ads

Mera Pyar ho Tum - Episode 5

میرا پیار ہو تم

قسط 5



فریحہ واپس اپنے کمرے میں چلی گئی تو عامر آہستگی سے اٹھا اور چپل پہن کر کمرے کے دروازے کی طرف بڑھا اس کے بدن پہ چیونٹیاں سی رینگ رہی تھیں_

اس کے دروازے کے سامنے کھڑے ہو کر اس نے لمبی سانس اپنے پھیپھڑوں میں اتاری اور دروازےکو ہلکا سا دھکیلا وہ حسب توقع کھلا ہوا تھا_

اس نے قدم اندر رکھے اور دروازے کو اپنے عقب میں بند کیا_

وہ کمرے کے وسط میں بے چین سی ٹہل رہی تھی اسے دیکھ کر نروس انداز میں مسکرائی_

مجھے آج بہت ڈر لگ رہا ہے_ ابھی مجھے پھر لگا تھا جیسے کسی نے کھڑکی کو کھولنے کی کوشش کی تھی اس لئے میں اٹھی اور کھڑکی کو اچھے سے بند کر دیا_

وہ نازک ہاتھ کی مخروطی انگلیوں کو مروڑتی ہوئی بولی_

تمھیں خوامخواہ کے وہم ہو گئے ہیں فریحہ یہاں کوئی نہیں ہے_ اور نہ ہی کوئی اندر آسکتا ہے_ اس لئے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے_ وہ دبیز قالین کو اپنے پیروں سے روندتا ہوا اس کے قریب گیا_

اور ویسے بھی اب میں یہاں آگیا ہوں تو تم اطمینان سے سو سکتی ہو_ ڈرنے کی کوئی بات نہیں اگر کوئی اندر آیا بھی تو میں سنبھال لوںگا_ 

وہ سیاہ باریک سے گاؤن کو سختی سے لپیٹے ہوئے تھی اس کے دلفریب جسم کے نشیب و فراز گاؤن کی سلوٹوں میں سے جھلک رہے تھے جیسے عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے ویسے ہی جوانی کے خزینے بھی خود کو آشکارا کر دیتے ہیں گاؤن اس کے بدن کی منہ زوری کو بمشکل چھپائے ہوا تھا عامر نے اسے دیکھا اور سینے میں اودھم سا مچتا محسوس کیا_

وہ اس کی طرف بڑھا اور اسے کندھوں سے نرمی سے تھام کر بیڈ کی طرف لے جانے لگا_ 

یہاں لیٹو_ اس بیڈ پر بٹھا کر اس نے کہا فریحہ نے اسے دیکھا تھا عامرکو اس کی نگاہوں میں خمار سا دوڑتا ہوا محسوس ہوا وہ جھجکتی ہوئی سی کانپتے ہاتھوں سے کمبل کو ٹھیک کرتی بیڈ پہ لیٹ گئی_ 

عامر نے ہونٹ بھینچے اور دھڑکتے دل کے ساتھ اس کے قریب ہی بیڈ پہ دراز ہو گیا وہ اس کے پہلو میں تھی بے حد نزدیک بیڈ پہ چت لیٹی ہوئی تھی اور وہ اس کی قربت سے جھلس رہا تھا کمرے کی خاموشی میں اس کے سانسوں کی مدھم آہٹ صاف سنائی دے رہی تھی_ 

عامر نے اسے دیکھا بے شک وہ بہت خوبصورت تھی نرم گلابی رخساروں کے بیچ ستواں ناک کا خم چہرے کو خوبصورتی بخش رہا تھا سیاہ بڑی بڑی بڑی خمار آلود آنکھوں پہ پلکوں کی باڑھ ہولے ہولے لرز رہی تھی اور ہونٹ گلابوں کا عکس چھین لائے تھے_

اس لمحے عامر پہ اک عجیب انکشاف ہوا_

منہ زور شہوانی جذبے کہیں گم ہوتے ہوئے محسوس ہوئے اور اس کی جگہ اک لطیف سے احساس نے لے لیا اسے لگا وہ اس لڑکی کو پسند کرنے لگا ہے_

یہ انکشاف روح فرسا تھا شروع میں وہ اس کی جسمانی خوبصورتی اور حسن پہ فریفتہ ہوا تھا مگر اس لمحے اس کے بے حد قریب لیٹے لیٹے اسےاپنے آپ میں واضح تبدیلی کا احساس ہوا تھا وہ بے چین سا ہوا_

