شریف لڑکی
آخری قسط
منہ سے لن نکالنے کے بعد میں نے بیڈشیٹ سے منہ صاف کیا۔ جس کے بعد فیصل نے میرے دونوں ہاتھ پکڑ کر مجھے قالین سے اٹھایا اور میرے کھڑے ہوجانے پر مجھے ہلکا سا دھکا دے کر بیڈ پے گرا دیا ۔ اور خود بھی بیڈ پے چڑھ کے میرے ٹانگوں کی سمت آگیا۔ میرے جسم پر لباس کے نام پر محض ایک پینٹی ہی موجود تھی۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے پینٹی کو پکڑا اور اسے کھینچ کر اتار ڈالا ۔ آج تک پردے و حیاء کی سخت پابند لڑکی اب اپنے محبوب کے سامنے الف ننگی ہوچکی تھی اور بنا شادی اس کے ساتھ وہ تعلق بنانے جارہی تھی کہ جو صرف میاں بیوی کے درمیان ہی جائز ہے۔ لیکن جوانی کے جوش و گناہ و ثواب کی پروا کسے تھی۔ وہ میں خود کو دل و جان کے ساتھ فیصل کے سپرد کر چکی تھی اور کھل کر اپنی جوانی کے مزے لوٹنا چاہتی تھی ۔ میری پینٹی اتارنے کے بعد فیصل نے دونوں ہاتھوں سے میری ٹانگیں کشادہ کیں ۔ میری شرمگاہ کا ہیجان انگیز نظارہ اس کے سامنے تھا ۔ ہم دونوں اورل سیکس سے اتنے ہاٹ ہوچکے تھے کہ مزید انتظار کر پانا محال تھا ۔ فیصل آگے ہوا اور خود کو اس پوزیشن پر ایڈجسٹ کیا کہ اس کا لن میری شرمگاہ کے منہ کے اوپر تھا ۔ اس نے اپنے لن کو پکڑ کے میری شرمگاہ پر رکھا اور اس کی ٹوپی کو شرمگاہ کے ہونٹوں میں نرمی سے اوپر نیچے مسلنے لگا ۔ اس نرم سی رگڑائی سے میرے پورے بدن میں لذت کی لہریں دوڑنے لگیں اور میں سسک اٹھی ۔ اس کا لن میری تھوک سے بھیگا ہوا تھا اور میری چوت بھی کب کی گیلی ہورہی تھی جس سے چوت پر لن کی رگڑ کافی چکنی تھی۔ کچھ دیر نرمی سے رگڑنے کے بعد اب فیصل ہر رگڑ کے ساتھ ساتھ میری چوت پر اپنے لن کا دباؤ ہلکا ہلکا بڑھاتا جا رہا تھا ۔ اور مجھے درد محسوس ہونے لگا تھا ۔
عاصمہ جان اب زرا ہمت سے کام لینا سب ٹھیک ہوگا ۔ فیصل نے مجھے چہرے پر درد کے تاثرات دیکھ کر کہا اور ایک ہلکا سا جھٹکا مارا ۔ اس جھٹکے کی شدت تو نارمل تھی مگر میرے منہ سے بےاختیار چیخ سی نکل گئی۔ اس جھٹکے کا مقصد شاید مجھے اصل جھٹکے کے لیے کرنا تھا ۔ اور پھر اس نے ایک زوردار جھٹکا مارا اور اس کا لن میرے پردہ بکارت کو بے دردی سے پھاڑتا ہوا میری شرمگاہ میں داخل ہوگیا ۔ درد کے مارے میں بری طرح سے تڑپ اٹھی چیخ اٹھی اور میری آنکھوں سے آنسو نکل آئے ۔ مجھے یوں لگا کہ جیسے درد سے جان نکل جائے گی ۔ فیصل نے چند سیکنڈ لن کو اندر ہی رکھا اور پھر نرمی سے نکالا ۔ اس نے اپنے رومال سے میری چوت اور اپنے لن پر سے خون صاف کیا اور پھر مجھے پیار سے گلے لگا کر سینے سے چمٹایا اور مجھے دلاسہ دیا ۔ کچھ دیر تک درد کی شدت کم ہوچکی تھی اور تکلیف کے اس نے مجھے خود سے الگ کیا ۔ میرے ہونٹوں پہ کِس کی اور پھر سے مجھے لٹا دیا ۔ اب میں اس سے چدنے کے لیے مکمل تیار تھی ۔ جب پھٹ ہی گئی تھی تو مزید کیا ڈرنا؟
