شریف لڑکی
قسط 1
ہمارے معاشرے میں سیکس کی جتنی بھی داستانیں عام ہیں وہ آوارہ لڑکیوں ، لڑکوں یا عیاش خواتین و مرد حضرات کے متعلق ہیں ۔
آج میں آپ کو ایک خاص کہانی سنانا چاہتی ہوں کہ کیسے ایک شریف اور پارسا لڑکی حوس و شہوت کی رسیا بن گئی اور اپنی جنسی تسکین کے لیے بےحیائی کی تمام حدیں پھلانگ گئی۔
تو چلیں کہانی کی طرف بڑھتے ہیں ۔
یہ میری ایک دوست کی سچی کہانی ہے جسے الفاظ کی صورت میں نے دی ہے ۔ اور اس کی رازداری کو قائم رکھنے کے لیے میں نے سٹوری میں اس کے بجائے اپنا نام لکھا ہے ۔
میرا نام عاصمہ ہے اور میرا تعلق لاہور کے ایک مذہبی ، تبلیغی گھرانے سے ہے۔ ہمارا خاندان کافی وضع دار ہے جہاں لڑکیوں کو چھوٹی عمر سے ہی پردے اور چادر و چار دیواری کی پابندی کی عادت ڈال دی جاتی ہے۔ بہن بھائیوں میں میرا دوسرا نمبر ہے میرا ایک چھوٹا بھائی اور ایک بڑی بہن ہے ۔ نرسری سے لے کر پانچویں تک کی تعلیم میں نے ایک نزدیکی گرلز سکول سے حاصل کی ۔ جس کے بعد میرا داخلہ ایک مدرسے میں کروادیا گیا جہاں دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ جب میں مدرسے سے فارغ التحصیل ہوئی تو میری عمر 20 سال ہوچکی تھی اور میں مدرسے کی ڈگری کے ساتھ ساتھ میٹرک بھی مکمل کر چکی تھی۔ میں ایک ذہین اور ہونہار لڑکی تھی اور وہیں پر اپنا تعلیمی سلسلہ نہیں ختم کرنا چاہتی تھی بلکہ انٹرمیڈیٹ کے لیے کالج میں داخلہ لینا چاہتی تھی ۔ چنانچہ میری خواہش پر ابو نے میرا داخلہ ایک نزدیکی گرلز کالج میں کروا دیا ۔ مجھے روزانہ کالج لیجانے اور واپس لانے کی ذمہ داری بھائی کی تھی ۔ جو مجھ سے ایک سال ہی چھوٹا ہے ۔ اس طرح میری کالج لائف کا آغاز ہوگیا۔
تب تک مجھ پر جوانی کی بہار پوری طرح چھا چکی تھی ۔ خدا نے مجھے بہت حسن و جمال سے نوازا ہے ۔ میں دراز قد اور متناسب جسم کی مالک ایک گوری چٹی خوبصورت دوشیزہ تھی ۔ میرے لمبے کالے بال ، تیکھے نقوش ، کالی آنکھیں اور بےمثال خوبصورتی و نزاکت کے حامل میرے گلابی بھرے بھرے ہونٹوں نے میرے حسن کو چار چاند لگا دیے تھے ۔
لیکن اس بھری جوانی میں بھی میں ایسی نیک و پارسا لڑکی تھی کہ خاندان میں میری نیک سیرتی کی مثالیں دی جاتی تھیں۔
جس کی وجہ بچپن سے ملا گھر کا پاکیزہ ماحول تھا ۔ ہمارے گھر میں مذہبی اقدار کی اتنی پابندی کی جاتی تھی کہ نہ تو گھر میں ٹی-وی تھا اور نہ ہی سمارٹ فون ۔ رابطے کے لیے محض بٹنوں والے پرانے نوکیا فون تھے اور وہ بھی سب کے پاس نہیں بلکہ ایک فون ابو کے پاس تھا اور دوسرا گھر کے سبھی افراد کا مشترکہ ۔ بلکہ فون کا کیا کہنا گھر میں رسالے اور ناولز تک نہ پڑھے جاتے تھے بلکہ صرف مذہبی کتب اور رسالے ہی گھر آتے تھے۔
