ساتھ
قسط 2
ہانی کی آنکھ کھلی اسے محسوس ہورہا تھا جیسے کسی نے سر پر ہاتھ رکھا تھا اسنے برابر میں سوئی بہن کو دیکھا دوسرے پلنگ پر دونوں بھائی بھی سو رہے تھے ۔
"لگ رہا ہے ٹیسٹ کی ٹینشن کچھ زیادہ ہوگئی ہے"۔ اس نے واپس آنکھیں بند کی اور سونے کی کوشش کرنےلگی۔
ہلکی ہلکی غنودگی طاری ہو رہی تھی کہ پھر سے کسی نے سر پر ہاتھ پھیرا۔ اس نے فوراً آنکھیں کھولیں پر بہن بے خبر سو رہی تھی ۔
"ہانی ۔۔۔۔۔ہانی ۔۔۔۔۔۔۔میرا بچہ روٹی"۔ آواز آئی ہلکی سی "اففففففف اففف یہ آواز "اسنے سر کو دبایا ۔"کہاں سنی ہے کیوں یاد نہیں آرہا ".
"ٹھک۔۔۔۔ ٹھک۔۔۔" اسٹور سے آواز آئی۔ ہانی نے چونک کر دیکھا۔
" یا اللّٰہ کیا کروں اس چوہے کا ".بستر سے اٹھتے ہوئے کہا اسٹور کی طرف گئی ۔
بلب آن کیا سامنے کا منظر چونکانے کہ لیئے کافی تھا بیلن تختہ اور آٹا رکھا تھا۔
" یہ اف اج کل کیا ہوگیا ہے امی کو". اس نے سر پر ہاتھ مارا ۔
سامان اٹھایا اور جیسے ہی پلٹی دروازے کی طرف دیکھ کر اس نے زوردار چیخ ماری بیلن تختہ ہاتھ سے گرا اور وہ بیہوش ہو گئی ۔
۔ریشم دونوں بھائی اور امی ابو کی چیخ کی آواز سے فوراً انکھ کھلی ۔سب فوراً اسٹور کی طرف گئے۔ دیکھا تو ھانی بے ہوش تھی اور پاس بیلن تختہ پڑا تھا ۔
"ہانیییی۔۔۔۔۔۔۔ ہانیییی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"امی رونے لگ گئی ابو نے فوراً پانی چھڑکا ۔
"امممممممم۔۔۔اممممی "ہانی نے تھوڑا ہوش میں اتے ہوئے کہا ۔"ہاں ہانی میری جان آنکھیں کھولو ". امی نے پیار سے کہا .
ہانی نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں ابو نے پانی دیا کچھ بہتر ہوئی ۔
" تم وہاں کیاکر رہی تھی اس ٹائم اور چلائی کیوں؟" ابو نے پوچھا۔
"وہ ابو مجھے آوازیں آئیں تو میں اسٹور میں گئی دیکھا تو بیلن تختہ اور آٹا رکھا تھا میں نے اٹھایا کہ کیچن میں رکھ دوں جیسے پیچھے مڑی مجھے دروازے پر کوئی دکھا سفید رنگ کا لباس پہنا تھا بزرگ جیسے لگ رہے تھے میں ڈر گئی۔ " ہانی نے بتایا ۔
"بس اسی دن کے لیے منع کرتی تھی جاسوسی اور ڈراؤنی کہانیاں نہ پڑھو اب اثر ہورہا ہے نہ۔" آپی نے سر پر ہلکا سا مار کر مذاق میں کہا ۔تاکہ وہ ڈرے نہ۔
"نہیں اپی میں سچ کہ ۔۔۔۔"
"بس چپ کرو امی نے بات کاٹی چلو سونے اور ہانی تم میرے ساتھ سوگی۔ "
" پر امی۔۔۔۔۔۔۔ "
"کہا نہ میں نے چلو۔" ماں تھی کیسے دل مانتا ۔
چاروں بچے سو گئے۔ تو امی نے اکر ابو سے کہا" دیکھا جس کا ڈر تھا وہی ہوا وہ واپس آگئے پر کیوں؟". امی نے تشویش سے پوچھا ۔
