ads

sath - Episode 3

ساتھ

 قسط 3


انھوں نے سامنے دیکھا کہ تختہ بیلن اپنی جگہ پر ہے ۔پر میں نے تو اٹھایا نہیں اور ماسی ابھی تک آئی نہیں ہیں اس کا مطلب واقعی کچھ مسئلہ ہے ہانی کے ساتھ۔ انھوں نے سوچتے ہوئے چائے چڑھائی۔ آملیٹ ریڈی کرا اور سلائس لے کر باہر آگئیں ۔۔

ناشتے سے فارغ ہو کر انھوں نے برتن دھوئے اور ٹی وی لاونج میں جا کر بیٹھ گئیں ۔ہانی انھیں بہت عزیز تھی۔ کچھ سوچتے ہوئے انھوں نے ایک فیصلہ کیا ۔

موبائیل اٹھا کر کال ملائی ۔مجھے آپ سے ملنا ہے آپ آجائیں یا میں آجاؤں جیسا اپ کہیں ۔جی اچھا صحیح ہے دوسری طرف سے بات کرکے انھوں نے کال کاٹ دی ۔پھر انھوں نے ہانی کی ماما کو کال۔ملائ باجی ہانی کچھ دن تک۔یہیں رہے گی ویسے بھی کالج سے اف ہے اب ۔ انھوں نے کہا

جی بھابھی جیسا اپ کو ٹھیک لگے پھر ادھر ادھر کی بات کے بعد انھوں نے فون رکھ دیا۔ ٹی وی آن کیا نیوز وغیرہ دیکھنے لگیں ۔ہنای کچھ دیر میں روم۔سے نکلتے ہوئے آئی ۔اٹھ گئی میری بیٹی ۔جی مامی اس نے صوفے پر لیٹ کر مامی کی گود میں سر رکھ لیا ۔

مامی ۔ہاں کہو انھوں نے پوچھا ۔مامی کل رات اگر وہ میرا وہم۔تھا کے کوئی وہاں تھا تو بیلن تختہ وہاں کیا کر رہا تھا ۔اس نے اٹھتے ہوے پوچھا اور مامی کل شام جب میں کیچن میں گئی تو کوئی کھڑا تھا میں سمجھی ماموں ہیں میں اندھیرے کی وجہ سے ٹکرائ بھی تھی پر اسی ٹائم آپ لوگوں نے آواز دی اور لائٹ آئی کوئی نہیں تھا کیچن میں ۔

اچھا کل تبھی تم کل خاموش تھی ۔اچھا یہ بتاؤ یہ سب یہاں آنے کے بعد ہوا ہے تمہارے ساتھ ۔انھوں نے پوچھا ۔نہیں مامی کچھ دنوں سے ہی ہورہا ہے اس نے پھسلنے والے دن سے سے ابھی تک کی ساری باتیں تفسیل سے بتائی ۔ 

بابا ہمممممم تمھارے منہ سے یہ کیوں نکلا۔مامی پتہ نہیں پر پتہ نہیں کیوں یہ آواز جانی پہچانی لگتی ہے مجھے پر یاد نہیں آتا ۔ 

اچھا چلو فریش ہو جاؤ ناشتہ کرو ہمیں کہیں جانا ہے ۔مامی نے کہا۔مامی کہاں جارہے ہیں ۔اس نے تجسّس سے پوچھا ۔ملوانا ہے تمھیں کسی سے ۔اچھا مامی ٹھیک ہے وہ کیچن میں گئی تھوڑا ڈر لگ رہا تھا پھر مامی بھی آگئی تو مطمئن ہوگئ ۔بیلن تختے کو دیکھ کر اسکے جسم میں جھر جھری سی آگئی۔

ناشتہ کر کے اس نے فریش ہوکر عبایا پہنا اسکارف باندھا ۔باہر مامی بھی عبایا پہنے اسی کے انتظار میں تھی ۔چلو انھوں نے گاڑی کی چابی اٹھاتے ہوئے کہا ۔مامی ہم جا کہا رہے ہیں ۔اس نے گاڑی میں بیٹھ کر پوچھا ۔صبر لڑکی صبر ۔مامی نے گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے کہا۔

کچھ ہی دیر میں گاڑی ایک متواسط درجے کے علاقے میں داخل ہوئی ۔ ایک گھر کے سامنے گاڑی روکی مامی نے اترو ہانی مامی نے بیل بجائی ۔اندر سے بچہ ایا جی کس سے ملنا ہے بیٹا دادا کو بولیں ۔طیبہ آنٹی آئی ہیں۔

