھتے اس کی شربتی آنکھوں میں پھیلے اداسیوں کے سائے دھندلا جاتے فریحہ کے لئے اتنا تو وہ کر سکتا تھا_

فریحہ کا سوچ کر اس کے دل سے ہوک سی اٹھی_

چند لمحے بعد حسن اندر سے تلملایا ہوا سا باہر آیا

یہ کیا بکواس ہے؟ اس نے عامر کے قریب جھک کر ٹیبل پر زور سے ہاتھ مارا اور غرایا

ٹیبل پہ پڑے برتن لرزے تھے_

لگتا ہے تم نے آڈیو سن لی ہے_ عامر بولا اور اس کے لال بھبوکا چہرے کی طرف دیکھا

یہ ناممکن ہے عامر فریدہ ایسی نہیں ہوسکتی تم نے کوئی سازش کی ہے_ غصے کی زیادتی سے اس کی آواز پھٹ رہی تھی

میں نے کوئی سازش نہیں کی اس کی آواز تم نے باخوبی پہچان لی ہوگی میں صبح اس کے گھر گیا تھا تم فریدہ سے بات کیوں نہیں کر لیتے_ 

عامر کو لگا حسن اپنے بال نوچنے لگا

وہ چند لمحے اسے خشونت سے دیکھتا رہا پھر تیزی سے مڑا اور باہر نکل گیا چند لمحے بعد گاڑی سٹارٹ ہونے اور باہر نکلنے کی آواز آئی تھی_

فریحہ گھبرائی ہوئی سی ٹیرس پہ آئی_

عامر حسن کو کیا ہوا وہ بہت غصے میں باہر گئے ہیں _ اس کے چہرے کی رنگت اڑی ہوئی تھی

کچھ نہیں ہوا فریحہ پریشان نا ہو سب ٹھیک ہوجائیگا_ وہ اسے دلاسہ دینے لگا

مگر وہ اس وقت کہاں گئے ہیں وہ پھر بھی پریشان سی کھڑی رہی_

اسے ایک کام یاد آگیا تھامیں نے کہا نا اب سب ٹھیک ہوجائیگا_ اس نے تیقن سے کہا

فریحہ پھیکا سا مسکرائی اور اثبات میں سر ہلادیا_

++++++

حسن رات تک واپس نا آیا فریحہ پریشان ہوتی رہی اس کا فون بھی مسلسل آف جا رہا تھا عامر اس کے ساتھ ڈرائینگ روم میں بیٹھا اسے دلاسہ دیتا رہا دونوں نے تھوڑا سا ڈنر کیا تھا اور مسلسل ڈرائینگ روم میں بیٹھے رہے تھے فریحہ کی پریشانی دیکھ کر عامر کا دل ادھ موا ہوا جارہا تھا وہ ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگتا اور پھر اچانک سے فریحہ بول اٹھتی پتہ نہیں کہاں رہ گئے ہیں حسن تب عامر اپنے دل پہ صبر کی سل رکھ کر اسے دلاسہ دیتا اور اس کی توجہ بھٹکا دیتا وہ وہیں اس کے قریب صوفے پر بیٹھ کر اونگھنے لگی تب عامر نے اسے سونے کے لئے بیڈروم میں بھیج دیا_

مگر خود ڈرائینگ روم میں بیٹھا رہا رات گئے حسن کی گاڑی اندر آئی تھی وہ تھکے ہوئے قدموں سے اندر آیا عامر نے دیکھا اس کے بال الجھے ہوئے تھے اور کپڑے سلوٹ زدہ تھے عامر کو ڈرائینگ روم میں بیٹھا دیکھ کروہ لمحے بھر کے لئے ٹھٹکا پھر بنا کچھ بولے اپنے کمرے میں جا کر دروازہ بند کرلیا_

عامر کسلمندی سے اٹھ کر اپنے کمرے میں آگیا اور بستر پر ڈھے سا گیا آج کی رات نیند آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا اس کی کنپٹیوں سے ٹیسیں اٹھ رہی تھیں اور دل سینے کی خندق میں جیسے ڈوب رہا تھا درو دیوار اسے افسردگی کی پوشاک پہنے نظر آئے تھے_ 

