تراس یا تشنگی
قسط 2
۔ اندر سے میری یونی گلابی رنگ کی تھی اور اس میں سے دودھیا رنگ کا پانی سا نکل رہا تھا ۔۔۔۔۔ اور میں نے انگلی سے اس پانی کو چیک کیا تو یہ چپ چپا سا تھا اوراس وقت چوت سے یہ پانی رِس رِس کر میری ٹانگوں سے نیچے کی طرف جا رہا تھا اسی اثنا میں ایک بار پھر مجھے اپنی یونی پر خارش محسوس ہوئی تو میں نے اپنی چوت کے اوپر لگے اس سُرخ سے دانے کو مسلنا شروع کر دیا جوں جوں میں اس کو مسلتی جاتی تھی تو ں توں میری چوت سے ِچپ چپے پانی کا رسنا تیز ہوتا جا رہا تھا ۔۔۔ ۔۔۔اور پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ اس سرخی مائل دانے کو مسلتے مسلتے میں نڈھال سی ہو گئی اور میرے منہ سے خود بخود لزت آمیز سسکیاں نکلنا شروع ہو گئیں اور اپنی ان لزت بھری سسکیوں کو سُن سُن کر میرے اندر جنسی خواہش جاگنے کا عمل اور بھی تیز ہو تا گیا ۔۔۔ یہاں تک کہ میری سسکیاں اب ہلکی ہلکی چیخوں میں بدل رہیں تھی اور میری انگلیاں تیزی کےساتھ میری چوت کے ساتھ جُڑے دانے کو کھجا رہیں تھیں ۔۔۔۔ جیسے جیسے میری دو انگلیاں میرے چھوٹے سے دانے پر رگڑ کھاتیں اور اسی تیزی سے میری رانیں اس چپ چپے پانی سے بھیگی جا رہیں تھیں ۔ میں ایک انوکھی لزت سے آشنا ہوتی جا رہی تھی ۔ پھر کچھ دیر کے بعد میں نے اس دانے کو مسلنا بند کردیا ۔۔۔۔اور شیشے میں دیکھا تو میرا وہ چھوٹا سا دانہ مسلسل مسلے جانے کی وجہ سے لال سُرخ ہو کر کافی بڑا ہو چکا تھا ۔اور میں نے ایک بار پھر اس دانے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ شروع کر دی ۔۔۔ اور پھررررررر ۔۔کچھ ہی دیر کے بعد ۔۔۔ میرے بدن کو جھٹکے لگنے شروع ہو گئے اور پھر میں نے دیکھا کہ پتلا پتلا دودھیا سا پانی میری ٹانگوں سے ہوتا ہوا ۔۔۔ نیچے کی جانب بہہ رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی میری آنکھیں بند ہو گئیں اور میں مزے کے سمندر میں غوطے کھانے لگی اور میں بے سدھ ہو کر بیڈ پر گر پڑی اور لمبے لمبے سانس لینے لگی ۔۔۔ یہ میری زندگی کی پہلی خود لذتی تھی جو میں نے اپنے آپ سے حاصل کی تھی گو کہ اس کام میں مجھے تسلی تو ہر گز نہ ملی تھی لیکن اس عمل سے میں ایک لزت سے بھر پور فعل سے ضرور ۔۔۔۔۔۔۔۔متعارف ہو گئی تھی ۔۔۔۔ ۔ یہ سب کچھ تو میں کر لیا تھا ۔۔۔ لیکن سیکس کے بارے میں میرا تجسس بڑھتا جا رہا تھا میں اس بارے میں جانا چاہتی تھی کہ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ یونی کو کھجانے سے مزہ کیوں ملتا ہے ۔اور چوت سے یہ چپ چپا سا پانی کیوں نکلتا ہے ؟؟؟؟؟؟۔۔