شریف لڑکی
قسط 2
میں نے فوراً فلم بند کی اور اس بات کا شکر ادا کیا کہ میرا تعلق ایک اچھے خاندان سے ہے اور مجھ پر نئی تہذیب کا سایہ نہیں پڑا ۔
ساتھ ہی میں نے آئیندہ کوئی فلم نہ دیکھنے کا عہد کیا تاکہ ایسے واہیات مناظر دیکھ کر اپنی نگاہوں کو گناہ گار بنانے سے بچ سکوں۔
چند دن بعد فیصل سے بات ہورہی تھی اور اس دوران اس نے مجھ سے پوچھا کہ میں نے اس کی بتائی موویز دیکھی یا نہیں ۔
تو میں نے اسے بتایا کہ نامکمل لباس اور بےباکانہ مناظر کی وجہ سے میں نے موویز دیکھنا چھوڑ دی ہیں۔ تو یہ سن کر بہت ہنسا اور اس نے کہا ، یہ کیا پرانے زمانے جیسی سوچ کو خود پر سوار کیے بیٹھی ہو ۔ یہ مارڈرن دور ہے آج کل مختصر لباس ، چست و تنگ لباس اور باریک لباس معمول کی بات ہے کیونکہ یہ دور حسن و جمال کو چھپانے کا نہیں دکھانے کا ہے۔
فیصل کی یہ سوچ دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی ۔پر میں نے اس سے زیادہ بحث نہیں کی ۔
خیر گزرتے دنوں کے ساتھ ساتھ ہم ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ بے تکلف ہونے لگے اور زیادہ کھل کر باتیں کرنے لگے ۔ ایک دن فیصل نے مجھے اپنی کچھ تصاویر بھیجیں ۔ اچھا خاصا ہینڈسم لڑکا تھا وہ ۔ ساتھ ہی اس نے مجھ سے فرمائش کی کہ میں اسے اپنی کچھ تصاویر بھیجوں ۔
تھوڑا بہت جھجھکنے کے بعد میں نے اسے اپنی کچھ تصاویر سینڈ کر دیں ۔
اسے میری تصاویر دیکھیں اور میری بہت تعریف کی ۔ اس نے میری رنگت , آنکھوں ، بالوں ، ہونٹوں اور گالوں پر خوب شاعرانہ انداز میں تعریفی الفاظ کہے ۔ یہ سب سن کر میں شرما سی گئی ۔ مجھے زندگی میں پہلی مرتبہ اپنے حسن و جمال کی ستائش مل رہی تھی اور مجھے یہ سب بہت اچھا لگ رہا تھا پھر چاہے یہ سب کہنے والا میرا منہ بولا بھائی ہی کیوں نہ ہو۔ اس کے بعد اگلا مرحلہ وائس کال پر بات تھا اور پھر ویڈیو کال ۔ ایک ماہ کی اندر ہی ہم آپس میں یوں فری ہوگئے جیسے برسوں سے دوست ہوں۔
اب مجھے موویز اور ڈرامہ سیریز دیکھنے میں بھی جھجھک ختم ہوتی جارہی تھی اور مختصر لباس اب مجھے معاشرتی برائی کے بجائے محض ایک فیشن لگنے لگا تھا ۔ اب میں اور فیصل رات دیر تک چیٹ کیا کرتے اور دن بہ دن رہی سہی جھجھک بھی دور ہوتی جارہی تھی اور اب ہم بلاتکلف کسی بھی موضوع پر بات کر لیا کرتے تھے ۔ اب ہم اکثر اپنی نئی پکچرز ایک دوسرے کو بھیجتے تھے اور ہر دفعہ ہی وہ میرے حسن و خوبصورتی کو سراہتا جس سے مجھے پہلی بار احساس ہونے لگا کہ میں بےمثال حسن و نزاکت کی مالک ایک خوبصورت لڑکی ہوں۔ اور یہ احساس میرے لیے بہت قیمتی تھا۔
اب مجھے موویز میں بولڈ ڈریسنگ بری نہیں لگتی تھی بلکہ رفتہ رفتہ مجھے یہ سب اچھا لگنے لگا تھا ۔ میری سوئی ہوئی جوانی بیدار ہورہی تھی اور دل میں دبے دبے کچھ ارمان کچھ تمنائیں جنم لے رہی تھیں۔
ایک روز میں نے فیصل کو اپنی کچھ پکچرز بھیجیں تو اس نے کہا ،تم تو بالکل ہی ڈھیلا ڈھالا اور سمپل سا لباس پہنتی ہو ۔ جوان لڑکی ہو اپنے لباس میں کچھ کشش لاؤ ۔ یوں لگتا ہے جیسے کہیں فوتگی پر آئی ہو۔
