ads

Mera Pyar ho Tum - Episode 7

میرا پیار ہو تم

قسط: 7



عامر باہر چھوٹے سے لان میں ٹہل رہا تھا فریحہ اندر کچن میں تھی_

وہ ابھی حسن سے ہوٹل میں مل کر واپس آیا تھا اور چاہ کر بھی اسے فریدہ کی اصلیت نہیں بتا سکا تھا کئی بار بات اس کے لبوں تک آ کر ٹھہر گئی تھی شاید اس کا دل اسے چپ رہنے پر آمادہ کر رہا تھا دل کے کسی نہاں خانے میں یہ خواہش موجود تھی کہ حسن فریحہ کو چھوڑ دے تاکہ وہ اسے اپنا سکے_

شاسے فریحہ سے عجیب سی جذباتی وابستگی محسوس ہو رہی تھی اسے دیکھنے اور سننے کے لئے دل بے قرار رہنے لگا تھا کئی منٹ باہر ٹہلنے کے بعد وہ بے چین سا ہوگیا اور اندر آگیا_

وہ کچن میں سلاد بنا رہی تھی بال کیچر کی قید کاٹ رہے تھے اور نازک سی ناک پہ کام کرنے کی وجہ سے پسینے کی ننھی نھی بوندیں ابھر آئی تھیں_

وہ وہیں بیٹھ کر اس سے ادھر ادھر کی باتیں کرتا رہا_

ڈنر دونوں نے ساتھ کیا پھر وہ اپنے کمرے میں چلی گئی_

عامر اپنے کمرے میں بستر پر کروٹیں بدلتا رہ کبھی اٹھ کر پیروں تلے قالین کو روندتا رہا نیند روٹھی ہوئی تھی دل کا چین اور قرار لٹ گیا تھا تھک ہار کر وہ کمرے سے نکلا اور اس کے دروازے کی طرف بڑھا_

دروازے کے سامنے رک کر اس نے ہلکی سی دستک دی تھی_

آجائیں_

فریجہ نے کہا تھا اس نے ہینڈل گھما کر دروازہ کھولا اور اندر آگیا وہ اپنے بستر پر لیٹی ہوئی تھی اس نے کہنیوں کے بل اوپر کو اٹھ کر عامر کو دیکھا_

آج مجھے نیند نہیں آرہی تھی سوچا تم سے دو باتیں کرلوں_ وہ اس کے بیڈ کے قریب آتے ہوئے بولا وہ چپ رہ کر اسے دیکھتی رہی_

وہ دھیما سا مسکرائی_

وہ اس کے قریب ہی بیٹھ گیا_

فریحہ لیٹی رہی عامر کو لگا جیسے وہ سانس روکے ہوئے ہو_

لب بھنچے ہوئے تھے اورکمبل تلے سینے کا زیرو بم ہمک رہا تھا_ 

وہ بے ساختہ اس کے قریب ہوا اور اس کے برابر میں آ لیٹا نظریں اب بھی اس کیے لب و رخسار کا طواف کر رہی تھیں_

عامر کے لب سلگنے لگے تھے وہ ضبط کے مرحلوں سے گزرنے لگا_

فریحہ اسے نے پکارا_

جی_ اس نے چہرہ عامر کی طرف موڑا تھا_

تم حسن سے پیار کرتی ہو؟

سوال اس کے لبوں پر آگیا تھا جو آج سارا دن اس کے دماغ کی چولیں ہلاتا رہا تھا دل کو دہلاتا رہا تھا فریحہ نے اسے حیرت سے دیکھا_

یہ کیسا سوال ہے_

جیسا بھی ہے تم مجھے بتاؤ کیا تم اسے چاہتی ہو؟ تم دونوں کا تعلق کیسا ہے؟ یہ باتیں بہت پرسنل تھیں مگر عامر پوچھنے پر مجبور ہوگیا تھا

جیسا ہر ہسبینڈ وائف کا ہوتا ہے_ ویسا ہی تعلق ہمارا بھی ہے وہ بولی عامر کو لگا جیسے اس کی آنکھیں اس کی زبان کا ساتھ نہیں دے رہی ہیں_