وغیرہ وغیرہ اس قسم کے کئی سوالات تھے جو میں جاننا چاہتی تھی لیکن ۔۔۔۔ میں ڈر کی وجہ سے کسی سے بھی بات نہ کر سکتی تھی وجہ ۔۔۔وہی گھر کا سخت اور روایتی سا ماحول کہ جس میں سیکس کو شجرِ ممنوعہ سمجھا جاتا تھا ۔۔۔سیکس کے بارے میں، میں معلومات حاصل کرنا چاہتی تھی لیکن کسی سے بات کرتے ہوئے ڈرتی تھی اس لیئے میں چاہنے کے باوجود بھی۔۔ میں کسی سے سیکس بارے میں بات نہ کر سکی اور بس یوں ہی اپنی یونی کے دانے کو رگڑ رگڑ کر گزارا کرتی رہی ۔۔۔۔ ۔۔۔ ایک بات کا تو مجھے پتہ چل گیا تھا کہ میری دو ٹانگوں کے درمیان والی جگہ جسے ہم چوت کہتے ہیں ۔گیلی لکڑی کی طرح ہر وقت سُلگتی رہتی تھی۔۔اور ۔۔۔ بہت زیادہ ڈیمانڈنگ تھی اور جب تک میں اس پر لگے دانے کو اچھی طرح سے کھجا نہ لوں یا اس کو کہیں رگڑ نہ لوں میری بے چینی دور نہ ہوتی تھی - اور اتنے زیادہ رگڑنے کے باوجود بھی یہ ہر گز ٹھنڈی نہ ہوتی تھی ۔۔ہاں تھوڑا وقتی سکون ضرور مل جاتا تھا ۔۔
مجھے سکول چھوڑنے کا کام ابا کے ذمہ تھا وہ مجھے اپنے آفس جاتے وقت سکول چھوڑ جاتے تھے جبکہ سکول سے واپسی پر میں اپنی سہیلی نسرین کے ساتھ آتی تھی اس کا گھر ہمارے گھر سے ایک دو گلیاں پہلے آتا تھا جبکہ سکول ہمارے گھر سے پانچ چھ گلیاں دور تھا ۔ میرے لڑکپن کا دور کا قصہ ہے کہ اس وقت میں سویٹ ٹین میں تھی اور میری جوانی کی اُٹھان بڑی زبردست تھی ۔۔۔میری خوبصورتی کی سبھی تعریف کرتے تھے اورایک دن کی بات ہے کہ حسبِ معمول چھٹی کے بعد میں نسرین کے ساتھ خوش گپیاں کرتے ہوئے گھر کی طرف لوٹ رہی تھی کہ اتنے میں .... میں نسرین کا گھر آگیا ۔۔۔اور وہ مجھے بائے بائے کرتے ہوئے اپنے گھر میں داخل ہو گئی ۔۔ اس کے بعد مجھے دو تین گلیاں اور کراس کرنا تھیں تو آگے والی گلی میں میرا گھر تھا ۔۔۔ جیسے ہی نسرین مجھے ٹا ٹا کر کے اپنے گھر میں داخل ہوئی ۔۔ ایک لڑکا تیزی سے آگے بڑھا اور میرے آگے آگے چلنا شروع ہوگیا ۔۔۔اس نے ایک دو دفعہ مجھ سے بات کرنے کی کوشش بھی کی لیکن میں نے ڈر کے مارے اس کی کسی بات کا کوئی جواب نہ دیا اور چپ چاپ سر جھکا کر چلتی رہی ۔۔۔ پھر اس کے بعد اس لڑکے کا یہ معمول بن گیا تھا کہ جیسے ہی نسرین اپنے گھر میں داخل ہوتی پتہ نہیں وہ لڑکا کہاں سے نازل ہو جاتا اور میرے ساتھ ساتھ چلنے لگتا ۔۔۔ شروع شروع میں تو مجھے بہت الجھن ہوئی لیکن اس کے بعد میں اندر ہی اندر اس کا انتظار کرنی لگی ۔۔۔ لیکن مسلہ یہ تھا کہ اندر سے میں بہت بزدل تھی اور خاص کر میں بھائیوں سے بہت ڈرتی تھی کیونکہ میرے بھائیوں نے مجھے صاف کہہ رکھا تھا کہ اگر انہوں نے میرے بارے میں کوئی ایسی ویسی بات سُن لی تو وہ نہ صرف یہ کہ مجھے زندہ نہیں چھوڑیں گے بلکہ مجھے سکول سے بھی اُٹھوا لیں گے ۔۔۔ اور مجھے پڑھنے کا بہت شوق تھا اور میں پڑھنا چاہتی تھی اس لیئے پہلے تو میں اس لڑکے کو اگنور کرتی رہی لیکن وہ تھا بھی ایک ڈھیٹ قسم کا عاشق تھا روز میرے ساتھ ساتھ یا میرے آگے چلتا ۔اور۔ مجھ سے بات کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا لیکن میں ڈر کے مارے اس سے کوئی بات نہ کرتی تھی۔۔۔ اور اس کے ساتھ ساتھ مجھے اپنے بھائیوں کا بھی بہت ڈر تھا ۔۔۔ اس لیئے میں نے نہ تو اس بات کا نسرین اور نہ ہی کسی اور سے ا س لڑکے کا زکر کیا ۔۔۔ کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ میری دوست نسرین پیٹ کی بہت ہلکی ہے ۔۔اور اگر میں اس سے اس لڑکے کا تزکرہ کر دیتی ہوں ۔۔تو اس نے جھٹ سے یہ بات سارے سکول کو بتا دینی تھی ۔۔۔ اور اسی سکول میں فیض بھائی کی سالی بھی پڑھتی تھی اور میں نہیں چاہتی تھی کہ میرا کوئی سکینڈل نکلے اور مجھے سکول سے ہاتھ دھونے پڑیں ۔۔ لیکن تابکہ ۔۔۔۔ بھائیوں کی دھمکیاں اپنی جگہ۔۔۔ لیکن میرے نیچے بھی ایک چیز لگی ہوئی تھی۔۔۔جو بہت پیاسی تھی اور ۔۔۔ ہر وقت مجھے تنگ کرتی رہتی تھی ۔۔ اور خاص کر اس ہینڈ سم لڑکے کو تو دیکھ کر ۔۔۔اب مجھے بھی کچھ کچھ ہونے لگا تھا ۔۔۔اور اس کی تیز نظروں کی تاب نہ لاتے ہوئے ۔۔۔میرے من کی کچی کلی بھی مہکنے لگی تھی اور ۔۔۔ شاید یہ اس کچی کلی کی مجبوری تھی ۔۔
کہ ایک دن میں بھی اس کی طرف دیکھنے لگی ۔وہ ایک گورا چٹا اور کیوٹ سا لڑکا تھا جو ہمارے سکول سے آگے ایک بوائز کالج میں پڑھتا تھا ۔۔قد اور عمر میں مجھ سے کافی بڑا ہو گا ۔۔ اس کی آنکھیں سیاہ اور ناک نقشہ بہت اچھا تھا ۔۔ میں نے اسے دیکھا اور ۔۔من ہی من میں اسے پاس کر دیا۔۔۔۔۔ ۔۔اسی طرح ایک ہفتہ اور گذر گیا۔۔ وہ روزانہ بڑی باقاعدگی سے میرے ساتھ ساتھ یا میرے آگے پیچھے چلتا اور جب میں گھر داخل ہو جاتی تو وہ بھی واپس چلا جاتا تھا۔۔۔ ایک دن جب میں گلی میں اکیلی جا رہی تھی تو اس نے تھوڑی ہمت کی اور بولا ۔۔۔ ہیلو آپ کیسی ہیں ؟ لیکن میں نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا ۔ اور چُپ چاپ چلتی رہی ۔۔۔۔ اسی طرح دو تین دن اور گزر گئے ۔۔وہ روز مجھ سے یہی بات کرتا تھا لیکن میں کوئی جواب نہ دیتی تھی ۔ اور ایک دن جب میں اسی گلی داخل ہوئی جو کہ عام طور پر سنسان ہی رہتی تھی ۔۔۔۔تو وہ ایک دم میرے سامنے رُک گیا اور ہاتھ جوڑ کر بولا ۔۔ پلیز میری بات کا جواب تو دو۔۔۔ تو میں نے کہا ہاں بولا کیا بات ہے تو وہ کہنے لگا۔۔۔ شکر ہے آپ بولی تو ۔ورنہ تو میں سمجھا تھا کہ آپ گونگی ہیں ۔۔