ساتھ
قسط_4 ( آخری )
اچھا ٹھیک ہے ابو زرا میں دوست سے بات کرلوں ۔ہاں بیٹا جاؤ۔
اس نے کمرے میں اکر اپنی دوست منت کو کال ملائی ۔اسلام وعلیکم ہاں منت کیسی ہو اچھا مجھے ایک کام ہے مجھے وہ تمھارا پین چاہیے جو کلاس ٹائم میں تم یوز کرتی ہو ہاں اوکے اس نے کال کٹ کری تو اسے پیچھے کسی کی موجودگی محسوس ہوئی
بابا میں اپ کا بدلہ لونگی اسے سلاخوں کے پیچھے بھیجوں گی یہ میرا وعدہ ہے ۔اس نے مڑتے ہوئے کہا ۔میں چاہتا تو اسے نقصان پہنچا سکتا تھا پر میں پر نہیں میں چاہتا ہوں وہ اپنے منہ سے اپنے جرم کا اقرار کرے خود ۔انھوں نے کہا ۔جی بابا ٹھیک ہے اچھا بابا اس کے بعد کیا ہوا ۔بابا نے ایک ٹھنڈی سانس لی۔
ہانیہ کے بعد اس نے میری طرف قدم بڑھائے اور پسٹل میری طرف کرتے ہوئے کہا ۔پتہ ہیں میں اپ سے نفرت کرتا ہوں بچپن سے مجھے کہا جاتا تھا شاہ کی طرح بنو شاہ کی طرح کام کرو۔مجھے چڑ آتی تھی اور یہ جاننے کے بعد کے اپ لوگ میرے سگے نہیں مجھے سب سے نفرت ہوگئی۔
مطلب ہانی نے حیران ہو کر پوچھا۔ابا اسے روڈ سے لائے تھے انھیں رات کے وقت آتے ہوئے فٹ پاتھ سے ملا تھا ۔شکر تھا کے کسی جانور یا اور نے کوئی نقصان نہیں پہنچایا تھا انھوں مے لاکر اماں کی گود میں دیا کے ہمارا بیٹا ہے اور سب بتایا
اماں نے بہت لاڈ کیے مجھ میں اور اس میں کبھی فرق نہیں کیا پر وہ بچپن سے ایسا تھا ۔اور پھر وہ دن۔۔۔۔۔۔ میں نھیں جانتا تھا وہ اتنی نفرت کرتا ہے مجھ سے اس نے مجھے مارا نہیں بیہوش کردیا اور گاڑی میں ڈالدیا ۔ایسی روڈ پر اس نے گاڑی کھڑی کری جہاں گاڑیاں کم ہی آتی جاتی تھیں
ایک ٹرک والے کو پیسے دے کر اس نے میری گاڑی کو ٹکر لگوادی لوگ جمع ہونا شروع ہوئے اور پھر ہماری ڈیڈ باڈیز کو ہسپتال پہنچایا گیا ۔اتنی خراب حالت تھی کہ جلد ہی دفنانے کا کہا گیا اور وہ میرا بھائی جسے شاید ہی میں نے روتے دیکھا ہو ہمارے جنازے پر ایسا رویا کہ لوگ بھی ترس کھانے لگے ۔
اس کی بیوی اور وہ ہمارے گھر میں چلے گثٹ اور وہاں کا سارا سامان اور میری بیگم اور ہانیہ کی چیزیں اس گھر میں دبا دی جسے میں نے ہانیہ کے نام پر خریدا تھا وہاں اس نے گھر بنوا دیا ۔ہانیہ اور حمیدہ تو اگلے سفر پر چلے گئے پر میں نہ وہیں اس گھر میں رہا ۔
دن گزرتے رہے اس گھر میں جو آتا وہ گھر ناپاک رکھتا جو مجھے پسند نہ تھاجو ایک مسلمان کو زیب نہیں دیتا میں انھیں کسی طرح نکال دیتا پھر تم ائی ہانیہ کی عمر کی ہانیہ نام تھا بہت خوش ہوا سوچا تمھارے ساتھ باتیں کرونگا وقت گزارونگا تمھیں سب بتاؤنگا پر تمھاری والدہ ڈر گئیں
