ads

Mohabbat ke qaidi - Episode 1

محبت کے قیدی 


قسط 1


رائٹر : بتول


چار سالہ ہنا کے لبوں سے نکلا لفظ "بھائی" ارمان کے دل پر جیسے خنجر بن کر لگا۔

وہ جھٹکے سے مڑا اور چیخ پڑا:

"خبردار جو دوبارہ مجھے بھائی کہا! میں صرف تمہارا کزن ہوں… کچھ اور نہیں۔"

چھوٹی سی ہنا کا چہرہ زرد پڑ گیا، آنکھیں نم ہو گئیں۔ مگر وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کی یہ معصومیت ارمان کے دل میں ایک ایسی آگ لگا گئی ہے جو برسوں سلگتی رہے گی۔وقت گزرتا رہا… ہنا بڑھتی رہی، اور ارمان کے دل کی چاہت بھی۔


چودہ سال بعد—ہنا اب دلہن تھی۔

لال جوڑے میں سجی، چمکتے زیورات کے ساتھ، ہاتھوں پر مہندی کے ڈیزائن، لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ… اور آنکھوں میں شرم و حیا کی روشنی۔


نکاح کو ایک ہفتہ ہوا تھا۔ شادی کی رونقیں ابھی باقی تھیں۔ مگر ارمان کے دل کی حالت کسی سے چھپی نہ تھی۔

وہ چاہتا تھا اپنی محبت کا اعتراف کرے… مگر زبان پر تالے لگے تھے۔شادی کی پہلی رات—کمرے میں ہر طرف گلاب کی پتیوں کی خوشبو پھیلی تھی۔ ہنا دلہن بنی شرمائے بیٹھی تھی۔ دل کی دھڑکن اس کے کانوں میں گونج رہی تھی۔

دروازہ کھلا… ارمان اندر آیا۔


اس کی آنکھوں میں عجیب سا سکوت تھا۔ وہ بیڈ کے پاس آیا، دیر تک ہنا کو دیکھتا رہا۔ پھر اچانک رخ موڑ کر واش روم چلا گیا۔


ہنا کی آنکھیں چھلک پڑیں۔

"کیا یہ وہی محبت ہے جس کا خواب دیکھا تھا؟" وہ سسکیوں میں سوچتی رہی۔


ایک مہینہ گزر گیا۔

ہنا کا انتظار اور ارمان کی خاموشی دونوں بڑھتے گئے۔


ارمان رات گئے ہسپتال سے آتا، تھکا ہارا، مگر ہنا کو ایک نظر دیکھنے کے بجائے سیدھا بیڈ پر گر جاتا۔

ہنا حسرت بھری نگاہوں سے اسے دیکھتی رہتی۔

"کیا میں اس کی بیوی نہیں؟"


ایک دن اچانک دروازہ کھلا۔ ارمان شاور کے بعد ٹاول میں آیا، اور الماری سے کپڑے نکالنے لگا۔

ہنا کی نظر غیر ارادی طور پر اس کے بازو پر پڑی۔

وہ پل بھر کو سنبھل نہ سکی—

وہاں اس کا نام "ہنا" خوبصورت ٹیٹو کی طرح ہمیشہ کے لئے کندہ تھا۔ہنا کی آنکھوں میں حیرت اور خوشی کے آنسو آ گئے۔

"تو یہ مجھ سے اتنی محبت کرتا ہے…"


لیکن دل نے سوال کیا—اگر محبت ہے، تو پھر یہ خاموشی کیوں؟ یہ ٹھنڈا رویہ کیوں؟


ہنا نے ضد میں آ کر ایک چال کھیلی۔

وہ بابا کے پاس گئی اور آنکھوں میں پیاز کے آنسو بھر کر کہا:

"بابا… ارمان مجھ سے بات نہیں کرتے، باہر نہیں لے جاتے۔"


بابا فوراً بھڑک اٹھے:

"کیا بات ہے ارمان؟ بیوی کو گھمانے پھرانے کا بھی وقت نہیں؟ ابھی لے کر جاؤ اسے باہر!"

ارمان نے کچھ کہنا چاہا مگر رک گیا۔

وہ جانتا تھا ہنا کے آنسوؤں کے آگے وہ بھی بے بس ہے۔


جاری ہے




Post a Comment

0 Comments