آج وہ الگ کمرے میں تھا اوروہ اپنے شوہر کے پہلو میں تھی اسے نیند میں دیکھنا اسے دنیا کا سب سے خوبصورت منظر لگنے لگا تھا لیکن آج وہ اسے دیکھ نہیں سکتا تھا اس نے تکیے پہ سر پٹخا اور کنپٹیوں کو انگلیوں کے پوروں سے دبایا_

اسے کل صبح واپس چلے جانا تھا اس نے فلائٹ میں ٹکٹ بک کرا لیا تھا ناجانے وہ کس وقت سویا، یا سویا بھی کہ نہیں اسے کچھ یاد نہیں تھا صبح ہوئی اور سورج کی کرنیں سرکے ہوئے پردوں سے اندر جھانکنے لگیں_

وہ کسلمندی سے اٹھا اور واش روم کی طرف بڑھا اس کا سر من بھر کا ہو رہا تھا ہر اٹھتے قدم کے ساتھ اس سے ٹیسیں اٹھ رہی تھیں وہ بہت دیر شاور کھول کر اس کے نیچے ساکت کھڑا رہا اس کی طبیعت قدرے بہتر ہوئی_

وہ کپڑے بدل کر باہر نکل آیا فریحہ کچن میں تھی اور کچھ گنگنا رہی تھی اس کی آواز میں کھنک تھی اور کوئلوں جیسا سوز تھا_

اسے دیکھ کر وہ مسکرائی اس کا روشن چہرہ چمکا اور ہونٹوں تلے شفاف دانت جھلملائے خوشی اس کے انگ انگ سے ہویدا تھی شاید حسن نے اپنی غلطیوں کا اعتراف کر لیا تھا اور کل کی رات ان کے تجدید تعلق کی رات تھی

 ان ہی لمحوں میں حسن اپنے روم کا دروازہ کھول کر کچن میں آگیا اس کے بال گیلے تھے ہونٹ مسکراہٹ لئے ہوئے تھے اسے دیکھ کر فریحہ ذرا سی سرخ ہوئی اس کا چہرہ بیتی رات کا فسانہ بیان کرنے لگا_

حسن عامر کے قریب آکر اس سے لپٹ گیا_

شکریہ_ عامر نے اس کی ہلکی سی سرگوشی سنی تھی 

عامر نے بے دلی سے سر ہلا دیا دل محبت کا نوحہ پڑھنا چاہتا تھا وہیں کھڑے کھڑے خاک ہونا چاہتا تھا اذیت کا احساس بے حد شدید تھا اس نے اپنے ہونٹوں کو اس زور سے کاٹا کہ منہ میں خون کا ذائقہ گھل گیا_

وہ خوش تھی اور یہی وہ چاہتا تھا چاہے اس کے لئے وہ خود کو کیوں نا قربان کر دیتا_

حسن نے اس کی سرخ آنکھوں کی بابت سوال کیا تھا جسے اس نے ان سنا کر دیا_

ان تینوں نے ناشتہ ساتھ کیا پھر عامر اندر سے اپنا بیگ اٹھا لایا جسے اس نے پیک کردیا تھا جانے کا وقت آگیا تھا حسن اسے ائیرپورٹ تک چھوڑنے جانا چاہتا تھا_

وہ پورچ میں کھڑی گاڑی کے قریب آگئے حسن نے گاڑی سٹارٹ کی وہ ذرا ہی دور کھڑی تھی عامر نے پلٹ کر اسے دیکھا تھا_

سیاہ رنگ کے سوٹ میں اس کا اجلا سراپا دمک رہا تھا اور چہرے پر شفق کی سرخی اور نکھار تھا عامر کی نگاہوں نے اس کے چہرے کو بے تحاشا چوما اور الوداعی انداز میں ہاتھ ہلایا ہونٹ خدا حافظ کہنے کے لئے کپکپائے تھے_

اس نے بھی ہاتھ ہلایا تھا_

وہ بیگ پچھلی سیٹ پر رکھ کر آگے بیٹھ گیا_

 گلےميں آنسوؤں کا گولہ سا اٹکا تھا اس کی آنکھیں دھندلا گئیں گاڑی گیٹ سے باہر نکلتی چلی گئی_




ختم شد 

Post a Comment

0 Comments