اس وقت تک کسی بھی لڑکے سے میری شناسائی تو کیا کبھی سلام دعا بھی نہیں ہوئی تھی ۔کیونکہ میں صرف لڑکیوں کے ہی سکول اور مدرسے میں پڑھی تھی اور اب بھی گرلز کالج کی طالبہ تھی ۔ اور میرے سب میل کزن مجھ سے بہت چھوٹے تھے ۔
انٹرمیڈیٹ کے دو سال مکمل ہونے کے بعد میں نے اسی کالج میں گریجویشن کے لیے اپنی سٹڈیز برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ۔ لیکن بدقسمتی سے انہی دنوں کرونا وائرس کی وبا پھوٹ پڑی اور بہت جلد سبھی تعلیمی اداروں کو بند کردیا گیا اور ساری تعلیم کو آن لائن کلاسز پر منتقل کردیا گیا ۔ لیکن آن لائن کلاسز لینے کے لیے سمارٹ فون، ٹیبلٹ یا لیپ ٹاپ ضروری تھا ۔ اور ان میں سے کچھ بھی میرے پاس موجود نہ تھا ۔
میں نے اس سلسلے میں ابو سے بات کی تو ابو مجھے سمارٹ فون دلوانے پر راضی ہوگئے کیونکہ انہیں مجھ پر پورا بھروسہ تھا اور اس طرح ہمارے گھر پہلے سمارٹ فون کی آمد ہوئی۔
کرونا کی وجہ سے کالج سے چھٹیاں تھیں ۔ بس دن میں دو گھنٹے کی آن لائن کلاسز ۔ باقی وقت میں فری ہی ہوتی تھی چنانچہ میں نے اپنا فارغ وقت موبائل پر پاس کرنا شروع کردیا۔
تب مجھے پہلی مرتبہ سوشل میڈیا اور یوٹیوب سے آشنائی ہوئی۔ ایک کلاس فیلو کی راہنمائی سے میں نے اپنا پہلا فیسبک اکاؤنٹ بنانا لیکن اپنے اصل نام سے نہیں ۔ اور ڈی-پی پر بھی صرف پھولوں کی تصویر لگائی۔ اپنے ساتھ میں نے صرف اپنی کالج کلاس فیلوز کو ہی ایڈ کیا ۔
فیسبک کے علاؤہ باقی وقت میں یوٹیوب پر کھانے پکانے کے پروگرامز دیکھ کر گزارتی تھی۔ اور اس طرح گھر میں اچھا وقت کٹنے لگا ۔
گھر والوں کو میرا سوشل میڈیا استعمال کرنے کا علم نہ تھا اور میں گھر کے سخت ماحول کی وجہ سے انہیں بتانا بھی نہ چاہتی تھی کیونکہ اس طرح میری تفریح کا واحد زریعہ ختم ہو جانے کا خدشہ تھا۔
مجھے فیسبک یوز کرتے ایک ماہ ہوا تھا کہ ایک روز کسی بوتیک کے پیج پر میں نے ایک ڈریس کی قیمت معلوم کرنے کے لیے کمنٹ کیا ۔ ایڈمن کی طرف سے کمنٹ کا ریپلائے تو آ ہی گیا۔
لیکن چند گھنٹوں بعد مجھے میسج ریکوئسٹس میں فیصل نامی ایک لڑکے کا میسج ملا جس میں اس نے محض سلام کیا تھا ۔
میں اس وقت فارغ تھی اور بور ہورہی تھی چنانچہ میں نے اس کے سلام کا جواب دے دیا ۔ تھوڑی سلام دعا اور تعارف کے بعد علم ہوا کہ اس کا تعلق میرے ہی شہر سے ہے ۔ میں نے احتیاطاً اسے اپنے محلے سے متعلق یا ایسی کوئی بھی پرسنل معلومات دینے سے گریز کیے رکھا ۔