"کیونکہ انھوں نے کہا تھا ہانی سے کے میں تمھیں کیسے چھوڑ سکتا ہوں اور میں نے اس وقت غور نہیں کیا تھا"۔ابو نے وضاحت دی ۔
" اپ ایک کام کریں کل ہانی کو بھائی جان کے گھر چھوڑ دیں ہم سامان کل ہی پیک کرنا شروع کرتے ہیں بس گھر خالی کرتے ہیں"۔امی نے فوراً کہا۔
" ہاں میرے کمپنی کی طرف ایک فلیٹ مل رہا ہے وہاں چلتے ہیں"۔ ابو نے بتایا ۔
"جی ٹھیک ہے" ۔امی نے فوراً کہا۔
اگلے دن ابو نے کہا" ہانی بیٹا میں اپکو ماموں کے گھر چھوڑ رہا ہوں اپ کچھ دن وہیں رہیں گی فبیہا کہ ساتھ اسکول جائیں گی ۔"ابو نے ہانی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔
"یاہووووووو مزہ آئیگا" ہانی نے خوشی سے چلا کر کہا۔
فبیہا ہانی کی کزن تھی دونوں کا اسکول ایک تھا دوستی بھی خوب تھی اس لیے ہانی خوش تھی ۔
ابو نے ہانی کو ماموں کے گھر چھوڑا اور ماموں سے لیٹ ہونے کا کہ کر کمپنی نکل گئے ۔
امی نے دونوں بڑوں کی چھٹی کروائی اور گھر کا سامان پیک کرنے لگے شام تک سب ہو چکا تھا بس رات کا کھانا کھا کر سب سوگئے
صبح ابو نے سوزوکی منگوائی اور سامان بھرنا شروع کر دیا ۔
ایڈوانس وہ نئے گھر کا پہلے ہی دے چکے تھے امی کو لگا کہ شاید ان لوگوں کے جانے پر کچھ ہوگا پر ایسا کچھ نہیں ہوا سب کچھ آرام سے ہوگیا نئے گھر میں سب اچھے سے رکھ دیا ۔
ابو نے کہا
" ہانی کو لانا چاہئے اب "۔
ابو نے نقاش سے کہا" ہانی کو لے آؤ".
انھوں نے بائک کی چابی دی نقاش ماموں کے گھر گیا ملنے کے بعد بتایا کہ ہانی کو لینے ایا ہوں ہانی کمرے میں گئی بیگ لائی ماموں مامی کو پیار کیا ۔
"آتے رہنا" مامی نے پیار سے کہا.
"جی مامی" ہانی نے پیار لیتے ہوے کہا ۔فبیہا سے گلے ملی اور بھائی کہ ساتھ بائک پر بیٹھ گئ۔
" بھائی چلیں ریس لگاتے ہیں". ہانی نے پر جوش ہوکر کہا.
" پاگل ہو گئی ہو". بھائی نے ڈانٹا۔
" بس میں سمجھ گئی بھائی ڈر گئے" ہانی نے تنگ کیا۔
نہیں ایسا نہیں ہے " بھائی نے انکار کیا ۔
"ہاں ہاں بھائی ڈر گئے "۔ہانی نے چڑایا
"بس کر جاؤ ابھی دیکھنا ".بھائی نے اسپیڈ تیز کری جوش میں اکر.
ابھی ایک منٹ ہی ہوا تھا کہ یوٹرن سے ایک لڑکے کی بائک سامنے ائی اور دونوں بائک ٹکرا گئی لڑکا گرا اسکے اوپر اسکی بائک نقاش کے انکھ کے اوپر گھرا کٹ لگ گیا ہانی روڈ پر گری تھی پاؤں مڑ گیا تھا اسنے سامنے دیکھا تو ایک کار تیزی سے اس کی طرف آرہی تھی ۔۔۔۔۔۔
_
ہانی نے فوراً اٹھنے کی کوشش کی پر موچ کی وجہ سے ہل نہیں سکی . اچانک ایسے لگا جیسے کسی نے پکڑ کراسے سائیڈ کردیا. اسی وقت کار تیزی سے اس کے پاس سے گزری اور وہ پہلی بار تھا جب ہانی نے موت کو اتنے قریب دیکھا.
