تراس یا تشنگی
قسط 4
اس دن جب میں گھر پہنچی تو میری دونوں ٹانگوں کے بیچ والے سوراخ کا بہت برا حال تھا ۔۔۔ گھر جا کر میں سیدھی اپنے کمرے میں گئی اور اپنی شلوار اتار کر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی ہو گئی ۔۔۔ اور جب جب اپنی ننگی ٹانگوں پر نگاہ ڈالی تو دیکھا کہ میری چوت کا جوس رِس رِس کر میرے ٹانگوں سے بھی نیچے بہہ رہا تھا ۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے جلدی سے اپنی دو انگلیاں اپنی چوت کے جوس سے گیلی کیں اور پھر انہیں اپنے پھولے ہوئے دانےپر رکھ کر اسے رگڑنے لگی۔۔۔ اور ساتھ ساتھ یہ تصور بھی کرتی جا رہی تھی کہ یہ میری انگلیاں نہیں بلکہ سمیر کا سخت لن ہے جو میری چوت سے رگڑ کھا رہا ہے ۔۔۔ دانے پر مساج کرتے کرتے اچانک میرے سارے بدن نے جھٹکا کھایا اور میرے چوت سے ایسے پانی نکلنے لگا کہ جیسے چوت میں پانی کا نل لگا ہوا ہو۔۔۔ اس دن میں نے سمیر کے لن کا تصور کر کے کوئی چار پانچ دفعہ اپنی چوت کو رگڑا ۔۔اور فارغ بھی ہوئی ۔ لیکن میری شہوت تھی کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔۔۔
اگلے دن سکول سے واپسی پر حسبِ معمول سمیر مجھے ملا اور مجھے دوبارہ سے وہاں جانے کا بولا ۔۔۔ میں تو پہلے سے ہی تیار تھی اس لیئے تھوڑے سے ناز نخرے کے بعد میں نے اسے کہا کہ وہ پہلے وہاں پہنچے میں آتی ہوں ۔۔۔ چونکہ اب ہمارا تکلف کافی حد تک کم بلکہ ختم ہو چکا تھا اس لیئے جیسے ہی میں درختوں کے پاس پہنچی تو سمیر نے آگے بڑھ کر مجھے اپنے گلے سے لگا لیا اور میرے گالوں کو بے تحاشہ چومنے لگا پھر کچھ دیر بعد اس نے میرا کندھا پکڑ کر میری درخت کے تنے کے ساتھ ٹیک لگوائی اور مجھے اپنی دونوں ٹانگیں کھولنے کو کہا۔۔ اور اس کے بعد جیسے ہی اس نے اپنی شلوار اتارنے کے لیئے اپنے آزاز بند پر ہاتھ گیا تو میں نے اسے منع کر دیا تو وہ بولا پھر کیا کروں جان؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟۔۔۔ تو میں نے شرماتے ہوئے اس سے کہا کہ ایسے ہی کر لو ۔۔۔۔ میری بات سُن کر اس کے چہرے پر ایک دم شہوت سوار ہو گئی اور اس نے اپنی شلوار کے اوپر سے ہی اپنے لن کو پکڑا اور میری چوت کے لبوں پر رکھ کر گھسے مارنے لگا ۔۔۔ اس کے سخت لن کا سخت ٹوپا میری چوت کے نرم لبوں سے رگڑ کھانے لگا اور اس کے ساتھ ہی میں مزے کے ساتویں آسمان پر پہنچ گئی اور میری چوت سے تیزی کےس اتھ جس نکلنے لگا۔۔۔ اس کا مارا ہوا ہر گھسہ مجھے مزہ کی ایک انوکھی دنیا سے متعارف کروا رہا تھا۔۔۔ میں اس سے زیادہ مزہ لینا چاہتی تھی لیکن وقت کی کمی آڑے آرہی تھی اس لیئے جلد ہی میں نے اسے رکنے کو کہا اور بولی ۔۔۔بس ۔۔ کرو ۔۔ کوئی آ جائے گا ۔۔ تاہم میرے منع کرنے کے باوجود بھی اس نے دو تین گھسے مار ہی دیئے اور پھر وہ مجھ سے الگ ہوکر ہانپنے لگا ۔۔ اور بڑا جزباتی ہو کر بولا ۔۔۔۔ ہما ۔۔ میری جان میں تمھاری بغیر نہیں رہ سکتا اور میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔ اور اس کے بعد وہ مجھے پھر سے چومنے لگا۔۔۔ پھر میں نے خود کو بمشکل اس الگ کیا اور ہم واپس آ گئے ۔۔۔۔ اسی طرح اس ہفتے میں ہم نے اس باڑھ والے گھر میں دو تین اور ملا قاتیں کیں اور ہر ملاقات پہلے سے زیادہ گرم ہوتی تھی پھر ایک دن کا زکر ہے کہ حسبِ پروگرام سمیر پہلے ہی درختوں کے پاس موجود تھا اور جیسے ہی میں گیٹ عبور کر کے درختوں کے پاس پہنچی تو اچانک ایک زنانہ آواز نے مجھے للکارا اور بولی ۔۔ ٹھہر جاؤ حرام ذادی ۔گھر سے تم پڑھنے آتی ہو اور یہاں آ کر یار کے ساتھ رنگ رلیاں مناتی ہو ۔۔۔تم نے یہ کیا تماشہ بنا رکھا ہے ۔میں نے آواز کی سمت نگاہ کی تو دیکھا کہ درختوں کے عین سامنے ایک کھڑکی تھی جس کے آگے جالی لگی ہوئی تھی اور یہ آواز اسی جالی میں سے آ رہی تھی ۔۔حیرت کی بات یہ ہے کہ اس سے قبل میں نے اس جالی کو نہیں دیکھا تھا ۔۔ یا شاید ۔۔۔ شہوت نے ادھر دیکھنے ہی نہ دیا تھا ۔۔ادھر خاتون کے منہ سے گالیوں کا ایک سیلاب نکل رہا تھا اور ۔۔لمحہ بہ لمحہ خاتون کی آواز بلند ہو رہی تھی ۔ادھر ۔۔۔ جیسے ہی میں نے اس خاتون جو کہ یقیناً مالک مکان تھی کی آواز سنی میں تو میں ایک سکتے میں آ گئی اور میری حالت ایسی ہو گئی کہ جیسے کاٹو تو لہو نہیں ۔۔۔۔ میری یہ حالت دیکھ کر سمیر ایک دم آگے بڑھا اور اس نے نے مجھے کندھے سے پکڑا اور اسے زور سے ہلا کر بولا ۔۔۔ ہما ۔۔ بھاگو۔۔۔۔۔ سمیر کی آواز سُن کر میں ایک دم ہوش میں آ گئی اور میں نے وہاں سے دوڑ لگا دی ۔۔۔ اور گرتی پڑتی گھر پہنچ گئی۔۔۔۔ اور گھر پہنچ کر بھی بڑی خوفزدہی کہ کہیں اس بڑھیا نے مجھے پہچان نہ لیا ہو۔۔۔۔اور دل ہی دل میں خود کو کوستی رہی ۔۔کہ میرا پہلے اس کھڑکی کی طرف دھیان کیوں نہیں گیا تھا ۔۔۔۔اگلے دن جب میری سمیر سے ملاقات ہوئی تو ہم سارا راستہ اسی حادثہ کے بارے میں باتیں کرتے رہے ۔۔ اور دوسری بات یہ کہ میں نے اس گلی کا راستہ تبدیل کر لیا اور اب میں ایک اور گلی کی طرف سے گھر جانے لگی ۔۔۔ یہ گلی گھر سے تھوڑا دور تو پڑتی تھی لیکن ۔۔۔ میں اس بات پر خوف زدہ تھی کہ کسی دن وہ بڑھیا ۔۔۔اپنے گیٹ میں نہ کھڑی مل جائے ۔۔۔اسی طرح کچھ دن اور گز ر گئے۔اور گھر میں بھی خیریت رہی تو میرا ڈر کچھ کم ہو ا۔۔۔ ورنہ تو اندر اندر مجھے یہ خو ف کھائے جا رہا تھا کہ کہیں وہ بڑھیا ہمارے گھر نہ آ جائے لیکن جب ایسا کچھ نہ ہوا تو میرا ۔۔ ڈر کچھ کم ہوا۔۔سمیر سے حسبِ معمول ملاقاتاتوں کا سلسلہ جاری تھا ۔ ایک دن میرے ساتھ چلتے چلتے سمیر بولا ۔۔۔ ہما جی آج تو آپ بڑی ہی کیوٹ لگ رہی ہو اور خاص کر آپ کے یہ بریسٹ تو مجھ پر بڑا ظلم ڈھا رہے ہیں اس کی بات سُن کر میں نے کن اکھیوں سے اپنی چھاتیوں کی طرف دیکھا تو وہ ویسی کی ویسی ہی تھیں یہ دیکھ کر میں نے اس سے کہا کیوں جھوٹ بول رہے ہو یہاں تو سب نارمل ہے تو سمیر ایک دم سنجیدہ ہو گیا اور کہنے لگا ہما جی آپ کے ہاں نارمل ہو گا لیکن ۔۔پھر اس نے اپنے نیچے لن کی طرف اشارہ کیا اور بولا ۔۔۔پر یہاں کچھ بھی نارمل نہیں ہے ۔۔ اور میں نے جو نیچے دیکھا تو سمیر کا لن ہلکا سا تنا ہوا تھا ۔۔۔۔ جسے دیکھ کر میں بھی گر م ہو گئی اور بولی ۔کیا ہوا اس کو ۔۔؟؟؟۔۔ تو وہ کہنے لگا یہ تمھاری طلب کر رہا ہے ۔۔۔۔ سمیر کی بات سُن کر میں نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اوربولی ۔۔۔ کیا کروں سمیر دل تو میرا بھی بہت چاہ رہا ہے ۔۔ پر کیا ہو سکتا ہے ۔؟؟۔۔ میری بات سُن کر وہ کہنے لگا ہونے کو تو کچھ بھی ہو سکتا ہے میری جان ۔۔۔۔۔ بس تمھاری اجازت درکار ہے ۔۔۔۔ اس پر میں نے اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا اور کہا کہ ۔۔۔۔۔۔ میں تمھارا مطلب سمجھی نہیں۔؟؟ ۔ اس پر وہ بولا ۔۔۔ میرا ایک دوست ہے وہ اور اس کے سارے گھر والے مری کی سیر کو جا رہے ہیں ۔۔۔ اور گھر کی چاپی میرے حوالے کر گئے ہیں تا کہ پیچھے سے میں ان کے گھر کی دیکھ بھال کروں ۔اس لیئے کچھ دنوں کے لیئے میرے دوست کا گھر بلکل خالی ہو گا ۔۔اور اگر آپ کہو تو ہم وہاں مل سکتے ہیں ۔۔وہاں آپ کے اور میرے علاوہ کوئی نہ ہو گا ۔۔۔ ہم تم ہوں گے اور ۔۔ ۔۔۔پھر اس نے اپنی بات ادھوری چھوڑی اور پیار بھرے لہجے میں کہنے لگا ہما جی ۔۔۔ میں آپ کے ساتھ اپنے زندگی کے کچھ لمحے جینا چاہتا ہوں ۔۔۔ میں آپ کے کے گالوں کی سُرخی محسوس کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔اور ۔میرےبریسٹ کی طرف دیکھ کر بولا ۔۔ میں ان چٹانوں کی چوٹیوں کو سر کرنا چاہتا ہوں
