پیاسی عالمہ
قسط ۷
صائمہ کو رخصت کرنے کے بعد میں نے گوجرانولہ میں اپنے اہل خانہ سے فون پر رابطہ کیا اور انہیں بتایا کہ میری طبیعت کچھ ناساز ہے اور میں شادی میں شرکت کے لیے گوجرانولہ نہیں جا سکتا اور گھر پر ہی آرام کرنا چاہتا ہوں ۔
گھر والوں نے اس بات پر کوئی اعتراض نہ کیا ۔ سبھی اہل خانہ شادی میں شریک تھے اور میرا وہاں موجود ہونا کوئی اتنا ضروری نہیں تھا ۔
اس کے بعد چند گھنٹے میں نے آرام کیا اور شام کو کچھ دوستوں سے ملاقات کے لیے قریب کے گاؤں چلا گیا اور رات 9 بجے میری واپسی ہوئی۔
اس رات میں صائمہ سے ملن کے سہانے سپنے آنکھوں میں سجائے جلدی سوگیا ۔
صبح 8 بجے میں جاگا ۔ نہا دھو کر فریش ہونے کے بعد اپنے لیے ناشتہ بنایا ۔ ناشتہ کرنے کے بعد میں نے گھر والوں کو فون کر کے اپنی خیریت سے آگاہ کیا اور بتایا کہ اب میری طبیعت کچھ بہتر ہے ۔ اس کے بعد میں بےصبری سے صائمہ کی آمد کا انتظار کرنے لگا
ساڑھے 9 بجے گھر کے دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی اور میرے دل کی دھڑکن تیز ہونے لگی ۔ میں اٹھا اور جا کر دروازہ کھولا ۔ حسب توقع دروازے پر صائمہ ہی تھی جس نے اپنا سیاہ عبایہ زیب تن کر رکھا تھا ۔ صائمہ اندر داخل ہوئی اور میں نے فوراً دروزاہ بند کیا
صائمہ نے مجھے سلام کیا اور ہم دونوں بےتکلفی سے ایک دوسرے کو بانہوں میں لے کر سینے سے لگا لیا ۔ عبایہ کے اوپر سے بھی اس کے پستانوں کا ابھار مجھے صاف اپنے سینے پر محسوس ہورہا تھا ۔ اس نے اپنا نقاب ہٹایا اور اس کے چاند سے چہرے اور گلاب سے ہونٹوں کا اجلا نظارہ میری نگاہوں کے سامنے تھا ۔ میں نے پیار سے اس کے ریشم جیسے نرم لبوں کو چوما اور اس کا حال چال پوچھنے کے بعد اسے ساتھ لے کر لاونج تک پہنچا ۔ آج اس کے انداز میں معمولی سی بھی جھجک نہ تھی ۔ لاونج میں پہنچتے ہی اس نے خود کو عبایہ سے آزاد کیا۔ اس کے جسم پر خوبصورت میرون شلوار قمیض تھی جو اس کی کھِلی سی رنگت پر بہت اچھی لگ رہی تھی ۔
آج تو میری جان پریوں کی رانی لگ رہی ہے ۔ میں نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا اور یہ سن کر وہ شرما سی گئی
میں نے صوفے پر بیٹھنے کے بعد صائمہ کو اپنی گود میں اس طرح سے بٹھایا کہ اس کا چہرہ میری طرف رہے
اس کی کولہوں کی نرمی و گرمی کو میں شلوار اور پینٹی کے اوپر سے بھی صاف محسوس کر سکتا تھا
اسے گود میں بٹھا کر میں نے اپنے بازو اس کی کمر کے گرد حمائل کیے ۔ اب ہمارے چہرے بالکل آمنے سامنے تھے ۔ میں اس کی گرم نشیلی سانسوں کو اپنے چہرے پر محسوس کررہا تھا ۔