جی جی آئیں دادا نے کہا تھا کوئی آنٹی آئیں اور یہ نام۔بتائیی تو اندر لے آؤں ۔وہ دونوں اندر گئی۔ ڈرائنگ روم میں سفید چادر اور گاؤ تکیے لگے تھے ۔بیٹھے میں دادا کو بلاؤں۔وہ بچہ اندرگیا

 تھوڑی دیر میں سفید شلوار قمیص سر پر ٹوپی میں ایک بزرگ اندر آئیں دونوں کھڑی ہوئیں سلام کیا انھوں نے سر پر ہاتھ رکھا ان کی بہو اندر آئیں دونوں کو سلام کیا ناشتہ رکھا اور حال چال پوچھ کر باہر چلی گئیں انھیں پتہ تھا کہ ابھی ان لوگوں نے اپنا مئسلہ بتانا۔ ہے۔

 اپ لوگ ناشتہ کریں بزرگ نے کہا۔ حاجی صاحب دراصل ہم۔ ناشتہ کر کے ائے تھے میں بس زرا بچی کی وجہ سے پریشان ہوں جو اس کے ساتھ ہورہا ہے ۔انھوں نے جلدی جلدی کہا ۔بزرگ نے ہانی کو دیکھا پریشان نہ ہو بیٹا وہ اپکو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا ۔خود غور کرو اج تک جب بھی تمہیں کچھ ہوا ہے اس نے سنبھالا ہے ہمیشہ انسیت ہے اسے تم سے کس وجہ سے ہے یہ وہی بتا سکتا ہے پر ڈرو مت تم۔نے اس کے کام انا ہے انکے اس طرح بولنے پر جہاں مامی چونکی وہیں ہانی سوچ میں پڑ گئی ہاں واقعی بھائی کا ایکسیڈنٹ ہوا میں بچی میرا سر دروازے پر نہیں لگا ۔ پر میں ان کے کام۔۔۔۔

 تو دادا وہ مجھ سے چاہتے کیا ہیں ۔یہ تو بیٹا وہ ہی بتا سکتا ہے میں اتنا ہی بتا سکتا ہوں جتنی میری دسترس ہے ۔انھوں نے کہا ۔پر وہ مجھ سے کیا بات کرنا چاہتے ہیں ۔اس نے بے چینی سے پوچھا ۔مستقبل کی باتیں صرف وہ رب جانتا ہے بیٹا۔

 ٹھیک ہے حاجی صاحب پھر ہم۔چلتے ہیں بہت شکریہ ۔ ارے بیٹھے ۔انھوں نے کہا ۔نہیں نہیں بس اب چلتے ہیں جزاک اللّہ ۔انھوں نے دونوں کے سر ہر ہاتھ رکھا ۔وہ دونوں بایر آگئیں ۔مامی کچھ مطمئن تھی کے کم از کم کچھ نقصان تو نہیں ہوگا ہانی کو 

مامی کیا یہ صحیح کہ رہے تھے ۔ہانی نے ہوچھا ہاں بیٹا بس اللّٰہ کی خاطر مدد کرتے ہیں اور پھر جیسا تم نے بتایا کہ جس طرح تم بچی ہو تو پھر وہ نقصان کیوں پہنچائے گیں۔ ااچھا مامی میں کچھ دن کے لیے اپ کے پاس رہونگی ۔اس نے کہا ۔ہاں میں پہلے ہی کہہ چکی ہوں باجی سے کے یہاں چھوڑ دیں ۔

ویسے بھی اس سچویشن میں تمھارا وہاں رہنا ٹھیک نہیں۔گھر آیا تو دونوں اندر آئیں ۔ابھی دوپہر کے کھانے میں ٹائم ہے تم بیٹھو ٹی وی دیکھو یا روم میں جاکر ناولز انجوئے کرو میں شاور لی کر وظائف پڑھونگی انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا۔

مامی اوپر گئیں تو اس نے سوچا کیچن سے کچھ کھانے کا لے کر بس ناول پڑھے ۔اس نے کیچن میں قدم رکھا تھا کہ سامنے دیکھ کر اس کے قدم وہیں جم۔گئے۔کوئی چھوٹی بچی تھی اور زمین پر بیٹھ کر کچھ کر رہی تھی وہ آہستہ آہستہ قریب گئی بچی کے پاس سے مسلسل آواز آرہی تھی ٹھک۔۔۔۔۔۔ٹھکک۔۔۔۔ 

