Taraas ya tishnagi - Episode 15

تراس یا تشنگی 

قسط 15 



ہمارے داخل ہوتے ہی ۔۔۔ وہاں پر ایک دم شور مچ گیا ۔۔۔ اور دو تین لڑکیاں عطیہ بھابھی کے سامنے کھڑی ہو گئیں اور کہنے لگیں ۔۔ کل سے پہلے آپ لوگوں کا داخلہ اس گھر میں منع ہے تاہم ۔۔۔ کچھ دیر کی گفتگو ۔۔منت سماجت ۔۔اور ۔۔۔ بات چیت کے بعد ۔۔۔۔ وہ لڑکیا ں عطیہ بھابھی کے سامنے سے ہٹ گئیں ۔۔۔ اور ہمیں عطیہ بھابھی کے پاس بیٹھنے کی جگہ دی۔۔۔۔ ابھی ہم لوگ عطیہ بھابھی سے باتیں ہی کر رہے تھے کہ چائے کا دور شروع ہو گیا ۔۔۔ اور اچانک پتہ نہیں کہاں سے وہی لڑکا نمودار ہوا ۔۔۔ اور مجھے چائے کی پیالی پکڑاتے ہوئے بولا۔۔کیسی ہو ہما۔۔۔۔ اس کو یوں اپنے ساتھ بے تکلف ہوتے دیکھ کر مجھے غصہ تو بہت آیا ۔۔۔ لیکن میں خود پر جبر کر گئی ۔۔۔۔اور اس کے ہاتھ سے چائے کی پیالی پکڑنے کے لیئے جیسے ہی میں نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا ۔۔۔ اس نے پیالی دیتے ہوئے بڑے ہی غیر محسوس طریقے سے میرے انگوٹھے کے ساتھ اپنا انگھوٹھا ٹچ کیا ۔۔۔۔ میں اس کی شرارت سمجھ تو گئی ۔۔ لیکن موقعہ ایسا تھاکہ میں اس کو کوئی جواب نہ دے سکتی تھی۔۔۔ اس لیئے خون کے گھونٹ پی کر چپ رہی۔۔۔

عطیہ بھابھی کے پاس ہم کافی دیر تک رہے ۔۔پھر رات کافی ہو گئی تو عظمٰی باجی کہنے لگی ۔۔۔ کہ اب ہمیں چلنا چاہیئے۔۔۔۔ ان لوگوں نے ہمیں روکنے کی کافی کوشش کی لیکن ۔۔۔ ہم لوگ وہاں نہ رُکے اور جب واپس آنے لگے تو ان میں نے دو تین خواتین اور وہی لڑکا ۔۔۔۔۔ ہمیں چھوڑنے کے لیئے ماجد بھائی کی کوٹھی تک آیا ۔۔۔۔۔ کوٹھی پہنچتے ہی ہمارا ٹاکرا ۔۔۔ اماں کےساتھ ہو گیا وہ ہمارا ہی انتظار کر رہیں تھیں ۔اور انہوں نے ہمیں اپنے اپنے کمروں کا بتایا اور سونے کی تاکید کرتے ہوئے خود وہاں سے چلی گئیں ۔۔۔ اپنے کمرے میں پہنچتے ہی میں نے اپنا بیگ کھولا ۔۔۔ اور رات کے پہننے والے کپڑے نکال لیئے۔۔۔ اور پھر کپڑے تبدیل کرنے کے لیئے جیسے ہی واش روم کی طرف بڑھی۔۔۔ تو وہاں خواتین کی لمبی قطار کو دیکھ کر میں وہاں سے باہر آ گئی اور کوئی اور کمرہ دیکھنے لگی ۔۔ لیکن اتفاق سے میں جس کمرے میں بھی جھانک کر دیکھا اسے ہاؤس فُل ہی پایا۔۔۔ اور پھر میں اپنے کپڑے ہاتھ میں لیئے وہاں سے آگے چلی جاتی ۔۔۔ اس طرح چلتے چلتے میں گیلری کے آخری سرے تک پہنچ گئی ۔۔۔ یہاں پہنچ کر میری نظر ایک چھوٹے سے دروازے پر پڑی ۔۔ اور میں بلا سوچے اس میں گھس گئی۔۔۔ یہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جس میں سرخ رنگ کا دبیز ساقالین بچھا ہوا تھا ۔۔۔ اور اس کمرے میں دو تین کرسیاں اور وکٹورین سٹائل کے دو سنگل سیٹر صوفے ایک طرف پڑے تھے جبکہ ان کے بلکل سامنے دو ٹرپل سیٹر صوفے پڑے تھےاور دیواروں پر بھاری پردے لگے ہوئے تھے میں نے ان پردوں ہٹا کر دیکھا تو یہ کھڑکیاں تھیں جو کہ باہر ۔۔لان کی طرف کھلتی تھیں۔۔۔ ۔۔۔ کمرے کا جائزہ لیتے ہوئے مجھے ان کی سیٹنگ کی بلکل کوئی سمجھ نہ آئی اور میں نے ایک نظر کمرے کی طرف دیکھا اور جلدی سے پکڑے تبدیل کیئے اور باہر نکل آئی۔۔۔ اور اپنے کمرے کی طرف جانے لگی۔۔۔ راستے میں اچانک مجھے ایک خیال آ گیا اور میں دوبارہ بھاگتی ہوئی اس کمرے کی طرف چلی گئی اور اب ایک نئے اینگل سے اس کا جائزہ لینے لگی۔۔۔۔۔ اور مجھے یہ کمرہ اپنے کام کے لیئے نہایت مناسب معلوم ہوا ۔۔ کیونکہ ایک تو یہ برآمدے میں سب سے آخر میں تھا۔کہ جہاں لوگوں کا آنا جانا بہت کم تھا ۔۔ اور دوسرا اس کی بناوٹ ایسی تھی کہ دور سے کسی کو گمان بھی نہ ہوتا تھا ۔۔۔ کہ یہاں کوئی کمرہ ہے ۔۔اچھی طرح تسلی کرنے کے بعد میں اپنے کمرے میں گئی اور کپڑوں کو رکھ کر میں سیدھا سرونٹ کوارٹر کی طرف چلی گئی ۔۔۔ اور پھر جیدے کو ایک مخصوص اشارہ کیا ۔۔۔ اور خود باہر کھڑی ہو گئی ۔۔۔ کچھ ہی دیر بعد جیدا ۔۔ میرے پاس کھڑا تھا اور وہ ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بظاہر بڑی نیازی سے پوچھ رہا تھا کہ کہاں چلنا ہے؟ لیکن میری نظر اس کی دھوتی پر تھی ۔۔ جو اس کے رضامندی کا ثبوت دی رہی تھی ۔۔ دھوتی میں جیدے کا لن نیم کھڑا تھا۔۔۔پھر میں نے اس کو مطلوبہ کمرے کی لوکیشن سمجھائی تو وہ کہنے لگا ۔۔۔ لیکن وہاں تو کوئی کمرہ نہ ہے ؟ تو میں نے کہا یہی تو بات ہے وہاں پر ایک خفیہ کمرہ ہے اور پھر اس سے کہا کہ وہ مناسب فاصلہ رکھ کر میرے پیچھے پیچھے آجائے ۔۔۔

جیدے کو ہدایت دے کر میں آگے بڑھی اور اس خفیہ کمرے کی طرف چلنے لگی۔۔۔۔ اور پھر ادھر ادھر دیکھتے ہوئے اس کمرے میں داخل ہو گئی ۔۔۔ کچھ ہی دیر کے بعد جیدا بھی اس کمرے میں آگیا ۔۔۔ اور کمرے داکل ہو کر اس کا جائزہ لینے لگا۔۔۔۔۔۔ اور بولا۔۔۔ کمال ہے بی بی جی ۔۔۔ میں نے صبع سے اس برآمدے کے کوئی سو چکر لگائے ہوں گے ۔۔ لیکن مجھے اس کمرے کا بلکل بھی پتہ نہیں چلا ۔۔۔ ابھی جیدے یہ کہہ رہا تھا کہ میں گھٹنوں کے بل نیچے بیٹھ گئی۔۔۔۔جیدے کی دھوتی سے اس کا لن نکال لیا۔۔۔ اور اس کی طر ف دیکھنے لگی۔۔۔ جیدے کا کالا لن ۔۔۔ ابھی نیم کھڑا تھا۔۔۔۔ میں نے اسے اپنے ہاتھ میں پکڑا ۔۔۔ اور اسے کو دبانے لگی۔۔۔