ads

Safar - Last Episode

سفر

آخری قسط 



نوشی اتھ کر چلی گی تو آریان بار بار میری طرف دیکھرہا تھا۔ میں نے ایک بھرپور اگڑائی لی اور اپنے ممے جتنی حد تک ہو سکتے تھے باہر کو نکال کراپنے سینے کو اکڑا لیا۔ میں دیکھ رہی تھی کہ آریان کی سانس رک رہی ہے۔ اور اس کے ہاتھ سے پانی کا گلاس نیچے گر گیا۔۔۔۔۔ کیا ہوا بیٹا؟ طبیعت تو ٹھیک ہے نہ تمھاری؟ میں نے پیار بھرے لہجے میں آریان سے پوچھا۔ جج جی امی میں ٹھیک ہوں ۔ کچھ نہی ہوا مجھے۔ میں ایک خاص انداز میں نیچے جھکی اور اپنے گریبان سے باہر جھانکتے ہوئے مموں کا بھرپور نظارہ اپنے بیٹے کو کروایا۔ وہ بھی میری طرف دیوانوں کی طرح دیکھ رہا تھا۔ میرے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ بیٹا پیاس لگی ہے کیا؟ میں نے گلاس اپنے سینے کے ساتھ لگاتے ہوئے بڑے سیسکی انداز میں آریان سے پوچھا۔ جج جی امی ووہ پپ پیاس لگ رہی۔۔۔۔ ہے مجھے۔۔۔ وہ کافی زیادہ بوکھلایا ہوا تھا۔ اور میں اس کی اس حالت سے محظوظ ہو رہی تھی۔ اچھا تو پھر کیا پینا ہے جس سے میرے بیٹے کی پیاس بجھ جائے گی؟ جج جی وو وہ اا اممی جانن۔۔۔۔۔۔۔۔ ام۔۔ وہ بار بار اپنے خشک ہوتے ہونٹوں پر اپنی زبان پھیر رہا تھا۔ کیا ہوا میرے بیٹے تم مجھے کچھ پریشان لگ رہے ہو۔۔۔۔ میں نے ایک ادا سے کہا۔۔ نن نہی امی جاان ایسی تو کوئی بات نہی ہے۔۔۔ میں نے آگے بڑھکر آریان کا چہرہ اپنی سینے کے ساتھ لگا لیا۔ میں نےایک بہت ہی سیکسی قسم کی خوشبو لاگئی ہوئی تھی جس کو سونگ کر ہر بندہ رومانٹک ہو جاتا۔۔۔۔ میں ے جب آریان کا چہرہ اپنے سینے کے ساتھ لگایا تو اس نے اپنا منہ میرے مموں کے درمیان دھنسا دیا۔ اور ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ صدیوں سے پیاسا ہو میرے دودھ کا۔ اس کا چہرہ میرے مموں کے درمیان جیسے غائب ہی ہو گیا تھا۔ میں نے بھی اسے پیچے نہی ہٹایا اور ایسے ہی کھڑی رہی۔ آریان نے اپنے ہونٹ میرے مموں کے درمیان والی لکیر میں رکھ دئے اور مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ خاموشی سے میرے مموں کو چوم رہا ہے۔ کیا ہوا بیٹا کچھ بتاؤ تو سہی ۔۔ تم مجھے کچھ ٹھیک نہی لگ رہے۔۔ میں آریان کی کمر پر اب پیار سے ہاتھ پھیر رہی تھی۔ آریان کا ایک ہاتھ میری کمر پر کھیل رہا تھا۔ اس نے ایک بار اپنا ہاتھ بہت مضبوطی کے ساتھ میری کمر پر پھیرا۔ جس سے مجھے ایسا لگا جیسے وہ کچھ محسوس کرنا چاہ رہا ہے میری کمر پر۔ امی۔۔ آریان نے مجھے پکارا۔۔ جی میرا بیٹا۔۔۔۔ مجھے پیاس لگی ہوئی ہے۔۔ مجھے پانی پلا دیں۔۔۔۔ بیٹا اگر پینا ہی ہے تو پھر پانی کی بجائے کچھ اور پی لو۔۔۔ میں نے کچھ اور پر زیادہ زور دیا۔۔۔۔ کک کیا امی جان؟ آریان نے ہکلاتے ہوئے مجھ سے پوچھا۔ میں نے ایک سکسی سی آواز میں کہا اگر تم دودھ پینا چاہتے ہو تو وہ پی لو۔۔۔ میں نے اپنے ممے اور زیادہ آریان کے چہرے کے ساتھ چپکاتے ہوئے اس سے کہا۔۔۔ جج جیامی جان میں دودھ پینا چاہتا ہوں۔ اس نے جیسے ہی کہامیں نے اس کا منہ اپنے گریبان کے اندر جتنا ہو سکتا تھا اندر کی طرف گھسا دیا۔ آریان نے اپنی زبان باہرنکالی اور میرے مموں کی لکیر میں پھیرنے لگا۔ مجھے بہت اچھا لگ رہا تھا۔ اور میرے ذہن میں بس یہی بات تھی کہ اب میرا بیٹا شادی کے لئےراضی ہو جائے گا۔ میں گرم ہو رہی تھی۔ اور آریان کی آنکھیں بند تھی وہ باس میرے مموں کی خوشبو کو اپنے اندر سمو رہا تھا۔ اور میں اس کی گرم گرم سانسوں کو اپنے سینے پر محسوس کر رہی تھی۔ آریان نے جیسے ہی اپنا منہ میری طرف کیا تو میں نے اس کے ہونٹوں پر ایک ہلکی سی کس کی اور جیسے ہی آریان نے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں کی طرف بڑھائے میں نے اپنے ہونٹ ایک دم سے پیچھے کر لیئے۔۔ وہ عجیب نظروں سے مجھ کو دیکھ رہا تھا۔ میں نے اپنے سر کے اشارے سے پوچھا کیا؟؟ اممی مجھے دودھ پلایئں میں نے دودھ پینا ہے۔ میں نے جلدی سے میز پر پڑا ہوا دودھ کا گلاس اٹھایا اور اس کے سامنے کر دیا۔ لو لیرے بیٹے دودھ پی لو جتنا بھی پینا ہے۔ میں اسے ٹیز کر رہی تھی۔ اس کی بیچینی بڑھ رہی تھی وہ جلد از جلد میرے دودھ تک پہنچنا چاہتا تھا مگر یہ اتنا بھی آسان نہی تھا۔ میں اسے ابھی اور تڑپانا چاہتی تھی۔ مگر اس نے ایک دم سے اپنا ہاتھ میرے کھلے گریبان میں ڈالا اورمیرا ایک مما اپنی گرفت میں لے لیا۔ میں اس کے لئیے بلککل تیار نہی تھی۔ میں نے اوئی ماں کہہ کر اس کے ہاتھ پر ایک دم سے اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ اور اس کے ہاتھ کی پیشقدمی کو روکا۔ وہ میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھرہا تھا۔ میں نے اسے کہا میں نے تم کو دودھ کا گلاس دیا تو ہے اسے پیو نا۔ ادھر کیا ڈھونڈ رہے ہومیرے بیٹے؟ میں نے مسکراتے ہوئے اسے کہا۔ اس کی آنکھوں میں شہوت کی لکیریں صاف نظر آرہی تھی۔ امی مجھے تازہ دودھ پینا ہے۔ اچھا۔۔۔ ؟؟ میںنے مسکراتے ہوئے اسے کہا اور اٹھ کر اپنے کمرے کیطرف چل دی۔ جب میں کمرے میں داخل ہوئی تو دیکھا کہ میرے بیڈ پر پھول بڑے سلیقے سے پڑے ہوئےتھے۔ اور ان پھولوں سے ایک خوبصورت سا دل بناہوا تھا ۔ میں سمجھ گئی کہ یہ میری بیٹی نے بنایا ہوا ہے۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو آریان بھی میرے پیچھے پیچھے کمرے میں داخل ہو رہاتھا۔ میں بیڈ کے ایک کنارے پر ٹک کر بیٹھ گئی۔ آریان میرے پاس آیا اور میرے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر ان کو چوم لیا۔ میں ایک ٹک اس کو دیکھ رہی تھی۔ وہ اتنے پیار سے میرے ہاتھ چوم رہا تھا کہ میرا دل کر رہا تھا کہ وہ ایسے ہی میرے ہاتھ چومتا رہے اور میں اس کے چومنے کوایسے ہی محسوسکرتی رہوں۔ میرے دل میں اپنے بیٹے کی محبت اور ذیادہ بڑھ رہی تھی۔ میں اس کے پیار میں اور ذیادہ گر رہی تھی۔ پھر میں نے آہستہ سے آریان کے ہونٹوں پر ایک کس کی۔ آریان نے فوراََ ہی میرے ہونٹ اپنے ہونٹون کی گرفت میں لے لیئے۔ اور ان کو دیوانہ وار چوسنے لگ گیا۔ میں بھی اس کا پورا پورا ساتھ دے رہی تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ آریان کی زبان میرے ہونٹوں کے دروازوں پر دستک دے رہے تھے۔ میں نے پہلے اپنے ہونٹ سختی کے ساتھ بند کر رکھے تھے کہ اچانک ہی آریان نے میرے بند ہونٹوں پر ہلکے سے کاٹ لیا۔۔۔ میں نے جیسے ہی اپنا منہ کھولااس نے جلدی سے اپنی زبان میرے منہ کے اندر داخل کر دی۔ میں نے جھٹ اس کی زبان کے ساتھ اپنی زبان کی نوک ٹچ کر دی۔ اافففففف ۔۔ اس کی زبان کا ذائقہ مجھےبہت اچھا لگ رہا تھا۔ میں نے اس کی زبان کو ایکچوپا لگایا اور اپنی پوری زبان اس کے منہ میں داخل کر دی۔ وہ بھی میری زبان کو چوپے لگا رہا تھا۔ اس کا ایک ہاتھ میرے مموں کی گولایاں ماپ رہا تھا۔ میں نےاس کے ہاتھوں کو روکنے کی بلکل بھی کوشش نہ کی کیوں کہ اس کا اس طرح سے میرے مموں کے ساتھ کھیلنا مجھے بہت اچھا لگ رہا تھا۔ آریاننے میرے ایک ممے کو قمیض کے اوپر سے ہی زور سےدبا دیا۔ میرے منہ سے ایک ہلکی سی چیخ نکل گئی میںنے اس کے سر لر ایک چت لگاتے ہوئے کہا۔ کیا کر رہے ہو بگڑے لڑکے آرام سے کھیلو یہ تمھارے پاس ہی ہیں۔ میری ٹانگوں کے درمیان کھجلی ہو رہی تھی۔ میں نے دیکھا کہ آریان کی قمیض کے آگے ایک تمبو سا بنا ہوا ہے۔ جب کافی دیر ہوگئی اور آریان میری زبان کو چوس چوس کر بع حال ہو گیا تو اس نےمیرے مموں کو باہر نکالنے کی کوشش کی۔ میری قمیض کا گلا کافی کھلا تھا مگر اتنا کھلا نہی تھا کہ میرے بھاری ممے اس میں سے باہر نکل سکتے۔ ایک منٹ میرے بچے میں قمیض اتار دیتی ہوں ۔ پھر آرام سے دودھ پی لینا اپنی امی کا۔ یہ کہتے ہوئے میں نے اپنی قمیض اتار دی میرے ممے برا میں قید تھے۔ بلیک کلر کی برا میں نے سپیشل پہنی تھی اپنے بیٹے کے لیے۔ کالی برا میں میرے گورے ممے دعوت نظارہ دے رہے تھے۔ پہلے آریان نے اپنیزبان نکال کر میرے مموں کی لکیر میں اسے پھیرا۔ اور ایک ہاتھ اس کا میرے دوسرے ممے سے کھیل رہا تھا پھر آریان نے اپنا ایک ہاتھ میری کمر کے پیچھے لے جا کر میرے برا کی ہک کھول دی۔ اور میری برا اس کے ہاتھوں میں آ گئی اس نے برا کو ایک طرف رکھا اور میرے مموں کے اکڑے ہوئے نپلز کو بڑے غور سے دیکھنے لگا۔ میں نے اس کی آنکھوں کے سامن ہاتھ لہرایا تو وہ چونک سا گیا۔ کیا ہوا ؟ میں نے اس سے پوچھا۔ کک کچھ نہی امیجی مایں تو بس آپ کا حسن دیکھ رہا تھا۔ اس نے جواب دیا۔ اچھا تو کیا اب صرف دیکھتے ہی رہو گے؟یہ سن کر اس کے جسم میں حرکت پیدا ہویئ اور اس کے ہاتھ سیدھے میرے مموں پر آ کر رک گئے۔ جیسے ہی میرے مموں کے ساتھ اس کا ہاتھ ٹچ ہوا میرے جسم میں ایک سنسنی پھیل گئی۔ اس کا لمس مجھے بہت اچھا لگ رہا تھا ۔ سچی بات تو یہہے کہ اگر مجھے پہلے پتا ہوتا کہ آریان کا لمس اتنا مزےدار ہے تو میں کب کا اس کو اپنا جسم دے چکیہوتی۔ آریان میرے مموں کو بڑے شوق اور بڑے غور سےدیکھ رہا تھا۔ آریان نے میرے ممے اپنے ہاتھ میں پکڑے اور ان کو اوپر کی طرف اٹھا دیا۔ اس کے ہاتھوں میں میرے ممے مشکل سے ہی آ رہے تھے۔ اس نے میرے ممے اوپر کی طرف اٹھا کر ان کے نیچھے والے حصے پر اپنی زبان نکال کر ان کو جڑ سے لے کر اوپر نپل تک چاٹ لیا۔ میرے جسم نے ایک جھرجھری لی اور میرے منہ سے ایک سسکاری نکل گئی۔ مجھے اس کا اس طرح سے چاٹنا بہت اچھا لگا تھا۔ پتا نہی کیوں مجھے آریان کی ہر ہر ادا پسند آرہی تھی۔ اور وہ دھیرے دھیرے مجے تڑپا رہاتھا۔ اپنی امی کا امتحان لے رہا تھا۔ میں اس کے ہر امتحان میں کامیاب ہونا چاہتی تھی۔ اور اس کو اپنی ممتا بھری ڈھلتی جوانی سے سیراب کرنا چاہتی تھی۔ آریان میرے مموں کو بغور دیکھ رکھ رہا تھا اور ساتھ ساتھ وہ میرے مموں کو نیچے سے لے کر نپل تک چاٹ رہا تھا ۔ باری باری وہ ایسا کر رہا تھا۔ کچھ ہی دیر میں میرے ممے اس کے منہ سے نکلے ہوئے تھوک سے کافی گیلے ہو گئے تھے۔پھر اس نے ےبڑے پیار کے ساتھ میرے نپل پر اپنی زبان کی نوک پھیری۔۔ اففففف۔۔۔۔۔۔۔ میرے پورے جسم میں ایک مزے کی لہر دوڑ گئی میری ٹانگوں کے درمیان آگ بھڑک رہی تھی۔ اور میری پھدی گیلی ہو رہی تھی۔ مگر مجھے اسا لگا رہا تھا جیسے میرا بیٹا میری پھدی کا پانی ایسے ہی نکال دے گا ۔ میں اپنی ٹانگوں کو ایک دوسرے کے اوپر کیئے ہوئے بیٹھی تھی۔ وہ باری باری میرے مموں کے نپلوں پر اپنی زبان کی نوک پھیر رہا تھا۔ اور ان کو مزید سخت بنا رہا تھا۔ میرے ہاتھ کے سر کے بالوں میں کھیل رہے تھے۔ اور اس کے جادو بھرے پاتھ میری کمر کا طواف کر رہے تھے۔ ابھی تک اس کیشرٹ اس کے بدن پر تھی اور میرا تنگ پاجامہ میری ٹانگوں کو ڈھانپے ہوئے تھا۔ نہ اس نے اپنےبدن کو ننگا کیا تھا نا ہی اس نے ابھی تک میرےپاجامے کو نیچے سرکانے کی زحمت کی تھی۔ پھر آریان نے اپنا منہ کھولا اور میرے نپل کو اپنے منہ کی گرفت میں لے لیا۔ اور ایک بھرپور انداز میں میرے ممے کو چوپا لگایا۔۔۔ آہہہہ۔۔۔۔۔ میرے منہ سے بے اختیار ایک سسکاری نکل گئی۔۔ اس نے جلدی سے میرا مما اپنے منہ سے باہر نکالا اور پوچھنے لگا۔۔ کیا ہوا امی جان؟ کچھ نہی میرے بیٹے مجھے مزہ آ رہا ہے۔ میں نے خمار آلود آواز میں اس سے کہا۔ اور اسکا سر پھر سے اپنے ممے کے ساتھ لگا دیا۔ اس کا منہ پھر سے حرکت میں آیا اور اس بار اس کا نشانہ میرا دوسرا مما تھا۔ اس کا ایک ہاتھ میرے ایک ممے کےساتھ کھیل رہا تھا ور میرا دوسرا مما اس کے منہ کے اندر تھا۔ وہ اپنا پورا منہ کھول کر جتنا ممکن ہو سکتا تھا میرا مما اپنے منہ میں لے کر اسے بھرپور طریقے سے چوس رہا تھا۔ میں مزے کی بلندیوں پر تھی۔ اور اس کا بھرپور ساتھ دے رہی تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد میرے سارے ممے آریان کے تھوک کے ساتھ گیلے ہو گئے۔ میرے منہ سے سسکاریاں نکل رہی تھی اور میرے چوت گیلی ہو چکی تھی۔ جیسے ہی اس نے اپنے منہ سے مما باہر نکالا میں نے اس کو جلدی سے کھڑا کر دیا اور اس کی شرٹ کے بٹن کھول کراس کی شرٹ کو اتار پھینکا۔ اس کا بالوں بھرا سینا میرے سامنے تھا۔ میں بے اختیار ہو کر اس کے سینے کے ساتھ چمٹ گئی۔ اور اپنا چہرہ اس کے سینے کے بالوں میں چپا لیا۔ میرا چہرہ فرط جذبات کے ساتھ سرخ ہو رہا تھا۔ اور سینا دھونکنی کی طرح چل رہا تھا۔ ]تا نہی کیوں مجھ پر ایک عجیب سا نشہ طاری ہو گیا تھا۔ اور میں نہی چاہتی تھی کہ میرا یہ نشہ ٹوٹے۔ کچھ دیر ایسے ہی ہم دونوں ایک دوسرے سے لپٹے رہے۔۔ یہ ایسے فیلینگ تھی جو مجھے پہلے کبھی نہی محسوس ہوئی تھی۔ میں جیسے خمار کی دنیا میں کھو سی گئی تھی اور اب میں اس دنیا سے واپس نہی آنا چاہتی تھی۔ میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل آئے۔ مجھے خود نہی سمجھ آئی کہ ایسا کیوں ہوا تھا۔ میری آنکھوں سے دو موتی نکل کر خاموشی کے ساتھ آریان کے بالوں بھر سینے میں کہیں گم ہو گئے۔ شائد بالوں کی زیادتی کی وجہ سے آریان نے میرے آنسو اپنے سینے پر محسوس نہی کئے تھے۔ ورنہ وہ مجھ سے پوچھتا ضرور کہ میں کیوں روئی ہوں۔ مجھے آریان نے اپنی بانہوں میں کس کے جھکڑا ہوا تھا ۔ پھر اس نے مجھے آہستہ سے اپنے سے الگ کیا اورمیری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا۔ امی میں آج آپ کو کس نام سے پکاروں؟ محبوبہ۔ معشوقہ۔ یا امی؟ میں نے کہا بیٹا مجھے تمھارا دیا ہوا ہر نام قبول ہے۔ مجھے اپنی داسی بنا لو۔ آج میرے انگ انگ کو اپنے پیار سے بھر دو۔ میں تمھاری بانہوں میںٹوٹ کر بکھر جانا چاہتی ہوں۔ آج مجھے توڑ کے رکھ دو۔ اپنی بانہوں میں مجھے قید کر لو۔ مجھے اپنے سینے میں چھپا لو۔ یہ کہتے ہوئے میری آواز کانپ گئی۔ اور میں نے ایک خاموش سسکاری بھری۔ جان من میں تو تم کو کب سے اپنی بانہوں میں قید کرنا چاہتا تھا مگر میں ڈرتا تھا کہیں تم مجھ سے ناراض نا ہو جاؤ۔ اس نے اپنی خمار بھری نشیلی آنکھوں کے ساتھ مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔ میں اس کی آنکھوں میں جیسے ڈوب سی گئی۔ میں نے اس کو ہونٹ اپنے ہونٹوں کی گرفت میں لئے اور اس کے نیچے والے ہونٹ کو چوس کر کہا۔ میری جان میں تم سے ناراض ہونے کا سوچ بھی نہی سکتے تم نے مجھے آج اپنی داسی بنانا ہے میں ہمیشہ تمھاری داسی بن کر رہوں گی۔ مجھجے خود سے کبھی جدا نا کرنا۔ یہ کہتے ہوئے ایک بار پھر میں نے اس کو شرابی ہونٹوں پر ایک حملہ سا کر دیا اور دیوانہ وار اس کے ہونٹوں کو چوسنے لگ گئی۔ اس کا اوپر والا ہونٹ میرے ہونٹوں کے درمیان تھا ور میرا نیچے والا ہونٹ اس کے اپنے منہ کی گرفت میں لے کر اس کو چوس رہا تھا۔ کچھ دیر کے بعد اس نے مجھے خود سے الگ کیا اور میرے پاجامے کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا۔ میں نے بھی اس کی شلوار کی طرف اپنے پاتھ بڑھا دئیے یہ دیکھ کر وہ میرے سامنے کھڑا ہو گیا۔ میں نے اس کی شلوار کا ناڑا کھول دیا ور اس کی شلوار نیچے گر گئی۔ اوئی۔۔۔۔ ماں ں ں ں ں ں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا سیدھا کھڑا لوڑا دیکھ کر میری حیرت کے مارے آنکھیں پھیل گئیں۔ اس کا لن کسی بھی طرح سے پوری جوانی میں تھا اور سیدھا کھڑا تھا۔ اس طرح کا لن میں نے آج پہلی بار دیکھا تھا۔ میں نے اس کے لن پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ وہ ایسے گرم تھا جیسے اس کو بخار ہوگیا ہو۔ افففف،،، کیا موٹائی اور لمبائی تھی میرے بیٹے کے لن کی۔ اس کا لمس محسوس کرتے ہی میری پھدی نے دھائی دینی شروع کر دی کہ ابھی کے ابھی مجھے یہی لن چاہئیے۔ آریان نے بھی میریالاسٹک والی شلوار نیچے کی طرف کھینچی اور میری ٹانگوں کو اپنے سامنے ننگا کر لیا۔ میری بالوں سے صاف اور گوری گوری پھدی دیکھ کر اس کے منہ میںجیسے پانی بھر آیا۔ اس نے جلدی سے نیچے جھک کر میری پھدی کے اوپر والے حصے کر ایک چمی کی اور مجھے بیڈ پر گرا دیا ۔ میں بیڈ پر بکھرے ہوئے پھولوں کے اوپر گری تھی۔ اور اس طرح گرنے سے میرے مموں میں ایک ذبردست اچھال آیا۔ آریان نے بیڈ پر پڑے ہوئے پھول اٹھائے اور میرے اوپر پھینکنے لگا۔ میں جیسے پھولوں سے ساری ڈھل گئی تھی۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے میری آج سہاگ رات ہو۔ اور میں آریان کی دلہن ہوں وہ میرے ساتھ بلکل نئی نیولی دلہن کی طرح برتاؤ کر رہا تھا۔ میری ٹانگیں کھول کر وہ ان کے درمیان جھک کر بیٹھ گیا۔ اور کچھ پھول اٹھا کر اس نےمیری پھدی کے منہ کے عین اوپر رکھ دئیے۔ پھر اس نے اپنا منہ میری پھدی کے ساتھ لگا دیا۔ اففففففف۔۔۔۔۔۔ میری گیلی پھدی پر پھول تھے اور آریان نے ان پھولوں کو الگ نہی کیا تھا۔ وہ پھولوں سمیت ہی میری پھدی کو اپنا منہ کھول کر چاٹنے لگ گیا۔ میری جسم میں کرنٹ سا دوڑ گیا۔ اور میں کانپ کہ رہ گئی۔ پہلے تو اس نے میری پھدی کے ہونٹ اپنے ہونٹون کی گرفت میں لے کر ان کو چوسا اور پھر اپنی زبان نکال کر اس کو اندر کی طرف لے گیا۔ آآآآآآآآآآہہہہہہہہہ۔۔

جیسے ہی اس کی زبانمیں نے اپنے اندر محسوس کی میں نے جلدی سے اس کا سر اپنی پھدی کے ساتھ بھینچ دیا۔ اس کی زبان میری پھدی کے اندر تہلکہ مچا رہی تھی اور وہ بار بار اپنی زبان کو میرے اندر باہر کر رہا تھا۔ اس کی زبان میری پھدی کی دیواروں کے ساتھ ٹچ ہوتی ہوئی کبھی اند اور کبھی باہر کی طرف حرکت کر رہی تھی۔ سسسسسسسسسسییییی۔۔۔۔۔۔۔ میں نے ایک لمبی سی سسکاری بھری۔ پھدی کا پانی نکل نکل کر اس کی زبان کے ساتھ چمٹ رہا تھا اور وہ بار بار اس پانی کو اپنی زبان کے ساتھ صاف کر رہا تھا۔ پھر اس نے اپنی زبان باہر نکالی اور اپنا منہ کھول کر پھدی کا دانہ اپنے منہ میں لے لیا اور ایک بھرپور چوپا لگایا۔ میں نے اپنا ٹانگیں ممکن حد تک کھکول دی تھی۔ اس نے کمال مہارت کے ساتھ اپنا نیچے والا ہونٹ میری پھدی کے اندر لے گیا اور اس طرح پھدی کا دانہ اس کے منہ میں تھا اور اس کا نیچے والا ہونٹ پھدی کے اندر تھا۔ میں آج مزے کی نئی دنیا کے ساتھ متعارف ہو رہی تھی۔ وہ کسی ماہر کھلاڑی کی طرح میری پھدی چوس رہا تھا کہ اچانک میرے جسم نے اکڑنا شروع کر دیا۔ میرےمنہ سے سسکاریوں کا طوفان نکل آیا۔۔ اور یہ سسکاریاں کافی اونچی آواز میں تھیں ۔ مجے پورا یقین تھا کہ میری آوازنوشی کے کانوں تک ضرور پہنچی ہو گی۔ بہرحال میرا جسم ایک بار زور سے کانپااور میری پھدی نے پانی چھوڑ دیا جس کو آریان نے نہایت شاندار طریقے سے پی کر صاف کر دیا۔ میں کچھ دیر تک کانپتی رہی اور آریان اس دوران اپنے چوپے تیز سے تیز کرتا چلا گیا۔ جب میں بلکل فارغ ہو گئ تو میں نے آریان کا سر پکڑ کر اسے اوپر اٹھایا اور اپنے سینے کے ساتھ چپکا لیا۔ مجھے اپنے ٹانگوں کے درمیان اس کا لن کسی لوہے کے راڈ کی طرح محسوس ہو رہا تھا جب میری سانسیں کچھ بحال ہوئیں تو میں نے آریان کو بیڈ پر لٹا لیا اور خود اس کی ٹانگوں کی طرف ہو گئی۔ یہ دیکھ کر اس نے بھی اپنی ٹانگیں کھولی اور میرے سر کو پکڑ کر اپنے لن کی طرھ ہلکا سا پش کیا۔ میں نے نیچے ہاتھ کر کے اس کے ٹٹے اپنے ہاتھ میں لیئے اور اس کے لن کی ٹوپی پر ایک کس کی۔ اس کے لن کے سوراخ میں سے تھوڑی سی مذی نکلی ہوئی تھی۔ میں نے وہ چاٹ کر صاف کر دی۔ اس کی مذی بہت مزے دار تھی۔ میں نے لوڑے کو اوپر کی طرف کیا اور بنا کسی تاخیر کے اس کے موٹے موٹے ٹٹے اپنے منہ کی گرفت میں لے لئیے افففف۔۔ اس کے منہ سے سسکاری نکلی ۔ اس کے ٹٹے بلکل بالوں سے پاک تھے اور بہت صاف کئیے ہوئے تھے۔ آریان کیا تم نے یہ صفائی میرے لیئ کی ہے؟ میں نے ایک کس کرتے ہوئے آریان سے پوچھا۔ جی میری جان میں تو ہمیشی ہی سے ان کو ایسے ہی صاف رکھتا ہوں ۔ اس نے خمار آلود آواز میں جواب دیا۔ میں نے اپنی زبان باہر نکالئ اور اس کے ٹٹوں کے گرد پھیرنے لگی۔ مجھے اپنی زبان پر اس کے ٹٹوں کا لمس محسوس کرتے ہوئے بہت مزہ آ رہا تھا۔ میں نے اپنا منہ کھولا اور جتنا ممکن ہو سکتا تھا ان کو اپنے منہ میں لینے کی کوشش کی۔ میرا دوسرا ہاتھ اس کے غصیلے لن کو سہلا رہا تھا۔ مگر ایسا کرنے سے اس کا لوڑا اور زیادہ غصے میں آ رہا تھا۔ اور وہ مزید اکڑ کر مجھے اکسا رہاتھا ۔ میں نے ٹٹوں کو اپنے تھوک سے پورا پورا گیلا کر دیا۔ اس دوران آریان نے اپنی آنکھیں بند کر رکھی تھی اور اس کے ہاتھ میرے سر کے بالوں میں کھیل رہے تھے۔ پھر میں نے اس کے لن کو سیدھا کیا اور اپنی زبان نکال کر اس کی جڑ سے لے کر ٹوپی تک چاٹا ۔ آریان کا جسم کانپ گیا۔ اس کو شائد بہت مزہ آ رہا تھا۔ میں نے پھر اس کے لن کے اوپر ٹوپی پر اپنی زبان پھیری اور پھر اوپر سے نیچے تک پورے لن کو چاٹ لیا۔ اتنی دیر میں پھدی نے پھر سے گیلا ونا شروع کر دیا تھا۔ آریان کے ہاتھ مسلسل میرے مموں کو دبا رہے تھے۔ وہ کبھی میرے مموں کے نپلز کو مسلتا اور کبھی اپنے ہاتھ میں مما لینے کی ناکام کوشش کرتا۔ میں اٹھ کر بیڈ پر لیٹ گئی۔ اور ٹانگیں ہوا میں اوپر اٹھا کر اس کو دعوتِ چدائی دی۔ آریان نے اپنالن سیدھا کیا اورمیں اٹھی ہوئی ٹانگوں کو اپنے ہاتھوں میں تھام کر ان کو مزید کھول دیا۔ میری تڑپتی ہوئی پھدی کو دیکھ کر ایک بار پھر اس کے منہ میں پانی بھر آیا اور اس نے جھک کر ایک بار پھر میری پھدی کو اپنی زبان لگا کر چاٹ لیا۔ میں سسسیییی کر کہ رہ گئی پھر اس نے اپنا لن پھدی کے اوپر سیٹ کیا اور ایک زبردست جھٹکے کے ساتھ پورا لن میری نرم اور گرم پھدی میں جڑ تک داخل کر دیا۔۔ میرے منہ سے ایک دل دہلا دینے والی چیخ بلند ہوئی۔ اور آریان نے میری چیخ کی کوئی پرواہ نہ کی اور جس طرح اس نے اند ڈالا تھا سی طرح باہر نکالا ایک ہی جھٹکے میں اور پھر ایک دم سےاندر ڈال دیا۔ میرے جسم کو اس کے ہر جھٹکے پر دھکے لگ رہے تھے اور درد کی ٹیس اٹھ رہی تھی ۔ مگر میں نے اپنے ہونٹوں کو اپنے دانتوں میں دبا لیا اور اپنی آواز کو اپنے ہی منہ میں دبا لیا۔ تین چار دھکوں کے بعد آریان نے میری ٹانگیں اپنی کمر کے گرد کر کے خود میرے اوپر لیٹ گیا مگر اس کا لن پھدی کے اندر ہی تھا۔ وہ جھک کر میرے مموں کو اپنے منہ میں لے کر چوس رہا تھا اور میرے منہ سے بے اختیار آہ آہ آہ آہ کی آوازیں بلند ہو رھی تھی۔ آریان نے بیڈ کے کنارے کو پکڑ کر اپنا سارا جسم اوپر کی طرف اٹھا دیا۔ میری ٹانگیں کھللی ہوئی تھی اور اس طرح کرنے سے اس کا سارا لن جڑ کے آخری حصے تک اندر چلا گیا۔ مجھے ایسا لگا جیسے کسی نے میری بچہ دانی کے اندر لوہے کا راڈ مار دیا ہو۔ درد کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ میری آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ مگر اس مرد کے بچے کو زرا سی بھی پروہ نہی تھی کہ اس کی ماں تڑپ رہی ہے۔ وہ بس دھکوں پر دھکے لگا رہا تھا۔ پھر اس نے مجھے الٹا کر دیا۔ اور اپنی دونوں ٹانگیں پھیلا کر میری گانڈ کو اوپر اپنا لن رگڑنے لگا۔ میں سمجھی ک شائد میرے بیٹے کا گانڈ مارنےکا ارادہ ہے۔ میں نے اپنی گانڈ کو اوپر کی طرف اٹھا دیا۔ اس نے اپنے لن کی ٹوپی نیچے کر کے میری پھدی کو اوپر رگڑا۔ میں نے اپنی کمر کو مزید اوپر کی طرف کر لیا۔ تو اس نے لن کو اندر ڈال دیا۔ اففففففففف۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مزے کی ایک نئی لہر میرے جسم میں ڈور گئی۔ اس کا لن میری پھدی کی دیواروں کے ساتھرگڑ کھا رہا تھا اور میں مزے کی نئی دنیا میں پہنچ چکی تھی۔ اچانک سے مجھے لگا کہ میرے جسم سے میرا خون سمٹکر میری ٹانگوں کی طرف آ رہا ہے آآآآآہہہہہ آآآآریاااانننن۔۔ ببب بیٹا۔۔۔ آآآہہہہ۔۔۔ اور زور سے۔۔ ہاںںںنننن۔ افففففففففف میں کہتی جا رہی تھی اور اپنی کمر مزید اس کے پیٹ کے ساتھ چپکائی جا رہی تھی۔ وہ بھی جوش میں آ چکا تھا۔ اس کے دھکوں میں طوفانی رفتار آ گئی تھی۔ تین چار مزید دھکوں کے بعد میری ٹانگوں نے کانپنا شروع کر دیااور میرا جسم پسینے میں شرابور......ہوگیا

اور اخیر کار میں ھو گٸی اسکی دیوانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

ختم شدہ



Post a Comment

0 Comments