وہ شادی شدہ تھی اور اس کے ایک قریبی دوست کی بیوی تھی اور وہ ان کی گھر چند دن کا مہمان بن کے آیا تھا آج نہیں تو کل اسے واپس چلا جانا تھا کبھی نا واپس لوٹنےکے لئے یہی چند راتیں تھیں جو وہ اس کی پہلو میں گزار سکتا تھا مگر اب اس کے اندر نئے جذبوں کی کونپلیں پھوٹنےلگی تھیں دل کے موسم بدلنے لگے تھے شہوانی جذبوں کی وحشت کی جگہ نرم و نازک احساسات اسے کے دل پہ حاوی ہونے لگے تھے_

کیا میں واقعی اسے پسند کرنے لگا ہوں؟ اس نے اپنے آپ سے پوچھا اور پہلو بدل کر رہ گیا اس کا دل بغاوت پر آمادہ تھا وہ عجیب سی لے پر دھڑکنے لگا تھا_

وہ ساکت لیٹی ہوئی تھی اس بات سے بے خبر کہ اس کا شوہر اس شہر میں ہی کہیں موجود تھا کسی حسینہ کی زلفوں کے سائے میں اپنے شب و روز بسر کر رہا تھا_ اور جلد ہی اسے طلاق دینے پہ تلا ہوا تھا_ 

اسے پرواہ نہیں تھی کہ فریحہ کا کیا ہوگا اس کے نام پہ مطلقہ کا ٹھپا لگ جائیگا اور وہ ماں باپ کے گھر بھیج دی جائیگی کیوںکہ اس کیعجگہ لینے کوئی اور آجائیگی_

عامر کے دل میں کسک سی جاگی_

 حسن سے بات ہوئی تمھاری؟ اس نے آہستگی سے پوچھا

ہاں صبح ہوئی تھی_ 10 بجے کے قریب فون کیا تھا میں نے انھیں_

وہ بولی_

اچھا کیا بات ہوئی؟

کچھ خاص نہیں_ ابھی انھیں کراچی میں بہت کام ہے_ وہ بتا رہے تھے کہ کچھ دن تک نہیں آپائینگے وہ سادگی سے بتانے لگی

عامر کا دل کیا اسے قریب کر لے اور نرمی سے خود سے لگا لے_

اس کا شوہر اسے صاف دھوکا دے رہا تھا مگر وہ اس پہ یقین کئے جا رہی تھی اگر وہ اس وقت اس کے اتنے قریب موجود تھا تو وہ بھی اس کے شوہر کی وجہ سے اگر وہ اسے توجہ اور محبت دیتا تو شاید وہ اسے کبھی یوں پاس نا آنے دیتی_

ذہنی وہ جسمانی غیر آسودگی نے فریحہ کے اندر ایک خلا سا پیدا کر دیا تھا جس کا مداوا اسے دوسروں میں دکھائی دینے لگا تھا_

کتنے دن لگینگے_؟ اس نے پوچھا

دو دن کا وہ بول رہے تھے لیکن زیادہ بھی لگ سکتے ہیں کام کا بوجھ کافی زیادہ ہے_

عامر نے اسے افسوس سے دیکھا 

اس کی موہنی سی صورت کے گرد ریشمی بالوں کی لٹیں پہرہ دے رہی تھیں اور ہونٹ پھول کی پنکھڑیوں کی مانند شاداب تھے_ 

حسن کی بے التفاتی نے عامر کے لئے موقع فراہم کر دیا تھا اگر وہ اسے طلاق دے دیتا تو عامر اسے اپنا سکتا تھا اور اس کا ساتھ یقیناً خوشیوں بھرا ہوتا_

وہ اس کے لئے دل ہی دل میں بے پناہ محبت محسوس کر رہا تھا اگر حسن اسے طلاق دے دیتا تو شاید اس کی دلی خواہش پوری ہوجاتی وہ فریحہ کو اپنے ساتھ لے جاتا اور محبت کے مطلب سمجھا دیتا اس کی روح کا ہر زخم مندمل کر دیتا اور اس کے جسم کے ہر گوشے کو ہونٹوں پہ سجا لیتا_

وہ خود غرض ہونے لگا تھا کل حسن کی جس بات پہ اسے غصہ آیا تھا آج وہ اسے اپنے حق میں بہتر محسوس ہونے لگے تھی_

اچھا ہوگا اگر وہ اسے چھوڑ دیتاہے_ اس نے دل ہی دل میں سوچا اور سر اس کے قریب ہی تکیے پر رکھ کر اسے یک ٹک دیکھنے لگا_

کچھ گھنٹے پہلے اس کے احساسات مختلف تھے وہ اسے حاصل کرنا چاہتا تھا اسے کے جسم کو اپنی دسترس میں دیکھنا چاہتا تھا عیش و نشاط کا خواہاں تھا مگر اب اس کی کایا پلٹ گئی تھی وہ اس کے قریب لیٹا تھا مگر شہوانی جذبے پس پشت چلے گئے تھے وہ اب بھی اس کے چہرے پہ ہونٹوں سے دستک دینا چاہتا تھا مگر شاید اس کی پیچھے وحشت کی جگہ الفت کی نرمی ہوتی حیوانی جذبوں کی جگہ محبت کا احساس ہوتا_