تم لوگوں کے جھگڑے ہوتے ہیں؟

نہیں کبھی نہیں_ وہ بولی

کبھی تو ہوئے ہوںگے_

نہیں کیوںکہ ہماری کبھی زیادہ بات ہی نہیں ہوئی_ اس مرتبہ وہ اپنی آواز کی بیچارگی نہیں چھپا پائی_

کبھی تم نے علیحدگی کے بارے میں سوچا ہے؟ وہ اس کے چہرے کو نگاہوں کے رستے دل میں اتارتے ہوئے بولا فریحہ کے چہرے پہ سایہ سا لہرایا تھا

نہیں اللہ نا کرے_ وہ بولی

وہ جیسے بھی ہیں میرے شوہر ہیں میں ہر اذیت سہہ لوںگی مگر طلاق کا داغ نہیں سہہ پاؤںگی_

عامر کے اندر کچھ ٹوٹا تھا وہ روایتی بیویوں کی طرح ہی تھی جو مرد کے نکاح میں آنے کے بعد اپنے جذبوں کو اس سے وابستہ کر دیتی ہیں_

حسن کی بے التفاتی کے سبب اس کے پاؤں ذرا سے ڈگمگائے تھے مگر وہ اب بھی اسے اپنا مجازی خدا مانتی تھی اور علیحدگی کا سوچ کے ہی دہل گئی تھی_

وہ کئی لمحے اسے دیکھتا رہا اس پہ بے تحاشا پیار بھی آرہا تھا اور دل بھی کرچی کرچی ہو رہا تھا اگر حسن اسے طلاق دے دیتا تو وہ بکھر جاتی وہ اسے شوہر کی حیثیت سے محبت کرتی تھی_

عامر کی محبت یک طرفہ تھی_

وہ سو گئی مگر عامر جاگتا رہا اسے یک ٹک دیکھتا رہا پھر لیٹے لیٹے اس کے قریب ہوا اور اپنا چہرہ اس کے پاس لا کر اس کے ہونٹوں پہ جھکا اور اس کے پنکھڑیوں جیسے لبوں پر نرمی سے بوسہ دیا_

 وہ ہنوز سوتی رہی عامر اس کے پہلو سے اٹھا اور تھکے قدموں سے اپنے کمرے کی طرف بڑھا_

امیدوں کا شیش محل زمیں بوس ہو گیا تھا اس کی خود غرضی تحلیل ہونے لگی وہ محبت میں قربانی دینے کے لئے تیار ہوگیا تھا اب اسے فریحہ کو حسن سے طلاق نہیں دلوانی تھی بلکہ ان کے رشتے کو بچانا تھا 

فریحہ کے لئے اس کے لبوں پر ہنسی کے پھول کھلانے کے لئے_

+++++++

صبح کے نو بج رہے تھے عامر نے اسلم رحمانی کے گھر کا نمبر ملایا ت کال بیل جاتی رہی حسب توقع فریدہ نے کال اٹھائی تھی_ 

ہیلو_ اس کی کھنکتی ہوئی سی مدھر آواز فون کے سپیکر میں سے گونجی تھی_

کون بول رہے ہیں؟ 

میں عامر داؤد بات کر رہا ہوں_ آپ کیسی ہیں فریدہ صاحب ؟

ایکسکیوز میں؟ میں نہیں جانتی آپ کو آپ اتنے بے تکلف کیوں ہو رہے ہیں؟ وہ ترش سے لہجے میں بولی تو عامر زیر لب مسکرایا

میں کل آپ کے گھر آیا تھا_ شاید آپ نے مجھے دیکھا تھا_

اوہ اچھا آپ وہ ہیں خیر میں نے صرف آپ کی شکل دیکھی تھی میں آپ کو نہیں جانتی ہوں آپ کو رحمانی صاحب سے کوئی کام ہے تو آپ کی اطلاع کے لئے عرض کردوں کہ وہ اس وقت گھر پہ نہیں ہیں آپ آفس فون کرلیں_

