تراس یا تشنگی
قسط 3
اور یوں میری اس لڑکے سے کہ جس کا نام سمیر تھا سے دوستی کی ابتدا ہو گئی اور اب تو وہ روز ہی مجھے خط دینے لگا تھا جسے میں گھر آ کر دو تین دفعہ پڑھتی تھی ۔۔اور پھر اسے فلش میں بہا دیتی تھی ۔۔۔پتہ نہیں وہ اتنے رومینٹک الفاظ کہاں سے ڈھونڈ کر لکھتا تھا کہ جن کو پڑھ کر میں گھائل ہوتی جا رہی تھی ۔۔۔ پہلے پہلے تو اس نے اپنے خطوط میں بڑی ہی رومانوی باتیں لکھی تھیں کہ جن کو پڑھ کر میں سپنوں کی دنیا میں کھو جاتی تھی پھر آہستہ آہستہ اس کے خط کے مندرجات بدلنے لگے ۔۔۔ اور اب وہ اپنے خطوط میں مجھ سے ملنے کا تقاضہ کرنے لگا ۔۔۔گو کہ میرا بھی دل کرتا تھا کہ میں اسے اکیلے میں ملوں لیکن میری پوزیشن ایسی نہ تھی کہ میں اسے مل نہ سکتی تھی ا سی طرح دن گزرتے رہے ۔۔۔ اب میں اس کے ساتھ ہلکی پھلکی گپ شپ بھی لگانے لگی تھی اور وہ خاص کر میری خوبصورتی کی بڑی تعریف کرتا تھا اور زبانی بھی ملنے کی درخواست کرتا رہتا تھا ۔اور اس کے ساتھ ساتھ خطوط بھی جاری تھی ۔۔۔ جن میں کہ وہ مجھ سے ملنے کا تقاضہ کرتا تھا ۔۔۔ ۔۔ پھر کچھ عرصہ بعد سمیر کے خطوط کا لہجہ مزید بدل گیا اور اب وہ وہ رومانوں باتوں کے ساتھ ساتھ میرے جسم خاص کر میرے بریسٹ کی بڑی تعریف لکھنا شروع ہو گیا ۔۔۔ جسے پڑھ کر مجھے بہت اچھا لگتا تھا اس کےساتھ ساتھ اب وہ چلتے چلتے مجھے ٹچ بھی کر لیتا تھا مجھے یاد ہے کہ جب پہلی دفعہ اس نے مجھے ٹچ کیا تھا تو میرے سارے بدن میں ایک عجیب سی سنسنی پھیل گئی تھی ۔۔۔ پھر اس کے بعد وہ عموماً مجھے ضرور چھوتا تھا اور اس کا اس طرح سے مجھے چھونا مجھے بہت اچھا لگتا تھا ۔۔
ہمارے سکول سے گھر کے راستے میں اس سنسان گلی کے نکڑ پر ایک ایسا گھر بھی پڑتا تھا کہ جس کے آگے ایک باڑھ سی لگی ہوئی تھی اور اس باڑھ نے اس گھر کو تین طرف سے گھیر رکھا تھا ۔۔۔۔ان کے مین گیٹ سے اندر داخل ہو تو گیٹ کے ساتھ ہی ایک چھوٹا سا لان تھا اور اس لان کے کونے میں درھیک کے دو تین درخت اکھٹے ہی لگے ہوئے تھے جن کی وجہ سے وہاں ایک چھوٹی سے آڑ سی بن گئی تھی ۔۔۔۔ اور ان درختوں سے ہٹ کر یعنی کہ ایک سائیڈ پر اس گھر کا گیٹ تھا ۔۔ اس گھر میں دو ہی لوگ رہتے تھے ایک میاں اور ایک اس کی بیوی اور یہ دونوں ہی خاصے بوڑھے تھے مرد تو کام کے لیئےصبع سویرے ہی گھر سے نکل جاتا تھا ۔۔ جبکہ خاتون گھر میں ہی اکیلی ہی رہتی تھی ان کے بچے وغیرہ اگر تھے بھی تو وہ ان کے ساتھ نہیں رہتے تھے ۔۔۔ یہ باتیں مجھے سمیر نے بتائیں تھیں ہوا یوں کہ سکول سے واپسی پر حسبِ معمول اس نے ملنے کی تکرار کی ۔۔۔ تو میں نے بھی اسے روز والی بات کی کہ تم تو جانتے ہی کہ میرا گھر سے نکلنا کتنا مشکل ہے ۔۔ تب وہ کہنے لگا کہ اچھا ایسا کرو کہ تم مجھ سے یہاں ہی مل لو ۔۔تو میں نے کہا روز تو ملتی ہوں تو وہ بڑے ہی حسرت بھرے لہجے میں بولا ۔۔۔۔ نہیں ایسے نہیں نا میری جان میں تم سے گلے ملنا چاہتا ہوں
تمھارے یہ رس بھرے ہونٹ چوسنا چاہتا ہوں اور سب سے بڑی بات یہ کہ میں تمھارے یہ چٹانوں جیسے ۔۔۔ بریسٹ اپنے سینے سے لگانا چاہتا ہوں وہ ظالم باتیں ایسی کررہا تھا کہ میرا دل کر رہا تھا کہ ابھی میں اس کو اپنے سینے سے لگا لوں ۔۔۔ اور نیچے میری دونوں رانوں کے بیچ والا سوراخ بھی اس بات کی تاکید کر رہا تھا ۔۔۔ لیکن میرے لیئے مسلہ یہ تھا کہ میں کسی بھی صورت ایسا نہ کر سکتی تھی اور جب میں نے اس سے یہ بات کی تو وہ کہنے لگا اچھا اگر تم کو میں اس گلی میں ہی ملنے کو کہوں تو۔۔!!!
تو میں نے اس کو کہا کہ اس گلی میں تو ہم روزانہ ہی ملتے ہیں تب اس نے اس باڑھ واے گھر کے بارے میں تفصیل کے ساتھ بتلایا ۔۔۔ اور ساتھ ہی اس کی نشاندہی بھی کی۔۔۔۔ تو میں نے اس کو بولا پہلے میں خود اس بارے میں جان لوں تب ہی کچھ فیصلہ کروں گی ۔۔۔۔ تو وہ بولا جان ۔۔ میں سچ کہہ رہا ہوں اور ویسابھی وہاں ہم نے بس ایک ٹائیٹ سی جھپی ہی تو لگانی ہے ۔۔۔۔ اور اگر ٹائم ہوا تو تھوڑی سی کسنگ کر لیں گے ۔۔۔۔۔ لیکن میں نے اسے بغیر تحقیق کے ملنے سے صاف انکار کر دیا اور بولی جب تک میں خود تسلی نہ کر لوں میں تمھارے ساتھ وہاں نہیں جاؤں گی ۔۔۔ تو وہ مان گیا ۔۔۔ اور بولا ۔۔ لیکن پلیز ۔۔۔اپنی تحقیق جلدی کرنا ۔۔۔ کہ اب مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا ۔۔۔اس کی بات سُن کر میں نے ہان میں سر ہلادیا ۔۔۔۔۔۔ اگلے دو تین دن میں نے بڑے طریقے سے اپنی کلاس فیلوز سے اس جگہ کے بارے میں معلومات لی تو جس طرح سمیر نے اس جگہ کے بارے میں بتلایا تھا وہ جگہ ویسی ہی نکلی ۔۔ اچھی طرح تحقیق کرنے کے بعد میں نے اس جگہ سمیر سے ملنا کا پروگرام بنا لیا۔۔۔۔ اگلے دن جب میں سکول سے نکلی تو گرمی بڑے زور کی پڑ رہی تھی ۔۔۔ اور ویسے بھی گرمیوں کی چھٹیاں ہونے میں ابھی ایک مہینہ باقی تھا ۔۔سمیر کو میں نے ایک دن پہلے ہی اس جگہ ملنے کا گرین سگنل دے دیا تھا۔۔۔۔چنانچہ اس دن پروگرام کے مطابق میں جلدی ہی سکول سے باہر آ گئی اور نسرین کا انتظار کرنے لگی اور ادھر ادھر دیکھا تو تھوڑا آگے مجھے سمیر نطر آ یا اور اس نے اشارے سے بتلایا کہ وہ اسی باڑھ والی جگہ درختوں کے پاس ہی ہو گا میں سیدھی وہاں آ جاؤں ۔