شریف لڑکی
قسط 3
میں نے جب فیصل سے اس سلسلے میں بات کی تو گویا اس کے من کی مراد پوری ہوگئی ۔ اس نے فوراً گھر آ کر ملنے پر آمادگی ظاہر کردی۔ میں نے اسے تفصیل سے گھر کا ایڈریس سمجھا دیا۔
اگلی صبح جب سب شیخوپورہ جانے کی تیاری کررہے تھے تو میں نے سردرد اور بخار کا بہانہ کرتے ہوئے یہ کہا کہ میں ان کے ساتھ نہیں جاسکتی ۔ آپی نے کہا کہ اگر میں چاہوں تو وہ بھی میرے ساتھ گھر رک سکتی ہیں لیکن میں نے کہا کہ بہت زیادہ خراب نہیں طبیعت بس ریسٹ کی ضرورت ہے آپ سب جاسکتے ہیں۔
سب کے جانے کے بعد میں نے فیصل کو ٹیکسٹ کرکے بتایا تیاری میں جٹ گئی ۔ میں پہلی بار اپنے بوائے فرینڈ سے ملنے لگی تھی اور میں اس موقع پر خود کو خوب سنوار کر پیش کرنا چاہتی تھی۔ میں نے خوبصورت سا کالا سوٹ پہنا ، ہلکا پھلکا میک اپ کیا ، نتھلی اور ائیر رنگز پہنے اور پھر بال سنوارنے لگی۔
آدھا گھنٹا گزرا تھا کہ موبائل پر میسج کی بیپ سنائی دی اور میں نے موبائل دیکھا ۔ فیصل کا میسج تھا کہ وہ گھر کے باہر پہنچ چکا ہے ۔
میں دھڑکتے دل کے ساتھ دروازے کی طرف بڑھی اور کانپتے ہاتھوں سے دروازہ کھولا ۔ فیصل دروازے کے پاس ہی تھا جو دروازہ کھولتے ہی اندر داخل ہو گیا ۔ میں نے مسکراتے لبوں کے ساتھ اس کا استعمال کیا اور ہم دونوں نے بھینچ کر ایک دوسرے کو گلے لگایا ۔ پھر ہم دونوں ایک دوسرے کے ہاتھ تھام کر لاونج کی طرف بڑھے۔ میں نے اسے صوفے پر بٹھایا اور پھر کچن میں جاکر اس کے لیے اچھی سی چائے بنائی اور پھر ہم دونوں چائے پیتے ہوئے پیار بھری باتیں کرنے میں مصروف ہوگئے ۔
چائے پینے کے بعد فیصل صوفے پر مزید میرے نزدیک ہوکر بیٹھ گیا ۔ زندگی میں پہلی مرتبہ کسی غیر مرد کے ساتھ میں تنہائی کے لمحات میں موجود تھی اور مجھے اس پر کوئی خلش نہ تھی ۔ اب ہم بالکل اک دوجے کی ذات میں گم ہوکر ہنستے مسکراتے گفتگو میں مگن تھے اور جلد اس گفتگو میں ہاتھوں کا بھی علم دخل شروع ہوگیا ۔ میں فیصل کے بائیں جانب بیٹھی تھی ۔ اس نے اپنا بائیں ہاتھ میری کمر کے گرد حمائل کردیا اور دائیں ہاتھ میری ران پے رکھ کر نرمی سے مسلنے لگا۔ اس کا لمس اپنے جسم پر محسوس کرتے ہی میرے دل کی دھڑکنیں تیز ہونے لگیں ۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اس کے ہاتھوں کی شرارت بڑھتی جارہی تھی ۔ بہت جلد الفاظ دم توڑ گئے اور صرف نگاہوں سے باتیں ہونے لگیں ۔ اسی وقت فیصل کا ہاتھ میرے پیٹ پر سے ہوتے ہوئے میرے سینے سے ٹکرایا تو مجھے اچانک ہوش سا آیا۔
چلو اندر چلتے ہیں فیصل۔ میں نے اسے کہا اور صوفے سے اٹھی ۔ اور اس کا ہاتھ تھام کر اپنے بیڈروم کی طرف بڑھ گئی۔