پھر تمہارے والد نے مجھے جانے کا کہا میں تمہارے سامنے نہیں اتا تھا پر تمہارا خیال رکھتا تھا پر چار سال جب مجھے لگا تم میں شعور آرہا ہے تو سوچا تم سے باث کروں پر مگر تمھاری والدہ کو شک ہوا ۔ تم لوگ یہاں آگئے مجھے لگا نہیں میری بیٹی مجھ سے دور چلی گئی اور پھر مجھے انصاف کون دلاے گا ۔
اس لیئے میں تمہیں وہ چیز دکھانے لگا جس سے میں تمھیں یاد آؤں۔مجھے پتہ تھا تم میری مدد کروگی تم سے میری ہانیہ کی خوشبو آتی ہے ۔ہانیہ مسکرانے لگی۔ااور انکھیں صاف کی۔
بس بابا اب اور نہیں اپ کو اور انتظار نہیں کرنا پڑیگا ۔اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے اور وہ جب رسی کھینچتا ہے نہ تو بندہ منہ کے بل گرتا ہے بس مجھے کل اپکی تھوڑی سی مدد چاہیے۔م اور اس نے پوری تفصیل بتادی کے وہ کیا کرنے والی ہے۔ فکر مت کرو میں اپنی بیٹی کو کچھ نہیں ہونے دونگا ۔
______
امی لوگ شام میں آئیں تو ان سے ملی ۔رات میں جب سب کھانےپر بیٹھے تو اس نے ابو سے کہا ابو میں کل منت کے گھر جاؤنگی سمر ویکیشن کا کام۔ہے کچھ اسائنمنٹ ہے اچھا بیٹا ٹھیک ہے بھائی چھوڑ دیگا ۔جی ابو ٹھیک ہے ۔اس نے کہا ۔وہ پوری رات سوئی نہیں پتہ نہیں کیوں اس بندے سے اسے نفرت ہو رہی تھی ۔
فجر کی آزان کی آواز کان میں آئی ۔اس نے اٹھ کر نماز پڑھی دو نوافل پڑھے کہ اللّٰہ مجھے میرے مقصد میں کامیاب کرنا ۔دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے۔پھر کیچن میں گئی ناشتہ ریڈی کرنے لگی تو بابا کی موجودگی محسوس ہوئی ۔اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا کہ میں اپکو بابا کیوں کہتی ہوں اور روٹی ہی کیوں بناتی تھی ۔
کیونکہ ہانی مجھے بابا کہتی تھی اور اکثر روٹی بنانے کے کوشش کرتی کھلونوں سے اور کہتی بابا بڑے ہو کر میں ماما سے اچھی روٹی بنا کر اپ کو دونگی ۔میں بھی خوش ہو جاتا اور ہاں میں ہاں ملاتا ۔دونوں یونہی باتیں کرنے لگے اور ہانی نے پراٹھے اور خاگینہ بنا لیا ۔سب اٹھ گئے تو ہانی کے ہاتھ کا ناشتہ دیکھ کر خوش ہوئۓاس نے دوپہر مییںپولیس اسٹیشن میں جال۔کیا اور بات سمجھائی پھر بھائی کے پاس آئی کے دوست کے گھر چھوڑ دیں ۔
بھائی نے منت کے گھر چھوڑا اس نے کہا واپسی کے لیے کال کردونگی۔منت اور آنٹی سے ملی منت نے اسے پین دیا اس نے کہا اج زرا جلدی جانا ہے کچھ کام ہے پھر آؤنگی ۔وہ باہر آئی اور رکشہ لگ کر پرانے محلے میں گئی علی کا گھر جانتی تھی کیونکہ کافی بار چھوٹے میں گئی تھی ابو کے ساتھ۔
