تراس یا تشنگی
قسط 14
اکلوتی بہن ہونے کی وجہ سے دلہے کی کار میں فائق بھائی کے ساتھ میں اور ابا بیٹھے تھے جبکہ اماں لیڈیز کوسٹر میں بیٹھی تھیں ۔۔۔ ہم وہاں سے تقریباً گیارہ بارہ بجے کے قریب چلے تھے اور راستے میں ایک دو جگہ رکنے کے بعد شام کو بہاولپور پہنچ گئے تھے۔۔۔۔۔ سب سے آگے ہماری گاڑی تھی اور پیچھے دونوں کوسٹریں ۔۔۔ایک میں لیڈیز سوار تھیں جبکہ دوسری جینٹس سے بھری ہوئی تھی۔۔ اور ان کوسٹروں کے پیچھے مختلف دوست احباب کی کاریں تھیں۔۔۔ جیسے ہی ہماری گاڑی رُکی فائق بھائی کی ساس سسر اور دیگر لوگوں نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ ہمارا استقبال کیا اور پھر رسمی جملوں اور ہنسی مزاق کے بعد ہم لوگ ماجد انکل کی کوٹھی میں چلے گئے یہ ایک پرانی طرز کی بڑی سی دو منزلہ کوٹھی تھی اور اس میں اوپر نیچے کوئی 25 /30 کمرے تھے ۔۔۔ جبکہ سرونٹ کوارٹر اور گیسٹ بیڈ اس کے علاوہ تھے ۔۔۔ ماجد انکل کے گیسٹ بیڈ پر فائق بھائی اور ان کے دوستوں نے قبضہ کر لیا ۔۔۔ جبکہ سرونٹ کوارٹر میں ان کے ملازموں کے ساتھ ساتھ ایک دو کمرے جیدے وغیرہ کے لیئے مختض کئے گئے تھے۔۔۔ کرنل ماجد ایک گٹھے ہوئے ۔۔ مضبوط جسم اور خوبصورت باڈی کے آرمی آفیسر تھے ۔۔اور ان کے بارے میں بتا دوں کہ یہ اماں کے فرسٹ کزن کے سب سے بڑے لڑکے تھے اور آجکل کراچی میں پوسٹ تھے ان کی شادی بہاولپور کے کسی نواب کی پڑپوتی سے سے ہوئی تھی ۔ان کی نوابی تو عرصہ ہوا ختم ہو گئی تھی ۔۔۔ جبکہ ان خاتون کی نوابی ختم ہونے میں ہی نہ آ رہی تھی۔۔۔ماجد انکل کی بیوی تھی تو بہت کیوٹ ۔۔پر۔۔۔۔وہ۔ بڑی ہی مغرور اور تُنک مزاج تھی ۔۔ ۔۔ خواہ مخواہ ہی لیئے دیئے رکھتی تھی ۔۔۔ ہم لوگ اسے نک چڑھی آنٹی کہتے تھے۔۔۔ اس میں ابھی تک نواب ذادیوں والا نخرہ پایا جاتا تھا۔اور یہ کوٹھی انکل کو سسرال کی طرف سے جہیز میں ملی تھی۔۔۔۔۔ آنٹی جس قدر نک چڑھی اور تُنک مزاج تھیں ماجد انکل اسی قدر اچھے اور فرینڈلی بندے تھے اور اماں کے ساتھ تو ان کی بہت زیادہ بنتی تھی کہ کسی زمانے میں یہ لوگ گاؤں میں اکھٹے رہتے تھے ۔۔۔ اماں کی وجہ سے ہی انکل نے ہمارے لیئے نہ صرف یہ کہ ساری کوٹھی خالی کر دی تھی اور خود اپنے سسرال میں رہ رہے تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ہمارے لیئے کھانے کا بھی بندوبست کیا ہوا تھا۔۔
