میرا پیار ہو تم
قسط 6
بھئی چائے بنا دو مہمان آیا ہوا ہے_ اسلم رحمانی نے فریدہ سے کہا جب کہ عامر کا دماغ ابھی تک اچانک لگنے والے اس جھٹکے سے سنبھل نہیں پایا تھا_
اس کی نگاہیں ابھی تک اس لڑکی پہ ٹکی ہوئی تھیں جس کی عمر شاید تیس کو چھو رہی تھی مگر اس نے خود کو سنبھال کے رکھا ہوا تھا وہ کہیں سے پچیس سے زیادہ کی نہیں لگتی تھی_
لباس کی تراش خراش بے حد عمدہ تھی اور اور چہرے کی ملائم جلد بتا رہی تھی کہ اس کا خاص خیال رکھا جاتا ہے عامر نے اسے گہری نگاہوں سے دیکھا وہ بے حد جوان اور حسین تھی جبکہ اسلم رحمانی اس کے سامنے بوڑھا نظر آتا تھا_
ان کے درمیان عمر کی گہری خلیج تھی پتا نہیں ان کی شادی کیسے طے پائی ہوگی مگر شادی کے بعد جو کچھ ہو رہا تھا وہ عامر کے علم میں آچکا تھا_
فریدہ کے ایک نہیں کئی جگہ معاشقے چل رہے تھے حسن کو اس نے اپنی زلفوں کے جال میں قید کر رکھا تھا جبکہ سہیل نام کے کسی آدمی کے ساتھ داد عیش دیتے ہوئے اسے عامر اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا تھا_
وہ خاصی دیدہ دلیر تھی سہیل کو اپنے گھر بلا کر اس نے اپنے شوہر کی آنکھوں میں دھول جھونکی تھی_
ٹھیک ہے میں چائے لاتی ہوں فریدہ نے کہا اور ایک اچٹتی ہوئی سی نگاہ عامر پہ ڈال کر کچن کی طرف چلی گئی_
جی عامر صاحب_ اسلم رحمانی نے کھنکار کر گلا صاف کیا تھا مجھے پتہ ہے آپ بہت دور سے اس چھوٹے سے مسئلے کو حل کرنے کے لئے آئے ہیں_
جی ہاں مجھے آنا پڑا رحمانی صاحب آپ کی کی طرف سے کوئی واضح جواب نہیں مل رہا تھا اس لئے پاپا نے مجھے آپ سے ملنے بھیج دیا_تاکہ اس مسئلے کو ہم باہمی افہام و تفہیم سے حل کر سکیں_
لیکن مسئلہ تو حل ہو چکا ہے عامر صاحب_ رحمانی نے جیب سے مہنگی برانڈ کا ایک سگریٹ نکال کر سلگاتے ہوئے کہا
وہ کیسے_ عامر اس کی سگریٹ کو ناپسندیدگی سے دیکھتے ہوئے گویا ہوا
میں نے آپ کو بتا دیا تھا فون پہ بھی کہ وہ پلاٹ بیچنے کا ارادہ میں نے ترک کر دیا ہے_ وہ اطمینان سے بولا عامر کے ماتھے پہ شکنیں ابھر آئیں_
ہم نے ایک کانٹریکٹ پر سائن کئے تھے جس کے مطابق آدھی رقم ادا کی جاچکی تھی اور قانونی طور پر ہم اس جائداد کے مالک بن چکے ہیں صرف باقی کی آدھی رقم کی ادائیگی باقی ہے اور پھر ہمیں قبضہ مل جائیگا_
اب ایسا کچھ نہیں ہوگا_ رحمانی نے جیسے مکھی اڑائی تھی