مجھے رحمانی سے نہیں آپ سے کام ہے فریدہ صاحبہ اور جاننے کا کیا ہے جان پہچان بھی ہوجائیگی_ عامر نے اطمینان سے سیٹ سے ٹیک لگائی تھی_

آپ حد سے بڑھ رہے ہیں میں آپ کو نہیں جانتی اور نا ہی جاننے میں کوئی دلچسپی رکھتی ہوں ٹھیک ہے اور اب میں فون کاٹ رہی ہوں آئیندہ فون نا کیجئیۓ گا_

ارے ارے فریدہ صاحبہ فون نا کاٹنا ورنہ مجھے پھر آپ کے گھر آنا پڑیگا مجھے آپ سے بڑی ہی ضروری باتیں کرنی ہیں_ عامر مزے لے لےکر بولا

کوئی ضرورت نہیں ہے مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی_ وہ تنک اٹھی 

سہیل اور حسن سے آپ مختلف زبانوں میں تفصیلی باتیں کر سکتی ہیں تو مجھ سے کیوں نہیں کر سکتی فریدہ صاحبہ ایسے تو نہ کیجئے_ 

دوسری طرف خاموشی چھائی تھی شاید عامر کی بات نے اسے جھنجوڑ ہی ڈالا تھا

کک کیا مطلب آپ کا؟ وہ واضح طور پر ہکلائی 

عامر مسکرا دیا اس نے فرید کی نازک رگ پہ ہاتھ رکھا تھا_

مطلب تو آپ بہ خوبی سمجھ گئی ہوںگی_ اب بتائیں بات کرنی ہے مجھ سے یا نہیں_

میں کال کاٹ رہی ہوں وہ گھبرائی ہوئی سی بولی_مجھے آپ کی کوئی بات نہیں سمجھ آرہی 

کال مت کاٹنا فریدہ تمھیں معلوم ہوگیا ہوگا کہ میں کس کی اور کیا بات کر رہاہوں مجھے ابھی تم سے ملنا ہے_

اور تم انکار نہیں کروگی_ اگر انکار کیا تو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑیگی

بتاؤ کہاں ملنے آؤگی 

کہو تو میں تمھارے گھر آجاؤںگا_

وہ خاموش رہی_

ٹھیک ہے میں ابھی تمھارے گھر آرہا ہوں_اس کی خاموشی کو رضا مندگی سمجھتے ہوئے عامر نے مضبوط لہجے میں کہا اور فون بند کرد یا 

اس کے منصوبے کا پہلا حصہ شروع ہو گیا تھا_

+++++++

وہ اسلم رحمانی کی کوٹھی کے ڈرائنگ روم میں بیٹھا ہوا تھا سامنے صوفے پہ فریدہ بیٹھی ہوئی تھی وہ بے حد خوبرو عورت تھی نقوش تیکھے تھے اور جسم بھرا بھرا اور سانچے میں ڈھلا ہوا تھا عامر نے اسے گہری نظروں سے دیکھا یہ عورت کسی بھی مرد کو پاگل کر سکتی تھی_

لیکن اس وقت اس کی رنگت قدرے پھیکی پڑی ہوئی تھی_

تم گھبراؤ نہیں فریدہ اگر تم مجھ سے تعاون کروگی تو تمھیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤنگا اس کے بدن سے نظریں چراتے ہوئے عامر نے کہا

کیسا تعاون چاہتے ہو تم مجھے بتاؤ تمھیں کیا چاہئیے؟_ اس نے کہا عامر کو اس کا لہجہ ذرا سا معنی خیز لگا_

وہ سمجھ رہی تھی کہ عامر اس کے حسن پر مرمٹا ہے اور اس حاصل کرنے کے لئے یہاں تک آیا ہے_

دیکھو اگر تمھیں پیسے چاہئیں تو وہ میں تمھیں نہیں دے سکتی اس کے علاوہ اگر تمھیں کچھ چاہئیے تو بتاؤ وہ ڈھکے چھپے الفاظ میں بولی