میرے نرم ہاتھوں کا لمس پاتے ہی جیدے کا لن ۔۔۔ کھڑا ہونا شروع ہو گیا۔۔۔۔ اور میں اس کے شیش ناگ کو پھن پھیلاتے ہوئے دیکھنے لگی۔۔۔۔۔کچھ ہی دیر بعد ۔۔۔۔ جیدے کا لن پوری طرح کھڑا ہو گیا۔۔۔ اور میں اس کے شاندار لن کا جائزہ لینے لگی تو جیدا بولا ۔۔۔۔ ہما جی۔۔۔ زرا میرے ٹوپے پر اپنی زبان تو پھیرو۔۔۔ اور میں نے اس کی طرف دیکھ کر ہاں میں سر ہلایا ۔۔۔۔ اور اپنا منہ جیدے کے لن کے قریب لے گئی اور سب سے پہلے تو اس کے موٹے ٹوپے کو اپنے دونوں ہونٹ جوڑ کر چوم لیا ۔۔۔ اس کا لن کافی تپا ہوا تھا۔۔۔ پھر میں نے اپنے منہ سے زبان نکالی اور جیدے کے ٹوپے پر پھیرنے لگی۔۔۔میری زبا ن کا لمس جیسے ہی اس کے ٹوپے پر لگا۔۔۔ جیدے کے منہ سے سسکی نکلی۔۔۔ اور وہ بولا۔۔۔ اوہ۔۔۔۔۔۔۔ ہما۔۔۔ میرا لن منہ میں ڈال ۔۔۔ اور میں نے اس کے لن کو اپنے منہ میں لینا شروع کر دیا۔۔۔۔اور دو تین چوپے ہی لگائے ہوں گئے کہ اس کے لن نے مزی (پری کم) چھوڑنا شروع کر دی۔۔۔۔ اس کے لن سے نکلنے والی گرم مزی کا زائقہ کافی نمکین تھا اور پھر اس کے لن نے اتنی مزی چھوڑی کہ میرا منہ نمکین پانی سے بھر گیا۔۔۔۔۔ابھی میں جیدے کا لن چوس ہی رہی تھی ۔۔۔ کہ اچانک جیدے نے میرے منہ سے اپنا لن کھینچا اور مجھے اوپر اُٹھا لیا ۔۔۔تو میں نے اوپر اُٹھتے ہوئے اس سے کہا ۔۔۔ کیا ہے تھوڑا سالن تو اورچوسنے دو نا۔۔۔ تو وہ بولا۔۔۔ لیکن میں تمھارے ممے چوسنا چاہتا ہوں اور اس نے میری قمیض اوپر کی ۔۔۔۔ حسبِ روایت کپڑے تبدیل کرتے وقت برا میں نے پہنی ہی نہ تھی ۔۔۔ اس لیئے اس نے میری قمیض اوپر کی اور پہلے تو میرے نپلز سے کھیلنے لگا ۔۔۔ پھر جیدے نے اپنے موٹے موٹے ہونٹوں میں میرے دائیں ممے کا نپل لیا اور کسی بچے کی طرح اسے چوسنے لگا۔۔۔۔اس کے ممے چوسنے کی وجہ سے میری چوت میں آگ لگنا شروع ہو گئی اور پھدی میں پانی جمع ہو گیا ۔۔۔اور مین مزے سے ہلکی ہلکی کراہیں بھرنے لگی۔۔۔۔ آہ ہ ہ ۔۔۔۔۔ اوہ ہ ہ ہ ۔۔۔اُف۔ف۔ف۔ف۔ اورجیدے سے بڑی ہی شہوت بھری آواز میں بولی۔۔۔۔۔ جیدے میرا مما منہ میں لے کر چوس نہ ۔ نا۔۔۔ میری شہوت بھری آواز نے جیدے کومزید مست کر دیا تھا اور وہ کہنے لگا۔۔۔۔۔۔ ہاں تیرا مموں کو اپنے منہ میں لے کر ہی چوسوں گا۔۔۔ اور ۔۔۔بڑے زور و شور سے میرے ممے چوسنے لگا۔۔۔ ابھی جیدے کو میرے ممے چوستے ہوئے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ اچانک ہمیں باہر سے زور زور سے ہنسنے کی آوازیں سنائی دیں ۔۔۔ ا ن آوازوں کو سننا تھا ۔۔۔ کہ میں نے اور جیدے نے بیک وقت کمرے میں پڑے ٹرپل سیٹر ۔۔۔ صوفے کی طرف دوڑ لگائی اور اگلے ہی لمحے ہم دونوں ۔۔ اس ٹرپل سیٹر کے پیچھے دبکے ہوئےتھے۔۔۔اب آوازیں اور نزدیک سے سنائی دے رہیں تھی۔۔۔ اور پھر کچھ ہی دیر بعد ۔۔۔ کمرے کا دروازہ کھلا ۔۔۔۔۔ اور ۔۔ مجھے کرنل ماجد کی آواز سنائی دی وہ کہہ رہا تھا ارے باجی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں شکریہ کی کیا با ت ہے۔۔۔آپ میری بڑی بہن ہو ۔۔۔ اور آپ کی خدمت میرا فرض ہے۔۔۔ کرنل کی بات سن کر۔۔۔۔ جیدا ۔۔۔ جو کہ میرے ساتھ ہی صوفے کے پیچھے دبکا ہوا ۔۔پکڑے جانے کے خوف سے تھر تھر کانپ رہا تھا۔۔۔ اور ادھر ڈر تو مجھے بھی بہت لگ رہا تھا ۔۔۔ لیکن میری مہم جو طبیعت مجھے اس بات پر اُکسا رہی تھی کہ میں اُٹھ کر سامنے کا نظارہ دیکھوں ۔۔۔ اور پھر ۔۔۔۔ میں آہستہ آہستہ اوپر اٹھنے کی کوشش کرنے لگی تو جیدے نے ہاتھ بڑھا کر مجھے ایسا کرنے سے منع کر دیا ۔۔۔لیکن میں بھلا ۔۔ جیدے کی کہاں سننے والی تھی۔۔ چنانچہ میں بڑی ہی احتیاط سے اوپر اُٹھی اور ۔۔ پھر۔۔ آہستہ ۔۔۔آہستہ ۔۔۔اُٹھ کر ۔۔۔۔ پردے کے پیچھے کھڑی ہو گئی۔۔۔ اور پھر پردے کا وہ حصہ تلاش کرنے لگی کہ جہاں سے پردہ دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے ۔۔۔ خوش قسمتی سے پردے کا وہ والا حصہ قریب سے ہی مل گیا ۔۔۔۔۔ اور میں کھسکتی کھسکتی ۔۔۔۔ عین اس کے پاس کھڑی ہو گئی۔۔۔ اور پھر بڑی ہی احتیاط سے ۔۔۔۔ پردے کی جھری میں سے جھانک کر دیکھنے لگی۔۔۔ وہ ٹوٹل تین نفوس تھے ۔۔۔ ایک کرنل ماجد۔۔۔۔ دوسرا اماں ۔۔۔ اور تیسرا ۔۔۔ کرنل کی نک چڑھی بیوی تھی۔۔۔

 کرنل اور اماں سنگل سیٹر پر ساتھ ساتھ بیٹھے تھے ۔۔ جبکہ کرنل کی نک چڑھی بیوی ۔۔۔ ان کے سامنے کرسی لگا کر بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔ کرنل کی بیوی کی پشت میری طرف تھی ۔۔۔ اور میری سیدھ سے تھوڑا ہٹ کر اماں اور کرنل بیٹھے ہوئے تھے۔۔ موضوع بارات اور صبع کا ناشتہ تھا ۔۔۔ اماں کرنل سے کہہ رہیں تھیں کہ ناشتہ صبع 7 بجے سرو کر دیا جائے اور ناشتے میں چائے اور بسکٹ یا کیک دیا جائے ۔۔۔ جبکہ کرنل اور اس کی نک چڑھی بیوی کا خیال تھا کہ 8/9 بجے تک ہلکا پھلکا ناشتہ دیا جائے۔جبکہ اماں اصرار کر کے کہہ رہیں تھیں کہ ۔۔کیونکہ بارہ ایک بجے تو برات کا کھانا تھا۔۔۔۔اس لیئے آپ لوگ صرف ہلکا سا ناشتہ ہی دیں۔۔۔ اس کے بعد وہ لوگ ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے۔۔۔ زیادہ تر باتیں کرنل اور اماں ہی کر رہے تھے ۔۔۔ جبکہ کرنل کی نک چڑھی بیوی ۔۔۔ بہت کم لیکن بڑے نخرے سے بات کرتی تھی۔۔۔کوئی پندرہ بیس منٹ کی گفتگو کے بعد اچانک کرنل کی بیوی نے اپیئ کلائی اوپر ۔۔۔ اور پھر اپنی کلائی پر بندھی ہوئی۔۔۔۔ گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔ ۔۔ نیلو ۔۔ باجی۔اجازت دیں کہ ۔۔ ہمارے سونے کے ٹائم سے بھی وقت کافی اوپر ہو گیا ہے۔۔۔ اور آپ نے بھی ریسٹ کرنا ہو گا۔۔۔۔ اس کی بات سُن کر اس سے قبل کہ اماں کوئی جواب دیتیں ۔۔۔ کرنل نے اپنی بیوی سے کہا ۔۔۔ ڈارلنگ اتنے سالوں کے بعد تو آپا ملی ہے ۔۔۔ اور سارے دن کے بعد ابھی ہی تو موقع ملا ہے ۔آپا اور میاں صاحب سے محفل جمانے کا۔۔ کرنل کی بات سُن کر اس کی بیوی بولی ۔۔۔ لیکن میاں صاحب تو مجھے ابھی تک نظر نہیں آئے تو ماجد انکل کہنے لگے۔۔۔ وہ اپنے دوست وقار صاحب کے ساتھ تھوڑے بزی تھے۔۔۔ بس کسی بھی لمحے آنے والے ہوں گے۔۔۔ ۔۔۔ کرنل کی بات سُن کر ۔۔ نک چڑھی آنٹی کہنے لگیں ۔۔ سوری ۔۔ مجھے تو بہت سخت نیند آ رہی ہے اور تم تو جانتے ہی کہ میں اتنی رات گئے تک جاگنے کی عادی نہیں ہوں۔۔۔ اس لیئے میں تو چلی ۔۔ تم بھی آ جانا۔۔۔ تو ماجد انکل کہنے لگے۔۔۔ ڈارلنگ بری بات ہے ۔۔۔ میاں صاحب آنے والے ہیں ۔۔۔۔ وہ کیا سوچیں گے ۔۔ لیکن نک چڑھی آنٹی نے ان کی ایک نہ سُنی اور کہنے لگی۔۔۔ سوری ۔۔۔ ڈارلنگ ۔۔۔سوری باجی۔۔۔۔ میں مزید نہیں رُک سکتی اور پھر ۔۔ وہ کرسی سے اُٹھی اور سونے کے لیئے اپنے گھر چلی گئی۔۔۔۔ نک چڑھی آنٹی کے جانے کے بعد ۔۔۔ کچھ دیر تک تو کمرے میں ایک گھمبیر سناٹا سا چھا گیا ۔۔ اور اماں اور انکل ۔۔۔۔ سر جھکائے ۔۔۔ چپ چاپ ساتھ ساتھ سنگل سیٹر پر بیٹھے رہے ۔۔۔ پھر کچھ دیر بعد ۔۔۔ کمرے میں اماں کی آواز گونجی۔۔۔۔ وہ کہہ رہیں تھیں ۔۔ یہ ابھی تک میاں صاحب نہیں آئے۔۔۔ اماں کی بات سُن کر کرنل کے چہرے پر ایک مسکراہٹ سی پھیل گئی۔۔۔ اور وہ بولے ۔۔۔۔ میاں صاحب کیسے آئیں گے ان کو تو بتایا ہی نہیں گیا۔۔۔ انکل کی بات سُن کر امان بڑی حیران ہوئی اور ان کی طرف بڑی حیرانی سے تکتے ہوئے کہنے لگیں۔۔۔ لیکن ابھی تو ۔۔ابھی تو۔۔۔۔ اماں کی حالت دیکھ کر کرنل نے ایک ہلکا سا قہقہہ لگایا اور اماں کی نقل اتارتے ہوئے بولا۔۔۔۔ جی ابھی تو ۔۔ابھی تو جو کہا گیا تھا ۔۔۔ وہ جسٹ اپنی بیگم صاحبہ کو مطمئن کرنے کے لیئے کہا گیا تھا۔۔۔۔ انکل کی بات سُن کر اماں کے چہرے پر ایک مسکراہٹ پھیل گئی ۔۔۔۔۔ اور انہوں نے بڑے معنی خیز ۔۔۔۔ نظروں سے انکل کی طرف دیکھا اور ۔۔۔ بولیں ۔۔۔ اچھا تو یہ بات تھی۔۔۔ 

