ads

Sath - Episode 1

ساتھ

قسط 1



(پندرہ سال پہلے)چلیں میں پہلے اپکو اپنی فیملی سے ملواؤں ۔

ابو امی بڑا بھائی نقاش عمر بارہ سال بہن ریشم عمر گیارہ سال پھر میں ہانیہ عمر چار سال اور پھر چھوٹا بھائی نجم ایک سال۔ ہمارے حالات بہت اچھے تھے پھر نہ جانے کس کی نظر لگی اور سب ختم ہوگیا۔ کاروبار ختم ابو کا بڑی مشکل سے ایک درمیانی طبقے کے علاقے میں گھر دیکھا کرایہ کم لگا تو ابو نے ہاں کردی۔

 آس پڑوس سے جب چھان بین کی تو پتہ چلا اس گھر میں کوئی دو ماہ سے زیادہ رہ نہیں پایا ہے ۔امی نے پریشان ہو کر کہا کہ چھوڑیں کوئی اور گھر دیکھیں پر ابو نہیں مانے ۔اور گھر لے لیا ۔

گھر دو کمروں بیچ میں صحن سامنے کیچن اور باتھروم تھا۔ اندر والے روم میں ایک چھوٹا سا اسٹور روم تھا ۔ اچھا گھر تھا دو دن تو صفائی اور سامان جگہ پر رکھنے میں لگ گئے ۔

 ابو نے ایک کمپنی میں ملازمت کر لی۔سب معمول کے مطابق چل رہا تھا کہ ایک ہفتے بعد رات کو امی کی انکھ کسی آواز سے کھلی ۔

امی نے دیکھا کہ میں بستر سے غائب ہوں اور سامنے بیلن تختہ لے کر بیٹھی ہوں ۔

حیرانی والی بات یہ تھی امی کے لیے کے اسٹور روم کا بٹن جس پر کسی بڑے کا ہاتھ ہی جا سکتا تھا میں نے کیسے آن کیا اور جب دروازے کی کنڈی اوپر سے لگی تھی میں بیلن تختہ اندر کیسے لای 

۔امی نے مجھے آواز دی ہانی یہاں کیا کر رہی ہیں؟

امی میں بابا کے لیے روٹی بنا رہی ہوں۔میں نے مصروف ہوکر جواب دیا ۔امی تھوڑی سی ٹھٹکی ۔پھر نارمل ہوکر پوچھا اچھا بابا کہاں ہے ؟

مما یہ رہے نہ سامنے بیٹھے ہیں  

۔امی نے ہاتھ پکڑ کر مجھے اٹھایا اور بستر میں سلا دیا کہ صبح کرنا جو کرنا ہے ابھی سو جاؤ 

۔انھوں نے آیت الکرسی پڑھ کر دم کری اور سلادیا ۔سوچا صبح اٹھ کر میاں سے بات کرینگی۔

صبح بچوں کو اور میاں کو ناشتہ دینے میں اور گھر کے کاموں میں وہ یہ بات بھول گئیں ۔

رات کو جب سب سو گئے تو ان کی انکھ بڑی بیٹی کے جگانے سے کھلی۔

انھوں نے پوچھا کیا ہوا؟ 

امی وہ ہانی ...ادھرررر اسٹووووور ۔ ۔۔۔!!! ۔ریشم نے ڈرتے ڈرتے اسٹور کی طرف اشارہ کیا ۔

امی کی نظر مجھ پر پڑی تو وہ حیران رہ گئیں 

میں اسی جگہ بیلن تختہ لی کر بیٹھی تھی پر اج آٹا بھی تھا اور امی نے دروازے کی طرف دیکھا تو کنڈی ویسے ہی لگی تھی۔