اس نے پھر سے میری شرمگاہ کے منہ پر لن کی ٹوپی جمائی اور ایک جھٹکا مارا اور اگلے ہی لمحے فیصل کا لن پھر سے میری پھدی کی گہرائیاں ناپ رہا تھا ۔ فیصل مجھ پر لیٹ گیا اور ہلکے ہلکے جھٹکے مار کر میرے ساتھ جنسی عمل کرنے لگا ۔ زندگی کی پہلی چدائی تھی اور ہر جھٹکے کے ساتھ مجھے پہلے سے زیادہ لذت مل رہی تھی۔ دو بے لباس وجود جوانی کے جوش میں اک دوجے سے لپٹے تھے اور کمرے کی فضا لذت آمیز سسکیوں ، آہوں اور کراہوں سے گونج رہی تھی۔ اس نے میرے دونوں ہاتھ تھام کر انگلیوں میں انگلیاں ڈال رکھی تھیں ۔ میری شرمگاہ میں اس کا لن سمایا ، میرے پستانوں سے اس کا سینہ رگڑ کھا رہا تھا اور میرے چہرے کے اوپر اس کا چہرے تھا اور وہ موقع موقع میرے ہونٹوں کو چوم کے پھر چھوڑ دیتا ۔ پھر سے چوم لیتا اور جھٹکے مارنے میں مگن ہوجاتا اور جھٹکے مارتے مارتے پھر سے میرے ہونٹوں پہ اپنے ہونٹ رکھ دیتا ۔ برہنہ جسموں کے اس ملن کا ہر لمحہ چاشنی سے لبریز تھا۔ میں نے اپنی بانہوں کے اس کی کمر کے گرد حمائل کر رکھا تھا اور اب میں بھی اس جنسی ملاپ میں بھرپور انداز میں اس کا ساتھ دے رہی تھی ۔ میں اپنے جسم کو اس کی طرف ابھار ابھار کے اس کا پورا لن اپنی شرمگاہ میں سمو رہی تھی۔
پیار کے اس کھیل میں اگر میں آگ تھی تو وہ پیٹرول تھا اور آگ پہ پیٹرول پڑے تو ہر سمت آگ ہی آگ ہوتی ہے۔
اب فیصل کے جھٹکوں میں شدت آتی جارہی تھی اور میری کراہوں میں بھی۔ میری مترنم سسکیاں اسے مزید جوش دلا رہی تھیں اور وہ بھرپور انداز میں میری لے رہا تھا۔
کچھ دیر اسی انداز میں میری رگڑائی کرنے کے بعد فیصل رکا۔ اس نے آہستہ سے لن میری پھدی سے نکالا اور بستر سے اٹھا ۔ اب کی بار وہ بیڈ کے کنارے میری طرف رخ کرکے کھڑا ہوا اس نے میری ٹانگوں کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر مجھے اپنی طرف کھینچا اور اتنا اٹھایا کہ میری ٹانگیں اس کے کندھوں سے لگ گئیں اور اگلے ہی لمبے اس کا لن پھر سے میری پھدی کی سیر کررہا تھا ۔وہ میری ٹانگوں کو پکڑ کے میری شرمگاہ میں لن گھسا رہا تھا ۔ ہر جھٹکے پر اس کا لوڑا میری پھدی کے ہونٹوں سے ہوتا ہوا میری چوت کی دیواروں سے رگڑ کھاتا ہوا پھسل کر گہرائی تک گھس رہا تھا ۔ اور میں لن کے ٹوپے کو اپنی پھدی کے دیوار پے دب کر پھسلتے ہوئے صاف محسوس کر سکتی تھی۔ اس کی رانیں میرے کولہوں سے ٹکرا رہی تھی اور اس چدائی سے پچچ پچچ کی آوازیں الگ کمرے کے ماحول میں ہیجان پیدا کررہی تھیں۔