چنانچہ رسمی عیلک سیلک اور گپ شپ کے بعد کرنل ماجد ابا کے پاس آئے اور بولے ۔۔۔ میاں جی پہلے چائے پیو گے یا کھانا لگوا دوں ؟؟ ۔۔۔تو ابا نے حسبِ عادت سارا ملبہ اماں پر ڈالتے ہوئے کہا۔۔۔ یار نیلو سے پوچھ لو ۔۔۔۔ جیسے وہ کہتی ہے کر لو۔۔۔ تو ماجد انکل بولے ۔۔۔ کُچ تُسی وی دس دیا کرو میا ں جی (کچھ آپ بھی بتا دیا کرو میاں صاحب ) تو ابا ہنس کر بولے۔۔۔ سمجھا کر نا یار۔۔۔۔ اور پھر وقار انکل کےساتھ ایک جانب بڑھ گئے ۔۔۔اب انکل نے میری طرف دیکھا اور بولی۔۔۔ ہما اپنی اماں کو تو بلا کر لاؤ۔۔۔میں نے ان کی بات سُنی اور اندر چلی گئی۔۔۔ اور تھوڑی سی کوشش کے بعد اماں کو ڈھونڈھ لیا اماں عظمٰی باجی کا فائق بھائی کی ساس کے ساتھ تعارف کروا رہی تھیں ۔۔۔ اور ابھی مزید بات چیت سے پہلے ہی میں اماں کے پاس پہنچ گئی اور ان کو بتایا کہ اماں آپ کو ماجد انکل بلا رہے ہیں ۔۔۔۔۔میری بات سُن کر اما ں نے عظمٰی سے معزرت کی اور میرے ساتھ چل پڑی ۔۔راستے میں مجھ سے پوچھا کہ کیا کہہ رہا تھا تیرا انکل؟ تو میں نے ان کو ساری بات بتا دی۔۔۔ میری بات سُن کر اماں بولی۔۔۔ مجال ہے جو یہ شخص خود پر بھی کبھی کوئی بات لے ۔۔۔ اتنے میں ہم لوگ کرنل ماجد کے پاس پہنچ گئے تھے وہ سامنے صوفے پر بیٹھے کسی کے ساتھ گپیں لگا رہے تھے اماں کو دیکھتے ہی تیر کی طرح ان کے پا س آئے اور بولی۔۔۔ کی خیال اے باجی کھانا لگا دوں یا چائے شائے چلے گی ۔۔۔ تو اماں کہنے لگی ۔۔۔ یہ بات میاں صاحب سے پوچھو نا ۔۔۔۔ اماں کی بات سُن کر ماجد انکل ہنس پڑے اور کہنے لگے ۔۔۔ جی میں نے ان سے پوچھا تھا ۔۔۔ اور حسبِ روایت انہوں نے گیند آپ کی کورٹ میں پھینک دی ہے اور ۔۔ انہوں نے آپ سے ملنے کو کہا ہے ۔۔۔ اس پر اماں نے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی کی طرف دیکھا اور بولی۔۔۔۔ ویسے کھانے کا ٹائم تو ہو ہی رہا ہے۔۔ چلو ایسا کرو۔۔۔ تم پے ج کھانا لگوا دو۔۔۔۔ میں وہاں سے نکلی اور مین حال کی طرف چل پڑی کہ جہاں ساری برات والی خواتین۔۔ بیٹھی ڈھولکی پر شادی کے گیت گا رہیں تھیں ۔۔۔دیکھا تو وہاں تھوڑی سی خواتین ڈھولکی بجا رہیں تھیں جبکہ ان کے آس پاس ٹھرکی ٹائپ لڑکے کھڑے ان کو تاڑ رہے تھے۔۔۔ جیسے ہی میں حال میں پہنچی ایک بہت ہی گُڈ لُکنگ قسم کا لڑکا اچانک میرے سامنے کھڑا ہو گیا اور بڑے ادب سے سلام کر کے بولا۔۔۔۔ ہما جی میرا نام ۔۔ دوست نواز ہے اور میں آپ کی بھابھی کا کزن بلکہ بھائی ہوں ۔۔۔ پھر اس نے اپنا اتھ آگے کیا اور بولا ہائے ہما۔۔۔ مجھے اس لڑکے کی بات کرنے اور ہاتھ آگے بڑھانے کا یہ انداز بہت برا لگا ۔۔۔۔ اور میں اسے نظر انداز کرتے ہوئے خواتین کے پاس جا بیٹھی۔۔۔ اور ان کے ساتھ مل کر گیت گانےاور تالیاں بجانے لگی۔۔۔ کچھ ہی دیر بعد ۔۔ ایک خادمہ وہاں آئی اور بولی ۔۔۔ تمام لیڈیز ۔۔ باہر لان میں آ جائیں کہ وہاں کھانا لگ گیا ہے ۔۔۔ کھانے کا نام سنتے ہی خواتین میں بھگڈر سی مچ گئی اور وہ اُٹھ کر تیزی کے ساتھ لان کی طرف جانے لگیں۔۔۔ جبکہ میں وہیں بیٹھی رہی ۔۔۔ اور رش کم ہونے کا انتظار کر نے لگی۔۔۔اور جب خواتین کا رش کچھ کم ہوا تو میں اپنی جگہ سے اُٹھی اور باہر کی طرف جانےلگی ۔۔۔ تو دروازے پر پھر وہی لڑکا مل گیا ۔۔۔ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگا۔۔۔۔ اوہو ۔۔۔ میں آپ ہی کو لینے کے لیئے آ رہا تھا۔۔۔ لیکن میں نے اس کی کسی بات کا کوئی جواب نہ دیا ۔۔۔ کمرے سے لان تک وہ میرے کان کھاتا رہا لیکن ۔۔۔ میں نے بہت پہلے ہی طے کر رکھا تھا کہ چاہئے کچھ بھی ہو ۔۔۔ میں نے کھبی بھی کسی بھی صورت میں کسی اجنبی بندے کو کوئی لفٹ نہیں دینی۔۔۔
وہ لڑکا باہر لان تک میرے ساتھ آیا اور اس نے مجھ سے بات کرنے کی بڑی کوشش کی لیکن بے سود ۔۔۔۔ ادھر میں نے اس کے ساتھ بڑا ہی سرد رویہ رکھا ۔۔۔ لیکن وہ ایک عجیب ڈھیٹ ہڈی تھی کہ لان تک میرے ساتھ ساتھ چلتا رہا ۔۔۔ اور جیسے ہی ہم لان میں داخل ہوئے ماجد انکل نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ نواز جی۔۔۔۔ سروس تیز کر واؤ ۔۔۔۔ اور میں ان کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے اماں کے پاس چلی گئی ۔۔ جہاں پر اماں دوسری خواتین کے ساتھ بیٹھی کھانا کھا رہی تھی ۔۔۔ مجھے اپنی طرف آتے دیکھ کر انہوں نے مجھے اپنے پاس پڑی ہوئی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔۔۔۔اور مین وہاں بیٹھ گئی۔۔۔۔ جبکہ وہ کھانے کے ساتھ ساتھ خواتین سے باتیں بھی کر تی جا رہیں تھیں۔۔۔ اماں کی دوسری طرف عظمٰی سرمد بھی بیٹھی ہوئی تھی اور حسبِ معمول اس کی اماں کے ساتھ کسی بات پر بحث ہو رہی تھی ۔۔۔ وہ اماں سےمخاطب ہو کر کہہ رہی تھی ۔۔۔ نیلو جی مجھے ایک بات سمجھ نہیں آئی؟ تو اماں کہنے لگیں ۔۔ جی فرمایئے کونسی بات آپ کی سمجھ شریف میں نہیں آئی ؟؟ تو وہ کہنے لگی۔۔۔ جب آپ لوگو ں نے شادی سے ایک رات قبل یہاں سٹے کرنا تھا تو ۔۔۔ پھر آپ لوگوں نے الگ الگ سے مہندی کیوں رکھی ہے ؟ اور کہنے لگی ۔۔۔قسم سے اگر آج دونوں کی اکھٹا مہندی ہوتی تو کتنا مزہ آتا ۔۔۔ پھر اس نے اماں کی طرف دیکھا اور بولی۔۔۔ میری بات کو جواب نہیں دیا آپ نے نیلو باجی۔۔۔ تو اماں کہنے لگیں ۔۔۔۔۔ جواب کیا دینا ۔۔۔ پہلی بات تو یہ کہ کارڈ چھپاتے وقت تک ہاورا پروگرام یہ تھا۔۔۔ کہ ہم شادی والے دن صبع صبع گھر سے نکلیں گے اور پھر رات گئے تک۔۔۔۔۔ واپس لاہور پہنچ جائیں گے۔۔۔ لیکن پھر عین وقت پر ماجد نے اصرار کیا کہ اس کے ہاں ایک رات ٹھہرا جائے۔۔۔ کیونکہ اس کے خیال میں ہمارے پروگرام کے مطابق عمل ہوا تو بارتی سمیت سب لو گ تھک کر چُور ہو جائیں ۔۔ اور شادی کو ٹھیک سے انجوائے نہیں کر سکیں گے۔۔ اس لیئے ۔۔۔ چندا ۔۔۔ پبلک کے پُر زور اصرار پر ہم لوگ۔۔۔۔ یہاں ایک رات رُکنے پر مجبور ہوئے ۔۔۔۔ تو عظمٰی کہنے لگیں ۔۔۔۔ تو کیا ہوا ۔۔۔ آپ پھر بھی مہندی کا پروگرام اکھٹے کر سکتے تھے۔۔۔ اس کی بات سُن کر اماں نے مجھے گلاس میں پانی بھرنے کا کہا اور میں نے جلدی سے ان کے گلاس میں پانی بھرا ۔۔۔تو اماں نے گلاس کو اپنے ہونٹوں کےساتھ لگایا اور ۔۔۔ پانی کا ایک بڑا سا گھونٹ بھر ا۔۔۔ پھر انہوں نےعظمٰی کی طرف دیکھا اور بولی۔۔۔سوری یار ۔۔۔۔ گلے میں روٹی کا نوالہ پھنس گیا تھا۔۔۔۔۔اور پھر ایک لمبی سانس بھر کے بولیں ۔۔جو بات تم نے کہی ہے نا عظمٰی۔۔ یہ بات ہمارے بھی دماغ میں آئی تھی۔۔۔ لیکن تم کو تو اپنے بھائی جان (ابا) کا پتہ ہے ۔۔۔ کہ ایک بار جو کہہ دیا سو کہہ دیا۔۔۔۔ چنانچہ یہ تجویز سُن کر وہ کہنے لگے۔۔۔ کہ میں اپنے آفس والوں اور سب عزیزو اقارب و مہندی کے کارڈ وغیرہ دے چکا ہوں ۔۔۔ اور دوسری ا ور اصل بات یہ ہے میاں صاحب کا کہنا تھا کہ اس طرح کے مخلوط فنگشن انہیں ہر گز پسند نہ ہیں ۔۔۔ اماں کی بات سُن کر عظمٰی ہنس پڑی اور بولی۔۔۔ رہنے دیں باجی۔۔۔ آپ نے چاہا ہی نہیں ہو گا۔۔۔ ورنہ ۔۔ میاں جی کی کیا مجال ۔۔۔۔ ہے۔۔۔ اور اس سے پہلے کہ اماں اس بات کا کوئی جواب دیتی ۔۔۔ عظمٰی کی بات پر لیڈیز کا ایک فرمائشی قہقہہ پڑا۔۔۔ اور بات آ ئی گئی ہو گئی۔۔۔ کھانا کھانے کے بعد سب لوگ خاص کر لیڈیز وہیں لان میں ہی بیٹھ گئیں اور نیچے گھاس پر دری بچھوا کر وہاں ڈھولک رکھ لی گئی اور ایک بار پھر سے شادی کے گیت شروع ہو گئے۔۔۔ میں نے کچھ دیر تو ان کا ساتھ دیا ۔۔ پھر مجھے پیشاب کی حاجت محسوس ہوئی اور میں وہاں سے اُٹھ کر اندر روم کی طرف چل پڑی ۔۔۔ تو دیکھا کہ وہاں پہلے ہی سے کوئی گھسا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ اور میں گیلری میں اس انتظار میں کھڑی ہو گئی کہ جونہی واش روم فارغ ہو تو میں ۔۔۔ جاؤں۔۔۔اتنے کیا دیکھتی ہوں کہ وہی ڈھیٹ لڑکا۔۔۔ میرے پاس آ کھڑا ہوا ۔۔۔ اور ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔۔ آپ کس کو تلاش کر رہی ہیں۔۔۔ تو میں نے اس کا کوئی جواب نہ دیا ۔۔۔۔ اور خاموش کھڑی رہیں ۔۔۔ پھر اس لڑکے نے میرے طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ کہ ہما ۔۔ جی پلیز آپ مجھے غلط نہ سمجھیں۔۔۔۔۔۔ میں بس ۔۔۔ میں بس۔۔۔۔۔ آپ مجھے بہت اچھی لگیں ہیں۔۔۔۔ تو میں نے بظاہر فرش پر دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ کہ زلیل آدمی کو ٹھیک سے لڑکی بھی پٹانی نہیں آتی۔۔۔ پتہ نہیں کیسے اس نے میرے دل کی بات سُن لی اور کہنے لگا۔۔۔۔ ہما جی۔۔۔۔۔ آپ یقین کریں میں ایسا ویسا لڑکا نہیں ہوں ۔۔۔ میں تو ۔۔ میں تو۔۔۔۔۔۔ پھر کہنے لگا ۔۔۔ یقین کریں ہما جی ۔۔۔ خود میرے پیچھے بہت سی لڑکیا ں پھرتی ہیں۔۔۔ ابھی اس نے اتنا ہی کہا تھا ۔۔ کہ سامنے کمرے والے واش روم کا دروازہ کھلا اور ۔۔۔ واش روم سے جیدا باہر نکل آیا ۔۔۔ اور جیسے ہی جیدا واش روم سے باہر آیا ۔۔۔ میں نے اس لڑکے جس نے اپنا نام دوست نواز بتایا تھا ۔۔ کی بات کا کوئی جواب دیئے بغیر ۔۔۔ آگے بڑھی اور واش روم میں گھس گئی۔۔۔۔
کچھ دیر بعد جب میں فارغ ہو کر باہر نکلی تو دیکھا کہ وہی لڑکا جیدے کے ساتھ کھڑا باتیں کر رہا تھا ۔۔ ۔۔اور پھر مجھے دیکھتے ہی وہ لڑکا وہاں سے نو دو گیارہ ہو گیا ۔۔۔ اور اب اکیلا جیدا ہی وہاں کھڑا رہ گیا تھا ۔۔۔پتہ نہی کیوں ۔ جیدے کو دیکھ کر ایک دم میرے اندر کی۔۔۔تراس ۔۔۔ بھڑک اٹھی ۔۔۔۔ اور ۔۔ ایک دم سے ہی میری ہوس نے سر اُٹھایا ۔۔۔۔اور اس کےساتھ ہی نیچے میری چوت میں کچھ کچھ ہونے لگا۔۔۔ اور میں اپنی چوت کو مسلتے ہوئے جیدے کے پاس پہنچ گئی۔۔۔ اور قبل اس کے کہ میں اس سے کچھ کہتی وہ مجھ سے کہنے لگا۔۔۔ بی بی جی آپ کو ایک بات بتاؤں ۔۔ تو میں نے اس سے کہا بولو۔۔ جناب۔۔۔ تو وہ کہنے لگا۔۔ آپ کو پتہ ہے کہ یہ جو لڑکا یہاں کھڑا تھا کون ہے؟ تو میں نے نفی میں سر ہلا دیا ۔۔۔۔ تو وہ مجھ سے کہنے لگا۔۔۔ بی بی جی یہ لڑکا۔۔۔ایک بہت بڑے زمیندار کا اکلوتا بیٹا ہے ۔۔۔۔ اس کی بات سُن کر میں نے برا سا منہ بنایا اور بولی۔۔۔ اکلوتا ہو یا کھوتا ۔۔۔ مجھے اس سے کیا؟ میں تو اتنا جانتی ہوں کہ یہ صبع سے ایویں ہی میرے پیچھے پڑا ہوا ہے۔۔۔ میری بات سن کر جیدا کہنے لگا بی بی کوئی بھی ایسے ہی نہیں کسی کے پیچھے پڑتا ۔۔۔ تو میں نے کہا ۔۔۔۔ دفعہ کر جیدے ۔۔۔ اور پھر میں نے گیلری میں ادھر ادھر دیکھا اور اس کو کمرے کے اندر آنے کا بولا ۔۔۔۔۔ جیسے ہی وہ کمرے میں داخل ہوا ۔۔ میں نے اپنا ہاتھ جیدے کی دھوتی میں ہاتھ ڈالا اور اس کے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا۔۔۔۔ اس وقت تک جیدے کالن ایک چھیچھڑا سا بنا ہوا تھا ۔۔۔ لیکن جیسے ہی میں نے اس کو اپنے ہاتھ میں لیکر مسلنا شروع کیا تو اس چھچھڑے میں جان آنا شروع ہو گئی ۔۔۔چنانچہ میں اسے مزید مسلتے ہوئے جیدے سے کہنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔جیدے آج رات پھر تم نے مجھ سےملنا ہے ۔۔۔میری حرکت دیکھ کر ۔۔۔۔۔اور میری بات سن کر جیدا کچھ گھبرا سا گیا اور اس سے پہلے کہ اس کا لن لوہے کی طرح اکڑ جاتا ۔۔ اس نے میرے ہاتھ سے اپنا لن چھڑایا اور کہنے لگا۔۔۔۔۔۔یہ کیا کر رہی ہو ہما۔۔۔۔ ۔۔۔ اور بولا ۔۔۔ یہاں کوئی بھی کسی بھی وقت آ سکتا ہے۔۔اور پھر اس کے ساتھ ہی اس نے اپنے لن کو دھوتی میں کر لیا۔۔۔۔۔ اور کہنے لگا۔۔۔ بی بی جی ۔۔۔ اس انجان جگہ پر ہم کیسے مل سکتے ہیں؟؟ ۔۔۔ تو میں نے کہا ۔۔۔۔ یہ انجان جگہ نہیں ہے اور تم نے مجھ سے ضرور ملنا ہے تو وہ میرے آگے ہتھیار ڈالتے ہوئے بولا۔۔۔۔ایک تو تم بچوں کی طرح ہر بات میں بڑی ضد کرتی ہو۔۔۔ پھر بولا۔۔۔ لیکن اس دفعہ تم نے مجھے بتانا ہے کہ میں نے تمھارے ساتھ کہاں جانا ہے۔ اور مجھ سے اپنا لن چھڑا کر باہر نکل گیا۔۔۔ کچھ دیر بعد میں بھی اس کے پیچھے پیچھے باہر آ گئی اور لان کی طرف بڑھنے لگی ۔۔۔تو اچانک ایک خوبصورت سی خاتون نے میرا راستہ روک لیا اور بولی۔۔۔ کیسی ہو ہما۔۔۔ میں نے اس کی طرف دیکھا ۔۔۔ لیکن پہچان نہ پا ئی تاہم میں نے بڑی خوش اخلاقی سے اس کی باتوں کا جواب دیا۔۔۔ اور پھر اس خاتون سے ایکسکیوز کرتے ہوئے اماں کی طرف چلی گئی۔۔۔۔ جہاں اماں ایک اجنبی خاتون کے ساتھ بڑی ہنس ہنس کر باتیں کر رہیں تھیں۔۔۔ جیسے ہی میں وہاں پہنچی ۔۔۔۔ تو اماں نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔ ہما بیٹی خالہ کو سلام کرو ۔۔۔ تو میں نے اس خاتون کو بڑے ادب سے سلام کیا اور ایک طرف بیٹھ گئی۔۔۔ وہ دونوں باتیں کر رہیں تھیں کہ مجھے عظمٰی باجی نے آواز دیکر اپنے پاس بلا لیا ۔۔۔ اور بڑے معنی خیز لہجے میں کہنے لگیں۔۔۔۔ کیسی لگی میڈم ؟ تو میں نے عظمٰی باجی کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ کیا مطلب ہے جی آپ کی بات کا۔؟؟۔ تو وہ ہنستے ہوئے بولی۔۔۔ ابھی پتہ چل جائے گا بچہ۔۔۔۔ اور چپ ہو گئی۔۔۔ اب میرے دل میں اس بات کی کھد بُد شروع ہو گئی کہ یہ ماجرا کیا ہے۔۔۔۔ لیکن کچھ سمجھ میں نہ آیا ۔۔ آخر لاکھ منتوں اور ترلوں کے بعد عظمٰی باجی کہنے لگیں ۔۔۔جہا ں تک میرا قیاس ہے یہ خاتون اپنے بیٹے کےلیئے تمہاری اماں کے پاس آئی ہے۔۔
عظمٰی باجی کی بات سُن کر میں تو ہکا بکا رہ گئی ۔۔۔ اور حیرت کے مارے میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا ۔۔۔۔۔اور میں کبھی عظمٰی باجی کی طرف اور کبھی اس خاتون کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔۔ مجھے یوں حیران ہوتا دیکھ کر عظمٰی باجی ۔۔ گنگنا نے لگی۔۔۔ چھوڑ بابل کا گھر۔۔۔۔تم کو پیا جی کے گھر ۔۔۔ ایک روز جانا پڑے گا۔۔۔ ادھر میں بڑی حیرانی سے سوچ رہی تھی کہ آخر یہ ماجرا کیا ہے۔۔۔ اسی دوران وہ خاتون اماں کے پاس سے اُٹھ کر جانے لگی۔۔۔ تو احتراماً اماں بھی اپنی جگہ سے اُٹھی اور کافی آگے تک اس خاتون کو چھوڑ کر آئی۔۔۔۔ جیسے ہی اماں واپس اپنی کرسی پر بیٹھی۔۔۔ میں عظمٰی باجی سے اُٹھ کر اماں کے پاس پہنچ گئی اور جاتے ہی اماں سے پوچھنے لگی۔۔۔ اماں یہ خاتون کون تھی ؟ میری بات سنتے ہی اماں نے ایک نظر عظمٰی کی طرف دیکھا اور کہنے لگی۔۔۔۔ بڑی کمینی ہے یہ عورت ۔۔۔۔اس کے پیٹ میں تو کوئی بات رہتی ہی نہیں ہے۔۔۔۔ اور پھر میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگیں ارے تم ان کو نہیں جانتی ۔۔۔ یہ اپنی شفقت آپا تھیں ۔۔۔۔ چاچے منظور کی بیوی ۔۔۔۔ تو میں نے ان سے کہا وہ تو ٹھیک ہے پر اماں یہ بتاؤ ۔۔کہ ۔ یہ محترمہ آپ کے پاس کیا کر رہی تھی ؟ تب اماں اچانک سنجیدہ ہو گئی اور مجھ سے کہنے لگی۔۔۔۔ دیکھ ہما ۔۔۔۔گو کہ انہوں نے خود تو نہیں کہا ۔۔۔ لیکن میں نے ادھر ادھر سے سنا ہے کہ یہ لوگ ۔۔۔۔۔۔۔تمہارے رشتے کے سلسلہ میں بڑی دل چسپی رکھتے ہیں۔۔۔ تو میں نے ایک دم اماں سے کہہ دیا کہ اماں ابھی میں نے پڑھانا ہے اور میں نے ابھی سے کوئی شادی وادی نہیں کرنی ۔۔۔ تو اماں نے مجھے پچکارتے ہوئے کہا کہاکہ میری جان۔۔۔ کون کافر تمھاری شادی کروا رہا ہے ۔۔۔ ابھی تو ان لوگوں نے کسی کی معرفت صرف اس بات کے اشارے دیئے ہیں۔۔آگے نصیب میں ہوا تو ۔۔۔ تمھارے رشتے کی بات پکی ہو جائے گی ۔۔۔اپنے رشتے کی بات سُن رک میرے من میں ایک عجیب سی سرسراہٹ سی شروع ہو گئی ۔۔۔ اور میں نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے دلہے کے بارے میں سوچنے لگی۔۔اور دلہے سے ہوتی ہوئی بات ۔۔سہاگ رات تک گئی ۔۔۔اور سہاگ رات کا سوچ کر میری چوت کی تراس۔۔۔ مزید بڑھ گئی ۔۔۔۔ اور چوت صاحبہ جو کہ پہلے ہی جیدے کا لن دیکھ کر کافی گرم ہو رہی تھی اب مزید گرم تر ہو گئی تھی۔۔۔ پھر میں نے یہ سوچ کر خود کو تسلی دی کہ رات کو جیدے سے ملنا تو ہے ۔۔۔ پھدی کی گرمی ختم نہ سہی اس کا لن کم تو کر ہی دے گا۔۔۔ میں نے یہ سوچا اور پھر وقتی طور پر شانت ہوگئی۔۔۔۔ ابھی میں انہی سوچوں میں گم تھی کہ عظمٰی باجی کی آواز میرے کانوں میں گونجی وہ کہہ رہی تھی کہ۔۔۔۔ ہما ہم سب فائق کے سسرال اس کی دلہن سے ملنے جا رہے ہیں تم بھی چلو ۔۔۔ اور میں نہ چاہتے ہوئے بھی ان لوگوں کے ساتھ چل پڑی ۔۔فائق بھائی کے سسرال کا گھر وہاں سے تھوڑا ہی دور تھا۔۔۔ میں عظمٰی اور تین چار اور خواتین ۔۔۔ ان کے گھر چلے گئے۔۔۔ دلہن کے گھر کے بڑے لوگ یعنی کہ اس کیے ماں باپ اور بڑے ۔۔۔ تو ظاہر ہے کہ ماجد بھائی کی کوٹھی میں تھے اور وہ بے چارے اماں ابا اور بارات کی خدمت میں جُتے ہوئے تھے ۔ اور ایک ایک بندے سے پوچھ رہے تھے کہ سر چائے ہو جائے ۔۔۔ اور کوئی چیز تو نہیں چاہیئے۔۔وغیرہ وغیرہ ۔جبکہ ادھر عطیہ بھابھی کے گھر میں اس کی قریبی دوست اور رشتے دار خواتین بیٹھی ہوئیں تھیں ۔۔۔ میں خواتین کو لیئے ہوئے سیدھا ہال میں چلی گئی۔۔۔ جہاں دلہن درمیان میں اور باقی ۔۔۔لڑکیاں اس کے آس پاس بیٹھیں ہوئیں تھیں اور وہ ذور ذور سے کسی بات پر ہنس رہیں تھی ۔۔۔ عطیہ بھابھی کے سامنے ایک ڈھولک بھی پڑی تھی ۔۔۔ لیکن اس وقت وہ سب لیڈیز ڈھولک کی بجائے آپس میں خوش گپیاں لگا رہیں تھیں۔۔۔ ۔۔۔
جاری ہے