محبت کے قیدی
قسط 2
بولڈ اینڈ رومنٹک
اس شام وہ دونوں گاڑی میں بیٹھے۔
ہنا نے شرارت سے کہا:
"مجھے بریانی کھانی ہے۔"
ارمان نے بھنویں چڑھائیں:
"تمہیں پتا ہے مجھے بریانی بالکل پسند نہیں۔"
ہنا نے شوخی سے ہنستے ہوئے کہا:
"مجھے بھی تو کریلے گوشت نہیں پسند تھے، پھر بھی آپ کے لئے کھائے تھے۔ اب آپ کو میرے لئے کھانا پڑے گا۔"
ریسٹورنٹ میں بیٹھے جب ہنا نے پہلی لقمہ ارمان کے ہاتھ سے کھلوایا تو اس کے لمس سے دونوں کے دلوں کی دھڑکن تیز ہو گئی۔
ارمان نے نظر بچا لی مگر ہنا نے صاف محسوس کیا کہ وہ بھی اندر ہی اندر تڑپ رہا ہے۔
کھانے کے بعد ہنا نے پھر ضد کی:
"اب مجھے آئس کریم کھانی ہے۔"
ارمان نے گاڑی اسٹارٹ کی: "دیر ہو رہی ہے۔"
ہنا نے منہ پھیر کر شیشے سے باہر دیکھنا شروع کر دیا۔
کچھ دیر بعد گاڑی رکی۔ ارمان خاموشی سے اندر گیا اور چاکلیٹ آئس کریم لے آیا۔
ہنا نے جیسے ہی دیکھی، خوشی سے اس کا ہاتھ تھام لیا:
"آپ کو کیسے پتا کہ مجھے یہی پسند ہے؟"
ارمان نے نظریں ملائے بغیر بس اتنا کہا:
"تمہارے بارے میں سب پتا ہے مجھے۔"
ہنا کے گال سرخ ہو گئے۔ اس نے ہمت کر کے آہستہ کہا:
"ارمان… آپ اگر زبان سے نہیں کہیں گے تو بھی میں جانتی ہوں… آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں۔"
ارمان کے ہاتھ کانپ گئے۔
وہ پہلی بار ہنا کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا—جہاں محبت، شرارت، ضد، سب کچھ سچائی کی طرح جگمگا رہا تھا۔
ہنا نے اپنے نرم ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھ دیے۔
"اب یہ محبت چھپائیے مت… مجھے اپنا لیجیے۔
شادی کے بعد پہلی بار وہ دونوں واقعی تنہا تھے۔
ہوا میں ٹھنڈک تھی، چاندنی کھڑکی سے کمرے میں اتر رہی تھی۔ ہنا آئینے کے سامنے بیٹھی کانوں کے جھمکے اتار رہی تھی۔ ارمان دروازے پر کھڑا بس اسے دیکھ رہا تھا۔
ہنا نے شرارت سے پلکیں جھکائیں:
"کیا ہوا؟ ایسے دیکھ رہے ہیں جیسے پہلی بار دیکھا ہو۔"
ارمان کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔
"واقعی… پہلی بار تمہیں یوں اپنی سمجھ کر دیکھ رہا ہوں۔"
ہنا کا دل پگھل گیا۔ وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی اس کے پاس آئی۔اگر واقعی اپنی سمجھتے ہیں… تو پھر مجھ سے دور کیوں رہتے ہیں؟"
ارمان نے اس کے ہاتھ تھام لئے۔ اس کی انگلیاں کانپ رہی تھیں۔
"ہنا… ڈر لگتا تھا… کہیں تم میری محبت کو ٹھکرا نہ دو۔ اس لیے خاموش رہا۔"
ہنا نے مسکرا کر اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھ دی۔
"خاموشی نے بہت ستایا ہے ارمان… اب بس کیجیے۔"
ارمان کے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا۔ اس نے ہنا کو اپنی بانہوں میں بھر لیا۔کا نازک وجود اس کے سینے سے لگا تو دونوں کے درمیان برسوں کی دوری پل بھر میں ختم ہو گئی۔
چاندنی کمرے میں بہتی رہی… اور دونوں کے دلوں میں صرف ایک ہی آواز گونجتی رہی:
"میں تمہارا ہوں… اور تم میری ہو۔"
جاری ہے
0 Comments