میری لذت عروج پر پہنچ رہے تھی اور مجھے یوں محسوس ہورہا تھا کہ جیسے میں جنت میں ہوں پہنچ گئی ہوں ۔ بےقابو جذبات میں میرے منہ سے ایسے فقرے نکل رہے تھے ۔ اففف فیصل آئی لو یو سو مچ جان۔ اب سے میں تمہاری منہ بولی بہن نہیں بلکہ منہ بولی بیوی ہوں ۔ فک می فیصل فک می ہارڈ۔ اور زور سے جھٹکے مارو پلیز ۔ اوہ یس۔
میرے ان جذباتی جملوں نے اس کے جوش کو آسمان پر پہنچا دیا اور وہ پوری قوت سے جھٹکے مار کے اپنے لن کو جڑ تک میری پھدی میں پرونے لگا ۔ میرے دل کی دھڑکنیں بےقاںو ہو چکی تھیں اور جسم پسینے میں نہا چکا تھا ۔
اب مجھے ہر جھٹکا لذت کے نئے درجے پر پہنچا رہا تھا ۔ اور پھر مجھے یوں محسوس ہوا کہ اچانک مجھے کسی نے اٹھا کر لذت کے سمندر میں پھینک دیا ہو ۔ مجھے لگا کہ میرا جسم لذت کے مارے ٹوٹ کے بکھر جائے گا ۔ میں آرگیزم کو پہنچ رہی تھی اور فیصل کے جھٹکوں میں بھی انتہائی تیزی آچکی تھی پھر فیصل نے اچانک آخری زوردار جھٹکا مارا اور تیزی سے لن میری پھدی سے نکال لیا ۔ اسی لمحہ میری پھدی نے پانی کا فوارہ چھوڑ دیا اور فیصل کے لن سے منی کی پچکاری نکل کے میرے کولہوں سے جا ٹکرائی ۔ میں نے دونوں ہاتھوں سے بستر کی چادر کو نوچ لیا۔ ہم دونوں ریلیز ہو رہے تھے ۔
اس کے بعد فیصل بےجان سا ہوکر بیڈ پر میرے پہلو میں گر گیا اور میری طرح لمبی لمبی سانسیں لینے لگا ۔میں نے خود کو اس کے ساتھ لپٹا لیا اور ہم دونوں ننگی حالت میں ایک دوسرے سے سے لپٹ کر وہیں لیٹے اپنا سانس بحال کرنے لگے۔
آدھا گھنٹا یونہی لیٹے رہنے کے بعد ہم کچھ نارمل ہو پائے ۔ میں نے آنکھیں کھولیں تو فیصل مجھے ہی پیار بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔ میں نے اس کے ہونٹوں پے ایک بھرپور بوسہ دیا اور اس کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے مجھے میری زندگی کی سب سے بڑی خوشی سے نوازا آج۔
پھر ہم دونوں اٹھے اور غسل کرنے کے لیے باتھ روم کی طرف بڑھ گئے۔ میرے کولہوں پر پڑی اس کے منی کی پھوار وہیں خشک ہو چکی تھی۔ میں نے وہاں پہنچ کر نیم گرم پانی کا شاور آن کیا اور شاور کی پھوار میں کھڑے ہوکے ہم دونوں نہانے لگے ایک دوسرے کے جسم کو اپنے ہاتھوں سے مَلتے ہوئے ۔ ہم پانی کی پھوار کے بیچ ایک دوسرے کے بازوؤں ، سینے ، کمر کو مَلتے ہوئے ایک دوسرے کو نہلا رہے تھے ۔
خوب مزے سے نہانے کے بعد ہم دونوں باہر نکلے اور لباس پہننے لگے ۔ اس کے بعد فیصل مزید تھوڑی دیر تک میرے پاس رکا ۔ اور پھر چلنے کی اجازت مانگی اور ساتھ میں وعدہ کیا ہماری اگلی چدائی اس سے بھی کہیں زیادہ زبردست اور یادگار ہوگی۔ جاتے ہوئے ہم پھر سے گلے ملے اور لب چومنے کی رسم ادا کی اور وہ مجھے الوداع کہہ کر روانہ ہوگیا ۔
تو یہ تھی دوستو فیصل کے ساتھ میری پہلی چدائی ۔ یہ کہانی یہیں ختم ہوتی ہے
The End