وہ نیند کی وادیوں میں جا ٹھہری وہ اسے سوتے ہوئے دیکھتا رہا_

+++++++

عامر 8 بجے کے قریب ہی گھر سے نکل آیا تھا فریحہ تب سورہی تھی_

وہ حسن کی کار لے کر نکلا تھا اور ڈرائیو کرتا ہوا ایک تین منزلہ ہوٹل کے احاطے میں جا رکا اور ڈائیننگ ہال میں جا کر ناشتے کا آرڈر دیا_

یہ وہی ہوٹل تھا جس میں کل وہ حسن سے ملا تھا اور ان کے گفتگو ہوئی تھی_

اس فون نکال کر حسن کو کال ملائی گھنٹی جاتی رہی مگر کال رسیو نہیں کی گئی کئی بار کوشش کرنے کے بعد اس نے جھنجلا کر فون رکھا اور ناشتہ کرنے لگا اس کے دماغ میں کئی طرح کے خیالات کے جھکڑ چل رہے تھے_

اسے پاپا نے اسلام آباد سے پلاٹ کا قضیہ حل کرنے کے لئے بھیجا تھا اور وہ کن معاملات میں پھنس گیا تھا مڑ کر گھر رابطہ ہی نہیں کیا تھا_

 وہ فریحہ کے لئے دل میں عجیب سے جذبے ہلکورے لیتے ہوئے محسوس کر رہا تھا راتوں رات اس کی دل کی دنیا بدلگئی تھی وہ رات کو بہت دیر اس کے کمرے میں رہا تھا اور نا جانے کب اپنے روم میں آکے اس کے بارے میں سوچتے سوچتے سوگیا تھا وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ یہ فقط ہمدردی کا جذبہ تھا یا واقعی اس کا دل ہرجائی ہو گیا تھا_

ناشتہ ختم کر کے اس نے بل ادا کیا اور کاؤنٹر کی طرف بڑھا_

کاؤنٹر کے پیچھے ایک چاک و چوبند سا کلرک بیٹھا ہوا تھا عامر کو قریب آتے دیکھ کر اس نے سوالیہ انداز میں اسے دیکھا_

یہاں کوئی حسن فاروق صاحب ٹھہرے ہوئے ہیں؟ اس نے کہنی کاؤنٹر کے شیشے پہ ٹکا کر حسن کے بارے میں استفسار کیا تھا کلرک مستعدی سے سامنے رکھے کمپیوٹر کی طرف متوجہ ہوگیا_

جی ہاں حسن فاروق کمرہ نمبر 245 میں ٹھہرے ہوئے ہیں اس نے کہا

اس کا کمرہ دوسرے فلور پہ تھا عامر نے کلرک کا شکریہ ادا کیا اور لفٹ کی طرف بڑھا

ایک منٹ سر_ کلرک نے اسے پکارا تھا

ہاں بولو_ وہ پلٹا

اگر آپ حسن فاروق صاحب سے ملنا چاہتے ہیں تو میں معذرت سے کہنا چاہتا ہوں آپ ان سے اس وقت نہیں مل سکتے_

عامر نے بھنویں اچکا کے اسے دیکھا 

کیوں؟

انھوں نےسختی سے منع کیا ہے سر کوئی بھی ان کے کمرے کی طرف نا جائے

وہ میرا دوست ہے اور مجھے اس سے ابھی ملنا ہے عامر نے سخت لہجے میں کہا

سوری سر ہم آپ کو اوپر نہیں جانے دے سکتے ہم اپے کلائینٹس کی پرائیویسی کا خیال رکھنے کے پابند ہیں_ وہ ٹس سے مس نہیں ہو رہا تھا

عامر نے برا سا منہ بنا کر اسے دیکھا اور حسن کو دل ہی دل میں گالیاں دیتا باہر آگیا_ 

یقیناً وہ رات بھر کے رت جگے کے بعد بد مست ہو کر سویا تھا اور سونے سے پہلے ہوٹل سٹاف کو ڈسٹرب کرنے سے منع کر دیا تھا

یہ بھی ہو سکتا تھا کہ اسے عامر کے آنے کا اندیشہ پہلے سے ہو اور اس نے اس کا سدباب کیا ہو_

گاڑی میں چند لمحے بیٹھنے کے بعد اس نے اسلم رحمانی پراپرٹی ڈیلر کا نمبر ڈائل کیا اور فون کان سے لگا دیا_