جس پر میں ہنسی اور کہا ،ہمارے گھر کا ماحول تو تمہیں پتا ہی ہے ۔اب کہاں ایسی ڈریسنگ کروں . جس پر فیصل نے کہا ،مانا کہ تم سب کی سامنے ایسا کچھ بھی نہیں پہن سکتی مگر تنہائی میں اپنا شوق پورا کر سکتی ہو میرے ساتھ ۔
مزید اس نے مجھے کہا کہ عورت کا آدھا حسن اس کے چہرے اور ہونٹوں میں ہوتا ہے اور باقی آدھا جسم اس کے سینے اور اس کے کولہوں پر ہوتا ہے۔ لیکن آج کے لوگ خوبصورت چہرے پر اتنا نہیں مرتے جتنے سڈول کولہوں اور سینے کے ابھاروں پر ۔ یہی وجہ ہے کہ آج کی عورتیں بننے سنورنے اور ڈریسنگ میں اس بات کا خاص خیال رکھتی ہیں کہ ان کا لباس ان کے جسمانی نشیب و فراز کو کھل کر نمایاں کر دے۔
فیصل جو کچھ کہہ رہا تھا وہ سچ تھا۔
میرے پاس کوئی چست یا چھوٹے کپڑے موجود نہ تھے ۔ البتہ میری الماری میں کچھ پرانے جوڑے موجود تھے جو اب میں نہیں پہنتی تھی مگر ابھی تک انہیں ضائع نہیں کیا تھا ۔
چنانچہ میں نے انہیں ہی اپنا نیا شوق پورا کرنے کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ۔
ایک جوڑے کو میں نے تھوڑا تنگ بنا دیا ۔
ایک قمیض کے بازو اور ایک کی کمر میں سے کافی سارا حصہ کاٹ کر انہیں میں نے سلیولیس اور بیک لیس میں بدل دیا اور ایک قمیض کو میں نے نصف میں سے یوں کاٹ دیا کہ اسے پہننے پر ساڑھی کی طرح پیٹ عریاں رہے۔
ان سب کو میں نے احتیاط سے کمرے میں ایک خفیہ جگہ رکھ دیا تاکہ ان پر کسی کی نظر نہ پڑ سکے ۔
اور جب پہلی مرتبہ میں نے دروازہ بند کر کے اپنے بنائے چست و تنگ لباس کو زیب تن کرنے کے بعد آئینے میں اپنا سراپا دیکھا تو اپنے دلفریب جسمانی نشیب و فراز کا یہ اچھوتا منظر آئینے میں دیکھ کر میں خود سے ہی شرما گئی
اور پھر جب کھلے پیٹ والا لباس پہنا تو اس سے چھلکتے میرے گورے سڈول پیٹ اور میری خوبصورت ناف کے منظر سے مجھے خود پر پیار آنے لگا ۔
اور جب میں نے اپنی وہ پکچرز فیصل کو بھیجیں تو وہ ہکا بکا رہ گیا ۔
افففف عاصمہ بہت ہاٹ لگ رہی ہو یار ۔ آج اگر تم میرے سامنے ہوتی تو میں خود پر قابو نہ رکھ پاتا اور اس بات کا لحاظ نہ کر پاتا کہ تم میری منہ بولی بہن ہو ۔ فیصل نے واٹس میسج کیا اور میں کلکھلا کر ہنس دی۔
ابھی بھی ایک کسر رہتی ہے۔ فیصل نے کہا
پوری بالی ووڈ ایکٹریس تو بن گئی اب کونسی کمی رہتی ہے ۔ میں نے ہنس کر کہا۔
بالی ووڈ سے ایک قدم آگے بھی ہے ہالی ووڈ کبھی گوری میموں کی طرح بیچ ڈریس بھی پہن کر دیکھو بالکل شہزادی لگو گی۔ فیصل نے کہا ۔
بہت بدتمیز ہو سٹوپڈ ۔ اچھا چلو پھر کبھی آج تو پہلے ہی بہت عریانی کر لی ۔ میں نے کہا۔
روایتی شرم و حیا اور جھجھک اب دور ہو چکی تھی۔اگلے دن میں سوچ رہی تھی کہ میرے پاس کوئی بکنی تو ہے نہیں لیکن عام انڈرگارمنٹس تو ہیں ہی تو کیوں نہ انہیں ہی اپنے مقصد کے لیے استعمال کر لیا جائے۔ یہ سوچ کر میں نے ایک خوبصورت سی بلیو برا اور میچنگ کلر پینٹی نکالی اور حسب سابق دروازہ بند کرکے انہیں اپنے بدن پر سجانے لگی اور پہننے کے بعد اس کے اوپر بغیر کچھ پہنے آئینے میں خود پر نظر ڈالی تو اس مختصر سے لباس سے چھلک رہی اپنی جوانی دیکھ کر میری دھڑکنیں تیز ہونے لگیں ۔میں نے مختلف پوز میں کئی سیلفیز اور مرر پکچرز لیں اور پھر اسی حالت میں بستر پہ دراز ہوکر فیصل کو سینڈ کرنے لگی۔