میں نے اپنے چہرے کو آگے بڑھایا اور صائمہ بھی آگے کو ہوئی اور اگلے ہی لمحے اس کے ہونٹوں سے میرے ہونٹ ٹکرا گئے اور ہم دونوں دنیا جہاں کی ہر بات بھول کر بھرپور انداز میں بوس و کنار کرنے میں مگن ہو گئے ۔ اس کے لبوں سے لب ملتے ہی مجھے احساس ہوا کہ ان لبوں کا جام پینے والے کو نہ تو شراب کے نشے کی ضرورت ہے نہ کوئی اور نشہ ۔ ان رسیلے ہونٹوں کا نشہ دنیا کے ہر نشے پر بھاری تھا ۔ اس کا اوپری ہونٹ میرے ہونٹوں میں تھا اور میرا نچلا ہونٹ اس کے لبوں میں تھا ۔ ہمارے ہونٹ ملے تو یوں لگ رہا تھا جیسے کبھی جدا ہی نہ ہوں گے ۔ کمرے میں ہماری لپ کسنگ کی آواز گونج رہی تھی ۔
اس کو گود میں لے کر اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے جوڑے میں یہ سوچ رہا تھا کہ تبلیغ پر گئے قاری صاحب کو تو اس بات کا وہم و گمان بھی نہ ہوگا کہ پارسائی کا پیکر ان کی بیوی ایک غیر مرد کی بانہوں میں لبوں سے لب ملائے بیٹھی ہوگی
صائمہ کو پیار کرتے کرتے میں رکا ۔ اور اس کی قمیض کو کناروں سے پکڑ کے اسے اتارنے لگا ۔ دو پیاسے دلوں کے درمیان سب سے بڑی رکاوٹ لباس ہی ہوتا ہے اور میں زیادہ دیر اس رکاوٹ کو برقرار نہیں رکھنا چاہتا تھا ۔ قمیض کے نیچے سرخ رنگ کے ایک خوبصورت برا نے صائمہ کے سینے کو ڈھک رکھا تھا ۔ اس کے گورے جسم پر یہ سرخ برا بہت جچ رہا تھا ۔ اس کے بعد صائمہ بھی میری شرٹ کے بٹن کھولنے لگی اور اس نے میری شرٹ اتار کے صوفے پے رکھ دی ۔ جس کے بعد میں نے پھر سے بےتابی کے ساتھ صائمہ کے ہونٹوں میں اپنے ہونٹ پیوست کر دیے
ساتھ ہی میں نے اپنا بائیاں ہاتھ اس کی شلوار کے ناڑے ہے رکھ دیا اور اسے پکڑ کے کھینچا ۔ چند لمحے میں ناڑہ کھل چکا تھا ۔ میں اس کے ہونٹ چوستے ہوئے اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کے صائمہ کی شلوار اتارنے لگا اور وہ بھی میرے لبوں سے اپنے لب چپکائے اپنے کولہوں کو زرا سا اوپر اٹھا کر اپنی شلوار اتروانے میں میری مدد کرنے لگی ۔ کچھ ہی دیر میں میں اپنی عالمہ گرل فرینڈ کی شلوار اتار کے اسے نیم عریاں کر چکا تھا اور وہ اس آدھ ننگی کیفیت میں میری گود میں بیٹھی مجھے اپنے مقدس ہونٹوں کا جام پلا رہی تھی ۔ شلوار کے نیچے اس نے ایک میچنگ سرخ پینٹی زیب تن کر رکھی تھی اور اس برا و پینٹی میں وہ پارسا لڑکی بالکل ساحل سمندر پر لیٹی کسی انگریز حسینہ کی طرح ہیجان و شہوت کی دیوی لگ رہی تھی ۔ اب اس نے اپنی زبان میرے منہ میں داخل کردی اور میری زباں سے اپنی زبان ٹکراتے ہوئے اس نے اپنے ہاتھوں سے میری پینٹ کی زپ کھولنا شروع کردی ۔ زپ کے بعد اس نے پینٹ کا بٹن بھی کھول دیا
اس نے ایک مرتبہ پھر سے میرے کندھوں پر ہاتھ جما کر اپنے کولہوں کو میری گود سے اوپر اٹھایا تاکہ میں اپنی پینٹ نیچے کھسکا سکوں ۔ پینٹ نیچے ہوتے ہی اس نے اپنے کولہے میری گود پر ٹکا دیے ۔ اب میرے جسم پر صرف ایک انڈروئیر ہی باقی تھا