امی اٹھ کر میرے پاس آئی 

ہانی !میرا بیٹا کیا کر رہا ہے؟امی نے پیار سے پوچھا ۔

امی با با کی لیے روٹی بنا رہی ہوں۔میں نے بتایا۔

اچھا چلو آؤ سو جاؤ صبح بنانا۔

میں نے سامنے ایسے دیکھا جیسے کسی سے اجازت لے رہی ہوں اور پھر امی کے ساتھ اٹھ گئی۔

امی نے جاتے جاتے دیکھا تو تختے پر روٹی گول اور صیح بنی تھی ۔

جو چار سال کی بچی کے لیے ممکن نہیں۔امی نے واپس مجھے سلا دیا اگلے دن امی برتن دہو رہی تھی کے اچانک امی نے

محسوس کیا کے کوئی پیچھے سے گزرا ہے انھیں وہم 

لگا ۔پھر وہ کام میں مصروف ہوگئیں ۔وہ منے کو 

فیڈر بنا کر دے رہی تھیں ۔بچوں کے اسکول سے آ نے 

کا وقت تھا ۔کے ہانیہ اندر آئی اسکول کا بیگ لیکر 

امی نے فوراً پیچھے مڑ کر دیکھا ہانیہ اپ اندر کیسے 

آئی مین گیٹ تو بند تھا ؟

ماما وہ بابا نے دروازہ کھولا ۔ہانی نے بیگ رکھتے ہوئے کہا ۔

اب تو وہ سچ مچ میں پریشان ہوگئیں کیونکہ دروازہ 

تو بند تھا اچانک سے دروازہ بجا تو وہ حیران ہو 

گئیں باہر انکے دونوں بڑے بچے تھےلیکن اگر ہانیہ اندر 

آگئی تھی تو دروازہ بند کس نے کرا ؟؟؟

لاک تک ہانیہ کا 

ہاتھ تو نہیں جاتا ۔صورتحال واقعی اب خراب ہو 

رہی تھی۔ انھوں نے رات کو اپنے شوہر سے بات کی۔

تو انھوں نے کہا" اپکا وہم ہے بس پڑوس کی بات کو 

اب تک خود پر سوار رکھا ہے". 

اگلا دن اتوار تھا ابو گھر پر تھے لیٹے ہوئے تھے کے 

انھیں محسوس ہوا کوئی ان کو دیکھ رہا ہے انہوں نے 

فوراً آنکھیں کھولیں تو کوئی سفید سا سایہ سامنے 

سے ہٹا. اسکا مطلب بیگم صیح کہ رہی ہیں اچانک 

کیچن سے چیخنے کی آواز آئی .ریشم ڈر کے مارے 

کانپ رہی تھی

 کیا ہوا؟؟؟ ابو امی نے پوچھا۔

 وہاں کوئی تھا اس نے دوسرے کمرے کی طرف اشارہ کرا۔

 امی نے ابو سے کہا۔"میں نے کہا تھا نہ مت لیں یہ گھر "

ابو واقعی میں اب سنجیدگی سے سوچنے لگے رات 

ہوئی تو سب سونے کے لیے لیٹ گئے امی نے کیچن 

میں بیلن تختہ چیک کرا ابو نے کنڈی صیح ںسے لگائی 

آدھی رات کو نقاش نے امی کو جگایا ۔امی! ہانیہ کو 

دیکھیں اس نے اسٹور روم کی طرف انگلی کی

امی نے دیکھا تو ہکا بکا رہ گئیں پھر سے 

وہی منظر۔میاں کو جگایا وہ بھی پریشان  

ہانی بیٹا کیا کر رہی ہو؟؟

 ابو نے پوچھا پاپا روٹی بنارہی بابا کے لیے۔

 ابو اسکے پاس گئے۔" اچھا ابھی سوجاؤ کل بنا دینا اسکول جانا ہے نا"