وہ جیسے ہی ہلکے ہلکے قدم لے کر اس کے سامنے گئی ۔وہ بری طرح چونک گئی یہ تو میں ہوں اور وہ بیلن کو تختے پر مار رہی تھی اور ہنس رہی تھی ۔

ہانی میرا بچہ کچھ یاد ایا وہ آواز سن کر چونکی ۔کککک۔ ۔۔۔۔کون ہے ۔۔۔۔ککک کون ہے ۔اس نے پوچھا میں ہوں ہانی کا بابا ۔اس نے مٹھاس سے بھرا لہجہ سنا ۔ایک پل کے لیے سوچا چلائے ۔پر پھر اسے یاد آیا اسلامیات کی مس ثوبیہ نے بتایا تھا ۔کہ اشرف المخلوقات ہے اور انھیں سب پر سب سے زیادہ فضیلت ہے۔

آپ سامنے آئیں اس نے ہمت کر کے کہا دل ہی دل میں سورہ الفلق پڑھ رہی تھی اسے لگا پیچھے کوئی کھڑا ہے وہ پیچھے مڑی تو کوئی سفید لباس میں بزرگ تھے ۔ چہرہ نورانی تھا ۔اپ کون ہیں میں نے اپ کو کہاں دیکھا ہے ۔اور اپ میرے ساتھ یہ سب کیوں کر رہے ہیں اس نے ہمت کر کے پوچھا ۔میری روح کو سکون چاہیے بیٹا مجھے انصاف چاہیے جس میں صرف تم میری مدد کر سکتی ہو ۔

اس نے نا سمجھی سے دیکھا۔بتاتا ہوں بیٹا سب بتاتا ہوں اور س لمحے ان کے چہرے پر جو درد تھا ہانی کے دل۔ میں دکھ کا احساس ہوا ۔

___

دو بھائی تھے ہم۔ میں بڑا محمد شاہ اور وہ محمد علی بہت پیار کرتا تھا میں اس سے جان سے زیادہ ۔پر وہ مجھ سے دور بھاگتا تھا ۔ابا جان نے مجھے دینی اور دنیاوی تعلیم دلوائی ۔

 بالغ ہوا تو میں نے تھوڑے پیسوں سے آٹے کا کام شروع کیا ۔ آہستہ آہستہ کر کے خوب ترقی دی اللّٰہ نے ۔میں پچیس کا تھا جب اماں کی ڈیتھ ہوئی ۔ابو اور چھوٹے کو میں نے سنبھالا۔وقت کے ساتھ ساتھ وہ اور دور ہوتا گیا مجھ سے پڑھائی میں بھی دلچسپی نہیں لیتا ابا نہیں کچھ کہتے تھے کہ ماں نہیں ہے کیا کریں ۔میری تو وہ پہلے بھی نہیں سنتا تھا

 ابا نے سوچا میری شادی کرا دے میری بیگم حمیدہ بہت سلجھی ہوئی نیک اطوار کی مالک۔تھی اتے ہی دوسرے دن پورا گھر سنبھال لیا۔میں نے غور کرا علی کا رویہ اس کے ساتھ بھی ویسی تھا وہ کبھی کبھی بدتمیزی بھی کر جاتا پر وہ کچھ نہیں کہتی تھی ۔ 

ہماری شادی کو پانچ سال ہوگئے تھے ہر اولاد نہیں ہوئی تھی ہم۔اللہ سے شکوہ نہیں کرتے تھے بس دعا کرتے تھے وہ جوان ہوا اپنے لیے لڑکی پسند کری ابو نے چھان بین کروائی تو پتہ چلا کہ وہ لوگ شادی میں گانے بجانے کا کام کرتے ہیں ابا نے انکار کر دیا تو اس نے گھر چھوڑنے کی دھمکی دے دی ابا محبت میں مجبور ہوگئے اور ہاں کردی وہ بہت خوش تھا

 خوب دھوم دھام سے شادی ہوئی میں نے پیسہ پانی کی طرح بہایا میں اس کی خوشی میں خوش تھا ۔اس کی بیوی شروع میں ٹھیک رہی پھر اس نے الگ ہونے کا کہ دیا کے اپنا حصہ لو اور چکو وہ روز ابا پر زور دینے لگا ۔

