سفر
قسط 19
کچھ دیر میرے ہونٹ چوسنے کے بعد فواد نے مجھےاپنے ہاتھوں میں اٹھایا اور خود بیڈ کی ایک سائڈ پر ہو کے بیٹھ گیا اور مجھے اپنی گود میں بٹھا لیا۔ اس کا لن بہت غصے میں لگ رہا تھا۔ یہ بلکل سیدھا کھڑا تھا ابے تک۔۔ میں نے اپنے ہاتھ سے اس کو ٹچ کیا تو یہ ابھی بھی بہت سخت تھا۔ جان آج اس کو کیا کھلایا ہے جو یہ اتنا سخت ہو رہا ہے۔ میں نے فواد کے لن پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے اس سے پوچھا۔ آج اس کو تمھاری پھدی کھلائی ہو اور کچھ نھی کھلایا۔ فواد نے مجھے اپنے لن کے اوپر بٹھاتے ہوئے کہا۔ مگر میں جانتی تھی اس نے ٹائمنگ والیگولیاں کھائی ہوں گی۔۔۔۔اسی لئے اس کا لن ایسے سخت ہو رہا تھا۔ مگر میں نے بھی آج پورا مزہ لینے کا ارادہ کیا ہوا تھا۔ میں اپنی ٹانگیں بیڈ پر پھیلا کر اس کی گود میں بیٹھ گئی جس کی وجہ سے اس کا لن میری پھدی کے اندر گہرائی میں چلا گیا۔ آج میں مزے کی بلندیوں پر تھی۔ اور میں اس ایک ایک لمحے کا پورا پورا مزہ لے رہی تھی۔ فواد نے اپنے ھاتھ میری گانڈ کے نیچھے کر لئے اور مجھے اوپر نیچے کرنے لگ گیا۔ میں بھی اس کا بھرپور ساتھ دے رہی تھی۔ میں اس کی گود میں اچھل اچھل کر لن اپنی پھدی کے اندر باہر کر رہی تھی۔ ایسا کرنے سے لن میری پھدی کی گہرائی میں اتر رہا تھا اور مجھے مزے کی نئی دنیا سے روشناس کروا رہا تھا۔ اچانک جب میں مزے میں ایک بارزور سے اچھلی تو اس کا لن پھدی سے مکمل باہر نکل آیا اور جیسے ہی میں نیچے بیٹھی اس کا لن پھدی کی بجائے میری گانڈ کے سوراخ میں داخل ہو گیا۔ اففففففف۔۔۔۔ کیا مزے کی لہر تھی جو میرے جسم کے انگ انگ میں دوڑ گئی تھی۔ میں نے خوش ہوتے ہوئے اپنی زبان باہر نکالی جسے فوری طور پر فواد نے اپنے منہ میں لے کر ایک بھرپور چوپا لگایا اور مجھے اپنی بانہوں کے درمیان اور زیادہ مضبوطی کے ساتھ جکڑ لیا۔۔ اس نے میری گانڈ کو ہلکا سا اوپر کی طرف اٹھایا اور نیچے سے اچھل اچھل کر میری گانڈ کے سوراخ پر طبع آزمائی کرنے لگ گیا۔ میں اس حالت میں تھی کہ فواد کی گود میںبیٹھ کر اس کا لن اپنی گانڈ کے اندر لیا ہوا تھا اور میں نے فواد کو اپنی باہوں میں جکڑا ہوا تھا اور میرے ممے فواد کے منہ میں تھے۔ فواد جیسے میرے مموں کا دیوانہ ہو گیا تھا۔ وہ ان کو کسی بھی صورت میں اپنے منہ سے باہر نہی نکال رہا تھا۔ پھر ایک دم سے فواد نے اپنے دانت سختی کے ساتھمیرے مموں پر گاڑھ دئیے۔۔۔۔۔۔۔۔ اففففففففففف۔۔۔۔۔۔۔۔ مزے کے ساتھ ساتھ درد کی ایک شدید لہر میرے مموں سےہوتی ہوئی میرے پورے جسم میں پھیل گئی۔۔ میرے منہ سے بے اختیار ایک چیخ نکل گئی۔ میرے منہ سے چیخ کے ساتھ ساتھ ایک موٹی سی گالی بھی نکل گئی۔۔ افففففففف۔۔ مادر چود آرام سے چوسو ان کو۔۔۔۔۔ گالی سئن کر جیسے فواد کو غصہ آ گیا اس نے ایک دم سے میرے بالوں کو اپنی گرفت میں لیا اور زور سے ان کو پیچھے کی طرف کھینچ دیا جس کی وجہ سے میری گردن پیچھے کی طرف ہو گئی۔۔ درد کی وجہ سے میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔۔۔ فواد نے ایک زوردار جھٹکا مارا اور اپنا پورا لن میرے گاند کی گہرایوں میں اتار دیا۔۔ سالی حرام کی جنی مجھے گالی دیتی ہے۔۔۔ اور یہ کہتے ہی اس نے اپنی رفتار اور زیادہ تیز کر دی۔۔ میں درد کی شدت سے بلبلا اٹھی مگر اس کافر کی صحت پر کوئی اثر نہی تھا۔ اس نے مجھے بیڈ پر گرا دیا اور میری ٹانگیں اٹھا کر اپنے کاندھوں کے ساتھ لگا لیں اور میری کھلی اور پوری طرح سے بھیگی ہوئی پھدی کو کپڑے سے صاف کر دیا اور اس کے بعد اپنے لن کو بھی صاف کر لیا۔ میں سامجھ گئی کہ یہ کیا کرنے والا ہے اور میں نے اپنے آپ کو انے والی ازیت کے لئیے ذہنی طور پر تیار کو ہی رہی تھی کہ اچانک فواد نے میری ٹانگیں پوری طرح سے کھول دی اور بنا سوچنے کا ٹائم دئیے اس نے اپنا خشک لن میری پھدی کے اندر اپنی پوری طاقت کے ساتھ دھکیل دیا۔۔۔ پھدی گیلی تھی تو مجھے مزہ آ رہا تھا۔ مگر خشک پھدی کے اندر لن ٹھیک طرح سے جا نہی رہا تھا اور فواد نے بھی جیسے آج قسم کھائی ہوئی تھی کہ اس نے میری پھدی کو پھاڑ ہی دینا ہے۔ فواد نے ایک دم سے اپنا پورا زور لگایا اور لن بہت ہی مشکل سے پھنس پھنس کر میری خشک پھدی کی دیواروں کو چیرتا ہوا اندر جانے لگا۔۔ میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ اور میری چیخ نکل گئی۔ میں نے خود کو چھڑوانے کی بہت کوشش کی مگر ظالم نے اتنی مضبوطی کے ساتھ مجھے جکڑا ہوا تھا کہ میں اس کی گرفت سے نکل نہی پا رہی تھی۔ میری لاکھ کوشش کے باوجود میں اپنی پھدی کو گیلا نہی کر پا رہی تھی۔۔۔ کیونکہ اس وقت مجھے مزہ نہی بلکہ درد ہورہا تھا اور درد کی انتہا ہو گئی تھی۔۔۔ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔ میں درد کی شدت سے مری جا رہی تھی اور فواد اپنے لن کو میری پھدی میں اپنی پوری قوت کے ساتھ اندر باہر کرنےمیں مصروف تھا۔۔ آخر کار میری محنت رنگ لائی اور پھدی کچھ حد تک گیلی ہو گئی اب فواد کا لن مجھے اتنی اذیت نہی دے رہا تھا۔ میں نے بھی اب اس کا ساتھ دینا شروع کر دیا تھا۔۔ کچھ دیرایے ہی رہنے کے بعد میری پھدی کافی زیادہ گیلیہو گئی تھی اور فواد کا لن اب بڑے آرام کے ساتھ اندر باہر ہو رہا تھا۔ فواد آج فارغ ہونے کا کوئی چانسنہی ہے کیا؟ میں نے روہانسے لہجے میں فواد سے پوچھا۔۔ کیوں؟ تھک گئی ہو کیا؟ فواد پمپ کرتے ہوئے بولا۔۔۔ اس کی سانس بہت زیادہ پھول گئی تھی اور میرا بھی حشر ہو گیا تھا۔۔۔ پھر اچانک ہی میرا جسم اکڑنا شروع ہو گیا۔۔۔ میں چیخ کر بولی ففففف ففوااااددد۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ممم میری پھدی۔۔۔۔۔۔۔۔ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اسی کے ساتھ ہی میری جسم کو نا قابل برداشت جھٹکے لگنے لگ گئے اور میں ایک بار پھر سے فارغ ہو گئی۔۔۔ میری سانسیں تھوڑی بحال ہوئیں تو میں نے خود کو اس کی گرفت سے چھڑایا اور سیدھی ہر کر بیٹھ گئی۔ فواد نے اپنا لنمیرے منہ کے سامنے کر دیا۔ میں نے جلدی سے اس کا لن اپنے منہ میں لے کر اس کو چوسنا شروع کر دیا۔ پھر میں نے لن کو منہ سے باہر نکالا اور اس کے ٹٹے اپنے منہ میں لے کر ان پر اپنے دانت ہلکے ہلکے لگائے۔۔ اففففف۔۔۔۔۔۔ فواد کے منہ سے ایک سسکاری نکلی۔۔۔۔ اسے بہت مزہ آ رہا تھا۔ اس نے میرے سر کو پیچھے کی جانب سے پکڑا اور میرا منہ زور کے ساتھ انپے ٹٹوں کے ساتھ لگا دیا۔ میں پوری کوشش کر رہی تھی کہ اس کے ٹٹے میری منہ سے باہر نانکل جائیں۔۔۔ میرے منہ کی گرمی سے آخر کار فواد کالن پگھل ہی گیا۔۔ فواد نے اچانک سے میرا چہرہ پکڑا اور میرے منہ سے اپنے ٹٹے چھڑوا کر اپنا لن جڑتک میرے منہ میں داخل کر دیا۔ مجھے زور کی کھانسی ہوئی مگر فواد نے میرا چہرہ پیچھے نہی کرنے دیا۔۔ اس کا لن ایک دم سے پھول گیا اور پھر اس میں سے ایک گرما گرم مادے کی دھار نکلی جو سیدھی میرے حلق میں جا کر لگی۔۔۔۔ اس کا جسم بری طرح سے جھٹکے کھا رہا تھا۔ وہ اب بھی میرے منہ کو ہی چودے جا رہا تھا۔۔ میں نے بھی اس کا سارا مادہ اپنے حلق میں سے نیچے اتار لیا اور پھر ایک زبردست چوپا لگ کر اس کے لن کا آخری قطرہ بھی چوس لیا۔۔۔۔ ہم دونوں نڈھال ہو کربیڈ پر ہی گر گئے تھے۔۔۔ کچھ دیر سانسیں بحال کرنے کے بعد میں اٹھ کر واشروم چلی گئی مجھ سے ٹھیک طرح سے چلا بھی نہی جا رہا تھا۔ جیسےہی میں واشروم کے دروازے میں پہنچی فواد بھی بھاگتا ہوا آیا اور بولا کیا کرنے لگی ہو جان؟میں نے کہا کہ مجھے پیشاب بہت تیز آیا ہوا ہے۔۔۔۔۔ اس کے بعد نہاوں گی۔۔ او کے مگر پیشاب تم میرے کہنے کے مطابق کرو گی۔۔ کک کیا مطلب۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔۔ میری جان زیادہ پریشان نا ہو۔ میرا مطلب ہے کہ جیسے میں کہوں گا تم نے ویسے پیشاب کرنا ہے۔ اچھا۔۔۔ کیسے کرنا ہے جناب؟ میں نے اپنے ہاتھ اپنے ننگے کولہوں پر ٹکاتے ہوئے ایک ادا کے ساتھ فواد سے پوچھا۔۔۔ وہ ایسے کرنا ہے کہ میں نیچھے بیٹھتا ہوں تم میرے اوپر ٹانگیں پھیلا کربیٹھو۔ اور اپنا پیشاب میرے لن کو اوپر بہا دو۔۔۔ اففف۔۔۔فواد اس سے کیا ہوگا؟ میں نے فواد سے پوچھا۔۔ اس سے یہ ہوگا ک میرا لن تمھارے پیشاب کے ساھ بھیگ جائے گا اور مجھے بہت مزہ آئے گا۔۔۔ فواد نے ہنستے ہوئے مجھ سے کہا۔۔ اچھا ٹھیک ہے بابا اب جلدی سے نیچے لیٹ جاؤ مجھ سے رکا نہی جا رہا۔۔۔ میں نے اتنا کہہ کر اپنی ٹانگیں پھیلا دی۔۔ فواد بھی میری پھدی کے بلکل نیچے پیٹ گیا ۔ اس کا لن میری پھدی کے بلکل نیچے تھا۔۔ میں نے اپنی پھدی کے ہونٹ اپنے دونوں ہاتھوں کی مدد سے کھول دئے تاکہ پیشاب ادھر ادھر نا گرجائے۔۔ فواد میرے پیشاب کے نیچے اپنے لن کو الٹا سیدھا کر رھا تھا جیسے وہ اس کے ساتھ اپنے لن کو دھو رہا ہو۔۔۔۔ مجھے پتا نہی کیا ہو رہا تھا۔۔ فواد کے منہ سے مسلسل سسکاریاں نکل رہی تھی اور میں سوچ رہی تھی کہ ایسا کرنے سے فواد کو کیا مزہ آتا ہوگا۔۔۔ جب میں پیشاب سے فارغ ہو گئی تو میں نے پوچھا فواد آپ کو کیا مزہ آیا ہوگا ایسا کرنے سے۔۔ میری بات کا جواب دینے کی بجائے فواد نے مجھے نیچے لیٹنے کا کہا اور میری ٹانگیں پھیلا دی۔۔۔ میری پھدی اب فواد کے سامنے تھی۔ میں سمجھی کہ شائد پھر سے فواد میری پھدی مارے گا مگر میں غلط تھی۔ فواد نے اپنا لن ہاتھ میں پکڑا اور اس کا منہ سیدھا میری پھدی کی طرف کر دیا۔۔۔ پھر اس نے اپنے پیشاب کی دھار سیدھی میری پھدی کے اوپر ڈال دی۔۔۔۔ اففففففف۔۔۔۔۔ جیسے ہی فواد کے گرم گرم پیشاب کی دھار میری پھدی کے کھلے ہوئے ہونٹوں پر پڑی میری جیسے جان ہی نکل گئی۔۔۔ میں ایک دم سے تڑپ اٹھی۔ فواد اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور اپنے پیشاب کی دھار اب وہ اور زیادہ نزدیک سے میری پھدی کے اندر ڈال رہا تھا۔۔ میری جان نکل گئی تھی میں ایک بار تڑپنے لگی تھی۔۔۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے فواد کے لن میں کوئی نلکا کھل گیا ہے ۔۔ میں نے جی بھر کے فواد کے پیشاب کا مزہ لیا۔۔۔۔ جب وہ کھالی ہو گیا تو پھر میں نے اور فواد نے ایک ساتھ غسل کیا ۔۔ غسل کے دوران ایک بار پھر فواد نے میری پھدی ماری مگر اس بار اتنا ٹائم نہی لگایا اس نے۔۔۔ میں نے بھی اپنی پھدی کا پانی ایک بار پھر نکال دیا تھا۔۔ کپڑے پہن کر ہم باہر آ گئے۔۔۔۔ پھر کھانا کھا کر ہی مجھے فواد نے مجھے واپس آنے دیا۔ کھانا کھانے کو دوران بھی وہ میرے ہونٹ چوستا رہا۔۔ مینبہت خوش تھی۔۔ مجھے میرا پیار مل گیا تھا۔ ہم ایک دوسرے سے بہت سے واعدے کر کے اپنے اپنے گھر واپس چلے
گھر آ کر کھانا کھایا اور اپنے کمرے میں سونے کے لئیے چلی گئی۔۔ میں اتنی تھکی ہوئی تھی کہ مجھے پتہ نہی چلا کہ کب نبیل آئے اور کب صبح ہوئی۔ صبح جب میں اٹھی تو دھوپ کافی نکلآئی تھی۔۔ میں فریش ہو کر کچن میں گئی تو آنٹی چائے بنا رہی تھی۔۔ مجھے دیکھ کر مسکرا دی اور پوچھنے لگی کہ اگر ناشتہ کرنا ہے تو میں بنا دوں؟ جی بنا دیں۔۔ آنٹی نے مجھے اپنے پاس آنے کا کہا اور مجھے اپنے گلے کے ساتھ لگا لیا۔۔ رات سکون سے سوئی تھی میری بیٹی یا میرے بیٹے نے تنگ کیا تھا؟ وہ مسکراتے ہوئے مجھ سے پوچھ رہی تھی۔۔ نہی آنٹی ایسی تو کوئی بات نہیہے میں آرام سے سوتی رہی ہوں۔ مجھے تنگ نہی کیاہے نبیل نے۔ گڈ۔ آنٹی نے میری طرف بغور دیکھتے ہوئے مجھ سے پوچھا کہ کل فواد نے زیادہ ظلم تو نہی کیا تھا میری بچی پر؟ میں جھینپ سی گئی۔۔ ارے نہی نہی آنٹی وہ تو بڑے پیار سے پیش آئے تھے میرے ساتھ۔۔ بس اسی وجہ سے کچھ تھکاوٹ ہو گئی ہے مجھ کو۔۔۔ اور کوئی بات نہی ہے۔۔ میں اتنا کہہ کر ناشتہ کرنے لگ گئی۔۔۔ کچھ دن ایسے ہی سکون سے گزرتے رہے کوئی خاص واقعہ پیش نہی آیا۔۔ پھر ایک دن میرا دل بہت اداس تھا تو میں نے نبیل سے کہا کہ مجھے میری امی کی طرف لے چلیں۔ وہ مجھے شام کو میری امی کی طرف لے گئے۔ امی کی طرف جا کر میں کچھ ریلیکس محسوس کر رہی تھی۔ شام کو نبیل مجھے چھوڑ کر واپس چلے گئے۔ رات کو کھانے کے ٹیبل پر امینے مجھے بتایا کہ آریان کے رشتے آ رہے ہیں میں چاہتی ہوں کہ اپنی زندگی میں ہی آریان کی شادی بھی ہو جائے تو میرے دل سے یہ بوجھ بھی اترجائے۔ ہممم۔۔ کہہ تو آپ ٹھیک رہی ہیں مگر کوئی لڑکی دیکھی بھی ہے آپ نے ابھی تک ا نہی؟میں نے امی سے پوچھا۔ نہی بیٹا ابھی تک تو کہی لڑکی نہی دیکھی ہے۔ اب تم آ گئی ہو تومیرے خیال میں ہم دونوں کل چلتے ہیں اور لڑکی دیکھ آتے ہیں۔۔ کیا کہتی ہو؟ امی کی بات سن کر میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ ٹھیک ہے امی جان میں تیار ہوں کل چلتے ہیں۔ اور جلد سے جلد اس کی شادی کر دیں تاکہ ہی بھی اپبی زندگی کا مزہ لے سکے کب تک صابن پر گزارہ کرتا رہے گا۔۔ کھی کھی کھی کھی۔۔ ہم دونوں قہقہہ لگا کر ہنس دی۔ دوسری صبح ہم تیار ہو کر لڑکی والوں کے گھر چلی گئی۔ ہمیں وہلڑکی کوئی خاص پسند نہی آئی۔۔ مگر وہاں سے ہم دو تین اور گھروں میں بھی گئے جہاں سے رشتے آئے ہوئے تھے۔ آخر کار ایک لڑکی ہمیں پسند آ گئی نازیہ لڑکی کا نام تھا اور بی اے کر رہی تھی اور اسی مہینے کے آخرمیں اس کے فاینل پیپر تھے۔ ہمیں شادی کی جلدی تھی ساور لڑکی والےبھی مان گئے کہ پیپرز سے فری ہو جائے لڑکی تو پھر آپ لعگ شادی کی تیاری شروع کر دینا۔ تھوڑے دن کے بعد وہ لوگ بھی آئے اور آریان کو پسند کر کہ چلے گئے۔ لڑکی بہت پیاری تھی اور بہت سلجھی ہوئی لگ رہی تھی۔ ایک دن امی میرے گھر آئی تو کچھ پریشان لگ رہی تھی۔ مٰن نے پوچھا تو کہنے لگی کہ میں آریان کی وجہ سے کچھ پریشان ہوں۔ کیوں کیا ہوا؟ میں نے پوچھا۔ امی کہنے لگی کہ بیٹا پتا نہی کیوں مھے ایسا لگ رہا ہے جیسے آریان ابھے شادی نہی کرنا چاہتا۔ کل رات کو میری آریان کے ساتھ بات ہو رہی تھی تو وہ کہہ رہا تھا کہ میں ایسے شادی نہی کروں گا۔ اچھا تو پھر وہ کیسے شادی کرنا چاہتا ہے؟ اصل میں بیٹی ایک دن میں گھر اکیلی تھی اور میں اپنے موبائل پر پورن مووی دیکھ رہی تھی کہ اچانک آریانآ گیا اور مجھے بلکل بھی پتا نہی چلا کب وہ میرے پیچھے آ کر میری اس حرکت کو دیکھ رہا ہے۔۔ جب مجھے پتا چلا تو وہ مجھے کافی غصے میں دیکھ رہا تھا۔۔ اس کا پارہ آسمان کو چھو رہا تھا۔۔ وہ اپنے کمرے میں چلا گیا۔ مٰں بھی اس کے پیچھے بھاگی ۔ جیسے ہی میں اس کے کمرے میں داخل ہوئی اس نے میرے منہ پر ایک تھپڑ جڑ دیا، میں ہکی بکی اسے دیکھتی رہ گئی۔ پھر وہ غصیلی آواز میں بولتا چلا گیا۔ میں بس شرمندہ سی بیٹھی سنتی رہی۔ مجھے سمجھ نہی آ رہی تھی کہ میں کیا بولوں اور کیا نا بولوں۔ مگر وہ بولتا چلا گیا۔ جب بول بول کر تھک گیا تو میرے سامنے بیٹھ کر رونے لگ گیا۔ میں نے اس کو النے گلے سے لگا لیا اور ہم دونوں ماں بیٹا کافی دیر تک روتے رہے۔ جب رو روکر ہم دونوں کا دم ہلکا ہو گیا تو مجھے ایسا محسوسہوا جیسے آریان میرے مموں کے ساتھ اپنا چہرہ بہت زور زور سے لگا رہا ہے۔ پہلے تو میں اس کو اپنا وہمسمجھی مگر ۔۔ ایسا تھا نہی۔۔ جب اس نے اپنا چہرہایک بار پھر میرے مموں کے درمیان دھنسایا تو مجھے سمجھ آ گئی ۔ میں نے اس کو خود سے الگ کرنا چاہا تو اس نے مجھے اپنی بانہوں کے درمیان مضبوطی کے ساتھ جکڑ لیا۔ میں اس ساری صورت حال سے پریشان ہو گئی۔ مین نے اسے کہا دیکھو آریان تم کیا کر رہے ہو؟ مجھے جانے دو۔ مگر یہ کسی ضدی بچے کی طرح اڑ گیا تھا ۔ میں کسی نا کسی طرح سے کمرے سے باہر نکل گئی ۔ صبح ناشتہ کرتے ہوئے یہ کہہ رہا تھا کہ میں نے شادینہی کرنی۔ میں نے پوچھا کہ کیوں نہی کرنی شادی تو کہنے لگا کہ مجھے خود پر یقین نہی ہے۔ کیوں یقین نہی ہے؟ میں نے پوچھا تو کہنے لگا کہ مجھے نہی لگتا کہ میں اپنی بیوی کو خوش رکھسکو گا۔ مجھے اس کی بات ک سمجھ نہی آ رہی تھی کی کیا کہنا چاہ رہا ہaے۔۔۔ مجھے کچھ بھی بتائے بنا ہی وہ گھر سے باہر چلا گیا ۔ اور اب رات کو لیٹ گھر آتا ہے اور صبح صبح گھر سےچلا جاتا ہے نا مجھ سے کوئی بات کررہا ہے نا کچھ بتا رہا ہے۔ میں بہت پریشان ہوں بیٹی تم ہی کچھ مدد کرو میری۔ ہمممم۔۔ امی چپ ہوئی تو میں نے ہنکارابھرا۔ ٹھیک ہے میں ہفتہ والے دن شام کو آتی ہوں اور اس سے بات کرتی ہوں ۔ اور مجے ومید ہے وہ مجھے ساری بات بتا دے گا۔ اگر اس کو کوئی لڑکی پسند ہے تو بھی ٹھیک ہے ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے ہم اس سے اس کا رشتہ کر دیں گے۔ امی کہنے لگی کہ کہیں ایسا تو نہی کہ یہ لڑکی کے قابل ہی نہی ہے جو ایسے چادی کے نام سے بھاگ رہا ہے؟؟۔ امی کی یہ بات سن کر میں ہنس دی۔ ارے نہی امی جان وہ بہت پاورفل آدمی ہے۔ اس کا نظارہ میں کر چکی ہوں اور وہ کسی بھی لڑکی کی خواہش پوری کر سکتا ہے۔ آپ فکر نہ کریں میں کچھ کرتی ہوں۔ میں نے امی کو تسلی دے کرگھر بھیج دیا اور خود سوچنے لگ گئی کہ کیا مسلئہ ہو سکتا ہے۔ اسی سوچ بچار میں ہفتہ کا دن بھی آگیا۔ نبیل مجھے امی کی طرف چھوڑ کر خودواپس آگئے ہفتہ کی شام ان کے دوستوں نے کوئی پارٹی رکھی ہوئی تھی اور میں اس پارٹی میں جانا نہی چاہتی تھی۔ کیونکہ مجھے پتا تھا اس پارٹی میں کیا ہونا ہے۔ رات کو آریان کافی لیٹ گھر آیا۔ میں اس واقت جاگ رہی تھی۔ مجھے دیکھ کر وہ خوش ہو گیا۔ میں نے اس کو گلے سے لگا لیا۔ حال احوال پوچھنے کے بعد ہم دونوں اس کے کمرے میں آگئے ۔ میں نے ادھر ادھر کی باتوں میں وقت ضائع کرنے کی بجائے سیدھے مدعے پر آنے کا سوچا۔ آریان میں تم سے بات کرنے کے لئے آئی ہوں۔اور امید ہے تم میرا اور اپنا وقت ضائع کئیے بنا صافصاف بتا دو گے۔ جی باجی حکم کریں کیا بات کرنی تھی آپ نے ؟ آریان سعادت مندی سے بولا۔ بات ہی ہے میرے بھائی کہ مجھے پتا چلا ہے کہ تم شادی نہی کرنا چاہتے۔۔ کیا وجہ ہے؟ اگر کوئی اور لڑکی پسند ہے تو بتا دو ہم اس سے تمھارا رشتہ طے کر دیتے ہیں ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ ہمیں خوشی ہوگی اگر تمھاری پسند کی لڑکی ہمارے گھر میں آ جائے گی۔ نہی باجی ایسے کوئی بات نہی ہے۔ آریان میری بات سن کے بولا۔ پھر کیسی بات ہے؟ میں نے سوال کیا۔ وہ باجی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دراصل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نن نہی ایسی کوئی بات نہی ہے۔ آریان اٹک اٹک کر بات کر رہا تھا، اچھا تو پھر کیسی بات ہے میرے بھائی؟ میں نے اس کے بالوں میں پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے اس سے پوچھا۔ میں دیکھ رہی تھی کہ آریان مجھے سے بات کرتے ہوئے بار بار اپنے ہاتھوں کی انگلیاں مروڑ رہا تھا۔دیکھو آریان تم میرے بچے کی طرھ ہو مجھ سے کھل کر بات کرو کیا بات ہے؟ میں نے آریان کو اپنےقریب کرتے ہوئے اسے گلے سے لگا لیا۔ وہ و بب باجی آپ امی سے کہہ دیں کہ مجھے شادی میں کوئی اتراض نہی ہے۔ آپ میری طرف سے بے فکر ہو جائیں۔ آریان کہہ رہا تھا مگر مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے آریان اپنی جگہ پر موجود نہی ہے۔ مجھے سمجھ نہی آ رہی تھی کی میں اس کے ذہن میں موجود بات کو کیسے باہر نکالوں۔ ہم دونوں رات دیر تک بیٹھے بات کرتے رہے مگر مجھے کسی بھی بات کا کوئی بھی سرا نا مل سکا کہ پرابلم کدھر ہے۔ خیر تھک ہار کر میں نے کہا ٹھیک ہے اگر تم نہی بتانا چاہ رھے تو کوئی بات نہی۔ میں امی کو کہہ دیتی ہوں کہ آریان ابھی ذہنی طور پر شادی کے لئے تیار نہی ہے آپ لڑکی والوں کو منع کر دیں ۔ میں اتنی بات کہہ کر کمرے سے باہر چلی گئی۔ مجھے چین نہی آ رہا تھا میں سونے کی کوشش کرتی رہی مگر نیند میری آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ مین کچھ دیر ایسے ہی کروٹیں بدلتی رہی پھر اٹھ کر آریان کے کمرے کی طرف چلی گئی۔ آریان کے کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ میں اندر داخل ہوگئی۔ وہ کمرہ میرے بھائی کا تھا اس لئے مجھے دروازہ کھٹکھٹانے کی ضرورت ہی محسوس نہی ہوئی ۔ آریان کمرے میں نہی تھا۔ اس کے واشروم کی لائٹ جل رہی تھی اور اس کی ہلکی ہلکی آوازیں بھی آ رہی تھی جیسے کسی کےساتھ باتیں کر رہا ہو۔ میں سمجھی کہ اپنی معشوقہ کے ساتھ فون پر باتیں کر رہا ہے۔ میں تجسس کے مارے واشروم کے دروازے کے پاس پہنچ گئی ۔ سنوں تو سہی کہ میرا بھائی کس لڑکی سے کیا بات کر رہا ہے شائد یہ مسلئہ بھی حل ہو جائے جو وہ مجھے نہی بتانا چاہ رہا۔ میں دروازے کے پاس پہنچی تو میرے کانوں میں ایسے آواز آئی جیسے آریان نے سسکی لی ہو۔ میں سمجھی کہ وہ رو رہا ہے۔ مگر غور کرنے پر مجھے پتا چل گیا کہ وہ کسی لڑکی کے ساتھ بات نہی کر رہا بلکہ اپنے آپ کے ساتھ ہی بات کر رہ ہے۔۔ آآآہہہہ۔۔ کاش امی آپ میری بیوی بن جاتی۔۔ افففف۔۔۔۔ آپ کے ممے دیکھ دیکھ کر مجھے پتا نہی کیا ہو جاتا ہے۔۔۔ افففففف۔۔۔۔۔ آآآہہہہ۔۔ ساتھ ساتھ پچک پچک کی آوازیں بھی آ رہی تھی۔میرے پیروں تلے سے ذمین نکل گئی۔ میں سمجھی کہ اس وقت امی آریان کے ساتھ ہیں۔ مگر میں تو ان کو اپنے کمرے میں سوتا ہوا چھوڑ کر آئی تھی۔ پھر۔۔۔۔ مجھے سمجھ آ گئی کہ میرا بھائی اپنی امی کے نام کی مٹھ لگا ہرا ہے۔ میں کچھ کچھ ایکسائٹڈ ہو گئی۔ کہ دیکھوں تو سہی کہ آریان امی کے نام کی مٹھ کیسے لگا رہا ہے۔آآآہہ امی جان کاش ۔۔ ایک بار مجھے اپنی پھدی چوسنے کا موقع دے دیں۔ جب سے آپ کو پورن مووی دیکھتے ہوئے دیکھا ہے میرا لن آپ کی پیاس میں تڑپ رہا ہے۔۔ آہہہ۔۔۔۔ امی جاننننن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں آپ کے مموں کا دیوانہ ہو گیا ہوں۔۔ وہ یہ سب باتیں کر رہا تھا اور ساتھ ہی ایک لامبی سسکاری کے ساتھ وہ شانت ہوتا چلا گیا۔ آریان کی پیٹھ میری طرف تھی میں دیکھ نہی سکی کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ مگر اتنا مجھے بھی پتا چل گیا تھا کہ آریان کے لن نے اپنا پانی چھوڑ دیا ہے۔۔ میںسب سمجھ گئی کہ آریان صاحب شادی سے کیوں انکار رہے ہیں؟۔۔۔ میں نے دل ہی دل میں ایک پلان بنایا اور اس پر عمل کرنے کا سوچا۔۔۔۔ مگر سوال یہ تھاکہ کیسے۔۔۔ وہ بھی میرے ذہن میں تھا کہ کیسے عمل کرنا ہے اس بات پر۔ میں تھوڑی دیر کے لئے آریان کے کمرے سے باہر نکل گئی اور تھوڑی دیر کے بعد واپس آ کر میں نے اس کے دروازے پر دستک دی۔۔۔۔ جی کون؟ آریان نے اندر سے پوچھا۔ میں ہوں آریان۔ اور ساتھ ہی اس کے کمرے میں داخل ہو گئی۔ وہ بولا جی باجی کہیں کیا کہنا تھا۔ وہ کہنا یہ تھامیرے بھائی کہ صبح ناشتہ ہمارے ساتھ ہی کرنا۔۔ مجھے امی نے بتایا ہے کہ تم آجکل گھر میں ناشتہ نہی کرتے ۔۔۔ جی ٹھیک ہے۔۔۔ اس نے سعادت مندی سے سر ہلا دیا۔ اس کی طرف سے مطمئن ہو کر میں اپنے کمرے میں آ گئی اور بے فکر ہو کر سو گئی۔صبح میری آنکھ امی کی آواز سے کھلی۔ میں فریش ہو کر باہر نکلی تو آریان پہلے ہی ناشتے کیٹیبل پر موجود تھا۔ میں بھی کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔ امی ناشتہ بنا رہی تھی۔ میں نے امی سےکہا کہ وہ بھی آ جائیں اور ہمارے ساتھ بیٹھ کر ناشتہ کریں۔ امی آ کر بیٹھ گئی۔ ہم ہم تینوں نے بہت خاموشی کے ساتھ ناشتہ ختم کیا۔ ناشتے سے فارغ ہوکر میں نے آریان سے پوچھا کہ اس نے کہیں جانا ہے آج یا گھر پر ہی ہے؟ جی باجی میں نے جانا تو کہیں نہی ہے۔ کیوں کوئی کام تھا باجی؟ آریان نے مجھ سے پوچھا۔ نہی کوئی خاص کام نہی تھا تم اپنے کمرے میں چلو میں آتی ہوں تم سے کوئی بات کرنی ہے میں نے۔ جی بہتر آریان اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔ جیسے ہی آریان اٹھا میں نے امی کو اشارہ کیا اور ان کو لے کر کچن میں چلی گئی۔ امی مجھے پتا چل گیا ہے کہ آریان شادی سے کیون بھاگ رہا ہے۔ میں نے امی سے کہا۔ کیا پتا چلا ہے ؟ امی نے مجھ سے سوال کیا۔ امی وہ دراصل ۔۔۔ میں اتنا کہہ کر خاموش ہو گئی۔ کیا ؟؟؟؟ امی میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ وو وہ امی دراصلآریان۔۔۔ اب مجھے سمجھ نہی آ رہی تھی کی میں کیسے امی کو سمجھاؤں کہ آپ کا لاڈلا آپ ہی کے عشق میں گرفتار ہو چکا ہے ۔۔۔۔۔ بیٹی کیا بات ہے کھل کر بات کرو۔ مجھے بہت گھبراہٹ ہو رہی ہے تمھاری اس خاموشی سے۔ امی نے مجھے پر زور دیتے ہوئے مجھ سے کہا۔ امی وہ دراصل آریان کو کسی سے عشق ہو گیا ہے اور وہ اپن شادی سے پہلےاس سے پیار کرنا چاہتا ہے۔۔ ھائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !!!!!!!!!! امی نے اپنا ایک ہاتھ اپنے منہ پر رکھتے ہوئے حیرانگی سے کہا۔ کس سے؟ کون ہے وہ لڑکی۔ اور اگر وہ کسیلڑکی سے پیار کرتا ہے تو اس سے شادی کیوں نہیکرنا چاہتا؟ امی وہ اس سے شادی نہی کر سکتا یہیسب سے بڑی پرابلم ہے۔ میں نے جواب دیا۔ کیوں کیا مسلئہ ہے؟ ہم بات کریں گے اس کے گرھ والوں سے۔ اور ایک بات تو بتاؤ اس نے یہ باتیں تم سے خود کہی ہیں کیا؟ امی ایک ساتھ سارے سوالات کئیے جا رہی تھی۔ نہی امی جان اس نے مبج سے تو کچھ نہی کہا ۔ میں نے اپنے کانوں سے سنا ہے۔۔ ہممم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا مطلب میرا شک ٹھیک تھا۔ کسی لڑکی کا چکر ہے اور یہ موصوف ہمیں کچھ نہیبتا رہے تھے۔ تم بڑی چھپی رستم نکلی۔۔ ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امی بول رہی تھی اور میں سوچ رہی تھی کہ امیکو یہ نہی پتا کہ وہ لڑکی نہی ایک عورت ہے اور اسی عورت کے ساتھ میرے بھائی کو پیار ہو گیا تھا جس کا ظاہر ہے میری پیاری امی جان کو پتا نہی تھا۔ امی اگر میں آپ کو بتا دوں کہ وہ لڑکی یا عورت کون ہے جس کے ساتھ آریان کو پیار ہو گیا ہے تو آپ کیا کریں گی؟ میں نے پر سوچ انداز میں امی سے پوچھا۔ کیا مطلب ہے تمھارا نوشی کھل کر بات کرو۔ امی کچھ نا سمجھتے ہوئے مجھ سے مخاطب ہوئی۔ دیکھیں امی جان آریان کو ایک بڑی عمر کی عورت سے پیار ہو گیا ہے اور وہ اپنی شادی سے پہلے اس عورت کو پیار کرنا چھاہتا ہے۔ اور جہاں تک میں آریان کو سمجھتی ہوں وہ جب تک اپنے دل میں چھپا پیار باہر نہی نکالے گا شادی کے لئے راضی نہی ہوگا۔۔۔۔۔ میں نے اپنی بات روک کرامی کی طرف دیکھا۔ یعنی تم یہ کہنا چاہ رہی ہو کہ ہمارا بیٹا اپنی شادی سے پہلے اسی عورت کے ساتھ سونا چاہتا ہے جس سے اس کو محبت ہو گئی ہے؟ امی نے مجھ سے پوچھا۔ جی امی جان میرا مطلب یہی تھا۔۔۔ میں نے ان کی بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا۔ ہممممم۔۔۔۔۔۔۔ امی نے ایک ہنکارہ بھرا۔ اس کا مطلب ۔۔۔۔ اب آریان کو شادی کے لئے راضی کرنا ہے تو پہلے اس کی پسند ڈھونڈنی پڑے گی۔ مگر کیسے؟ وہ بتاتا بھی تو کچھ نہی ہے۔۔۔ امی نے اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو مروڑتے ہوئے کہا۔۔۔ ارے امی جان اس کے پیار کو ڈھونڈنا کوئی مشکل کام نہی ہے۔ وہ آپ مجھ پر چھوڑ دیں۔ بس یہسوچیں کہ اگر وہ نا مانی تو پھر کیا ہوگا؟ آریان شادی کے لئے نہی مانے گا۔ میں نے امی کو کچھ ڈرانے والے انداز میں کہا۔۔۔۔ مگر پتا تو چلے کہ وہ ہے کون؟ اگر اس کا کچھ پتا چل جائے تو میں خود اس عورت کے پاس چلی جاؤں گی اور اس کو منا لوں گی اپنے بیٹے کی خوشی کے لئے۔۔۔۔ امی نے مجھ سے کہا۔ ٹھیک ہے اگر آپ کو خود پر اتنا ہی اعتماد ہے تو میں آج شام تک اس کا پتا ڈھونڈ کر آپ کو بتا دوں گی ۔۔ آگے آپ جانے اور آپ کا کام۔ سارا دن میں اورامی گھر کے مختلف کاموں میں مصروف رہی۔ آریان کوکہیں جانا تھا وہ چلا گیا۔ جب شام ہوئی تو میں نےامی سے کہا کہ آج آپ اچھے سے تیار ہو جائیں۔ کیوں آج کیا خاص بات ہے؟ امی نے پوچھا۔ وہ دراصل امی جان میں نے آج آپ کو آریان کی محبت سے جو ملوانا ہے۔ اس لئیے کہہ رہی ہوں۔ ہممم او کے۔ امینے کہا ۔ تو کتنے بجے جانا ہے ہم نے آریان کی محبت سے ملنے کے لئیے؟ امی جان جب آپ تیار ہو جائیں گی ہم اسی وقت مل لیں گے۔ میں نے امی کو جواب دیا۔ ہمم ٹھیک ہے پھر میں ابھی تیار ہو جاتی ہوں۔ امی کافی عجلت میں تھی۔ جی ٹھیک ہے امی جان آپ جلدی سے تیار ہو جائیں۔ میں نے کہا اور امی کے کپڑے نکالنے لگ گئی۔ میں نے امی کی الماریکھولی تو ان کے کپڑوں میں سے جو سب سے سیکسی قسم کے کپڑے تھے وہ نکال کر بیڈ پر رکھ دئیے۔ امی واشروم سے نہا کر باہر نکلی ان کےجسم پر تولیا لپٹا ہوا تھا۔ وہ آئینے کے سامنے بیٹھ کر ہلکا ہلکا میک اپ کرنے لگی۔ نوشی بیٹا میرے کپڑے تو دینا مجھے۔ امی نے مجھے آواز لگائی۔ میںنے کپڑے ان کو دئیے تو وہ حیران ہو کر بولی بیٹا یہکون سے کپڑے دے رہی ہو مجھے۔ اچھا نہی لگے گا میں کسی کے سامنے ان کپڑوں میں جاؤں گی تو۔ ارے امی جان آپ نے کہیں نہی جانا۔ ادھر ہی رہنا ہے۔ بس آپ یہ کپڑے پہن لیں۔ یہ صبح سے تم کیا پہیلیاں مجھے بجھا رہی ہو؟ صاف صاف بتاؤ چکر کیا ہے۔ امی کا پارہ بڑھ رہا تھا۔ اور اس سے پہلے کہ ان کا پارہ ساتویں آسمان کو چھونے لگ جاتا میں نے حقیقت بتانے کا فیصلہ کر لیا۔ اچھا آپ کو ملنے کی جلدی ہے نہ؟ چلیں میں آپ کو اپنے بھائی کی محبت سے ابھی اور اسی وقت ملوا دیتے ہوں آپ بھی کیا یاد کریں گی۔۔۔۔ میں نے اتنا کہا اور امی کا چہرہ آئینے کی طرف کر دیا۔ لیں مل لیں اپنے بیٹے کی محبت سے۔ کک کیا مطلب؟ امی کی رنگ فق ہو گیا۔ مطلب یہ کہ میری امی جان آپ کا بیٹا آپ کی محبت میں گرفتار ہے اور اپنی شادی سے پہلے وہ آپ کے ساتھ پیار کرنا چاہتا ہے۔ نہی نہی یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ امی سٹپٹا کر بولی۔ کیوں ؟ کیوں نہی ہو سکتا؟ میرا شوہر بھی تو اپنی امی کے ساتھ پیار کرتا ہے اور میرا سسر مجھے سے پیار کر چکا ہے۔ تو پھر آپ اپنے بیٹے کے ساتھ پیار کیوں نہی کر سکتی؟ میں نے امی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرکہا۔ تم کیا چاہتی ہو؟ کہ آریان جب چاہے مجھے پکڑ کر جو مرضی کرنا شروع ہو جائے؟ امی بولی۔ امیدیکھیں سیدھی سی بات ہے اب ایسا بھی نہی ہے کہ میرے سسر جب چاہیں مجھے پکڑ لیتے ہیں۔ اور اگر وہ ایسا کر بھی لیں تو کون سی قیامت آ جائے گی؟ میں ان کی خوشی کا خیال رکھتی ہوں اور اگر آپ کا بیٹا آپ کی محبت کا طلبگار ہے تو مجھے اس میں کوئی برائی نظر نہی آ رہی۔ اور یہ بھی نہی ہو سکتا کہ اپنی بیوی کے سامنے ہی آپ کو ننگا کرنا شروع کر دے۔ اور فرض کریں کہ ایسا ہو بھی جاتا ہے تو بھی کوئی پرابلم نہی ہے۔ اگر اس کی بیوی سمجھدار ہوگی تو وہ اپنے شوہر کی خوشی میں خوش رہے گی۔ ویسے بھی ابھی کون سی اس کی بیوی اس وقت ہمارے گھر میں موجود ہے؟ ابھی تو آپ اپنے بیٹے کو خوش کر ہی سکتی ہیں۔ پھر میں نے امی کے سامنے وہ ساری بات بتا دی جو مین نے اس رات آریان کے کمرے میں اس کے منہسے سنا تھا۔۔۔ ہممم ٹھیک ہے۔۔ مگر مجھے شرم آ رہی ہے اپنے بیٹے کے سامنے ایسے ننگا ہونے میں۔ ارے امی جان میں کون سا کہہ رہی ہوں کہ اس کے سامنے ابھی سے ننگا ہو کر بیٹھ جائیں۔ میں نے آپ کو ساری بات بتا دی ہے اب آپ پر منحصر ہے کہ کیسے آپ نے اس کام کو ہینڈل کرنا ہے۔ میں اتنا کہہ کر امی کے کمرے سے باہر آ گئی اور آریان کو کال ملا دی۔ ہان آریان کدھر ہو بھئی؟میں گھر پر تمھارا انتظار کر رہی ہوں۔جلدی آؤ اور آتے ہوئے کچھ پھول بھی لے آنا۔ ہان ہان ضروری ہیں بھئی افو،۔۔ بس تم لے آؤ نا بحث کیوں کر رہے ہو؟ میں نے فون بند کر دیا۔ میں کچھ دیر کے بعد امی کے کمرے میں داخل ہوئی تو امی میرے نکالے ہوئے کپڑےپہن چکی تھی۔۔ کھلے گلے والی باریک قمیض ۔ جس میں سے بلیک کلر کا برا کافی واضع طور پر نظر آ رہا تھا۔ اور تنگ چوڑی دار پاجامہ جس میں امی کی ٹانگوں کی گولایاں صاف صاف نظر آ رہی تھی۔ ہلکا ہلکا میک اپ اور ہونٹوں پر سرخ لپسٹک ۔ اففف۔۔۔ مجھے امی کو دیکھ کر ان پر ڈھیروں پیار آ رہا تھا۔ میں نے آگے بڑھ کر امی کو اپنی باہوں میں بھر لیا ر ان کی گردن پر ایک کس کر دی۔ ارےےے۔۔۔۔ کیا کر رہی ہے لڑکی۔۔۔ کچھ نہی امی جان مجھے تو بس آپ پر پیار آ رہا تھا۔ ساتھ ہی میںنے امی کے ہونٹوں ہر ایک کس کر دی،۔۔۔ امی نے جلدی سے اپنا منہ پیچھے ہٹا لیا۔ کیا ہوا امی ؟ میں نے پوچھا۔ ارے کیوں میری لپسٹک خراب کرنے کی کوشش کر رہی ہو؟ یہ میرا بیٹا ہی تارے گا اب۔ خبردار جو تم نے اتارنے کی کوشش کی۔۔ ہا ہاہاہاہاہا۔ ہم دونوں اس بات پر قہقہہ مار کر ہنس دی۔ آریان آیا تو میں باہر ہال میں اس کا انتظار کر رہی تھی۔ اس نے آتے ہی پھول میری طرف پھینکے اور کہا آج کیا خاص بات ہے جو پھول منگوائے گئے ہیں جناب؟ کچھ نہی میرے پیارے بھائی ابھی پتا چل جاتا ہےتم کو بھی۔ یہ بتاؤ تم نے کھانا کھایا تو نہیہے نہ؟ نہی باجی میں نے ابھی کھانا نہی کھایا۔ میں نے ٹیبل پر کھانا لگا دیا۔ کچھ دیر کے بعد امی آئی تو آریان کا منہ کھلے کھلا رہ گیا۔ وہ ایک ٹک امی کی طرف دیکھے جا رہا تھا۔ کیا ہوا آریان؟ کھانا کیوں نہی کھا رہے؟ میں نے آریان کی آنکھوں کے سامنے اپنا ہاتھ لہراتے ہوئے اس سے پوچھا۔۔ کک کچھ نہی بب باجی وو وہ مم میں کھانا کھا رہا ہوں۔ آریان اٹک اٹک کر بات کر رہا تھا اور اس کی نظریں بار بار امی کی طرف جا رہیتھی۔ میں اور امی مسکرا رہی تھی۔ میں کھانا کھا چکی تھی۔ میں اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔اب یہاں سے آگے کی کہانی میری امی کی زبانی سنیں۔کیوں کہ آگے جو کچھ ہوا وہ امی ہی بہتر انداز میں بتا سکتی ہیں۔ میں تو بیڈ جب بیڈ پر لیٹی تھی تو مجھے ڈاکٹر فواد کی ویڈیو کال آ گئی تھی اورمیں اس کے ساتھ مصروف ہو گئی تھی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے
0 Comments