جس معاہدے پر ہم نے دستخط کئے تھے وہ میرے پاس ہے جسے میں ضائع کر دونگا اور آپ لوگوں نے جو رقم ادا کی تھی وہ بھی کچھ عرصے میں آپ کو مل جائیگی ابھی میرے پاس موجود نہیں ہے_ اس نے سگریٹ کے دھویں کے مرغولے ہوا میں چھوڑتے ہوئے کہا اور عامر کو دیکھ کر مسکرایا
یہ وعدہ کی خلاف ورزی ہے_ عامر کے ہاتھ صوفے کے ہتھے پر سختی سے جمے تھے اس اس عیار آدمی پر غصہ آرہا تھا جو اپنے الفاظ سے مکر رہا تھا_
بات صرف پلاٹ کی نہیں تھی وہ جگہ اس کے پاپا کے ایک دوست کی تھی جسے رحمانی نے خرید لیا تھا پاپا اس میں پہلے سے دلچسپی رکھتے تھے راوی روڈ کی یہ لوکیشن انھیں بہت پسند تھی_
وعدہ خلافی نہیں ہے عامر صاحب وہ جگہ میری ہے میں جسے چاہوں دوں_
آپ چھوڑیں چائے پئیں اسنے کہا فریدہ چائے کی لوازمات بھری ٹرالی دھکیلتی ہوئی اندر آئی تھی اور اور برتن میز پہ رکھنے لگی_
یہ وعدہ خلافی ہی ہے رحمانی صاحب قانونی طور پر ہم ہی اس کے مالک ہیں_ اس نے تلخی سے کہا اس کا چائے پینے کا بالکل دل نہیں تھا_
لیکن قانون کو ہمارے معاہدے کا نہیں پتہ نا ابھی ہم نے اس کانٹریکٹ کی رجسٹری عدالت میں جمع نہیں کرائی اسے میں آج ضائع کر دوںگا_ آپ چائے پئیں اس نے کہا مگر عامر اٹھ کھڑا ہوا_
فریدہ واپس ایک دروازے کی اوٹ میں غائب ہو چکی تھی
نہیں میں جارہا ہوں آپ میری بات پہ پھر سے غور کریں میں بعد میں کال کروںگا_
میں نے کافی غور کرنے کے بعد یہ معاہدہ ختم کرنے کا سوچا ہے رحمانی بولا لیکن آپ چائے تو پیتے جائیں مجھے اپنی خدمت سے یوں محروم تو نا کریں_ اس نے کھوکھلی مہمان نوازی کا مظاہرہ کرنا چاہا لیکن عامر باہر جانے کے لئے پر تول رہا تھا_
اس کے اصرار کے باوجود وہ باہر نکل آیا اور گاڑی سٹارٹ کر کے روڈ پر آگیا رحمانی سے مل کر اس کی طبیعت بدمزہ ہوگئی تھی وہ ہر صورت پلاٹ کے ڈاکومنٹس لینا چاہتا تھا وہ ان کی پراپرٹی تھی_
وہ یہاں پلاٹ کا معاملہ نپٹانے آیا تھا مگر ایک اور راز سے پردہ فاش ہو گیا تھا فریدہ کو رحمانی کی بیوی کے روپ میں دیکھ کر اسے حیرت کا دھچکا لگا تھا وہ جو کئی کشتیوں کی مسافر بنی ہوئی تھی_
سب سے اہم بات یہ تھی حسن اس لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا وہ مستقبل کے لئے منصوبے بنا چکا تھا_
ہوٹل کی لابی میں اس نے عامر کو صاف الفاظ میں بتا دیا تھا کہ وہ فریدہ سے شادی کر یگا اور فریحہ کو چھوڑ دیگا_
اگر وہ حسن کو فریدہ کی حقیقت بتا دے تو شاید وہ فریدہ پہ لعنت بھیج دیگا عامر نے سوچا_
ہو سکتا ہے فریدہ کی حقیقت جاننے کے بعد وہ فریحہ کو چھوڑنے کا ارادہ بھی ترک کر دیتا وہ گاڑی کو کشادہ سڑکوں پہ دوڑاتے ہوئے سوچتا رہا_