گھر کے سامنے اکر اس نے پھر پولیس کو کال ملائی جی میں پہنچ گئی ہوں ۔ پین کا ڈیوائس آن کر کے اپنے موبائل سے کنیکٹ کیا اور پین اپنے عبائے کے گلے میں اٹکا دیا کہ نظر نہ آئے۔بیل بجائی تھوڑی دیر میں ایک عورت کی آواز ائی کون ؟. جی میں ہوں ۔ہانیہ ۔انھوں نے لڑکی آواز سن کر دروازہ کھولا ۔
ارے بیٹا تم ہمارے پرانے کرایہ دار کی بیٹی کیسے ہیں سب جی سب ٹھیک ہیں ارے آؤ اندر آؤ ویسی گلی سناٹا ہے آجاؤ۔اسے لے کر اندر آئیں ۔دیکھا تو وہ سامنے بیٹھے تھے آجاؤ بیٹا آجاؤ ۔کیسے ہیں ٹھیک بیٹا بیٹا ۔کیسے آنا ہوا بھئی۔
وہ انکل بس ایسے ہی یہاں سے گزر رہی تھی سوچا ملتی چلوں ۔ویسےاپ جتنے اچھے تھی واقعی میں کوئی مالک مکان نہیں ہو سکتا تھا۔ارے نہیں نہیں بیٹا اپ لوگ بھی بہت اچھے تھے۔ اچھا ویسے ابو بتاتے تھے کے گھر میں کچھ اثر وغیرہ تھا اس پڑوس کے لوگ کہتے تھے
ارے نہیں بیٹا بس لوگ میری جائیداد سے و بس افواہ پھیلاتے ہیں ۔انھوں نے کہا ۔اپ لوگ باتیں کرے میں کچھ کھانے کا لاؤں۔ اوھو انک اپکی نہیں اپنکگ بھائی کی۔اس نے کہا۔ان کے چہرے پر ناگواری آئی پر انھوں نے فوراً موڈ بدلا ۔بس بیٹا میں تو زبردستی سنبھال رہا ہوں ورنہ دو روٹی میں بھی گزارا ہو جاتا ہے ۔ تو اپ کسی یتیم خامے میں دے دیتے پیسے اس نے کہا۔اب کی بار وہ ناگواری چھپا نہیں سکے بیٹا بس سوچا تھا پر بھائی کی نشانی سمجھ کر رکھ لیا ۔انھوں نے غمناک لہجے میں کہا
نشانی تو اس کرائے کے گھر میں دفن ہیں شاید ۔اس نے گھورتے ہوئے کہا۔کیا مطلب کیا کہنا چاہتی ہو تم ۔انھوں نے چونک کر کہا۔ارے بیٹھیں اپنا گھر سمجھے۔پر ہے تو نہیں پر جب زبردستی سائن لے ہی لیے تھے تو کیا کہہ سکتے ہیں پیچھے سے اسے اپنے سر پر کچھ محسوس ہوا ان کی بیگم نے اس کے سر پر پسٹل رکھی ہوئی تھی ۔
لڑکی سچ سچ بتا کس نے بتایا ہے یہ سب تجھے۔ انھوں نے غرا کر کہا ۔پہلے والی مٹھاس لہجے سے غائب تھی ۔ہانی نے اطمینان سے کہا یہی پسٹل تھی جس سے حمیدہ کو مارا تھا ۔تمممممم تمہیں کیسے پتہ سچ بتاؤ یہ راز ہم دونوں کے سوا اج تک کسی کو پتہ نہیں چلا کے انہیں ہم نے مارا تھا ۔تو تمہیں کس نے بتایا ۔
اپ لوگوں کو خدا سے ڈر نہیں لگا کہ اوپر وہ اللّٰہ بھی بیٹھا ہے حساب۔۔۔۔۔۔اےلڑکی یہ تبلیغ کہیں اور کرنا بلکے اب اوپر ہی جاکر کرنا کیونکہ اب تمہارا زندہ رہنا ہمارے لیئے ٹھیک نہیں۔۔اب بھی وقت ہے معافی مانگ کر اپ دونوں اپنے گناہ کا اعتراف کر لیں۔