تب میں نے اس سے کہا تم روز کیوں میرا پیچھا کرتے ہو ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ اور چلنے لگی تو وہ بولا ۔۔ میں آپ کی اس بات کا ۔۔۔۔آپ کو کل جواب دوں گا او ر میرے آگے آگے چلنے لگا ۔۔ اگلے دن جب میں اسی سنسان گلی میں داخل ہوئی تو اچانک وہ میرے ساتھ ساتھ چلنے لگا اور بولا کل آپ نے پوچھا تھا نہ کہ میں روز آپ کا پیچھا کیوں کرتا ہوں تو میں نے اس کی ساری وجہ اس خط میں لکھ دی ہے پلیز اسے پڑھ لو اور اس کے ساتھ ہی اس نے ہاتھ بڑھا کر مجھے وہ خط دینا چاہا ۔۔۔ لیکن میں نے اس کو کوئی جواب نہ دیا اور چپ چاپ چلتی رہی ۔۔۔ وہ سارا رستہ میری منتیں کرتا رہا لیکن میں نے اس کی کسی بات کا کوئی جواب نہ دیا ۔۔۔ اسی طرح تین چار دن اور گذر گئے وہ روز مجھے خط دینے کی کوشش کرتا اور میں اس کی کسی بات کا کوئی جواب نہ دیتی تھی ۔اصل میں ۔۔ میں اس کا خط لینے سے اس لیئے ڈرتی تھی ۔۔ کہ کہیں کوئی دیکھ نہ لے ۔۔۔۔ اسی طرح کافی دن گزر گئے اور آخر ایک دن مجھے اس پر ترس آ گیا اور میں نے اس سے کہا اس خط میں کیا لکھا ہے تو اس نے بڑے رومینٹک لہجے میں جواب دیا کہ اس خط میں میں نے اپنا حالِ دل لکھا ہے تم پلیز اسے ایک بار پڑھ تو لو۔۔۔۔ اس کی بات سُن کر میں نے سوچا اس کا خط پڑھ کر دیکھتے ہیں کہ اس میں کیا لکھا ہے اور اس سے وہ خط وصول کر لیا ۔۔۔
جیسے ہی میں نے اس کے ہاتھ سے وہ خط لیا وہ یوں میرا شکریہ ادا کرنے لگا کہ جیسے میں نے اس پر کوئی بہت بڑا احسان کر دیا ہو۔۔۔ خیر میں نے اس سے وہ خط لیا اور سیدھا گھر آ گئی اور اپنے کمرے میں جا کر سب سے پہلے اسے لاک کیا اورپھر دھڑکتے دل کے ساتھ ڈرتے ڈرتے اس کا خط کھولا ۔۔ جیسے ہی میں نے اس کے دیئے ہوئے خط کو کھولا۔۔تو سارا کمرہ ایک بہت ہی عمدہ سے پرفیوم کی خوشبو سے مہک اُٹھا ۔۔جو اس نے سارے خط پر چھڑکا ہوا تھا ۔۔۔۔ اتنی اچھی خوشبو سُونگھ کر میرا موڈ خوش گوار ہو گیا ۔اور نے اسے کھول کر پڑھا ۔۔تو اس نے لکھا تھا ۔۔۔ میری اپنی ۔۔اور بہت پیاری ۔۔ ہما جی (پتہ نہیں اس کو میرے نام کا کیسے پتہ چل گیا تھا ) ۔۔۔۔دل کی گہرائیوں سے آپ کو میرا محبت بھرا سلام قبول ہو ۔۔۔ ۔۔پھر آگے لکھا تھا ۔۔۔۔ سب سے پہلے تو آپ کی اس بات کا بہت بہت ۔۔۔۔ شکریہ کہ آپ نے اپنے نازک ہاتھوں ۔سے میرا خط لیا ۔۔۔اور اس وقت میرا یہ خط آپ کی پیاری پیاری اور سرمگیں آنکھوں کے سامنے ہے ۔۔۔ ہما جی۔۔۔۔ یقین کریں اوپر والے نے آپ کو فرصت میں بیٹھ کر بنایا ہے۔۔۔ اور میں آپ کے اس ملکوتی حُسن کا دیوانہ ہوں ۔۔۔ جب سے میں نے آپ کو دیکھا ہے میں خود کو بھول گیا ہوں ۔۔پتہ نہیں آپ نے مجھ پر کیا جادو کر دیا ہے کہ ۔ سوتے جاگتے اُٹھتے بیٹھے۔ چلتے پھرتے۔۔۔۔بس۔۔ آپ ہی کی موہنی صورت میری آنکھوں کے سامنے گھومتی رہتی ہے۔پھر آگے اس نے ایک مشہور گانے کا یہ