اس کے ذہن میں ایک منصوبہ پنپنے لگا تھا_
+++++++
لنچ سے ذرا پہلے وہ گھر آگیا فریحہ ڈرائنگ روم میں صوفے پہ دونوں پاؤں اوپر کئے بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی کوئی سنگنگ شو تھا جس کی آواز کمرے میں گونج رہی تھی اسے آتے دیکھ کر وہ مسکرائی اور ٹی وی کی آواز آہستہ کردی_
وہ اس کے قریب آبیٹھا اور ایک کشن گود میں رکھتے ہوئے اسے دیکھا_
کیا ہو رہا ہے؟
کچھ نہیں ٹی وی دیکھ رہی تھی_ صبح سے گھر کے کام نپٹاتی رہی صفائی کی برتن دھوئے کھانا بنایا اوراب فری ہوکے ٹی وی دیکھنے بیٹھ گئی_
وہ دن بھر کی مصروفیات گنوانے لگی عامر دلچسپی سے سنتا رہا گندمی رنگ کے سادہ سے سوٹ میں وہ حسب معمول بہت پیاری لگ رہی تھی بال جوڑے کی صورت میں پشت پہ تھے چہرے میک اپ سے عاری ہونے کے باوجود نکھرا ہوا تھا چست سی قمیض بدن کی اٹھان کو تھامے ہوئے تھی_
آپ کا کام ہوا کہ نہیں؟
کام ابھی نہیں ہوا لیکن ہو جائیگا_ عامر نے یقین سے کہا اگرچہ رحمانی سے ملاقات حوصلہ شکن تھی مگر اسے یقین تھا وہ اس سے اپنے ڈاکومنٹس نکلوا لیگا چاہے اس کی لئے انگلی ٹیڑھی ہی کیوں نا کرنی پڑے_
اچھا آپ نے لنچ نہیں کیا ہوگا میں آپ کے لئے کھانا لگا دیتی ہوں وہ صوفے پر سے اٹھی اور نازک پیر سیاہ چپلوں میں اڑستی ہوئی کچن کی طرف بڑھی وہ اس کے پیچھے آیا اور ٹیب سے ہاتھ دھوئے_
تب تک فریحہ نے ٹیبل پر کئی برتن سجالئے تھے اور کھانا پلیٹوں میں ڈالنے لگی تھی_
کھانے کی خوشبو پھیلی تھی عامر کی بھوک چمک اٹھی وہ کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا_
تم نہیں کھاؤگی؟
نہیں میرا دل نہیں کر رہا کھانے کو_ وہ اداس سی بولی
کیوں کیا ہوا ہے؟ وہ چونکا
ویسے ہی دل نہیں کر رہا آپ کھائیں_
ایسے نہیں چلیگا فریحہ چلو آؤ یہاں اور کھانا کھاؤ میرے ساتھ_
وہ اسے دیکھ کر بولا جو ٹیبل کی دوسری طرف کرسی کی پشت پہ ہاتھ رکھے کھڑی ہوئی تھی_
حسن سے بات ہوئی تمھاری؟
نہیں_ وہ سر جھکا کر بولی
عامر کے دل پہ چرکا سا لگا وہ شاید اپنے شوہر کو مس کر رہی تھی اور اس کے رابطہ نا کرنے پہ اداس تھی اسے اپنی بھوک غائب ہوتی ہوئی محسوس ہوئی_
تم اس سے بات کر لو نا_ کہیں مصروف ہوگا وہ کام کے سلسلے میں تب ہی رابطہ نہیں کر پایا ہوگا تم کال کر لو_ وہ اس کا دل رکھنے کے لئے بولا خود اس کے دل کی حالت عجیب ہو رہی تھی_