میں نے اس کی طرف دیکھا اور سر ہلا دیا میرا اشارہ دیکھ کر وہ واپس مُڑا اور چلا گیا اور اسے جاتے دیکھ کر میرے سارے بدن میں ایک عجیب سی سنسنی پھیل گئی ۔۔۔ کیونکہ یہ میری پہلی ڈیٹ تھی اس لیئے میری ٹانگیں بھی کانپ رہیں تھیں اور دل بھی بہت کر رہا تھا کہ میں جا کر سمیر کے گلے لگ جاؤں اور اپنے بریسٹ اس کے سینے سے چپکا دوں ۔۔۔
نسرین سے الوداع ہو کر چلتے ہوئے میں اسی سنسان گلی میں پہنچی ۔۔ ۔جس کے کونے پر وہ باڑھ والا گھر تھا میں کن اکھویں سے ساری گلی کا جائزہ لیتے لیتے جب اس باڑھ والے گھر کے قریب پہنچی تو شدتِ جزبات سے میرا چہرہ سُرخ ہو رہا تھا اور میری دو رانوں کے بیچ ایک عجیب سی ہل چل مچی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔ گیٹ کے قریب پہنچ کر اچانک میرا سکول بیگ زمین پر گر گیا اور یہ میں نے جان بوجھ کر کیا تھا ۔۔چنانچہ میں بیگ اُٹھانے کے لیئے نیچے جھکی اور اسی بہانے میں نے ایک دفعہ پھر سارا گلی پر نظر پر ڈالی تو حسبِ سابق مجھے وہ گلی ویران نظر آئی ۔۔۔۔یہ دیکھ کر میں جلدی سے اُٹھی اور گیٹ جو کہ ہر وقت کھلا ہی رہتا تھا ۔کے اندر داخل ہو گئی سامنے ہی درختوں کے پاس سمیر کھڑا تھا اور مجھے اپنی طرف آنے کا اشارہ کر رہا تھا میں نے سر ہلا یا اور دبے پاؤں ان درختوں کے پاس پہنچ گئی۔۔۔اور پھر ہم دونوں جڑے ہوئے درختوں کے دوسری طرف ہو گئے اب پوزیشن یہ تھی کہ ایک طرف تین چار درخت اکھٹے کھڑے تھے اور ان درختوں کے سامنے گھنی باڑھ تھی ان درختوں اور باڑھ کے درمیان ایک تنگ سی جگہ تھی جہاں اس وقت میں اور سمیر کھڑے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے باڑھ اور درخواں کے ایک سائیڈ پر ایک پتلی سی گلی نما راستہ تھا اور اس راستے سے ہو کر ہم اس جگہ تک پہنچے تھے ۔اس طرح ہمارے تین ا طراف میں قدرتی طور پر ایک محفوظ سی جگہ بن گئی تھی ۔ چوتھی جگہ گو خالی تھی لیکن وہ اتنی تنگ تھی کہ اگر کوئی درختوں کی آڑ میں ہو جائے تو دور سے کچھ نظر نہ آتا تھا ۔۔۔ وہاں پہنچ کر میں نے ایک دفعہ پھر چاروں اطراف کا جائزہ لیا اور پھر مطمئن ہو گئی اور سمیر سے پوچھا کہ اس نے یہ جگہ کیسے ڈھونڈی ۔۔۔ ؟ میری بات سُن کر سمیر نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور محبت بھرے لہجے میں کہنے لگا ۔۔ محبت سب کرواتی ہے میری جان ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں پکڑ لیا اور اسے اپنے ہوٹوں تک لے گیا ۔۔۔۔ جیسے ہی اس کے ہونٹوں نے میرے ہاتھ کی پشت کو چھوا ۔۔۔۔میرے سارے بدن میں ایک جھرجھری سی پھیلی اور ۔۔۔میں نے اس کی طرف دیکھا تو وہ مجھے ہی دیکھ رہا تھا ۔۔۔ اسے اس طرح جگر پاش نظروں سے دیکھتے ہوئے دیکھ کر مجھے شرم آ گئی ۔۔۔ اور میں نے اپنا سر جھکا لیا ۔۔۔ میری اس ادا پر سمیر تو مر ہی گیا اور اس نے اپنا ایک ہاتھ میری ٹھوڑی کے نیچے رکھا اور پھر میرا منہ اوپر کر کے بولا۔۔۔۔ میری طرف دیکھو نا میری جان ۔۔۔ تو میں نے اس کو جواب دیا کہ ۔۔۔۔ مجھے شرم آ رہی ہے تب وہ آگے بڑھا اور اپنا منہ میرے گالوں کے قریب کر کے بولا ۔۔۔۔۔۔ہما جی اگر۔۔۔ اجازت ہو تو میں آپ کے شرم سے لال ہوتے ہوئے گال چوم لوں ۔۔۔ میں کچھ نہ بولی ۔۔۔تو اس نے اس بات کو میری رضامندی سمجھا اور آگے بڑھ کر اس نے میرے گالوں پر اپنے ہونٹ رکھے اور ان کو چوم لیا ۔۔۔۔۔اپنے گالوں پر اس کے ہونٹوں کا لمس پاتے ہی ۔۔۔ میں ۔۔۔ بے حال ہی گئی لیکن بولی کچھ نہیں ۔۔۔ اور خود کو اس کے حوالے کر دیا ۔ میرے گالوں کو چومتے چومتے ۔۔۔ اچانک ہی سمیر نے مجھے اپنے گلے سے لگا لیا اور پھر مجھے اپنے سینے کے ساتھ چپکا کر میرے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دیئے ۔۔جیسے ہی اس نے میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھے تو مجھے اس کے منہ سے سگریٹ کی بو کا ایک بھبکا سا آیا ۔۔اور میں نے گھبرا کر اس کو پیچھے کی طرف دھکیل دیا ۔ مجھے یوں پیچھے ہٹانے پر وہ حیران رہ گیا اور بولا ۔۔۔ کیا ہوا ہما جی ۔۔ ہونٹ چوسنے دیں نا ۔۔ تو میں نے اس سے کہا نہیں تم میرے ہونٹوں کی طرف مت آؤ تو وہ بولا کیوں کیا ہوا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ تو میں نے کہا اس لیئے کہ تمھارے منہ سے سگریٹ کی گندی بُو آ رہی ہے ۔۔۔ ۔۔ میری بات سُن کر وہ بڑا شرمدکہ ہوا اور بولا سوری ہما جی اور ۔۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ آپ کو سگریٹ کی بو پسند نہیں ہے ۔۔۔اس لیئے اب آپ کی ہونٹوں پر چما نہیں ہو گا لیکن باقی جگہوں پر تو آپ کو پیار کر سکتا ہوں نا؟ ۔۔ ۔۔اور اس کےساتھ ہی اس نے دوبارہ سے مجھے اپنے گلے سے لگا لیا ۔اور اپنا سارا بدن میرے بدن کے ساتھ جوڑ لیا ۔۔۔۔ سمیر کا بدن میرے بدن کے ساتھ جُڑتے ہی مجھے اپنی رانوں پر کوئی سخت سی چیز محسوس ہوئی ۔۔۔ اور ۔۔اور ۔۔۔۔ اس تصور کے ساتھ ہی کہ میرے رانوں سے سمیر کا لن ٹچ ہو رہا ہے مجھ پر ایک نشہ سا طاری ہو گیا ۔۔۔