 اچھا ٹھیک ہے پاپا۔ہانی نے اٹھتے ہوئے کہا 

 بابا میں کل روٹی بنا کر دونگی اپکو۔

 ہاں ہاں وعدہ ۔اسنے جیسے کسی کی بات کا جواب دیا 

ابو نے اسے اپنے پاس لٹایا

 دوسرے دن مسجد کے مولوی صاحب کے پاس گئے 

انہیں کہا مجھے کوئی ایسی چیز دے جس کی وجہ سے میں انہیں دیکھ سکوں۔

اتنا تو انھیں بھی پتہ تھا کہ یہ نقصان نہیں پہنچا سکتی جو بھی روح ہے

مولوی صاحب نے تعویذ دیا کہ پہن لیں ابو نے وہ پہنا 

اور گھر آ گئے انھوں نے گھر میں قدم رکھا اور 

انھوں نے جیسے ہی سامنے دیکھا سامنے ہانیہ بیٹھی 

تھی اور اس کے ساتھ ہی کوئی بزرگ بیٹھے تھے ۔

سفید لمبا سا جبہ جیسے عربی لوگ پہنتے ہیں ۔سفید داڑھی ،سر پر صافہ ابو مطمئن ہو گئے تھوڑے چہرے پر نور اور ہلکا سا تبسم۔

ابو ان کے قریب گئے اور سلام کیا ۔

"اسلام وعلیکم بابا". ابو نے ادب سے ہی کہا کیونکہ ان کے نورانی چہرے کو دیکھ کر ہی ابو نے اندازہ لگا لیا تھا کہ وہ کوئی اللّٰہ والے ہیں ۔

"وعلیکم السلام "کہو بیٹا ! کیوں ضرورت پڑی مجھ سے بات کرنے کی ''۔انھوں نے تعویذ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔

آواز میں رعب اور دبدبہ تھا گھر والے پریشان کے ابو بات کس سے کر رہے ہیں ما سوائے ہانیہ کے ۔

""بابا "اگر اپکو ھمارے یہاں رہنے سے مسئلہ ہے تو میں چلا جاتا ہوں پر میرے بچوں کو کچھ مت کریں۔"اس طرح ہانیہ کا رات اٹھنا ریشم نقاش کا ڈرنا "میری بیوی بھی اپکی موجودگی محسوس کر کے ڈرتی ہے ۔ابو نے آرام سے دبے لفظوں میں پوری بات سمیٹی ۔

"میں نے اج تک کسی کو نقصان نہیں پہنچایا" ۔بابا نے اطمینان سے جواب دیا ۔

"تو بابا ہم سے پہلے جو لوگ تھے وہ ؟" ابو نے حیرانی سے پوچھا ۔

"وہ نشہ کرتے تھے گھر ناپاک رکھتے تھے آزان کے وقت سو رہے ہوتے تھے اور گھر میں گانا چل رہا ہوتا تھا میں انھیں صرف ہونے کا احساس دلاتا تھا جس سے وہ ڈر کر چلے جاتے" ۔بابا جی نے تحمل سے کہا 

"پر بابا اس طرح ہم ۔۔۔ ؟"ابو نے سوال کیا اور امی لوگوں کی طرف اشارہ کیا۔

"ٹھیک ہے میں جا رہا ہوں۔یہی مناسب ہے کیونکہ میرا اس طرح رہنا بھی ٹھیک نہیں ۔"ان کی نظر امی اور بچوں پر پڑی جو واقعی خوفزدہ تھے ۔

"بابا اپ کہاں جا رہے ہیں ؟"ہانیہ نے کہا ۔

"کہیں نہیں میرا بچہ اپ کے لیے میں کہیں نہیں جا سکتا "۔بابا نے اس کو پیار کرتے ہوئے کہا ۔

 وہ ابو کو سلام کر غائب ہو گئے ۔ابو نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور امی کو اشارہ کیا کہ سب صیح ہوگیا ہے۔

اور واقعی میں پھر کبھی ہانیہ رات کو نہیں جاگی کسی سے بات کرتے ہوئے نہیں دیکھا ۔گھر میں بھی کسی کی موجودگی محسوس نہیں ہوئی۔

🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸

(پندرہ سال بعد)

🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸

ماما میں جارہی ہوں کالج ۔ہانی کی آواز آئ ۔

ہاں بیٹا جائیں اللّٰہ کی امان ۔امی نے کہا 

ریشم اور نقاش یونی جاتے ۔نقاش پارٹ ٹائم کام بھی کر رہا تھا ریشم شام میں ٹیوشن پڑھاتی ۔ابو کو ترقی ہوئی تھی ۔ہانیہ فسٹ ائیر کی اسٹوڈنٹ تھی ۔

وہ گھر چھوڑے ہوئے انھیں 4 سال ہو چکے تھے ۔وہ نہیں جاتے وہ گھر چھوڑ کر انھیں نو سال ہو چکے تھے لیکن اگر وہ واقعہ نہیں ہوتا 

🌸🌸🌸🌸🌸

چار سال پہلے

🌸🌸🌸🌸🌸

شام کا وقت تھا۔ابو کے آنے کا وقت تھا۔ بڑے بچے دونوں اکیڈمی گئے تھے ۔نجم باہر کھیلنے گیا تھا ۔

ہانی کمرے میں بیٹھی اپنا اسکول کا کام کر رہی تھی کہ اسے محسوس ہوا اسٹور میں کچھ آواز آئی ہے اس نے دھیان نہیں دیا پر اسے پھر آواز آئی ۔اسے لگ رہا تھا جیسے کوئی اسے بلا رہا ہو ہلکی ہلکی سی آواز اسنے آنکھیں بند کی غور کرنے لگی تو کسی کی آواز کچھ یوں سنائی دی 

"ہانیہ روٹی !ہانیہ روٹی! اس نے اچانک آنکھیں کھول دی .

"یہ آواززززز یہ آوازززز؟ "اس نے خود سے پوچھا. "کہاں سنی ہے کہاں ؟ ۔ذہن پر زور دینے کے بعد بھی اسے یاد نہیں آرہا تھا  

(اب وہ پندرہ سال کی لڑکی تھی بچپن والی بات کا اسے کچھ پتہ نہیں تھا کیونکہ تب وہ محض چار سال کی تھی اور کبھی گھر والوں نے بھی اس بات کا زکر نہیں کیا اس لیے وہ انجان تھی)

 اسے محسوس ہوا اسٹور روم میں کوئی چیز گھوم رہی ہے وہ آہستہ آہستہ اسٹور روم کی طرف گئی

 دروازے کے پاس پہنچی تو اس نے دیکھا کےبیچ میں بیلن رکھا ہے.

" یہ یہاں کیا کر رہا ہے؟" اس نے خود کلامی کی وہ سوچ ہی رہی تھی کہ اچانک کندھے پر کسی نے ہاتھ رکھا وہ چونک گئی

"ہانی یہاں کیا کر رہی ہو ؟.امی نے پوچھا۔

" ماما کچھ نہیں اسٹور سے کچھ آوازیں آرہی تھی مجھے لگا چوہا ہے میں آئی تو بیلن یہاں رکھا تھا پتہ نہیں کون لایا "۔ہانی نے کہا۔

بیلن ؟یہاں کیسے؟۔ امی سوچ میں پڑ گئیں

 امی؟ امی کہاں گم ہوگئیں؟۔ ہانی نے امی کو ہلایا۔ 

"ہاں۔۔ اوہ ۔۔کوووچھھھ کووچھ کچھ نہیں چلو تم چلو یہاں سے پڑھائی کرو" ۔امی نے کہا

"جی جی چلیں".ہانی نے کہا 

 امی نے اسٹور سے نکلتے ہوئے سوچا کہیں وہ واپس ۔"نہیں نہیں یہ کیسے ممکن ہے "امی نے سوچ کو رد کیا ۔