لوگ آئے بھائی کو اٹھنے میں مدد کی وہ لڑکا تو اسی وقت بائک اٹھا کر بھاگ گیا. اچھا ہوا سامنے ہی کلینک تھا بھائی کو ٹانکے آئے تھے ۔ بھائی کی ٹینشن میں ہانی نے دھیان نہیں دیا کہ اس کے اس کے پاؤں میں درد نہیں ہے موچ کا۔
بھائی یہ ہم کہاں جا رہے ہیں. اس نے دوسرے روڈ پر بائک موڑی تو ہانی نے پوچھا ۔ہم نے گھر نیا لیا ھے وہ چھوڑ دیا ہے مالک مکان نے کہا تھا کچھ کام کرانا ہے .اس نے کسی حد تک ہانی کو مطمئن کرنے کی کوشش کی ۔
ارےےےے واہ اور مجھے بھی نہیں بتایا بس میں بات نہیں کرونگی کسسی سے . اکیلے اکیلے سب کرلیا اس نے روٹھنے والے انداز میں کہا ۔اچھا اترو اگیا گھر ۔ بھائی نے کہا ۔ گھر تو اچھا ہےاس نے دیکھتے ہوے کہا ۔ہاں اب چلو مجھے چکر آرہے ہیں. بھائی کو کمزوری لگ رہی تھی۔ بھائی ایک کام کرے میں سہارا دیتی ہوں ۔چلیں ۔اس نے اگے بڑھتے ہوئے کہا۔
سنیں اتنا ٹائم ہوگیا یہ دونوں کہاں رہ گئے بھائی کا فون آیا تھاکہ پہنچے یا نہیں ۔امی نے پریشانی سے کہا ۔ہاں کافی ٹائم ہوگیا ۔ابو بھی پریشان ہوئے۔
دروازہ بجا ۔شاید یہ دونوں ہیں امی فوراً لپکی نقاش جیسے دروازہ کھولا سامنے کا منظر دیکھ کر امی چلا اٹھیں ۔ابو دروازے کی طرف گئے دیکھا کہ نقاش کہ انکھ کے اوپر ٹانکے آئے ہیں اور خراشیں ہیں ہانی نے سہارا دیا ہوا ہے ۔
نقاش کیا ہوا بیٹا ابو نے پوچھا ۔کچھ نہیں ابو وہ سامنے سے بندہ اسپیڈ میں آرہا تھا ہم یو ٹرن لے رہے تھے تو ٹکر ہوگئی۔ بھائی نے بولا۔تب ہی کہتا ہوں احتیاط کیا کرو۔ ابو نے کہا ۔
کتنی چوٹ لگ گئی میرے بچے کو جاؤ آرام کرو میں ہلدی والا دودھ لائی ۔ نقاش روم میں گیا امی کیچن میں.
ہانی بیٹا آپ ٹھیک ہو ابو نے پوچھا ۔ہاں بابا میں ٹھیک ہوں بلکل پاؤں میں موچ آئی تھی کچھ دیر بعد ٹھیک ہوگئی تھی ۔گھر اچھا ہے. پر ابو اپ لوگوں نے بتایا نہیں مجھے اس نے نروٹھے پن سے کہا ۔ بیٹا سر پرائزئ دینا تھا نہ ۔ابو نے مسکراتے ہوئے کہا۔
اچھااا جی ویسے ابو آپی اور نجم کہاں ہے ۔ اس نے اندر جھانک کے پوچھا ریشم دوست کے گھر گئی ہے پڑھائی کا پوچھنے نجم سو رہا ہے ۔ ابو نے بتایا ۔
امی نے کیچن سے اس کی پہلی بات سن کر غور کیا کہ نقاش کو جیسے چوٹ لگی ہے ہانی کو تو اس مقابلے میں کچھ نہیں ہوا. ما شاءاللہ سے وہ تو بلکل ٹھیک ہے ایک خراش بھی نہیں آئی ۔گرے تو دونوں ساتھ تھے جیسے ہانی نے بتایا۔
ایسی کچھ سوچ ہانی کے دماغ میں بھی چل رہی تھی ۔ابو میں زرا کچھ دیر آرام کرلوں اس نے دیکھا لاونج کے بعد دو چھوٹے روم ہیں اس نے اندر جھانکا تو نجم سو رہا تھا اور بھائی برابر میں لیٹے تھے اندر .وہ دوسرے روم گئی تو آپی اور اس کا سامان سیٹ تھا ۔