 اس کے بعد ایک دفعہ پھر کمرے میں چند سیکنڈ کے لیئے گہرا سناٹا چھا گیا۔۔اور پھر اس دفعہ بھی اماں نے ہی اس سناٹے کو توڑا اور پھر میں نے اماں کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو۔۔۔ اماں کے چہرے پر ایک شہوانی سے مسکراہٹ ابھرآئی تھی۔۔۔ اور انہوں نے سامنے دیکھتے ہوئے کرنل کو مخاطب کر کے کہا۔۔۔اج کل ۔۔۔۔ کی حال اے تیرے گھوڑے دا۔۔۔۔۔ ( آج کل تمھارے گھوڑے کا کیا حال ہے ) امان کی بات سُن کر ۔۔ میں نے دیکھا کہ۔۔۔۔۔ اچانک ہی انکل کے چہرے پر بھی ایک شیطانی سی مسکراہٹ آ گئی تھی اور انہوں نے بھی اماں کی طرح سامنے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔ باجی تسی گھوڑے دا حال پچھ رے او۔۔۔۔۔ یا۔۔ لوڑے دا۔۔۔ ( باجی آپ گھوڑے کا حال پوچھ رہی ہو یا لوڑے (لن) کا ) تو اماں اٹھلاتے ہوئے بولیں۔۔۔۔ جو مرضی سمجھ لو ۔۔۔ اماں کی بات سُن کر انکل نے اپنا ہاتھ اپنی پینٹ کی طرف بڑھایا اور ۔۔۔ اس کو زپ کو کھول کر اپنا لن باہر نکلا ۔۔۔۔اور پھر انہوں نے میرے دیکھتے ہی دیکھتے اماں کا ہاتھ پکڑا ۔۔۔۔اور اپنے لن پر رکھ کر بولے۔۔۔گھوڑا تے ٹھیک اے۔۔ لوڑے دے حال آپی پچھ لو( گھوڑا تو ٹھیک ہے۔۔۔۔لن کا حال آپ خود ہی معلوم کر لو) اب میری نظریں انکل کے لن پر گڑھی ہوئیں تھیں۔۔۔ اور میں نے دیکھا کہ ۔۔۔ اماں نے اپنی انگلی کی پوریں انکل کے لن کے ٹوپے پر پھیرنے شروع کر دیں ۔۔۔ اور ۔۔۔ اماں یہ کام بڑی ہی مہارت سے کر رہیں تھیں ۔۔ اور میں دیکھا کہ ۔۔۔ انکل کا لن جو شروع میں ایک مردہ چھپکلی کی طرح سے تھا ۔۔۔ اماں کی انگلیوں کے کمال سے اب آہستہ آہستہ جان پکڑنے لگا تھا۔۔۔ اور انکل ۔۔۔ بڑے غور سے اماں کی یہ کاروائی دیکھ رہے تھے۔۔۔اب آہستہ آہستہ انکل کا لن کھڑا ہو تا جا رہا تھا۔۔۔۔۔ اور اس سے پہلے کہ ان کا لن مکمل کھڑا ہوتا ۔۔۔ اچانک انکل نے اماں کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولا۔۔۔ میں زرا کنڈی لگا آؤں ۔۔۔۔ اور اپنی سیٹ سے اُٹھ گئے ۔۔۔ ان کے سامنے ہی تو پردے کے پیچھے میں کھڑی تھی جبکہ میرے نیچے جیدا ۔۔۔ لیٹا ہوا تھا۔۔۔۔ اور اب اس کے بدن کی کپکپاہٹ قدرے کم ہو گئی تھی اور اب وہ بھی میری طرح اُٹھ کر کھڑے ہو کر نظارہ دیکھنے کی تیاری کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔ انکل کو اپنی طرف آتے دیکھ کر میں نے اس جھری کو بھی بند کر دیا۔۔کہ جس سے میں یہ سارا نظارہ دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ اور ان کے جانے کا انتظار کرنے لگی چند سیکنڈ کے بعد مجھے۔۔۔


جاری ہے 

*

Post a Comment (0)