ٹھیک ہے کرتی ہوں وہ اپنے روم کی طرف چلی گئی وہ ساکت سا کرسی پہ بیٹھا رہا اور اپنے سامنے پڑے کھانے کی پلیٹوں کو دیکھتا رہا مگر بھوک مر گئی تھی_
کئی بار بھوک کا سیدھا سا تعلق ہمارے احساسات سے ہوتا ہے غم اور اداسی کے لمحوں میں بھوک ختم ہوجاتی ہے اس پہ بھی اچانک سے قنوطیت سی طاری ہونے لگی یہ خیال اس کے لئے تکلیف دہ تھا کہ فریحہ حسن کو مس کر رہی تھی_
چند لمحوں بعد وہ فون کان سے لگائے اندر آئی_
جی وہ یہیں موجود ہیں آپ بات کریں ان سے_ ٹیبل کے قریب آکر اس نے فون عامر کی طرف بڑھایا تھا جسے اس نے بجھے دل سے تھام لیا_
کیسے ہو؟_ حسن نے کہا تھا عامر کو اس کی آواز اچھی نہیں لگی_
خیریت سے ہوں_ تم سناؤ کتنے دن رہ گئے ہیں تمھارے کراچی میں وہ فریحہ کو سنانے کے لئے بولا جو کچھ برتن سنک میں ڈال رہی تھی اور قریب ہی موجود تھی_
حسن قہقہہ لگا کے ہنسا تھا
ایک ہی دن رہ گیا ہے_ کل پہلی فلائٹ سے آجاؤنگا_
ٹھیک ہے میں تمھیں ائیر پورٹ پہ لینے آجاؤنگا_ اس نے دانت پیستے ہوئے کہا
اس نے کہا اس لمحے فریحہ کسی کام سے باہر چلی گئی_
اس کے جاتے ہی عامر نے اسے دبی زبان میں گالی دی تھی_
کہاں عیاشیاں کر رہے ہو تم؟ مجھے تم سے ابھی ملنا ہے ورنہ ابھی فریحہ کے سامنے تمھارا تمھارا کچا چٹھا کھول کے رکھتا ہوں_
ابھی نا بتاؤ اسے میں بعد میں خود ہی بتا دوںگا_اس نے ڈھٹائی سے کہا
بکواس نہ کرو کہاں ہو اس وقت مجھے تم سے ملنا ہے_ صبح بھی میں ہوٹل آیا تھا_ تم سٹاف کو ڈسٹرب کرنے سے منع کر کے گئے تھے انھوں نے مجھے تمھارے کمرے کی طرف آنے نہیں دیا_
یار شام سے پہلے وہیں آجاؤ اس نے کہا
ٹھیک ہے_ عامر بولا اور فون بند کردیا_
اس لمحے فریحہ اندر آئی اب وہ قدرے پرسکون لگ رہی تھی وہ کرسی کھینچ کر اس کے سامنے ہی بیٹھ گئی_
کھانا کھائیں نا ٹھنڈا ہو رہا ہے وہ بولی اور اپنے لئے پلیٹ میں کھانا ڈالنے لگی_
کچھ دیر پہلے وہ کچھ بھی کھانے سے انکار کر رہی تھی مگر اب ٹیبل پہ آبیٹھی تھی اور یہ شوہر سے بات کرنے کے بعد ہوا تھا_
عامر نے بجھے دل کے ساتھ کھانا شروع کیا ہر لقمہ اسے گلے میں اٹکتا ہوا محسوس ہو رہا تھا چند لقمے زہر مار کرنے کے بعد اس کی ہمت جواب دے گئی اور وہ اس کے سامنے سے اٹھ گیا وہ رغبت سے کھا رہی تھی_
کھائیں نا اتنی جلدی اٹھ گئے آپ وہ حیران ہوئی تھی_
ہاں بس اتنا کافی ہے_ وہ اسے دیکھ کر انجانی سے اذیت محسوس کر رہا تھا حسن کا سلوک پہلے بھی فریحہ سے اچھا نہیں رہا ہوگا مگر وہ اس کے ایک فون کال سے مطمئن ہو گئی تھی اس کا دل خون ہوا_
جاری ہے
0 Comments