میرے جو ڈاکومنٹس رحمانی کے پاس ہیں وہ مجھے چاہئیں_ اور وہ تم مجھے دوگی اس نے کہا

نہیں وہ تو اس کے پاس ہیں میں کہاں سے دے سکتی ہوں

جہاں بھی وہ رکھے ہیں مجھے چاہئیں_ عامر بولا

نہیں کچھ اور لے لو نا ان کی جگہ_ 

اس نے کہا اور اک ادا سے اٹھی اور چھوٹے قدموں سے چلتی ہوئی اس کی طرف آئی اور اس کا گدرایا ہوا جوان جسم لہرا سا گیا وہ اس کے قریب آکر گھٹنوں کے بل ذرا سی جھک کر بیٹھ گئی اور ہاتھ عامر کے گھٹنوں پہ رکھ دئیے شرٹ کے گہرے گلے سے عامر کی نگاہیں اندر تک کی سیر کر آئیں

گلہ خطرناک حد تک گہرا تھا عامر کی فریدہ کی تنی ہوئی چھاتیوں کا کچھ حصہ نظر آیا اور اس کے ہونٹ خشک ہونے لگے او صبر جواب دے گیا_

اس نے فریدہ کے ہاتھ اپنے گھٹنوں سے ہٹائے اور اسے کھینچ کر اپنی گود میں بٹھا لیا اس کے بازو فریدہ کی کمر کے گرد لپٹ گئے اور اس کا چہرہ فریدہ کی منہ زور چھاتیوں میں دھنس گیا_ 

اس نے لمبی سانس لی اور بے خود سا ہوا فریدہ کے جسم سے حیوانی خوشبو آرہی تھی وہ خود بھی آگے کو ہو کر اس کے چہرے کو اپنے بدن کے ابھاروں سے ڈھانپے ہوئی تھی_

نا جانے کتنے لمحے مدہوشی میں بسر ہوئے تھے وہ اس کے بازؤوں میں ہمک رہی تھی اس کی قربت نشہ بن کر عامر کے حواس پر طاری ہو رہی تھی_ 

اس سے پہلے کہ وہ خود کو بھول جاتا اسے ہوش آیا وہ اس کے جال میں پھنس رہا تھا اس نے کندھوں سے پکڑ کر اسے علیحدہ کیا اور صوفے پہ بٹھایا_

کیا ہوا؟ وہ بولی

مجھے ہر حال میں وہ ڈاکومنٹس چاہئیں_ جاؤ وہ لے آؤ_ میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے_ اس نے خود کو پر سکون کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا 

کتنا وقت ہے تمھارے پاس؟

بہت کم اب جاؤ وہ لے آؤ ورنہ تمھارے سب راز راز نہیں رہیںگے_ عامر نے اسے دبی آواز میں دھمکایا

مگر وہ ڈاکومنٹس رحمانی کے آفس کے لاکر میں ہوتے ہیں_

آفس چلی جاؤ اور جیسے بھی کر کے وہ لے آؤ_

ڈاکومنٹ کو چھوڑ دو کچھ اور چاہئے تو وہ لے لو نا مجھ سے وہ اس کے کالر سے کھیلتے ہوئے بولی

عامر نے ہونٹ بھینچ کر اپنے اندر اٹھتے طوفان کو دبانے کی کوشش کی_

وہ وہاں سے نکلنا چاہتا تھا ورنہ وہ بہک جاتا_

تم ابھی آفس جاؤ اور وہ ڈاکومنٹس لے آؤ پھر میں انھیں لینے آجاؤنگا اس نے فریدہ سے کہا 

ٹھیک ہے وہ پژمردہ سی آواز میں بولی لیکن انھیں لینے کب آؤگے؟ 

تمھارا شوہر گھر کس وقت آتا ہے؟ عامر نے پوچھا

چار بجے

ٹھیک ہے میں تین بجے آکے لے جاؤنگا اس نے کہا اور جانے کے لئے کھڑا ہوا

 نہیں دو بجے آجاؤ وہ بے باکی سے اس کے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے بولی عامر نے لمبی سانس لی وہ جانتا تھا وہ اسے جلدی کیوں بلا رہی ہے