اخر ایک دن ابا نے جائیداد کا بٹوارہ کردیا اور ہھر اس رات ابا سوئے تو دوبارہ نہیں جاگے اس نے کوئی خاص افسوس نہیں کرا بس سامان باندھا اور بیوی کو لے کر چلا گیا ۔پتہ۔نہیں کس جگہ گیا کے شراب اور جوئے کی لت لگ گئ

 ۔اس میں سارا پیسہ لٹانے لگا میں نے سارا پیسہ اپنے کاربار میں لگایا اللّٰہ برکت ڈالتا گیا اور شادی کے آٹھویں سال۔ہمیں خوش خبری ملی کے ہماری اولاد آنے والی ہے میں نے غریبوں میں کھانا تقسیم کیا میں بہت خوش تھا ۔اللہ اللّٰہ کر کے نو مہینے گزرے اور میرے تو مانو پاؤں زمین پر ہی نہیں ٹک رہے تھے

 میں نے بچی کو پیار کرتثء ہوئے حمیدہ سے پوچھا نام کیا رکھیں ۔ہانیہ۔۔۔۔۔ہانی جو دم بخود انھیں سن رہی تھی فورا کہنے لگی اس لیے اپ مجھے ایسے پیار کرتے ہانیہ اپکی بیٹی کا نام۔تھا ۔ہاں س وجہ سے بھی اور میں تمھیں نظر اتا ہوں اس لیے بھی

۔پھر کیا ہوا؟ ہانیہ کو لیکر ہم میاں بیوی اس کے گر گئے تو اسکی بیوی نے شور شروع کردی کہ میری اولاد نہث تو مذاق بنا رہے ہو میرا ۔اور علی نے بھی بھت سنا کر ہمیں نکال دیا میرا دل دکھا پر میں نے چھوڑ دیا ما شاءاللہ سے چار سال کی ہانیہ ہوگئ س دوران میں نے عمرے کے لیے پیسے جمع کر کیے تھیے بس میں ہانی اور اس کی والدہ سب سے مل ج۔مل۔کر جانے لگے تو علی کا فون آیا ۔کاش کاش انھوں نے حسرت سے کہا میں فون نہیں اٹھاتا۔اس نے کہا بھائی میں شرمندہ ہوں بس اپ۔اجائیں مجھ سے ملنے میں معافی چاہتا ہوں

یہ تو اچھی بات تھی نہ کے انھوں نے آپ سے معافی کا کہا۔ہانی نے بولا۔نہ۔۔۔۔نہہہیں وہ رو رہے تھے ہانی کے سمجھ نہیں ارہا تھا کہیا کہے ۔ایسا کیا ہوا تھا اپ بتائیں۔میں نے بیگم سے کہا بس اس سے مل کر سیدھا چلیں گے ایئر پورٹ وہ بھی مان گئی۔

اس کا شام میں فون آیا کے میں اپکے گھر آرہا ہوں آپ مت آئیں ۔میں نے کہا یہ بھی صحیح ہے۔عصر کے بعد وہ اور اس کی بیوی گھر آئے میں اس گلے ملا وہ بھی ملا پر وہ گرم جوشی نہیں تھی اس کی بیوی بھی ایسا لگ رہا تھا بناوٹی ہنسی ہنس رہی تھی ۔اپ کی بیٹی کہاں ہے بھاٹ اس نے بے چینی سے پوچھا سو رہی ہے بس اٹھنے والی ہے پھر ہم۔نے نکلنا ہے۔ 

بابا ہانیہ نیند میں اٹھ کر آئی اور میرے پاس بیٹھ گئی ۔ لو اٹھ گئی بیٹا چاچو سے ملو ۔وہ نہیں جانا چاہ رہی تھی ارے ارے ڈرو نہیں بیٹا اس نے جیب سے چوکلیٹ نکالی وہ پھر بھی نہیں جا رہی تھی ۔اخر وہی اٹھ گیااور اسے اٹھا لیا ۔وہ رونے لگ گئی ۔بابا بابا اور اسی ٹائم اس نےجیب سے پستول نکال کر ہانی کے کنپٹی پر رکھی۔ وہ بری طرح رونے لگی