۔سچی بات تو یہ ہے کہ میرا بھی دل کر رہا تھا کہ میں سمیر کی باہنوں میں جاؤں اور وہ میرے برسیٹ چوسے اور میرے گالوں کو چومے اور بدلے میں میں اس کا لن اپنے ہاتھوں میں پکڑوں اسے دباؤں اور ۔۔۔۔ اس سے کھیلوں ۔۔ لیکن اس پر میں اپنے ان جزبات کا اظہار نہ کرنا چاہتی تھی اس لیئے میں نے اس کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ دیکھو نا ابھی کچھ دن پہلے ہی تو ہم بال بال بچے ہیں اس لیئے میں مزید رسک نہیں لینا چاہتی اور اس کی ملنے والی بات سختی سے رد کر دی۔اس نے میری بات سُن کر ہاں میں سر تو ہلا دیا لیکن اس نے ہار نہیں مانی اور ۔۔اگلے دو تین دن وہ حسبِ معمول میری منتیں کرتا رہا ۔۔۔۔ اندر اندر سے دل میرا بھی بہت کر رہا تھا لیکن بوجہ میں اس پر ظاہر نہ کرنا چاہتی تھی ۔۔۔۔۔ خیر ایک دن اس نے حد ہی کر دی اور بولا ۔۔۔ ہما تم کس قدر کھٹور دل ہو میں تمھارے لیئے جیتا مرتا ہوں اور تم ہو کہ مجھے کوئی لفٹ ہی نہیں کرواتی ہو۔۔۔۔ اور پھر اس نے اپنی محبت کے بارے میں بڑی ہی جزباتی سی باتیں کیں ۔جنہیں سُن کر میں پگھل سی گئی ۔۔۔ اور اس کی باتیں سُن کر میرے ضبط کا بندھن بھی ٹوٹ گیا ۔۔۔اور میں نے اس سے تنہائی میں ملنے کا پروگرام بنا لی اور اس سے پوچھا کہ کیا گارنٹی ہے کہ تمھارے دوست کے گھرمیں اور کوئی نہ ہو گا ؟؟ مجھے نیم رضامند دیکھ کر اس کی تو باچھیں کھل گئیں اور وہ کہنے لگا ۔۔۔ میری جان جیسا کہ میں نے تم کو بتایا ہے کہ دوست کے سارے گھر والے سیر کے لیئے مری گئے ہوئے ہیں ۔۔۔ اور پھر وہ بڑے رومینٹک لہجے میں کہنے لگا کہ میری جان تمھارے لیئے سب سے بڑی گارنٹی تو میں خود ہوں۔۔۔۔ تمھار ا۔۔۔سمیر ۔۔۔ جانی ۔۔۔تمھارا ۔۔لور ۔۔اور تمھارا۔۔ عاشق۔جس کی جان تم میں اٹکی ہوئی ہے اور ۔جو تم پر جیتا مرتا ہے۔۔۔سمیر کی یہ بات میرے دل کو لگی اور ۔یوں میں اس کے ساتھ جانے کے لیئے رضا مند ہو گئی اور اس سے کہا پلیز کل اچھی طرح سے چیک کر کے آنا کہ وہاں آس پاس کسی قسم کا کوئی خطرہ تو نہیں ہو گا ۔۔نا ۔۔اتنے میں وہ گلی ختم ہو گئی اور ہم ایک دوسرے سے الگ الگ ہو گئے۔
اگلے دن اس نے مجھے آل اوکے کی رپورٹ دی اور پھر اس نے مجھے اپنی چکنی چپڑی باتوں سے اس بات کا بھی یقین دلا دیا کہ میرے وہاں جانے سے کوئی خطرہ نہ ہے اور نہ ہی کچھ ہو گا ۔بس ہم دونوں سکون سے تھوڑی سی دیر بیٹھ کر گپ شپ لگا سکیں گے ۔اور اپنے مستقبل کے بارے میں ڈسکس کریں گے کہ شادی کے بعد کیا کیا کرنا ہے ۔وغیرہ وغیرہ ۔۔