ٹھیک ہے دیکھوںگا اس نے کہا_

+++++++

(اگر آپ نے سارا ناول پڑھا ہے اور آپ کو پسند آرہا ہے تو پلیز میرے پییج کو بھی لائک کر کے مجھے سپورٹ کریں)

عامر گھرآیا او حسن کو ڈرائینگ روم میں بیٹھا دیکھ کر دروازے میں ہی رک گیا_ 

وہ سامنے ہی صوفے پہ بیٹھا ہوا تھا پاؤں اس نے ٹیبل پر رکھے ہوئے تھے_

ساتھ ہی دوسرے صوفے پر فریحہ بیٹھی ہوئی تھی_

اسے دیکھ کر وہ مسکرایا اور اٹھ کر گلے لگایا عامر نے بھی گرمجوشی کا مظاہرہ کیا_

تم کراچی سے کب آئے عامر نے پوچھا اور فریحہ کی نظر بچا کر اسے گھورا تھا_

میرا تو ایک گھنٹہ ہوگیا ہے یار آئے ہوئے تم ہی مٹر گشت پر نکلے ہوئے ہو

کال یر لیتے میں گاڑی لے کر ائیر پورٹ پر پک کرنے آجاتا_ حسن نے اسے گھورتے ہوئے کہا وہ کمینی سی ہنی ہنسا تھا_

اسے گھر پہ دیکھ کر عامر کو عجیب سا احساس ہوا تھا اب وہ چاہ کر بھی فریحہ سے اس طرح بے تکلفی سے بات نہیں کر سکتا تھا نا ہی اسے سوتے ہوئے دیکھنے کے لئے اس کے کمرے میں جا سکتا تھا اس کے دل پہ گھونسا سا پڑا_

لیکن رات کی باتوں کے بعد اس کی ذہنی حالت بدلی تھی اب وہ فریحہ کے راستے ہموار کرنا چاہتا تھا اگر وہ حسن سے محبت کرتی تھی تو اسے ان کے ٹوٹتے رشتوں کو سنوارنا چاہئے تھا نا کہ ان کے بیچ دیوار بننا چاہئے تھا یہی محبت کا قرینا تھا_

وہ کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد لان میں نکل آئے_

 تمھارے منصوبوں کا کیا بنا؟

تنہائی ملتے ہی عامر نے اس سے پوچھا تھا

کون سے منصوبے؟ حسن چونکا

وہی جو تم بنائے بیٹھے ہو فریحہ کو چھوڑنے کا اور دوسری شادی کرنے کا منصوبہ_ اس نے کہا حسن مسکرایا تھا

وہ اپنی جگہ پر ہیں مناسب وقت آنے پر ان پہ عمل کرونگا_

کیا تم نے یہ فیصلہ لینے سے پہلے فریدہ کے بارے میں پوری طرح چھان پھٹک کی ہے؟ عامر نے اسے بغور دیکھتے ہوئے مضبوط لہجے میں کہا

حسن چونکا

 تمھاری اس بات کا کیا مطلب ہے؟

جس سے کوئی تعلق بنانا ہو اس کے بارے میں پوری معلومات لی جاتی ہیں نا عامر نے کہا

وہ دونوں ٹہلتے ٹہلتے لان کے بیچ میں رک گئے تھے

عامر سوچ سمجھ کر بات کرو حسن نے سرد لہجے میں کہا

میں سوچ سمجھ کر ہی بات کر رہا ہوں تم فریدہ کے بارے میں کتنا جانتے ہو؟

عامر اس کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑتے ہوئے بولا

تین سال سے اسے جانتا ہوں اس کی ہر ایک بات پتہ ہے مجھے_ 

حسن نے کہا تو عامر نے نفی میں سر ہلایا تھا

تمھیں بہت ساری چیزیں نہیں پتہ ہیں میرے دوست_

کیا نہیں پتہ مجھے؟_

کیا تمھیں پتہ ہے کہ وہ اپنے شوہر کی غیر موجودگی میں تمھارے علاوہ کس کس کو اپنے گھر بلاتی ہے_ عامر کا لہجہ بے حد گھمبیر تھا