علی یہ کیا حرکت ہے ۔میں نے غصہ دکھایا ۔حمیدہ بھی اگے بڑھنے لگی تو ۔س کی بیوی نے اپنے بیگ سے پسٹل نکال۔کر اس کے رکھ دی ۔۔ہاہاہا خبردار جیٹھانی جی ورنہ سب سے پہلے اپ کا ٹکٹ کٹے گا ۔علی کیا چاہتے ہو ۔میں نے پوچھا۔س نے اپنی بیوی کو اشارہ کرا تو اس نے حمیدہ کے پیچھے سر پر زور سے پسٹل مارا اور وہ سر پکڑ کر وہیں بی ے ہوش ہو کر گر گئی

حمیدہ۔۔۔۔۔مہیں چلایا ۔اہستہ بھائی اواز نہیں ۔س نے مجھے بندوق دکھاتے ہوے کہا ہانی کے منہ پر ہاتھ تھا اس کی بیوی نے کاغذات میری طرف بڑھائے سائن کرے بھائی اس میں لکھا ہے کہ اپ اپنی ساری جائیداد بمع کاروبار میرے نام کر رہے ہے نہیں کبھی نہیں میں نے کہا ارے بھائی لگتا ہے اپ کو اپنی بیٹی اور بیوی سے پیار نہیں اس نے پسٹل دکھائی مجھے اور اس کی بیوی نے میری بیگم کو ۔

ٹھیک ہے ٹھیک ہے میں نے جیب سے پین نکال۔کر سائن کردیا دکھ ہوا تھا میری زندگی بھر کی کمائی اور محنت اور یہ گھر جس سے اتنی یادیں تھیں پر ان دونوں کے لیئے وہ بھی قربان پکڑو اور میری بیٹی کو چھوڑ دو ارے نہیں بھائی اتنی جلدی کیا ہے۔اس نے سفاکی سے۔کہا

 اس نے ہانی کو اپنی بیوی کو دیا اور اسے ایک کپڑا سنگھا دیا ۔وہ بے ہوش ہوگئ ۔میں نے آہستہ آہستہ جی۔ کی طرف ہاتھ کرا ۔ااااا اااں بھائی سوچئے گا بھی مت ورنہ یہ گولیاں اپکی بیٹی کے اندر۔

پتہ ہے بھائی قدرت اپ پر ہمیشہ مہربان رہی ہے لیکن اس بار نہیں اس نے کہا اور پسٹل ک رخ میری طرف کردیا ۔ اس میں پارٹ لگا تھا تبھ آواز نہیں آ سکتی تھی میں ان نے آنکھیں بند کرلی

 پر اچانک مجھے سسکی کی آواز آئی حمیدہ میرے سامنے آگئی نہ جانے وہ کب ہوش میں آئی تھی اور ہماری باتیں سن رہی تھی وہ نیچے گر گئی ۔میں فورا نیچے بیٹھا حمیدہ حمیدہ اس نے مسکراتے ہوئے میرا ہاتھ پکڑ کر چوما اور کہا

مجھے اس جہان میں بھی اپ کا ساتھ چاہیے ۔اور کلمہ پڑھ کر آنکھیں بند کر لی ۔نہیں نہیں حمیدہ نہیں مت جاؤ۔میں رونے لگا مجھے عشق تھا اس سے۔ بھائی چلیں بھابھی تو گئی اب اپ کا نمبر اس نے میری طرف پسٹل کی اور میرے پاؤ ں پر ماردی میں سن پڑ گیا درد کی شدت اتنی تھی ۔

اس نے دوسرے پاؤں۔پر ماری مجھ سے ہلا بھی نہیں گیا ۔میں ہانیہ کو دیکھ رہا تھا اس کی فکر لگی تھی 

اس نے جب ہانیہ کو دیکھتے ہوی مجھے دیکھا تو ہنستے ہوے کہا ۔فکر نہ کریں اسے اتنی تکلیف نہیں دونگا اور دونوں ہاتھ سے پکڑ کر ہانیہ کی گردن ۔۔

پر ہاتھ رکھا اور میں نے آنکھیں بند کرلی۔۔۔۔ جیسے کسی نئے پورے کی ہری ٹہنی ہوتی ہے نہ ٹوٹنے کی ویسی آواز تھی ۔بابا نے سسکی لے کر کہا۔ ہانی زور سے دہاڑے مار مار کر رونے لگی جیسے اس کا کوئی اپنا مر گیا ہو ۔وہ روتی ہوئی زمین پر بیٹھ گئی ۔