میں نے سمیر کی یہ باتیں بڑے غور سے سنیں اور پھر اگلے دن میں نے اس کے ساتھ جانے کی حامی بھر لی۔۔۔ جسے سُن کر وہ بہت خوش ہوا ۔۔۔۔اور پھر ہم اگلے دن کا پروگرام طے کرنے لگے ۔۔۔ تھوڑی سی بحث و تمہید کے بعد یہ پروگرام بنا کہ میں کل سکول نہیں جاؤں گی ہاں ابا کے سامنے گیٹ کے اندر داخل ہوں گی اور پھر کوئی بہانہ بنا کر باہر آ جاؤں گی جہاں پر سمیر رکشہ لیکر پہلے سےتیار کھڑا ہو گا اور میں اس کے ساتھ رکشہ میں بیٹھ کر اس کے ساتھ چلی جاؤں گی اور چھٹی کے ٹائم واپس گھر آ جاؤں گی ۔یہ پروگرام طے کر کے وہ تو صبع آنے کا کہہ کر چلا گیا مجھے اس رات نیند نہیں آئی اگلے دن کا سوچ سوچ کر ایک عجیب سی شہوت میرے انگ انگ میں بھرنے لگی ۔۔ اور ۔۔۔ میری چوت سے خواہ مخوہ ہی پانی رسنے لگا تھا ۔۔چنانچہ اس رات میں نے کم از کم تین چار دفعہ اپنے دانے کو خوب مسلا تھا ۔۔۔ اس رات میں کافی دفعہ فارغ بھی ہوئی تھی ۔۔۔۔ لیکن مجھے کسی طور چین ہی نہ آ رہا تھا ۔۔۔ بار بار میری آنکھوں کے سامنے سمیر کا تنا ہوا لن آ جاتا تھا ۔۔۔ جسے سوچ کر میری چوت گیلی ہو جاتی تھی ۔اور نپل اکڑ جاتے تھے ۔۔ اور میرے جسم میں ایک ایسا بارود بھر جاتا تھا ۔۔۔ کہ میں بے قرار ہو کر پھر سے اپنے دانے کو مسلنا شروع ہو جاتی تھی یہاں تک کہ میری چوت کا جوس نکل جاتا ۔۔۔ اسی طرح کرتے کرتے ۔۔جانے رات کے کس پہر میری آنکھ لگ گئی تھی ۔لیکن اس رات خوابوں میں بھی مجھے ہر طرف سمیر کا لن ہی نظر آتا رہا ۔۔ اس طرح کسی نہ کسی طور رات گزر ہی گئی لیکن اگلے دن بہت صبع میری آنکھ کھل گئی اور مجھے پھر سے سمیر اور اس کا لن یاد آ گیا اور میں آیئنے کے سامنے کھڑی ہو گئی ۔۔ اور سمیر کو یاد کر کے اپنے ممے دبانے لگی۔۔۔ پھر میں نے اپنی شلوار بھی اتار دی اور ایک ٹانگ ڈریسنگ ٹیبل پر رکھی اور اپنی چوت کو بڑے غور سے دیکھنے لگی جس میں آج سمیر کا لن جانے والا تھا ۔۔۔یہ سوچ کر ایک دفعہ پھر مجھے ہوشیاری آ گئی اور میں نے اپنی چوت کے دونوں لب کھولے اور بڑے غور سے اپنی چوت کے اندر کا معائینہ کرنے لگی ۔میری چوت کا اوپری حصہ بہت گداز تھا ۔۔۔ اور اس پر سنہرے رنگ کے چھوٹے چھوٹے بال تھے ۔۔۔ سفید رنگ پر سنہرے بال بہت خوبصورت لگ رہے تھے ۔۔۔اوپری حصے کی طرح ۔میری چوت کے ہونٹ بھی بہت موٹے موٹے تھے جو اس وقت آپس میں ملے ہوئے تھے اور میں نے ان ہونٹوں کو کھول کر دیکھا تو ان ہونٹوں کے بیچ گلابی رنگ کے چوت کے ٹشو تھے جو اس وقت پانی سے نم تھے ۔