 رونوں صحن میں آگئے دروازہ بجا تو ہانی نے کھولا 

"ابو اسلام وعلیکم"ہانی نے سر جھکا کر سلام کیا۔

 " وعلیکم السلام کیسا ہے میرا بچہ؟"ابو نے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا ۔

 "میں ٹھیک ابو"ہانی نے کہا۔

 دونوں اکر صحن میں بیٹھے دونوں باتیں کرنے لگے۔

 ابو نے دیکھا امی خاصی چپ ہیں ۔

"کیا ہوا بیگم آپ کچھ پریشان نظر ارہی ہیں؟" ابو نے پوچھا ۔

امی نے چونک کر ابو کو دیکھا پھر سوچا رات کو بتائیں گی 

۔"جی وہ کچھ نہیں بس طبیعت تھوڑی ٹھیک نہیں "امی نے بولا ۔

"ارے نہیں نہیں! ابو اصل میں اپکو پتہ ہے نہ امی چوہے سے کتنا ڈرتی ہیں بس وہ اسٹور روم میں شاید چوہا اگیا ہے امی ڈر رہی ہیں" ہانی نے ہنستے ہوئے کہا۔

"چلو بیٹا! اپکی امی کسی سے تو ڈرتی ہیں ورنہ ہمیں تو لگا تھا بس ڈراتی ہیں" ابو نے مذاق میں کہا.

 جسے سن کر ہانی اور گھر میں داخل ہونے والے نقاش اور ریشم کا بھی قہقہہ بلند ہوا ۔ امی کے بھی چہرے پر مسکراہٹ آگئی ۔

ان باتوں میں ہی شام گزر گئی

 رات کو ابو جلدی سو گئے تو امی نے بھی ذکر نہیں کیا۔

ادھی رات کے وقت ہانی کی انکھ کھلی اسٹور روم سے کچھ آوازیں آرہی تھیں

" لگتا ہے چوہا ہی ہے اف اللّٰہ میری اسٹوری بکس آپی بھائی کے نوٹس کہیں ریک پر نہ چلا جائے یہ" وہ اٹھ کر اسٹور روم گئی لائٹ آن کرنے لگی ہی تھی کہ کچھ رینگتا ہوا اسکے پاؤں سے اکر ٹکرایا.

" ابھی بتاتی ہوں چوہے کے بچے". لائٹ آن کی ہی تھی کے اس نے دیکھا پاؤں کے پاس بیلن پڑا ہے۔

" یہ یہاں اوھووو ماما بھی نہ! لگتا ہے شام میں بھول گئی لے جانا " اس نے نیچے جھک کر اٹھایا تو نظر سامنے گئی

  یہ تختہ یہاں شام میں تو نہیں تھا ۔وہ الجھن کا شکار ہو گئی ۔"پر امی یہ چیزیں یہاں کیوں رکھ رہی ہیں ؟" ۔وہ دونوں اٹھا کر مڑنے لگی تو اسے محسوس ہوا کسی نے آواز دی ہو

"روٹی بنا دو" اسنے پلٹ کر دیکھا پر کوئی نہیں.

 "یہ آواز کہاں سنی ہے؟" خیر چھوڑو۔۔ اس نے زیادہ دھیان نہیں دیا۔

 وہ بیلن تختہ کیچن میں رکھ کر اکر سوگئی۔

" امی یہ اپنے بیلن تختہ اسٹور روم میں کیوں رکھا تھا؟ ۔" صبح ناشتے کے دوران ہانی نے پوچھا.

 بیک وقت ابو امی نقاش اور ریشم کا ہاتھ رکا۔

" میں نے تو نہیں رکھا تھا". امی نے حیرانی سے کہا 

"نہیں امی رات کو اسٹور روم سے آواز آئی میری انکھ کھلی میں گئی تو دیکھا بیلن تختہ رکھا تھا اٹھا کر میں نے کیچن میں رکھا" ہانی نے بتایا.

