محبت کے قیدی
4 قسط
اب ہنا اور ارمان کے درمیان فاصلے مٹ چکے تھے۔
ہنا کا ہر انداز مزید شوخ اور مزید حسین لگنے لگا تھا۔
ایک دن ہنا نے ضد پکڑ لی:
"میں نے سنا ہے آپ بہت اچھے گاتے ہیں… آج سننا ہے مجھے۔"
ارمان نے ہنس کر کہا:
"میں ڈاکٹر ہوں، گلوکار نہیں۔"
ہنا نے منہ پھلا لیا:
"تو پھر ڈاکٹر کی بیوی کو خوش کرنے کے لئے ایک گانا بھی نہیں گا سکتے؟"
ارمان نے ہنستے ہوئے اس کے چہرے کو اپنی ہتھیلی میں لیا، پھر آہستہ آہستہ اس کے کان میں سرگوشی کی۔
ہنا کے گال آگ کی طرح جل اٹھے۔
"یہ گانا نہیں… جادو ہے!" وہ ہنستے ہنستے اس کی بانہوں میں سمٹ گئی۔
پھر وہ دونوں بالکونی میں بیٹھے۔ ہوا ہلکی تھی، ستارے جھلمل کر رہے تھے۔
ہنا نے اپنا سر ارمان کے کندھے پر رکھ دیا اور کہا:
"آپ جانتے ہیں، میری سب سے بڑی دعا کیا تھی؟"
"کیا؟" ارمان نے دھیرے سے پوچھا۔
"کہ میری شادی آپ سے ہو… اور یہ دعا اتنے سال بعد قبول ہوئی ہے۔"ارمان نے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔
"اور میری سب سے بڑی دعا یہی تھی کہ تم میری دلہن بنو… ہنا، تم میری زندگی ہو۔"
ہنا نے لبوں پر مسکراہٹ کے ساتھ اس کے ہونٹوں کو چھوا—
لمحہ تھم گیا، وقت رک گیا، اور محبت نے اپنی گواہی دے دی۔ہنا آئینے کے سامنے تیار ہو رہی تھی۔ ہلکی سی لپ اسٹک، بالوں کی نرم لٹیں گردن پر گری ہوئی، خوشبو کمرے میں مہک رہی تھی۔
ارمان دروازے پر کھڑا اسے دیکھتا رہ گیا۔
ہنا نے جان بوجھ کر آئینے میں اس کی آنکھوں میں دیکھا اور شوخی سے بولی:
"کیا دیکھ رہے ہیں ڈاکٹر صاحب؟"
ارمان آگے بڑھا، اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھے، سر اس کے کان کے قریب لے آیا۔
"تمہیں… اور صرف تمہیں۔"
ہنا کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔
"اتنی دیر سے دیکھ رہے ہیں…
ابھی تک جی نہیں بھرا؟"
ارمان نے مسکراتے ہوئے کہا:
"تمہیں دیکھ کر کبھی جی بھرا ہے؟"
ہنا نے شرارت سے اس کے سینے پر ہاتھ مارا مگر اگلے ہی لمحے وہ خود اس کے سینے سے لگ گئی۔
ارمان نے اسے اپنے قریب کر کے آئینے کے سامنے اٹھا لیا۔
ہنا نے ہلکی سی چیخ ماری اور ہنستے ہنستے اس کے گرد بازو لپیٹ لئے۔نیچے اتاریے مجھے… کوئی آجائے گا!"
"آج یہ کمرہ صرف میرا ہے اور صرف تم میری ہو۔"
ارمان کی آواز بھاری اور جذبات سے لبریز تھی۔
چاندنی کھڑکی سے اندر اتر رہی تھی، دونوں کے چہرے جگمگا رہے تھے۔
ہنا نے اپنا چہرہ ارمان کے قریب کیا اور اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا:
"پلیز اب کبھی مجھے دور مت کیجیے گا۔"
ارمان نے اس کے ہونٹوں پر لب رکھ کر جواب دیا—
"یہ وعدہ ہے، ہنا
اگلی شام ہنا نے نیا کھیل شروع کیا۔
وہ ڈریسنگ ٹیبل پر بیٹھی بال کھولے ہوئے، لپ گلوس لگا رہی تھی۔
ارمان کتاب پڑھ رہا تھا، مگر بار بار اس کی نظر ہنا پر جا رہی تھی۔
ہنا نے جان بوجھ کر پرس سے ایک چھوٹا سا پرچہ نکالا اور اونچی آواز میں پڑھنے لگی:
"خاوند کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے طریقے…"
ارمان نے چونک کر کتاب بند کی:
"ہنا! یہ کیا بکواس ہے؟
ہنا نے شوخی سے ہنستے ہوئے کہا:
"جب آپ خود متوجہ نہیں ہوتے تو پھر مجھے ایسے طریقے سیکھنے پڑیں گے نا!"