اور پھر میں نے اپنی چوت کا سوراخ دیکھا جو بہت چھوٹا تھا اور پھر سمیر کے لن کے بارے میں سوچا جو کہ میری چوت کے سوراخ کی نسبت بہت بڑا تھا ۔۔۔اور سوچنے لگی کہ میری چوت کے اس چھوٹے سے سوراخ میں سمیر کا ہٹا کٹا لن کیس طرح داخل ہو گا ؟؟؟ ۔یہ سوچتے سوچتے مجھے ایک جھرجھری سی آ گئی اور پھر میں یہ بات سوچتی جاتی اور ساتھ ساتھ اپنے پھولے ہوئے دانے کو بھی مسلتے جاتی تھی ۔ ۔۔۔ یہاں تک کہ میری پھدی نے کوئی ساتویں آٹھویں دفعہ اپنے اندر کا سارا جوس چھوڑ دیا۔۔۔۔۔
جیسے ہی میں فارغ ہوئی تو اچانک میری نگاہ گھڑی کی طرف پڑگئی اور دیکھا تو میرے سکول جانے کا ٹائم قریب آ گیا تھا چنانچہ میں جلدی جلدی تیار ہوئی اور کھانے کی ٹیبل پر پہنچ گئی میں ناشتہ کر رہی تھی کہ اچانک اماں نے میری طرف دیکھ کر کہا ہما ۔۔ خیر تو ہے یہ تمھاری آنکھوں سے لگ رہا ہے کہ تم ساری رات سوئی نہیں ہو ۔۔ اماں کی بات سُن کر میں گھبرا گئی اور بولی ۔۔۔ نہیں اماں ایسی کوئی بات نہیں ۔۔۔ بات دراصل یہ ہے کہ آج اکھٹے ہی دو تین ٹیسٹ ہیں ۔۔۔اس لیئے ان کی تیاری میں رات دیر تک جاگنا پڑا ۔۔۔ تو میری بات سُن کر اماں کہنے لگی ۔۔۔ بیٹی پڑھو ضرور لیکن اس کےساتھ ساتھ اپنی صحت کا بھی خیال رکھا کرو ۔۔۔۔ اور پھر اسی طرح کی باتوں میں اچانک مجھے ایک آئیڈیا ایا اور میں نے ناشتہ کیا اور پھر واش روم کا بہانہ کر کے وہاں سے اُٹھی اور جا کر واش روم میں گھس گئی اور جان بوجھ کر وہاں پر کافی دیر لگا دی ۔۔۔اور پھر۔۔۔۔ میرے اندازے کے عین مطابق اماں نے دروازے پر دستک دی اور بولی بیٹا جلدی کرو تمھارے ابا دفتر سے لیٹ ہو رہے ہیں اماں کی بات سُن کر میں نے بس آئی کہا اور باہر نکل آئی۔۔۔ گیرج میں ابا گاڑی سٹارٹ کر کے میرے ہی انتظار میں کھڑے تھے ۔۔۔ جیسےہی میں سیٹ پر بیٹھی تو ابا نے گاڑی چلا دی اور بولے ۔۔۔ سوری بیٹا میں آفس سے کافی لیٹ ہو گیا ہوں اس لیئے میں آپ کو سکول کے گیٹ کے آگے نہیں اتار سکوں گا اس لیئے آج آپ کو سڑک کے پاس ہی اترنا پڑے گا ۔۔۔۔ ابا کی بات سُن کر میں اندر سے خوش ہو گئی کیونکہ یہی تو میں چاہتی تھی کہ ابا مجھے گیٹ کے پاس نہ اتاریں کہ اس طرح کوئی نہ کوئی کلاس فیلو مل جاتی تھی اور سکول سے نکلنا مشکل ہو جانا تھا ۔۔۔۔ جبکہ سڑک پر اتارنے سے مجھے اتنا زیادہ رسک نہیں لینا پڑتا تھا کیونکہ ہمارا سکول مین سٹرک سے تھوڑا آگے تھا ۔۔ چنانچہ ابا نے مجھے سڑک پر اتارا اور قبل اس کے کہ میں کھڑکی کے پاس کھڑی ہو کر ان کو ٹا ٹا کرتی ابا یہ جا وہ ۔۔۔۔
جاری ہے