ہاں یہ صیح ہے ہمارا الگ بھائیوں کا الگ اور ماسٹر بیڈ روم ماما پاپا کا ویسے یہاں اسٹور روم اوہ ہوو ہہاہہاہاہا میں بھی نہ اب کیا اسٹور روم میرے ساتھ ساتھ رہے گا ۔' اسی لمحے اسے محسوس ہوا کوئی ہلکے سے ہنسا ہے ۔اف صیح کہتی ہے آپی سر پر سوار ہوگئیں ہیں کہانیاں میرے ۔ اس نے سوچا اور بستر پر لیٹ گئی ۔
ویسے چوٹ تو میری کہنی پر بھی لگی تھی اور میری موچ ۔اس نے اٹھ کر پاؤں دیکھا تو بلکل صیح. کہنی پر بھی کوئی نشان نہیں ۔اور مجھ سے تو اٹھا نہیں جا رہا تھا تو پھر میں سائیڈ کیسے ہوئی اتنی جلدی کوئی روڈ پر تو نہیں آ سکتا مدد ک لیے ۔ چلو اللّٰہ نے حفاظت کیی ہمممممم ہوگا کوئی اللّٰہ کا بندہ ۔۔۔میں تو سوؤں۔ 🌸🌸🌸🌸🌸
(چار سال بعد )
🌸🌸🌸🌸🌸
اس واقعے کے بعد سب نارمل رہا چار سال ہوگئے پھر ایسی کوئی بات نہیں ہوئی ۔
حال
ابو جاب پر تھے ۔بڑے دونوں یونی نجم اسکول ہانی کالج تھی ۔گرمیوں کے دن تھے مئئ کے آخری دن چل رہے تھے۔
امی نے فرش پر پانی ڈالا کے تھوڑا ٹھنڈا ہوجاے۔دروازہ بجا اس ٹائم کون اگیا کون .امی نے پوچھا امی میں کھولیں. ہانی کی آواز آئ. امی نے دروازہ کھولا ارے ابھی تو تمھیں گئے ہوے ایک گھنٹہ ہوا کیسے آگئی ۔امی وہ پریکٹیکل جمع کروانا تھا بھول گئی تھی لاسٹ ڈیٹ ہے کل رات تک ٹیسٹ یاد کر رہی تھی. اچھا اچھا جاؤ۔امی نے کہا جی جی ۔وہ تیزی سے چلتے ہوئے اندر جانے لگی ۔
ٹائیل کی وجہ سے اس کی نظر پانی پر نہیں گئی وہ اسپیڈ میں چلی پاؤں پھسلا وہ چلائی امیییییییی ۔امی نے فورا دیکھا ہانی منہ کے بل گری اس کا سر دروازے پر لگا امی بھاگتے ہوے گئی اسے اٹھایا
ہانی بیٹا ٹھیک ہوں امی نے فوراً پوچھا ۔ پر وہ اس جگہ کو دیکھ رہی تھی ۔ کیا ہوا بیٹا امی نے ہوچھا ۔امی ایسے لگا کسی نی مجھے سنبھالا کسی نے سر کے سامنے ہاتھ کردیا مجھے دروازہ نہیں لگا ۔حیرت تو امی کو بھی ہوئی تھی ۔اسکے بیگ سے موبائل کی رنگنگ کی آواز آئی اس نے فورا اٹھ کر موبائل دیکھا امی میں چلتی ہوں فرینڈ کے مسیج ارہے ۔
اس نے کمرے میں جاکر دوسرا یونیفارم نکالا .پہن کر پریکٹیکل لے کر کالج بھاگی ۔امی نے پانی وائپر سے صاف کیا پر وہ بھی سوچ رہیں تھی کہ حیرت ہے ہانی گری پر اللّٰہ کا شکر نہیں لگی ۔ورنہ جتنی زور سے یہ گری تھی اور کیا کہ رہی تھی وہ کسی کا ہاتھ محسوس ہورہا تھا نہیں نہیں وہم ہوگا اس . امی دوبارہ کام میں مصروف ہوگئیں
ہانی کالج پہنچی پریکٹیکل جمع کروایا کلاس میں گئی تو فبیہا نے پوچھا کہاں رہ گئی تھی. ارے کہیں نہیں یار گر گئی تھی گھر میں فرش گیلا تھا کپڑے گیلے ہوگئے تھے چینج کرنے میں ٹائم لگ گیا اس نے نے بتایا ۔