جی بھر کے ایک دوسرے کے لبوں کی لذت اپنے اندر اتارنے کے بعد ہم نے ہونٹ الگ کیے
میں نے اپنا دائیاں ہاتھ صائمہ کی کمر پہ رکھا اور بائیاں ہاتھ پیچھے کی سمت سے صائمہ کی پینٹی کے اندر داخل کردیا اور ساتھ ہی میں نے صائمہ کے ابھرے ابھرے سے پستانوں کو برا کے اوپر سے ہی چوم لیا ۔ ادھر میرا ہاتھ اس کی کمر پر برا کی ہک کو چھیڑ رہا تھا اور ادھر میں بار بار نرمی سے اس کے برا پر سے اس کے بوبز کو چوم رہا تھا اور پھر میں نے برا کی ہک کھول دی ۔اب کی بار جو میں نے اس کا سینہ چومتے ہوئے اپنا چہرہ آگے بڑھایا تو میرے ہونٹ برا کے بجائے اس کے بائیں پستان سے جا ٹکرائے کیونکہ ہک کھلنے کے بعد برا اس کے سینے سے پھسل کر اس کی گود میں گر چکی تھی ۔ اب اس کے سینے سے پھوٹتی مسحور کن مہک میری سانسوں کو معطر کررہی تھی اور میری شہوت کو اور بری طرح سے بھڑکا رہی تھی ۔ میں نے اپنا چہرہ اس کے سینے پر ایسے رکھا کہ میری ناک اس کے پستانوں کی لکیر میں تھی ۔ میں اسی حالت میں ٹھہرا اور لمبی لمبی سانسیں کے کر اس کے پستانوں کی مہک کو خود میں بسانے لگا ۔ اس خوشبو سے اپنے وجود کو مہکا دینے کے بعد میں نے اپنا دائیاں ہاتھ اس کے دائیں پستان پر رکھا اور اسے سہلانے مسلنے اور دبانے لگا اور اس کے بائیں پستان پہ اپنی زبان رکھ دی اور اسے مزے سے چاٹنے لگا ۔ میرا بائیاں ہاتھ اس کی پینٹی میں داخل ہو کر اس کے کولہوں کے نشیب و فراز جانچ رہا تھا اور میں اپنی زبان اس کے پستان پر دبا دبا کر اسے اوپر سے نیچے تک آگے سے پیچھے رک چاٹ رہا تھا ۔ چاٹتے چاٹتے میں رکتا اور اس کے نپل کو چوم لیتا اور پھر سے اسے چاٹنے لگتا ۔ صائمہ کے ہونٹوں سے مسلسل لذت بھری سسکاریاں نکل رہی تھیں
اب بائیں پستان کے بعد میں صائمہ کے دائیں ممے پر لب آزمائی کررہا تھا صائمہ کا وجود لذت کے مارے لزر سا رہا تھا اور وہ میرے سر کے پیچھے اپنا ہاتھ رکھے اپنا سینہ میری طرف دبا دبا کر اپنے پستان میرے منہ میں دے رہی تھی ۔ میں نے اپنی زبان صائمہ کے سینے سے لگا رکھی تھی اور صائمہ جذبات کے عالم میں اپنے پستان اوپر نیچے کرتے ہوئے اسے میری زبان پے رگڑ رہی تھی اور اسی وقت اب میرے دونوں ہاتھ صائمہ کی پینٹی کے کناروں پر تھے ۔ جیسے جیسے صائمہ اپنے پستانوں کو میرے منہ پے مسلنے کے لیے اوپر نیچے ہورہی تھی اس کے پورے جسم کے ساتھ اس کے کولہے بھی بار بار زرا سے اوپر اٹھ رہے تھے اور ہر دفعہ اوپر اٹھنے کے ساتھ میرے کھینچنے پر اس کی پینٹی چند انچ نیچے ہو جاتی اور اگلی دفعہ پھر کولہے اوپر ہونے پر پھر سے صائمہ کی سرخ پینٹی مزید چند انچ اتر جاتی یہاں تک کہ کچھ ہی دیر میں صائمہ کے حسین و دلکش گورے سے سڈول کولہے ننگے ہو چکے تھے ۔ اب صائمہ زرا ٹھہری اور اس نے پینٹی کو اپنی ٹانگوں سے اتارنے میں میری مدد کی اور چند لمحے بعد میری عالمہ فاضلہ شہزادی سر تا پیر الف ننگی ہو کر میری گود میں براجمان ہو چکی تھی ۔ میں ابھی تک اس کی چھاتیوں سے منہ جوڑے انہیں چومنے چاٹنے چوسنے اور ان پر زبان پھیرنے میں مصروف تھا اور وہ اپنے ننگے کولہے میری رانوں پے مسل رہی تھی