اور میں اپنی دونوں رانوں کے بیچ سمیر کا لن ۔۔۔ انجوائے کرنے لگی ۔۔ ادھر سمیر نے مجھے درخت کے ساتھ ٹیک لگا نے کو کہا اور پھر خود ہی اس نے نیچے سے میری دونوں ٹانگیں کھول دیں اور پھر شلوار کے اوپر سے ہی میری پھدی پر اپنا لن رگڑنے لگا ۔۔۔ اُف ف ف ف ف ف ۔۔ مجھے اتنا مزہ آیا کہ۔۔۔ اس کے لن کی پہلی ہی رگڑ سے ہی میری پھدی کا جوس نکلنا شروع ہو گیا ۔۔۔۔ لیکن چونکہ اس جگہ بہت خطرہ تھا۔۔اس لیئے میں کھل کر اسکے گھو ں کا لطُف بھی نہ ا ُٹھا سکتی تھی مجھے ہر دم یہی ڈر لگا رہا کہ کہ کہیں کوئی آ ۔۔۔نا جائے ۔۔ اس کے باوجود میں نے کچھ دیر تک سمیر کو گھسے مارنے دئیے اور وہ میری پھدی کے نرم لبوں پر اپنا سخت لن رگڑتا رہا اور پھر میں نے محسوس کیا کہ میری پھدی سے پانی کا ایک ریلہ نکل کر میری ٹانگوں سے نیچے بہہ رہا ہے ۔۔ میں چھوٹ گئی تھی ۔۔ چنانچہ جیسے ہی میں فارغ ہوئی ۔۔ میں نے سمیر کو ایک دم دھکا دیا اور اسے پیچھے دھکیل کر کے بولی ۔۔۔۔ آج کے لیئے بس اتنا ۔۔۔یہ سُن کر وہ میری منتیں کرنے لگا کہ ۔۔۔ ہما پلیز ۔۔۔ بس ایک دو گھسے اور مارنے دو ۔۔۔ ۔۔۔ لیکن میں نے اس کی ایک نہ سنی ۔۔۔ اور جانے لگی تو وہ کہنے لگا ۔۔۔ اچھا جاتے جاتے میرا ایک آخری کام تو کر دو ۔۔۔ تو میں نے اس سے پوچھا ۔۔۔وہ کیا۔۔۔؟ تو اس نے کہا کہ ۔۔۔بس ایک بار میرا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اسے تھوڑا سا ہلا دو۔۔ کہ میں آخری منزل پر ہوں ۔۔۔۔ اس کی بات سُن کر میں لال سُرخ ہو گئی ۔۔ کیونکہ دل تو میرا بھی یہی کر رہا تھا ۔۔ لیکن اوپر اوپر سے ناز نخرے کرنے لگی ۔۔۔آخر بصد منتوں اور ترلوں کے بعد میں نے ہاتھ آگے بڑھایا اور اس کے لن پر رکھ دیا ۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ اس کا لن بہت گرم تھا۔۔۔۔ اس وقت پتلے اور موٹے کا اتنا پتہ نہیں ہوتا تھا اس لیئے مجھ تو سمیر کا لن بہت بڑا لگا ۔۔۔ خیر میں نے بس ایک دفعہ ہی اس کا لن اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑا اور پھر چھو ڑ دیا۔جیسے ہی مین نے اس کا لن چھوڑا اس نے تیزی سے اپنے ہاتھ میں لن پکڑا اور اسے مسلنے لگا ۔۔۔میں نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا اور بولی۔۔۔۔ کہ پہلے میں جاؤں گی تم بعد میں آنا۔اس نے میری بات سُن کر مجھے جانے کا اشارہ کیا ۔۔اور اپنے لن کو آگے پیچھے کرنے لگا ۔۔میں نے اسے اس کے حال پر چھوڑا ۔اور ادھر ادھر دیکھتی ہوئے وہاں سے باہر نکل گئی۔۔
جاری ہے