اوہوو لگی تو نہیں کہیں تمہیں فبیہا نے تشویش سے پوچھا ۔ لگی ۔۔۔۔ہانی سوچ میں ڈوب گئی ۔او میڈم فبیہا نے ہلایا کہاں گم ہوگئی ۔کہیں نہیں ہاں بس بچت ہوگئ کہیں نہیں لگی چلو کینٹین بھوک لگی ہے ۔ہاں چلو ۔دونوں کینٹین کی طرف چلی گئیں۔
اسلام وعلیکم امی ہانی نے گھر میں داخل ہوتے ہوئے کہا ۔وعلیکم اسلام ہانی کیسا گزرا دن ۔امی نے پوچھا ۔ ٹھیک امی تھوڑی تھکن ہورہی ہے بس سونگی ۔پہلے کھانا کھا لو نہیں امی بس بھوک نہیں۔کینٹین میں کافی کچھ کھالیا تھا ۔ اچھا چلو ٹھیک ہے آرام کرو ۔۔
کمرے میں گئی فریش ہوکر لیٹی تو اج کا واقعہ اسے یاد آیا ۔میں پھسلی ۔۔۔۔فرش پر گری ۔۔۔۔۔میرا سر دروازے سے ٹکرایا ۔۔۔تو پھر میں بچ کیسے ؟؟. اور وہ ہاتھ ایسا لگا کسے کی انگلیاں تھیں اس نے محسوس کیا جانا پہچانا سا لمس تھا ۔ سوچتے سوچتے وہ سوگئ شام میں اٹھی تو سب لاونج میں بیٹھے تھے ۔
اٹھ گئی محترمہ ۔بھائی نے چھیڑا ۔امییییی ہانی چلائی۔ نقاش نہ کرو اسے بیٹھو میں چائے لاتی ہوں ۔امی نے پیار سے کہا ۔اللہ اللّٰہ امی کچھ اسے بھی کرنے دیں انیس کی ہو چکی ہے ۔اپی نے کہا۔ نہیں آپی یہ بس سو سکتی ہے اور ناولز پڑھ سکتی ہے ۔نجم نے بھی مذاق بنایا ۔
ابو دیکھیں نہ ۔ہانی نے ابو سے کہا ۔بھئ کہ تو صیح رہے ہیں سب ابو نے بھی کہا۔ابو اپ بھی ۔وہ روہانسی ہوگئ۔ارے بھئ سیکھ جائے گی بچی ہے ۔امی نے اس کی سائیڈ لی ۔نہیں امی بس ٹھیک اج سے رات کا کھانا میرا میں بناؤں گی ۔ہانی نے فوراً کہا۔
یا اللّٰہ رحم بھئ میں تو اج باھر سے بریانی لاونگا ۔نقاش نے کہا ھمارے لیے بھی لے آنا نجم اور ریشم نے کہا۔اف دیکھ لینا اتنا اچھا بناونگی نہ اور ہے نہ گائیڈ کیے لیے ۔بس میں اج کڑھائ اور روٹیاں بناؤں گی ۔ چلو دیکھتے ہیں نقاش نے کہا ۔
مغرب کے بعد امی کے ساتھ ملکر کڑھائی بنا لی. باری روٹیوں کی تھی .بس بیٹا میں بنا لونگی نہیں امی میں بناتی ہوں. اس نے آٹا گوندھنا شروع کیا آرام سے اور امی بھی کچھ پل کے لیے حیران رہ گئیں اس نے صحیح گوندھا تھا ۔
جب وہ پیڑا بن اکر روٹی بیلنے لگی اس کے ذہن میں جھماکا ہوا۔یہ پہلے میں کر چکی ہوں اسے یاد آیا .وہ آہستہ آہستہ ہاتھ گھومانے لگی ۔میں بیٹھی ہوتی تھی کوئی سامنے ہوتا تھا میں ایسے ہاتھ گھماتی تھی اس نے ہاتھ روک دیا روٹی بیل دی تھی توے پر ڈال دی امی کو حیرانی پر حیرانی تھی ۔
ہانی تم نے کہیں سے دیکھا ہے یا میرے پیچھے میں کبھی بنائی ہے ۔امی نے پوچھا ۔نہیں امی بس مجھے ایسا لگا کہ میں نے پہلے کبھی ایسے کیا ہے اور میرے ہاتھ ہلتے گئے ۔اس نے جواب دیا۔امی چونکی پر کچھ کہا نہیں۔
ارے واہ واہ کیا خوشبو ہے اور روٹیاں تو دیکھو واہ کیا گول گول اور پھولی ہوئی ۔نقاش نے دسترخوان پر بیٹھتے ہوئے کہا۔بس میں نے کہا تھا نہ ہانی نہیں کر سکتی کچھ ۔امی نے ہی بنایا آخر ۔نجم نے کہا ۔