پھر وہ میری گود سے اٹھی اور صوفے سے اتر کر نیچے قالین پر بیٹھ گئی اور میرے جسم پر موجود لباس کے آخری ٹکڑے یعنی میرے انڈروئیر کو دونوں ہاتھوں سے کھینچ کر اتارنے میں لگ گئی
انڈروئیر ہٹتے ہی میرا فل تنا ہوا عضو تناسل جھٹکے سے باہر آگیا ۔ مجھے مکمل برھنہ کرنے کے بعد صائمہ نے میرے لن کو اپنے نرم و نازک ہاتھ میں لیا ہی تھا کہ میں نے اسے روک دیا
آج ہم کچھ نیا کریں گے ۔ میں نے جھک کر اس کے ہونٹوں کو چوم کے کہا
اوہ اچھا ۔ نیا کیا ؟ اس نے کہا
آج ہم 69 کریں گے ۔ میں نے کہا
مجھے تو یہ کرنا نہیں آتا ۔ صائمہ نے کہا
کوئی بات نہیں ۔ میں سب سکھا دوں گا ۔ میں نے کہا اور صوفے سے اٹھا ۔ میں نیچے قالین پر آیا اور ایک کشن اٹھا کر صوفے کے کنارے ٹکا دیا اور خود صوفے سے ٹیک لگا کر سیدھا لیٹ گیا
میرے اوپر آجاو ۔ اس طرح کہ تمہارا منہ میرے لن کی طرف ہو اور تمہارے کولہے میرے منہ کی طرف ۔ میں نے اسے کہا ۔ صائمہ یہ سن کر مسکرا دی اور میرے اوپر آکر اپنے جسم کو ایڈجسٹ کرنے لگی ۔ میں نے کشن رکھ کر اپنا سر زرا اونچا کر لیا تھا ۔ صائمہ کا منہ میری ٹانگوں کی سمت تھا اور اس نے اپنے گھٹنے میرے جسم کے دونوں طرف قالین پر ٹکا دیے ۔ جس سے اس کے کولہے ابھر کر میرے سامنے آگئے اور کولہوں کے بیچ کی لکیر ٹھیک میرے سامنے تھی ۔ ادھر میں نے اپنے دونوں ہاتھ اس کے گورے شفاف دلفریب کولہوں پر رکھے ادھر صائمہ نے میرا لؤڑا اپنے دائیں ہاتھ میں لے کر بائیں ہاتھ میں نرمی سے میرے بالز کو پکڑ لیا میں دونوں ہاتھوں سے اس کے کولہوں کو پیار سے سہلانے اور مسلنے لگا ۔ کہیں نرمی سے تو کہیں انہیں دبا کر ۔ کبھی ان پر پیار سے تھپڑ مارتا تو کبھی کولہوں کی لکیر میں انگلی داخل کرکے اسے اوپر سے نیچے نیچے سے اوپر پھیر رہا تھا
ادھر صائمہ نے اپنے مکھن سے نرم اور انگارے جیسے گرم دہکتے ہونٹوں کو میرے لن کے ٹوپے پر ثبت کرتے ہوئے اسے چوم لیا اور اوپر سے نیچے تک لن پر بوسوں کی بارش کر دی
میں نے اپنا چہرہ آگے بڑھایا اور صائمہ کے کولہوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے اور انہیں چومنے میں مگن ہوگیا ۔ ان گورے کولہوں کے ایک ایک انچ پر اپنے ہونٹوں سے پیار کی مہر ثبت کررہا تھا ۔ پھر میں نے اپنی زبان صائمہ کے دائیں کولہے پر رکھی اور اسے چاٹنے لگا ۔ اس کے چکنے کولہوں پر زبان پھیرنا مجھے بہت اچھا لگ رہا تھا۔ یہی وہ وقت تھا جب صائمہ میرے لن پر بوسوں کی بارش کر لینے کے بعد اپنی زبان کی نوک لن کے سوراخ پر رکھ کر اسے چاٹ رہی تھی ۔ سوراخ کو چاٹنے کے بعد وہ ٹوپے کے کناروں پر زبان رکھ کر اسے گول گول گھماتے ہوئے چاٹنے لگی اور میں اس کے کولہوں کو چاٹ رہا تھا پیار سے تھپڑ مارتے ہوئے ۔ پھر میں نے دونوں ہاتھوں سے اس کے کولہوں کو کشادہ کیا ۔ اس لکیر کے بیچوں بیچ اس کی بنڈ کا کالا سوراخ کسی نایاب پھول کی طرح اپنا جوبن دکھا رہا تھا
صائمہ میرے لن کی ابھی ہوئی رگوں پر زبان کی نوک پھیر رہی تھی اور میں نے اپنی زبان کی نوک صائمہ کے کولہوں کے سوراخ پر رکھ دی ۔ اور اسے زبان سے دبا دبا کر چاٹنے لگا
اب ہم دونوں پر حوس کا جنون مکمل طور پر چھا چکا تھا ۔ صائمہ میرے لن کے ٹوپے پر اپنے ہونٹ جما کر اندر سے زبان سے ٹوپے کو چاٹ رہی تھی اور میں اپنی زبان اس کی گانڈ کے سوراخ پر جما کر اسے دبا دبا کر سوراخ کے اندر ڈالنے کی کوشش کررہا تھا ۔ میں اپنی زبان اس سوراخ پر بنی چھوٹی چھوٹی دھاریوں پر پھیر رہا تھا اور دوسری طرف اپنے جسم کو اوپر کی طرف ہلکے ہلکے جھٹکے دیتے ہوئے صائمہ کے منہ میں لن دے رہا تھا ۔ صائمہ نے اپنے ہونٹ لن کے ٹوپے پر مضبوطی سے جما رکھے تھے ۔ جب میں اوپر کو ہلکا سا جھٹکا مارتا تو میرا لؤڑا صائمہ کے ہونٹوں سے رگڑ کھاتا ہوا اس کی زبان پر جا کے لگتا تھا ۔زبان پر لگتے ہی صائمہ زبان کو نیچے کی طرف دباتی اور میں لن پیچھے کو کھینچ کر پھر سے اوپر کی جانب ہلکا سا جھٹکا دیتا ۔ صائمہ کے منہ کو میں کسی چوت کی طرح چود رہا تھا لیکن لن زیادہ آگے تک نہیں گھسا رہا تھا کہ کہیں صائمہ کو سانس لینے میں دشواری نہ ہو ۔ اس منہ چدائی کے عمل کی وجہ سے صائمہ کے ہونٹوں کے کناروں سے تھوک ٹپک ٹپک کر میرے پورے لن کو غسل دیتی ہوئی میرے بالز کو بھگو رہی تھی اور میں اب پورے جوش و جذبات کے ساتھ اوپر سے نیچے تک صائمہ کی بنڈ کی لکیر کو چاٹ رہا تھا ۔ حوس کے اس عالم میں مجھے صائمہ کی بنڈ کے سوراخ سے اٹھتی مہک بھی دنیا کے ہر پرفیوم کا عطر کی خوشبو سے بہتر لگ رہی تھی اور اسے سونگھ کر میری حوس اور بھڑک رہی تھی جس کے نتیجے میں جسم ابھار ابھار کر مسلسل صائمہ کے چاند سے چہرے کو کسی چوت کی طرح چود رہا تھا
صائمہ کے ہونٹوں میں لن پرونے کے ساتھ ساتھ سب میں اس کی بنڈ کے علاؤہ اس کی چوت کو بھی چاٹنے لگا تھا اور بنڈ کی لکیر کے ساتھ ساتھ اس کی چوت کے لبوں پر بھی زبان پھیر رہا تھا
لذت کے مارے ہم دونوں کی سانسیں پھول چکی تھیں اور پیار کی گرمی نے ہمارے ننگے جسموں کو پسینے سے شرابور کر ڈالا تھا صائمہ کے ننگے پستان میرے پیٹ سے رگڑ کھا رہے تھے اور اب وہ بھی جوش کے عالم میں اپنی بنڈ کو اوپر نیچے کرتے ہوئے میری زبان پر رگڑ رہی تھی
جاری ہے
0 Comments