کمرے میں قدم رکھتے ہی فیصل نے میرا ہاتھ تھامے مجھے زور سے اپنی جانب کھینچا اور اگلے ہی لمحے میں اس کی بانہوں میں تھی ۔ نظروں سے نظریں ملیں ۔ فیصل نے اپنا چہرہ آہستہ سے میری طرف بڑھایا اور میں نے بھی اپنا چہرہ اس کی طرف ابھارا ۔ سانسوں سے سانسیں مل گئیں ۔ اور اگلے ہی اس کے گرم ، پیاسے ہونٹ میرے نرم و نازک گلابی ہونٹوں سے ٹکرا گئے۔ لبوں سے لب ملتے ہی جیسے مستی کی لہر سی میرے پورے بدن میں دوڑ گئی اور ہم دونوں مزے سے لپ کسنگ میں کھو گئے۔اس نے ایک ہاتھ میری کمر کے گرد حمائل کردیا اور دوسرا ہاتھ میرے کولہوں پہ رکھ دیا اور پورے جوش و جذبات کے ساتھ میرے ہونٹوں کو چوسنے لگا ۔ کبھی وہ میرے نچلے ہونٹ کو اپنے ہونٹوں میں کے کر چوستا تو کبھی میرے اوپری ہونٹ کو اپنے لبوں کا اسیر بنا لیتا۔ کبھی وہ میرے دونوں ہونٹوں کو بیک وقت اپنے لبوں میں بھر لیتا تو کبھی میرے ہونٹوں پر زبان پھیرریا تھا۔
ساتھ ہی وہ میرے پشت کو سہلاتا ہوا میرے کولہوں کو ہاتھ سے دبا رہا تھا ۔
میرے ہونٹ جنہیں آج تک میں نے نقاب و پردے کی اوٹ میں چھپا کے رکھا تھا اور جن پر کبھی جس غیر مرد کی نگاہ تک نہ پڑنے دی تھی آج انہی ہونٹوں میں ایک نامحرم کے ہونٹ یوں پیوست تھے کہ جیسے کبھی الگ نہ ہوں گے ۔
ہمارے بوس و کنار سے کمرے میں انتہائی شہوت بھری آوازیں پیدا ہورہی تھیں اور ہم دنیا سے بے خبر ہوکر اک دوجے کے لبوں کا جام پینے میں مگن تھے ۔
جی بھر کے لب بوسی کرنے کے بعد ہم نے ہونٹ جدا کیے ۔
اففف عاصمہ تمہارے ہونٹوں کا نشہ تو شراب کی سو بوتلوں سے زیادہ ہے۔ فیصل نے کہا اور میں بے اختیار شرما سی گئی ۔
فیصل نے اپنے دونوں ہاتھ میرے کندھوں پر رکھے اور میرے ماتھے کو چوم لیا ۔ جس کے بعد اس نے میرے گالوں کا بوسہ لیا اور پھر میری گردن کو چومنے لگا ۔ لذت سے میری سسکی نکل گئی اور میں نے آنکھیں بند کر لیں ۔ گردن کو چومتے چاٹتے ہوئے اس نے ہاتھ نیچے کرکے میری قمیض کو دونوں پہلوؤں سے پکڑا اور آہستہ سے ہاتھ اوپر اٹھانے لگا جس سے میری قمیض اوپر اٹھنے لگی۔ سینے تک قمیض کو اٹھا کر وہ گردن سے ہٹا اور آنکھوں سے مجھے اشارہ کیا ۔ میں نے اس کا اشارہ سمجھتے ہوئے اپنے بازو بلند کردیے اور فیصل نے میری قمیض کھینچ کر اتار دی۔
قمیض اترنے سے میرا گداز پیٹ ، انتہائی دلکش ناف, میری مرمریں بانہیں اور متناسب کمر عریاں ہو چکی تھی ۔
میرے پستانوں کو محض ایک سیاہ رنگ کی برا نے ڈھک رکھا تھا لیکن برا میں سے بھی میرے پستانوں کے بیچ کر لکیر باہر جھانک رہی تھی ۔
میری قمیض اتار دینے کے بعد اس نے اپنا ہاتھ نرمی سے میری شلوار پے رکھا اور میرے ازاربند کو پکڑ کے نرمی سے کھینچا ، کیا وقت آگیا تھا کہ وہی شخص میری شلوار اتار رہا تھا کہ جو میرا منہ بولا بھائی تھا ۔ ازاربند کھلتے ہی میری شلوار میرے پیروں میں جا گری ۔ میری گوری ٹانگیں اور سڈول رانیں عریاں ہوگئیں ۔ نیچے میں نے محض ایک چھوٹی سی پینٹی پہن رکھی تھی تو بمشکل میرے کولہوں اور شرمگاہ کو چھپا رہی تھی ۔ مجھے کپڑوں کی قید سے آزاد کرنے کے بعد فیصل نے مجھے اپنی بانہوں میں اٹھایا اور بیڈ پر لٹا دیا ۔
جاری ہے