نہیں ہانی نے ہی بنایا ہے میں نے صرف سمجھایا ہے ۔امی نے سنجیدگی سے کہا ۔ارے واہ ہماری بیٹی نے تو کمال کر دیا۔ابو نے تعریف کی ۔ہانی بہت خوش ہوئی سب کو کھانا بہت پسند آیا۔ بس پھر رات کے برتن بھی ہانی دھوئے گی ۔ آپی نے کہا ۔ہاں ہاں ٹھیک ہے ۔اس نے ہامی بھرلی۔
کھانے کے برتن سمیٹ کر جب وہ جانے لگی تو پیچھے سے آواز آئی ہانیہ میری روٹی۔ وہ فوراً پیچھے مڑی ۔ بابا اس کے منہ سے خود الفاظ ادا ہوے۔پیچھے کوئی نہیں تھا پر یہ آواز اور میں نے بابا کیوں کہا ۔ہانی امی کی آواز پر وہ پلٹی ۔ جی امی کی ہوا بیٹا کام ختم نہیں ہوا ہوگیا امی بس آرہی تھی ۔
اچھا چلو تمھاری چھوٹی مامی کی کال آئی ہے ۔امی نے کہا ۔جی امی چلیں ۔اواز والی بات اس نے امی کو نہیں بتائی اسے پتہ تھا امی چھوٹی چھوٹی بات پر پریشان ہو جاتی ہیں ۔دونوں لاونج میں گئے تو ریشم نے کہا آجائیں محترمہ مامی پوچھے جا رہیں آپ کا ۔ریشم نے فون دیا مامی کو ۔
اسلام وعلیکم مامی ۔ہانی نے فون لیتے ہوئے کہا ۔وعلیکم اسلام میری جان خوش رہو کیسی ہو ۔مامی نے پوچھا میں ٹھیک مامی اپ بتائیں اور ماموں کیسا ہیں ۔ہاں وہ ٹھیک ہیں دراصل وہ اج کام کے سلسلے میں دوسرے شہر جانے والے ہیں دو دن بعد آئیں گے تو تم۔یہاں آجاؤ رکنے کے لیے مامی نے بات بتائی ۔
ارےے جی جی مامی میں امی ابو سے پوچھ لوں پھر آجاؤں گی بھائی کے ساتھ ۔ہانی نے کیا ۔میں پوچھ چکی ہوں دونوں سے انھوں نے اجازت دے دی ہے ۔مامی نے کہا ۔اچھا چلیں ٹھیک ہیں مامی میں پیکنگ کر لوں ۔ اچھا اللّٰہ حافظ مامی نے کہا۔ جی اللّٰہ حافظ۔ہانی نے کال کٹ کی ۔
ابو امی پھر میں جاؤں ۔اس نے پوچھا ہاں ہاں جاؤ بیٹا ۔
(مامی کی کوئی اولاد نہیں تھی. اس لیے جب ماموں کام سے دوسرے شہر جاتے تو مامی ہانی کو بلا لیتی تھیں .اس کی باتوں اور شرارتوں سے ان کا دل لگا رہتا تھا)۔
شام میں نقاش نے اسے ڈروپ کردیا ۔اور وہیں سے اکیڈمی چلا گیا ۔
اسلام وعلیکم مامی ۔اس نے مامی کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے کہا ۔وعلیکم اسلام میری گڑیا آگئی مامی پیار کرتے ہوئے کہا ۔ہاں جی میں آگئی مامی ماموں کہا ہیں چلے گئے کیا ۔نہیں عشاء کے بعد جائیں گے ابھی تو مغرب ہونے والی ہے ۔ آپ کے ماموں کیچن میں سینڈوچ ریڈی کر رہے پتہ ہے نہ تمہیں انکے کوکنگ کا شوق مامی نے مسکراتے ہوئے بتایا
ہاہاہا جی اچھا میں بیگ رکھ دوں روم میں پھر ملتی ان سے ۔ وہ اوپر گئی بیگ رکھ کر سیدھا کیچن میں گئی سامنے وائٹ ڈریس میں کوئی کھڑا تھا پر ہانی کی طرف پیٹھ تھی اسلام و علیکم ماموں جیسے ہی وہ بڑھی اچانک لائٹ گئی کیچن میں اندھیرا ہوگیا وہ اگے بڑھی تو کسی سے ٹکرا گئی وہ اچانک پیچھے ہوئی ماموں کیا ہوا لائٹ کیوں گئی اس ٹائم ۔