پہلی گفتگو میں وہ لڑکا مجھے ایک اچھا اور سلجھا ہوا انسان لگا ۔ اور اس نے مجھے بہن کہہ کر ہی بلایا ۔ اس کے بعد ہم دونوں بہن بھائی بن گئے اور یوں اکثر ہماری گفتگو ہونے لگی۔
دوستو نامحرم سے گفتگو میں ایک عجیب لذت ہوتی ہے اور ایک مرتبہ انسان گفتگو شروع کر دے تو وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا اور انسان گھنٹوں تک بات کرتا چلا جاتا ہے ۔
شروع شروع میں تو ہماری گفتگو بالکل رسمی سی تھی ۔ بس تعلیم، دن کے معمولات ، پسند ناپسند اور اپنے مشاغل ایک دوسرے سے ڈسکس کرنا ہی ہمارا معمول تھا لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ہم ایک دوسرے کے ساتھ بےتکلف ہوتے چلے گئے ۔ ہاں البتہ ہم ایک دوسرے کو بہن بھائی ہی سمجھتے اور پکارتے تھے ۔
ایک روز گفتگو کے دوران فیصل نے مجھ سے پوچھا کی میرے پسندیدہ ڈرامہ سیریل اور موویز کونسی ہیں ۔ لیکن میرے پاس کوئی جواب نہ تھا کیونکہ میں اب تک ان چیزوں سے نا آشنا تھی ۔ یہ جان کر اسے حیرت ہوئی کہ فلم یا ڈرامہ جیسی کوئی چیز میرے معمولات کا حصہ نہیں ۔ اس نے اپنی پسندیدہ کچھ فلموں اور ڈراموں کے نام بتائے اور مجھے مشورہ دیا کہ میں انہیں دیکھوں اس سے وقت اچھا کٹ جائے گا۔
چنانچہ میں نے اپنے موبائل پر ان فلموں کو سرچ کیا اور دیکھنا شروع کیا ۔ اس طرح ٹائم پاس کے لیے ایک نیا دلچسپ مشغلہ میرے ہاتھ آگیا ۔
جب فلم کی دنیا سے میری آشنائی ہوئی تو تب پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ دنیا کہاں کی کہاں پہنچ چکی ہے ۔ انڈین موویز میں ایکٹرسز کو جینز شرٹ ، ساڑھی اور سکرٹ جیسے لباس پہنے دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ دنیا کتنی ماڈرن ہوچکی ہے ۔ فلموں میں بولڈ سینز اور کسنگ و گلے لگنے کے مناظر دیکھ کر مجھے شدید الجھن ہوئی کہ کس قدر بےحیائی و بے راہروی ہے ۔
چند انڈین موویز کے بعد میں نے ایک انگلش فلم دیکھنا شروع کی جس کی سٹوری کافی دلچسپ لگی ۔ فلم دیکھتے ہوئے اچانک ایک سین میں میں ساحلِ سمندر کا منظر سامنے آگیا کہ جہاں گوری لڑکیاں سرعام اوپری کپڑے اتارے محض مختصر سی بکنیز 👙 زیب تن کیے ریت پر لیٹی دھوپ سینک رہی تھی ، گھوم پھر رہی تھیں یا سمندر میں نہا رہی تھیں۔ اس قدر بےشرمی و حیاء باختگی کا کبھی میں نے تصور بھی نہ کیا تھا کہ کوئی لڑکی سرعام ، مردوں کی موجودگی میں اتنے چھوٹے کپڑوں میں یوں رہ سکتی ہے ۔
مجھے یہ منظر دیکھ کر چہرے پر پسینہ آگیا اور دل کی دھڑکن تیز ہوتی محسوس ہوئی
جاری ہے