کچھ سیکنڈ بعد کال رسیو کی گئی تھی اور ایک کھرکھراتی ہوئی مردانہ آواز سنائی دی_

عامر نے آواز سے بولنے والے کی عمر کا تعین 40 سے 45 کے درمیان کیا تھا_

جی اسلم رحمانی بول رہا ہوں_ کون بات کر رہا ہے؟

میں عامر داؤد بول رہا ہوں رحمانی صاحب اسلام آباد سے آیا ہوں امید ہے آپ نے پہچان لیا ہوگا_ اس نے ٹھہرے ہوئے انداز میں کہا

دوسری طرف چند لمحے خاموشی طاری رہی_

جی کیسے یاد کیا آپ نے اس خادم کو_ رحمانی کی آواز آئی تھی_

پلاٹ کا جو معاملہ الجھ گیا تھا اسے سلجھانے آیا ہوں رحمانی صاحب_ عامر نے کہا آدھی رقم ادا کی جاچکی ہے اور باقی کی ڈیڑھ کروڑ کی رقم میں ادا کر دوںگا اور پلاٹ کا قبضہ لے لوںگا_

دوسری طرف پھر خاموشی چھائی تھی_

دیکھیں یہ اتنا آسان نہیں ہے وہ پلاٹ بیچنے کا ارادہ میں نے ترک کر دیا ہے_میں معذرت خواہ ہوں_

یہ کیسے کر سکتے ہیں آپ وہ جگہ فائنل ہوگئی تھی اور کاغذات پر بھی دستخط ہوگئے تھے_ عامر نے جھنجلائے ہوئے انداز میں کہا

آپ گھر آجائیں میں بتاتا ہوں آپ کو_ رحمانی نے کہا امید ہے آپ کی شکایت دور ہو جائیگی

ٹھیک ہے میں آتا ہوں عامر نے کہا اور کال کاٹ کر گاڑی سٹارٹ کردی_

اس کا رخ واپس اس بنگلے کی طرف تھا جس کے اندر وہ کئی دن پہلے گیا تھا اور کی ہول سے ایک کمرے میں جھانکا تھا جہاں اسلم رحمانی کی جوان سالی بیوی کسی کے ساتھ داد عیش دے رہی تھی_

رحمانی کے بنگلے کے مین گیٹ پہ آ کر اس نے ہارن دیا اور گیٹ کھلنے پر گاڑی اندر لے آیا صبح کے دس بجنے لگے تھے_

اسلم رحمانی نے کاروباری خوش اخلاقی سے اس کا استقبال کیا تھا_ اور اسے لے کر ڈرائینگ روم میں آگیا_

جی عامر صاحب کیا لینگے آپ چائے یا کچھ اور وہ مسکرا کر بولا

شکریہ لیکن میں نے کچھ دیر پہلے ہی ناشتہ کیا ہے عامر نے کہا 

نہیں اب آپ آئے ہیں تو کچھ آداب میزبانی ہمیں بھی تو نبھانے دیجئیے_

وہ بولا اور بے تکلفی سے اپنی بیوی کو پکارا تھا_

بیگم_ کہاں ہو بھئی مہمان آئے ہیں کچھ چائے پانی پلا دو_ 

عامر نے اسے منع کرنا چاہا مگر اس نے پھر اپنی بیوی کو پکارا تھا

اس لمحے ایک دروازے سے ایک بے حد خوبصورت جوان عورت الجھے بالوں کو سمیٹتی ہوئی باہر آئی عامر کی نگاہیں اس کی طرف اٹھیں اور پلٹنا بھول گئیں وہ فریدہ تھی_

اسے کل ہی اس نے حسن کے ساتھ گاڑی میں جاتے ہوئے دیکھا تھا اور اس سے چند دن پہلے اسی کوٹھی کے ایک کمرے میں کسی سہیل نامی مرد کے ساتھ جسم کی پہیلیاں بوجھتے ہوئے دیکھا تھا_

 تب وہ اس کی برہنہ پشت اور اس پہ بکھرے بال ہی دیکھ پایا تھا جو اس کی پشت سے ہوتے ہوئے کمر کے نچلے حصوں تک آگئے تھے اور اس کی پردہ پوشی کر رہے تھے_ 

کل اسے گاڑی میں دیکھ کر عامر کو لگا تھا کہ وہ ان بالوں کو کہیں دیکھ چکا ہے اس وقت ہر چیز واضح ہوگئی تھی وہ اس کے سامنے مجسم کھڑی تھی_

یہ فریدہ تھی اسلم رحمانی کی بیوی حسن کی محبوبہ اور سہیل نامی کسی مرد کی شاید داشتہ تھی_ عامر کا دماغ سن سا ہونے لگا_



جاری ہے

Post a Comment

0 Comments