شعر لکھا ہوا تھا ۔۔
تم ہی بتاؤ کہ ہم کیا کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چاروں طرف دیکھتے ہیں تمھیں۔۔۔۔۔ کلیوں میں تم ہو ۔۔۔۔ بہاروں میں تم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس دل کے ہر ایک نظاروں میں تم ۔۔۔۔۔۔۔
۔پھر لکھا تھا ہما جی ۔پتہ نہیں آپ کی حسین آنکھوں میں کیا جادو ہے کیا کشش ہے کہ میں ہر وقت ان میں ہی گُم رہتا ہوں ۔۔ہما ۔۔جی ۔۔ میں آپ کا بیمارِ محبت ہوں اور شفا صرف اور صرف آپ ہیں۔۔۔ میں آپ کے بغیر نہیں رہ سکتا ۔۔۔ جس دن آپ نظر نہیں آتیں ہیں وہ دن میرا بہت خراب گزرتا ہے ۔اور جس دن آپ نظر آ جاتیں ہیں وہ دن میرے لیئے عید کا دن ہوتا ہے ۔۔۔۔اس طرح کی رومانوی باتوں کے ساتھ ساتھ اس نے اس خط میں اور بھی بہت سارے محبت بھرے شعر لکھے ہوئے تھے جو کہ اس وقت مجھے یاد نہ آ رہے ہیں ہاں ان اشعار کا لبِ لباب یہ تھا کہ وہ مجھ سے بہت حد محبت کرتا تھا ۔۔۔ اور اس کے لیئے میں دنیا کی سب سے حسین لڑکی تھی اور ہاں خط کے سائیڈوں پر بڑے بڑے حاشیئے بھی لگے ہوئے تھے اور ان حاشیوں کے ایک طرف ترتیب کے ساتھ بہت سے سرخ رنگ کے دل بنے ہوئے تھے اور ان دلوں میں تیر کھبے ہوئے تھے ۔۔۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ تیر کے لگنے کی وجہ سے اس دل سے خون بھی ٹپک رہا تھا ۔۔۔ آخر میں اس نے لکھا تھا صرف اور صرف تمھارا اپنا ۔۔۔۔۔ سمیر۔۔
۔۔ اس سمیر نامی لڑکے کا وہ خط چار صفحات پر مشتمل تھا ۔اور اس کے ہر صفحے پر محبت بھرے ڈائیلاگ لکھے ہوئے تھے جن کو پڑھ کر میں بڑی متاثر ہوئی تھی ۔۔سمیر کے ہاتھ کا لکھا وہ خط ۔۔۔ میں نے بے شمار دفعہ پڑھا اور جب مجھے وہ خط زبانی یاد ہو گیا تومیں نے اسے پرزہ پرزہ کر کے فلش میں بہا دیا ۔۔۔ اور پھر سارا دن سمیر کے خط کے مندرجات پر غور کرتی رہی کہ آیا واقعہ ہی میں اتنی خوبصورت ہوں یا کہ وہ ایسے ہی بلف مار رہا ہے؟ اس کے ساتھ ہی میں ڈریسنگ کے سامنے سٹول پر بیٹھ گئی اور بڑے غور سے اپنا جائزہ لینے لگی ۔۔۔ اس میں تو کوئی شک نہ تھا کہ میں ایک گوری چٹی۔۔ چمکتے ہوئے رنگ ۔۔۔اور بہت اچھے نین نقش والی لڑکی تھی گو کہ میرے بریسٹ ابھی چھوٹے تھے لیکن اتنے چھوٹے بھی نہ تھے ۔۔۔اور ابھی سے میرے سینے کی اُٹھان ایسی غضب تھی کہ جب میں سینہ تان کر چلتی تھی تو بڑے بڑے لوگوں کے دل ہل جاتے تھے –
جاری ہے