اس نے روٹی اور آواز والی بات اسلیئے نہیں بتائی کی شاید وہم ہو ۔

امی ابو نقاش ریشم نے ایک دوسرے کو دیکھا ۔

"ہانی بیٹا آپ نجم کے ساتھ اسکول جائیں لیٹ ہو جائیں گی " ابو نے جلدی سے بات بدلی ۔

"جی ابو " ہانی نے کہا ۔

دونوں نے بیگ اٹھائے اور اسکول کی لیے نکل گئے۔

" ہانیہ کے ابو کل شام بھی یہی ہوا تھا ہانیہ کو بیلن ملا تھا اسٹور سے کہیں بابا پھر سے تو ؟؟ 

"نہہیں نہیں ہی کیسے ممکن ہے" ابو نے امی کی بات کاٹتے ہوئے کہا ۔

"پر یہ جو ہورہا ہے" امی نے پریشان ہو کر کہا.

" مولوی صاحب تو گاؤں گئے ہیں مہینے بعد آنا ہوگا ان کا اور وہ تعویذ تو میں سمندر میں ٹھنڈا کر چکا چلیں میی شام میں کسی عامل کو دیکھتا ہوں "ابو نے کہا.

" جی ٹھیک ہے "امی نے بولا۔

سب گھر سے چلے گئے تو امی بھی کام نمٹانے لگی گھر کے پورا دن تو کچھ نہیں ہوا 

شام میں ہانی امی کے ساتھ کام کرنے لگی ۔دروازہ کھول دیا تھا کہ بیچ میں جانا نہ پڑے۔ ویسے بھی اب دیکھا بھالا محلہ تھا اور چوری ڈکیتی اتنی نہیں تھی ۔

امی کے ساتھ ہانی شام کا ناشتہ بنانے لگی کے دونوں کو لگا پیچھے سے کوئی کمرے میں گیا۔

 "لگتا ہے ابو آگئے" ہانی نے کہا.

" ہاں پر سلام نہیں کیا " امی کو تعجب ہوا ۔

"دیکھو تو کہیں طبیعت خراب نہ ہو اللّٰہ نہ کرے"امی نے پریشانی والے لہجے میں کہا۔

" جی امی" ہاتھ دھو کر وہ نکلنے والی تھی کہ ابو کی آواز آئی ابو گھر میں داخل ہو رہے تھے.

" اسلام وعلیکم " ابو نے سلام کیا  

امی اور ہانی نے چونک کر دیکھا۔

" ابو یہاں ہیں تو شاید نقاش بھائی؟" ہانی نے امی سے کہا .

"اسلام وعلیکم " نقاش اور ریشم سلام کرتے ہوئے اندر آے نجم بھی ان کے ساتھ اندر آیا.

 اب واقعی دونوں چونکی کیونکہ وہم ایک کو ہو سکتا ہے دونوں کو نہیں ہانی فوراً اندر گئی

 روم خالی اسٹور روم میں دیکھا وہ بھی خالی۔ باہر اکر امی کو دیکھ کر نفی میں سر ہلایا ۔

" کیا ہوا سب خیریت ؟"ابو نے پوچھا .

ہانی نے پوری بات بتائی ابو کو بھی لگا معاملہ سنجیدہ ہورہا ہے ۔

"شاید وہم ہوگا اپکا چلیں سب ناشتہ کریں ".ابو نے دھیان بٹایا سب کا اور پورے دن کے حال۔پوچھنے لگے سب سے .

رات کو امی سے کہا "بس اب گھر بدلتے ہیں ".

" ہاں میں بھی یہی کہنے والی تھی ."امی نے ہاں میں ہاں ملائی۔

"کل ہی اسٹیٹ ایجنٹ سے بات کرتا ہوں" ابو نے کہا. اور امی کو سونے کا کہ کر سوگئے ادھی رات کو ہانی کی انکھ کھلی۔۔۔۔۔




جاری ہے

Post a Comment

0 Comments