ہاہاہاہا اچھا چلو میں مانتا ہوں بھئی کے میں نے اپنے بھائی کو مارا اس کی بیگم گولی چلائی پراسکی بیٹی کو گردن موڑ کر ماردیا ۔لڑکی دنیا صرف پیسٹ سے چلتی ہے ۔انھیں تو مار چکا اب تمھاری باری ان کی بیگم نے اسے پکڑا وہ چھڑوانے لگی کہ اسے بابا سامنے نظر آگئے ۔علی نے جاکر پسٹل کے اگے وہ پارڑ لگا لیا کے آواز نہ آئے ۔
ہانی کے سامنے کھڑے ہوئے اور پسٹل چلانے والے تھے کے انھیں زور کا دھکا لگا وہ میز پر جاکر گرے ۔علی ان کی بیگم چلائی اسے چھوڑ کر آگے بڑھنے لگی تو پاؤں کے بیچ میں کچھ آیا اور صوفے کا کونا ان کے سر ہر لگا ۔۔۔۔اہ وہ چلائی اسی ٹائم پولیس دروازہ توڑ کر اندر آئی ۔۔ساتھ میں ایک نیوز رپورٹر بھی تھی ۔
"ناظرین جیسا کے آپ دیکھ رہے ہیں اس انیس سال نے بچی نے اپنی جان پر کھیل کر ایک فیملی جن کا۔قتل۔کیا گیا تھا ان کے قاتلوں کو پکڑوایا ہے ۔جی انھوں نے خود اپنے جرم کا اقرار بھی کیا ہے۔ٹی وی پر نیوز چل رہی تھی اور گھر والے حیران تھی ۔ابو اسے تو میں دوست کے گھر چھوڑ کر آیا تھا ۔اللہ میری بچی ٹھیک ہو ۔امی نے دعا مانگی۔
پولیس نے دونوں کو ہتھکڑی پہنا دی تھی ۔ہانی کو پولیس والے نے شاباشی دی کگ اس نے بہادرٹ کا کام کیا ۔وہ گھر آئی تو ماموں لوگ سب س کا انتظار کر رہے تھے ۔ہانی کیسا ہے میرا بچہ ؟کیوں کیا یہ سب بتاؤ کچھ ہوجاتا تو امی نے روتے ہوے کہا کچھ نہیں ہوتا امی میں ٹھیک ہوں ۔پر تمہیں یہ سب پتا کیسے چلا ۔ماموں نے پوچھا ۔خواب آیا تھا مجھے ۔اور ہھر اس نے پلان بنانے کے بعد کی ساری بات بتا دی۔
مجھے فخر ہے تم پر ہانی ۔ابو نے ہانی کو پیار کرتے ہوئے کہا سب نے ہانی کو پیار کیا ۔وہ جب ریسٹ کرنے کے لیئے کمرے میں آئی تو اسے کسی کی موجودگی محسوس ہوئی اس نے دیکھا بابا کی انکھ میں آنسو تھے۔تم میری ہانیہ ہو میری بیٹی کس طرح شکریہ ادا کروں میں تمہارا ۔بابا ایسا نہ کہیں بس مجھے سکون مل گیا میرا ضمیر مطمئن ہوگیا ۔میں جاتا ہوں بیٹا اب چلتا ہوں میں اور وہ غائب ہوگئے ۔
بابا بابا اس نے آواز لگائی اپ مجھے چھوڑ کر جا رہے ہیں ۔اس نے کان کے پاس سرگوشی سنی ۔
ہانی میرا بچہ میں ہمیشہ تمھارے ساتھ ہونگا ہمارا ساتھ کبھی نہیں چھوٹ سکتا خیال رکھنا۔ ہانی مسکرانے لگی اگلے دن نیوز چلی کے دونوں کو پھانسی نکی سزا سنائی ہے اور وہ ساری جائیداد یتیم خانوں میں دے دی ہے۔
ہ
ہانی آنکھیں بند کر کے مسکرانے لگی اور اسے اپنے آس پاس وہی خوشبو محسوس ہوئی جو بابا کی موجودگی میں اتی تھی ۔اس نے آنکھیں کھولی تو کوئی نہیں تھا اس نے مسکراتے ہوئے کہا "صحیح کہا تھا بابا نے ہمارا ساتھ کبھی نہیں چھوٹ سکتا"
ختم شد
0 Comments