ہانی ہانی یہاں آ جاؤ ۔ لاونج سے مامی ماموں دونوں کی آواز آئی ۔اب سچ مچ وہ چونکی لائٹ واپس آگئی ہانی بلکل اپنی جگہ فریز ہوگئ اگر ماموں باہر تھے تو یہاں کون تھا وہ فوراً باہر گئی ماموں اپ ابھی کیچن میں تھے جب میں نے سلام کیا ارے نہیں بچہ میں تو کب سے یہیں ہوں جب اپ کو اوپر جاتے دیکھا تھا ۔ اپ اوپر جارہی تھیں تو میں یہاں آیا تھا
تو پھر وہ کون تھا ۔اس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے کیونکہ وہ کسی سے ٹکرائی تھی ۔کیا ہوا ہانی بچہ کچھ پریشان لگ رہی مامی نے پوچھا ۔نہیں مامی اس نے ماتھے پر آیا پسینہ صاف کیا۔
کچھ نہیں مامی بس ایسے ہی۔اس نے بمشکل مسکراتے ہوئے کہا۔ اچھا آؤ سینڈوچ اور چائے لو ۔مامی نے کہا۔ہاں بھئ کھاؤ اور بتاؤ ایسا مزیدار سینڈوچ کھایا ہے ۔ماموں نے فخر سے کہا ۔جی ماموں۔ پر اس کا دھیان بار بار وہیں جا رہا تھا
ہانی بیٹا طبیعت تو ٹھیک ہے نہ خاموش ہو اج ۔مامی نے پوچھا ۔ہاں مامی بس سر درد ہورہا ہے ٹیبلیٹ لی کے سوتی ہوں ہاں اچھا ٹھیک ہے ۔جاؤ آرام کرو ۔مامی نے پیار کیا ۔وہ کمرے میں اکر لیٹی تو سو گئی
آدھی رات کو اس کی انکھ کھلی تو اسے پیاس لگ رہی تھی وہ کیچن میں گئی فریج سے پانی نکالا جگ میں بھر کر مڑی تھی کے سامنے کا۔منظر دیکھ کر وہ سناٹے میں اگئ ۔
گلاس اور جگ اس کے ہاتھ سے گر گیا ۔اس نے زور دار چیخ ماری . مامی کی آواز اس کی چیخ سے کھلی ۔وہ باہر آئیں اوپر جانے لگی تو انھوں نے دیکھا کیچن کی لائٹ جلی ہیں وی کیچن میں گئی تو ہانی زمین پر خوفزدہ بیٹھی کانپ رہی تھی ۔
ہانی کیا ہوا ہانی ۔مامی اس کے پاس بیٹھیں مامی وہ ادھر اس نے انگلی سی اشارہ کیا ۔انھوں نے دیکھا تو سامنے بیلن تختہ رکھا تھا یہ یہاں ؟؟؟۔ایک۔لمحے کے وہ بھی چونکی پھر انھوں نے ہانی سے پوچھا کے چلائی کیوں وہ مامی کوئی بیٹھا تھا یہاں ۔اس نے ڈرتے ڈرتے بتایا ۔
ارے بیٹا کون ہوگا سب دروازے تو بند ہیں ۔انھوں نے ڈر کم کیا اس کا نہیں مامی کوئی تھا اچھا اٹھو سونے چلو بس ایسے ہی ڈر گئی ہوگی ۔پر اندر سے مطمئن وہ بھی نہیں تھی کیونکہ رات کو وہ جب جگ میں پانی لینے آئیں تھی تویہ چیزیں یہاں نہیں تھیں اپنی جگہ پر تھیں۔
وہ اسےلے کر باہر نکلی اپنے ساتھ سلایا مامی کی گود میں سر رکھ کر وہ سو بھی گئ پر مامی کو نیند نہیں آرہی تھی انھیں لگ رہا تھا کچھ تو گڑ بڑ ہے صبح جب وہ کیچن میں گئیں تو انھوں نے دیکھا کے ۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے
0 Comments