ہانی بیٹا ہانی ۔مامی نیچے اس کی رونے کی آواز سن کر آئی کیا ہوا بیٹا کچھ ہوا ہے پھر ۔انھوں نے ادھر ادھر دیکھ کر پوچھا ۔نہیں مامی وہ مر گئی مامی وہ مر گئی ۔اس ظالم نے ماردیا۔۔ہانی مامی سے لیپٹ کر رودی اچھا آؤ باہر چلو ۔انھوں نے پانی دیا اسے وہ پی کر وہیں لیٹ گئی۔

مامی مے سر کے نیچے تکیہ رکھ دیا۔وہ مسلسل پریشان تھی ہانی کو لے کر اس کے ماں باپ کو نہیں بتا سکتی تھیں وہ لوگ بہت پریشان ہو جاتے۔اللہ رحم کر میری بچی کے ساتھ ۔

شام۔میں وہ سو کر اٹھی .مامی کو کہا کے اسے زرا گھر جانا ہے کام ہے ۔مامی نے بھی نہیں کچھ پوچھا کے وہ خود ہی بتا دیگی ۔ٹھیک ہے میں چھوڑ دیتی ہوں چلو ۔انھوں نے کہا ۔اس نے سامان لیا عبایا پہنا اور مامی کے ساتھ اگئی۔

 اسلام وعلیکم بھابھی کیسی ہیں ارے ہانی میرا بچہ اگیا۔ ابو نے پیار کیا۔وعلیکم اسلام بھائی بس آج یہ انے والے ہیں اور ہانی کو بھی یاد ارہی تھی تو میں نے سوچا گھر چھوڑ دوں ۔ گھر میں سب کہاں ہیں نظر نہیں آرہے۔جی وہ بیگم اور باقی تین گرمیوں کے کپڑے اور گھر کا کچھ سامان لینے گئے ہیں ابو نے بتایا۔

اچھا بھائی میں چلتی ہوں ارے بہن بیٹھے ۔نہیں نہیں بھائی بس چلوں گی وہ بس مل کر گئیں تو ہانی نے ابو سے پوچھا ابو یہاں کا مشہور آٹے والا۔کون ہے ۔ کیوں بھئی تم۔نے ساتھ کام کرنا ہے ابو نے ہنس کر پوچھا۔

ابو بتائیں نہ ۔بیٹا بہت سارے ہیں میں کیسے بتا سکتا ہوں ۔ اچھا چھوڑیں اس نے سیریسئ ہو کر کہا ۔بیٹا ایک تو ظفر صاحب ہیں ہمارے پڑوسی دوسرے یہ پیچھے خان صاحب جو رہتے ہیں وہ ۔ انھوں نے بتایا۔

اچھا ٹھیک ہے اس نے کہا۔میں آرام کرتی ہوں اب وہ جانے لھی تو پیچھے سے ابو کی اواز آئی جس پرانے گھر میں ہم۔رہتے تھے ان کے مالک مکان بھی آٹے کا کاروبار کرتے تھے ۔وہ فوراً مڑی محمد علی ۔اس نے کہا ۔ہاں یہی نام تھا تمھیں کیسے پتہ ۔وہ دراصل ابو دوست نے نام لیا تھا ان کا کے آٹا اچھا ملتا ہے پر میں نا بھول گئی تھی ۔اس نے جلدی سے وضاحت دی ۔

اچھا اچھا بھئ بڑا ہی نیک بندہ ہے ابو نے تعریف کری ۔ہانی کے منہ میں کڑواہٹ گھل گئی۔کیوں ابو اس نے پوچھا۔ارے بیٹا پانچ وقت کا نمازی بندہ ہے ۔اولاد نہی ہے پر کبھی شکوہ نہیں کیا لوگ بتاتے ہیں اس کا ایک بھائی تھا بڑا بہت بھلا آدمی تھا جس دن اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ حج پر جارہا تھا اسی دن ٹرک نے انکی گاڑی اڑا دی اور وہ لوگ اسی وقت انتقال کر گئے۔بہت روتا ہے وہ کہتا ہے کاش مجھے خبر ہوتی تو میں روک لیتا میری معصوم سی بھتیجی اولادوں کی طرح پیار کرتا تھا اسے وہ ۔۔ابو نے اسے تفصیل سے بتایا جسے وہ بہت ظبط سے سن رہی تھی ۔




جاری ہے

Post a Comment

0 Comments