حسن کے چہرے کے عضلات تن اٹھے اور چہرہ سرخ ہو گیا

عامر بکواس نا کرو وہ دبی دبی آواز میں غرایا تھا

میں صرف تمھیں حقیقت بتا رہا ہوں_ عامر نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا جسے اس نے جھٹک دیا

تمھیں کیسے پتا تم تو اسے جانتے تک نہیں حسن نے اسے سرخ ہوتی آنکھوں سے گھورا تھا

کچھ دن پہلے تک میں اسے نہیں جانتا تھا لیکن اب جانتا ہوں تمھیں بتا دوں کہ جس پراپرٹی ڈیلر سے میرا کام الجھا ہوا ہے اس کا نام اسلم رحمانی ہے اسے تو تم باخوبی جانتے ہوگے_ فریدہ کا شوہر_

حسن بے یقینی اور غصے سے اسے دیکھتا رہا_

میں اس کے گھر گیا تھا اور اپنی آنکھوں سے فریدہ کو ایک مرد کا پہلو گرماتے دیکھا ہے_

بس عامر بہت ہوگئی تمھاری بکواس اب میں تمھارا ایک لفظ نہیں سنوںگا_ 

حسن بری طرح تلملا کر بولا

تم فریحہ کے پیار کو ٹھکرا کر بہت بڑی غلطی کر رہے ہو وہ تم سے محبت کرتی ہے_

عامر نے بمشکل کہا یہ الفاظ کہتے ہوئے اس کی زبان کانپی تھی

تمھاری ان من گھڑت کہانیوں سے جو تم فریحہ کے کہنے پہ مجھے بتا رہے ہو میرے ارادے نہیں بدلینگے آئیندہ مجھ سے ایسی کوئی بات نا کرنا ورنہ ہماری اتنے سالوں کی دوستی ختم ہوجائیگی عامر_

یار میری بات کا یقین کرو اسے تو اس بات کی بھنک بھی نہیں پڑی ہے میں تمھیں صرف حقیقت---

بس یار پلیز_ حسن نے اس کی بات کاٹی تھی یقیناً فریحہ نے تمھیں اپنی مظلومیت کے قصے سنائے ہیں تب ہی تم ایسا کہہ رہے ہو اس بارے میں کوئی بات ہی نا کرو

میں شاور لینے جا رہا ہوں پھر لنچ ساتھ کریںگے حسن بولا اور اندر کی طرف بڑھ گیا

عامر اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا ان کی دوستی آٹھ سال پرانی تھی جسے انھوں نے قائم رکھا تھا اور کئی موقعوں پر شانے سے شانہ ملا کر ایک دوسرے کا ساتھ دیا تھا مگر آج ان کے بیچ تلخی پھیلی تھی حسن نے اس کی کسی بات کا یقین نہیں کیا تھا_

وہ لان میں پڑی کرسی پہ بیٹھ گیا اور سر پشت سے ٹکا دیا اسے فریحہ کے سہاگ کو محفوظ رکھنا وہ جو اس کی خاموش محبت تھی 

مگر اس کی محبت اس کا شوہر تھا 

اسے کچھ دیر بعد فریدہ سے اپنے ڈاکومنٹس لینے جانا تھا اسے صبح کے اس کی قربت میں بتائے لمحے یاد آئے وہ عورت عجیب تھی اس کے قریب جاکر خود کو ہوش میں رکھنا مشکل کام تھا_

 وہ دیر تک وہیں بیٹھا سوچتا رہا پھر ایک خیال آنے پرمطمئن ہوگیا_



جاری ہے

Post a Comment

0 Comments