ارمان نے غصے کا ڈھونگ رچا مگر دل میں ہنسی ضبط نہ کر پایا۔
وہ اٹھا، ایک ہی جھٹکے میں پرچہ اس کے ہاتھ سے لیا اور ہنا کو بانہوں میں بھر لیا۔
"اب تمہیں یہ سب پڑھنے کی ضرورت نہیں… میں خود تمہارا قیدی ہوں۔"
ہنا نے اس کی گردن میں بازو ڈال دیے اور ہنستے ہنستے کہا:
"سچ؟ تو پھر سزا یہ ہے کہ آج رات سارا وقت صرف میرا ہوگا۔"ارمان نے اس کی کمر کو مضبوطی سے تھامتے ہوئے کہا:
"تمہارا وقت… تمہارا لمس… تمہاری ہر ادا… سب کچھ صرف میرا ہے، ہنا!"
ہوا کی خنکی میں بھی ان کے وجود کی گرمی غالب آ گئی۔
وہ لمحے اتنے گہرے تھے کہ وقت بھی رک سا گیا۔
(ارمان کی امی اکثر ہنا پر طنز کر دیتیں:
"بس یہی سیکھا ہے تم نے؟ شادی کے بعد لڑکیاں گھر سنبھالتی ہیں، شوہر کو قابو میں نہیں کرتیں!"
ہنا دل ہی دل میں ٹوٹ جاتی مگر سامنے کچھ نہ کہتی۔
رات کو ارمان جب کمرے میں آتا تو ہنا آنکھوں میں آنسو لئے بیٹھتی۔
"کیا ہوا؟" ارمان اس کے قریب آ کر پوچھتا۔
ہنا لاڈ سے کہتی: "آپ کی امی کو میں اچھی نہیں لگتی۔"
ارمان نے اس کے چہرے سے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا:
"ہنا، تم میری ہو… باقی سب بعد میں۔"
وہ اس کے قریب ہوا اور اس کے آنسو چوم لئے۔
ہنا نے دھیرے سے سر اس کے سینے پر رکھ دیا۔
پلیز ہمیشہ میرا ساتھ دیجیے گا۔"
ارمان نے اسے بانہوں میں جکڑ لیا:
"یہ میرا وعدہ ہے۔ اگر دنیا بھی خلاف ہوئی، میں تمہارے ساتھ کھڑا رہوں گا۔"
اسی دوران کمرے کا دروازہ زور سے کھلا۔
ثنا (ارمان کی بہن) اندر آئی اور چیخی:
"امی آپ کو بلاتی ہیں… ابھی کے ابھی!"
ہنا گھبرا کر پیچھے ہٹی۔
ارمان نے غصے سے ثنا کو گھورا:
"کیا یہ تمہارا کمرہ ہے جو ایسے گھس آئی ہو؟"
ثنا ہونٹ کاٹ کر چلی گئی۔
ہنا کے دل میں ایک انجانی سی خوشی جاگ گئی کہ ارمان نے پہلی بار سب کے سامنے اس کا دفاع کیا تھا۔گھر میں ایک اور مسئلہ کھڑا ہو گیا۔
ایان ارمان کا کزن جو شروع سے ہنا کو چاہتا تھا، شادی کے بعد بھی موقع ڈھونڈنے لگا۔
وہ اکثر ہنا سے بات کرنے کی کوشش کرتا، مگر ہنا اسے سختی سے ٹال دیتی۔
ایک دن فیملی ڈنر پر سب کزنز اکٹھے بیٹھے تھے۔ ایان نے طنزیہ لہجے میں کہا:
"کیا بات ہے ارمان بھائی، شادی کے بعد تو لگتا ہے ہنا بھابھی نے آپ کو مکمل طور پر قید کر لیا ہے!"
سب ہنس پڑے، مگر ارمان کا خون کھول اٹھا۔
اس نے میز پر ہاتھ مارا:خبردار جو کسی نے میری بیوی کے بارے میں مذاق کیا۔ ہنا میری عزت ہے۔"
کمرے میں سناٹا چھا گیا۔
ہنا کے لبوں پر مسکراہٹ آگئی، مگر دل کانپ گیا کہ ایان آسانی سے پیچھے ہٹنے والا نہیں ہے۔
رات کو کمرے میں ہنا نے شرارت سے کہا:
"دیکھا؟ سب کے سامنے آپ نے میرا دفاع کیا۔"
ارمان نے اس کے قریب آ کر جواب دیا:
"ہنا، تمہاری عزت میری جان سے زیادہ قیمتی ہے۔"
ہنا نے مسکرا کر کہا:
"اور آپ کی محبت میری سب سے بڑی طاقت۔"
ارمان نے اسے بانہوں میں بھر کر کہا:
"آج تمہیں بتا دوں… میری زندگی میں صرف تم ہو، اور کوئی نہیں۔"
ہنا نے شوخی سے کہا:
"تو پھر سزا یہ ہے کہ آج رات مجھے سونے نہ دیجئے۔"
کمرے کی خاموشی میں دونوں کی دھڑکنیں گونجنے لگیں۔
باہر مسائل تھے، دشمنی تھی، مگر اندر وہ دونوں صرف ایک دوسرے کے ہو گئے تھے۔
جاری ہے
0 Comments