ہائے عاصمہ آج تک بالکل انگریزنی لگ رہی ہو۔ تم تو کسی ساحل پر چلی جاؤ تو پانی میں بھی آگ لگا دو۔ فیصل نے تصاویر دیکھنے کے بعد کہا۔
اور دوستو پھر اس سے اگلے مرحلے میں ہم دونوں نے ہر حد پار کرتے ہوئے ایک دوسرے کو اپنے مکمل عریاں جسم تک دکھا دیے، شروع میں پکچرز اور پھر ویڈیو کال ۔ فیصل نے مجھے کچھ پورن ویڈیوز بھی بھیجیں جنہیں دیکھنے کے بعد تو میں دیوانی ہی ہوگئی ۔ اس کے بعد ایک ماہ تک میں اور فیصل چھپ چھپ کر ایک دوسرے کے ساتھ میسج یا کال سیکس کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں کے استعمال سے خود کو سکون دینے اور اپنی جوانی کی آگ کو سرد کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔
میں پہلی مرتبہ پورن سے آشنا ہورہی تھی اور پہلی مرتبہ پتا چل رہا تھا کہ سیکس صرف عضو تناسل کے شرمگاہ میں سادہ سے دخول اور انزال کا نام نہیں بلکہ یہ ایک وسیع ٹرم ہے جس میں بےشمار سٹائلز، پوزیشنز اور ایک ایک بڑھ کے ایک لذت آمیز حرکات شامل ہیں۔ مجھے پہلی مرتبہ اینل، اورل ، کریم پائی، ہارڈکور، ٹیٹی فک اور کم شاٹ جیسی چیزوں سے آشنائی ہورہی تھی اور یہ سب مجھے بہت اچھا لگ رہا تھا۔ فیصل روازنہ مجھے کوئی نہ کوئی پورن ویڈیو بھیجتا تھا ۔ میں وہ ویڈیو دیکھتی تھی اور پھر ہم دونوں اس ویڈیو کے حساب سے سیکس چیٹ یا کال سیکس کرتے تھے ۔ لیکن بھلا دو جوان جسموں کی پیاس محض باتوں اور ہاتھوں سے کہاں مٹ سکتی تھی؟ جسم کی پیاس جسم سے ہی مٹ سکتی ہے۔ اس لیے ہم دونوں آپس میں حقیقی ملاقات کا سوچنے اور ایک دوسرے سے ڈسکس کرنے لگے تاکہ دل میں چھپے سب ارمانوں کو مل کر پورا کر سکیں ۔
کالج بند ہونے کی وجہ سے میں کالج کے بہانے بھی گھر سے نہیں نکل سکتی تھی اوپر سے ان دنوں کرونا کی وجہ سے ہوٹلز بھی بند تھے یعنی ہم رنگ رلیاں منانے کے لیے کسی ہوٹل کا روم بھی نہیں بک کروا سکتے تھے ۔
لیکن چند دن بعد ہمیں خود بخود ایک سنہری موقع میسر آگیا۔ ہوا کچھ یوں کہ شیخوپورہ میں میرے ماموں کا ایکسیڈنٹ ہوگیا جس سے بھلے ہی انہیں معمولی چوٹیں آئیں اور ڈاکٹر نے انہیں ایک ہفتے کا مکمل بیڈ ریسٹ بتایا لیکن ایسے کسی بھی موقعہ پر پورے خاندان کا تیمارداری کے لیے جانا تو لازمی بنتا ہی ہے ۔ چنانچہ یہی طے پایا کہ سبھی شیخوپورہ جائیں گے ماموں کی تیمارداری بھی ہوجائے گی اور ماموں کی فیملی سے بھی کافی عرصہ ملاقات نہیں ہوئی کچھ وقت ان کے ساتھ بھی گزار لیں گے ۔
لیکن میں بھلا اس سنہرے موقعے کو کیسے ہاتھ سے جانے دے سکتی تھی ۔ میں نے دل ہی دل میں یہ پلان بنایا کہ بہانہ کرکے گھر میں ہی ٹھہر جاؤں گی اور سب کے جانے کے بعد اپنے یار یعنی فیصل کو گھر پے بلا لوں گی۔
ہم دونوں کے جسم جوانی کی آگ میں سلگ رہے تھے اور اس آگ کو پیار کی برکھا ہی بجھا سکتی تھی ۔
جاری ہے