Taraas ya tishnagi - Episode 26

تراس یا تشنگی 

قسط 26 



اور پھر اس نے میری ٹانگوں میں اپنی ٹانگیں پھنسالیں ۔لیکن اس سے پہلے اس نے کافی سارا تھوک لگا کر میری اور اپنی چوت کے دانے کو تھوک لگا کر تر کر لیا تھا ۔۔۔اس کے بعد اس نے ۔۔۔ اپنی پھدی کو میری پھدی پر رکھا ۔۔۔۔۔۔اور پھر اپنے پھولے ہوئے دانے کو میری پھدی کے پھولے ہوئے دانے پر رکھا ۔۔اور مجھ سے کہنے لگی۔۔۔۔ اب دیکھنا کتنا مزہ آئے گا۔۔۔ اور پھر وہ بڑی تیزی کے ساتھ اپنے دانے کو میرے دانے پر رگڑنے لگی ۔۔۔ اُف۔۔۔ عطیہ بھابھی اتنی تیزی سے اپنے دانے کو میرے دانے پر رگڑ رہی تھی ۔۔۔ کہ ہماری دونوں کی پھدیوں سے ایک بس چنگاریاں نہیں نکلیں ۔۔۔ باقی ۔۔اس نے کوئی کسر نہیں رہنے دی۔۔۔۔ بھابھی کی رگڑائی کے کچھ ہی دیر بعد میری تو حالت غیر ہو گئی اور میں بھی جوش میں آ کر نیچے سے اس کی رگڑائی کا بھر پور جواب دینے لگی۔۔۔۔اور پھر کچھ ہی دیر بعد ہم دنوں کی پھدیوں نے آگ جیسا پانی اگلنا شروع کر دیا۔۔۔۔ اور ۔۔ جیسے جیسے ہماری پھدیوں سے گرم پانی بہہ بہہ کر باہر کی طرف آنا شروع ہوا ۔۔۔ ویسے ویسے ہم دونوں اندر سے ٹھنڈی ہونا شروع وہ گئیں تھیں۔۔۔۔ اور پھر ہوتے ہوتے ۔۔۔ ہم دونوں ۔۔۔ بلکل ہی ٹھنڈی ہو گئیں۔۔۔۔اور اتنی زیادہ مشقت کی وجہ سے۔کم ازکم میں تو بہت زیادہ تھک گئی تھی خود بھابھی کی آنکھیں بھی نیند سے بوجھل ہو رہی تھیں۔۔ تبھی بھابھی نے مجھے ایک گرم سی کس دی اور بولی۔۔۔تھینک یو ہما۔۔۔اب میں جا کر سوؤں گی ۔۔اور پھر وہ کپڑے پہن کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔

 عطیہ بھابھی سے میرے تعلقات پہلے ہی بہت اچھے تھےاب اس خوبصورت حادثے کے بعد ہمارے تعلقات میں مزید گہرائی آگئی تھی ۔۔ اور ہم نند بھابھی سے زیادہ ۔۔۔ ایک دوست کی اچھی بلکہ بہت دوست بن گئیں تھیں ۔۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس حادثے کے بعد میں نے پھر کبھی عطیہ بھابھی اور بھائی کا سیکس شو نہیں دیکھا ۔۔ حالانکہ بھابھی نے بہت دفعہ کہا بھی لیکن پتہ نہیں کیوں خاص کر ان دونوں کا شو دیکھنے کو میرا دل نہیں کیا۔۔۔ جبکہ اس کے علاوہ کسی اور کا شو میں نے کبھی بھی مس نہیں کیا تھا ۔۔۔ اس طرح کافی ٹائم اور گزر گیا۔۔۔ اور اس دوران میری دوست نواز سے باقاعدہ منگنی ہو گئی تھی ۔۔ چونکہ منگنی کے موقعہ پر ایسی کوئی خاص بات نہ ہوئی تھی جو کہ آپ لوگوں کو سنانے کے لائق ہو اس لیئے میں اس قصے کو چھوڑتی ہوں ۔۔ ہاں یاد آیا منگنی کے کچھ دنوں بعد میں اور بھابھی گپیاں لگا رہی تھیں اور باتوں باتوں میں نے جب نواز کے بارے میں بھابھی سے سوال کیا تو وہ ایک دم سیریس ہو کر بولی ۔۔۔ ہما بے شک نواز تم سے بہت محبت کرتا ہے اور بے شک وہ میرا فرسٹ کزن بھی ہے لیکن میری ساری ہمدردی تمھارے ساتھ ہے۔۔۔اسی لیئے میں تم کو بھابھی ہونے کی حثیت سے نہیں بلکہ ایک دوست اور لور ہونے کی حثیت سے بتا رہی ہوں کہ اس کے باوجود نواز تم سے بہت محبت کرتا ہے ۔۔۔ لیکن سہاگ رات اگر تمہارا خون نہ نکلا تو ۔۔۔ بڑی مشکل ہو جائے گی ۔۔۔ تو میں آنکھ مار کر کہا بھابھی جی آپ کا نکلا تھا ۔۔ تو وہ کہنے لگی۔۔۔ نکلتا تو تب نا جب تمھارے بھائی کی وہ پہلی بار ہوتی ۔۔۔تو میں نے حیران ہو کر اس سے کا کیا مطلب بھابھی؟ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ میری گڑیا ۔۔ ہم لوگوں نے شادی سے پہلے ہی جسمانی تعلقات قائم کر لیئے تھے۔۔۔۔ پھر کہنے لگی ۔۔ لیکن اس کیس مںی تمھارے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہے پھر بولی میری بات یاد رکھناہما ۔۔کہ شادی سے پہلے ۔اگرتم زیادہ تنگ ہوئی یا کوئی لڑکا زیادہ اچھا دوست بن گیا یا اسے دیکھ کر تم پر سیکس بھوت سوار ہو گیا ۔۔۔ تو میری جان ۔۔ شادی سے پہلے کبھی بھی اس کو آگے سے نہیں کرنے دینا ۔۔تو میں نے شرارت سے کہا ۔۔۔ تو پھر بھابھی میں اس کو آگے سے نہ دوں تو کیا دوں۔۔۔ تو وہ اسی سیریس لہجے میں بولی ۔۔۔ یہ مزاق نہیں ہے ہما۔۔۔ ۔۔۔۔ عورت کے پردہء بکارت کے بارے میں یہ لوگ بڑے سخت واقعہ ہوئے ہیں ۔۔ پھر میری طرف دیکھ کر کہنے لگی ۔۔۔ تو اس لیئے میری گڑیا ۔۔۔ آگے کے علاوہ تمھارے پاس دو اور سوراخ بھی ہیں۔۔۔ تم وہاں سے سیکس کر سکتی ہو سمجھ تو میں گئی تھی لیکن میں نے ویسے ہی ان کو چھیڑنے کی غرض سے کہا۔۔۔۔ وہ کون کون سے دو سوراخ ہیں بھابھی جان !!! زرا وضاحت تو کر دیں ۔۔تو وہ کہنے لگی۔بنو مت ۔۔۔اب تم اتنی بھولی بھی نہیں ہو جتنی شکل سے نظر آتی ہے ۔۔۔ ۔اس کے ساتھ ہی وہ ہنس پڑی اور کہنے لگی۔۔۔ہر چند کہ ہما ڈارلنگ تمہیں سب معلوم ہے لیکن پھر بھی میں تمھاری اطلاع کے لیئے بتائے دیتی ہوں کہ ان دو میں سے ایک سوراخ تمھاری شاندار گانڈ کے بیچ میں واقعہ ہے جہاں سے تم اور کام کرنے کے علاوہ کوئی سا بھی لن لے سکتی ہو اور دوسرا سوراخ تمھارے ہونٹوں کے بیچ میں ہے جہاں پر تم کھانے پینے کے علاوہ ۔۔۔ کسی کا لن بھی یا پھدی چوس سکتی ہو ۔۔۔ اور یہ دونوں سوارخ وہ ہیں کہ جن سے تم مزہ لے بھی سکتی ہو بلکہ اگلے کو مزہ دے بھی سکتی ہو۔۔۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ اس ٹاپک پر وہ کچھ اور روشنی ڈالتیں اماں ہمارے پاس آ کر بیٹھ گئیں اور کہنے لگیں۔۔۔ نند بھابھی کے بیچ کیا باتیں ہو رہیں ہیں ؟ اماں کو دیکھ کر بھابھی زرا نہ گھبرائی اور کہنے لگی کچھ خاص نہیں بس ویسے ہی فیشن کی باتیں کر رہیں تھیں کہ کس قدر جلد فیشن بدل جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ بھابھی کی بات سن کر اماں ہمارے ساتھ بیٹھتے ہو ئے کہنے لگیں۔۔ بات تو تم ٹھیک کہتی ہو ۔۔۔ عطیہ بیٹی۔۔۔اور ۔۔۔ پھر اس کے بعد اماں اور بھابھی فیشن کے ٹاپک پر گفتگو کرنے لیں۔۔۔ اس طرح کچھ مزید وقت گزر گیا ۔۔ یہ میرے فائینل ائیر کی بات ہے کہ اس دن میں نے کالج سے چھٹی کی تھی۔۔۔اور ۔گھر والوں کو بتا دیا تھا کہ صبع میرے کالج میں چھٹی ہے اس لیئے مجھے کوئی نہ اُٹھائے اور پھر رات کو ایسی ڈٹ کر سوئی کہ اگلے دن بارہ بجے میری آنکھ کھل گئی ۔۔۔۔۔۔۔ دن کے بارہ بج رہے تھے ۔۔۔ بستر سے اٹھ کر میں نے ایک انگڑائی لی اور واش روم چلی گئی واپسی پر مجھے سخت بھوک لگ رہی تھی۔۔۔ چنانچہ اپنے کمرے سے میں سیدھا کچن میں چلی گئی اور ابھی میں کچن سے کچھ دور ہی تھی کہ میرے نتھنوں میں اشتہا انگیز کھانوں کی خوشبو آنے لگی ۔۔۔ اور پھر جیسے ہی میں کچن میں داخل ہوئی تو میں نے دیکھا کہ مختلف چولہوں پر تین چار قسم کی ہانڈیاں چڑھی ہوئیں تھیں۔۔۔ ان چولہوں کے پاس بھابھی کھڑی تھی ۔۔۔ بھابھی کو دیکھ کر میں نے ان سے کہا واہ۔۔۔ یہ اتنے ڈھیر سارے کھانے کس خوشی میں بن رہے ہیں ؟ کیا ہمارے گھر کسی کی دعوت ہے؟ تو بھابھی کہنے لگی ارے نہیں یار ۔۔۔ دعوت شاوت کوئی نہیں ۔۔ ہاں بات یہ ہے کہ بہاولپور سے عادل خان آرہا ہے ۔۔۔ تو میں نے بھابھی سے کہا کہ یہ تو اچھی بات ہے یہ بتاؤ مہاراج کس ٹائم پدھاریں گے۔۔۔ تو بھابھی کہنے لگی۔۔۔ چار پانچ بجے تک پہنچ جائے گا پھر کہنے لگی۔۔۔ عادل کو دفتر واپسی پر فائق لیتا آئے گا۔۔۔ ۔۔۔ پھر خود ہی کہنے لگی ۔۔۔ اصل میں عادل خان میٹرک کے پیپر دے کر آج کل فری تھا اور گھر میں پڑے پڑے بور ہو رہا تھا اس ۔۔۔ ٹائم پاس کرنے اور لاہور دیکھنے کی غرض سے ابو نے اسے لاہور میرے پاس بھیج دیا ہے ۔۔ بھابھی کی بات سُن کر میں نے اس سے کہا ۔۔ کہ ضرور دکھاؤ جی لاہور ۔۔۔ کیونکہ سیانے کہتے ہیں کہ۔۔۔ جینے لاہور نہیں ویکھیا ۔۔۔۔ اور جمیا ہی نئیں ۔( جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا ) ۔۔ اور پھر اپنا ناشتہ لیکر ڈائینگ ٹیبل پر آ گئی۔۔۔ شام پانچ کی بجائے چھ بجے فائق بھائی ایک دبلے پتلے سےلڑکے کو لیئے گھر میں داخل ہوئے۔یہ عادل خان تھا عطیہ بھابھی کا چھوٹا بھائی۔۔عادل خان کو دیکھ کر ہم لوگ تو حیران ہی رہ گئے تھے کیونکہ آخری مرتبہ جب اس کو دیکھا گیا تھا تو وہ ایک بہت چھوٹا سا بچہ تھا ۔اور اس وقت اس کا قد بھی اتنا زیادہ نہ نکلا تھا لیکن اب یہ کہ نہ صرف اس نے قد بھی نکال لیا تھا بلکہ اب تو۔ اس کی مسیں بھیگ گئیں تھیں اور اس کے سانولے رنگ میں کافی کشش آ گئی تھی۔۔۔ فائق اور عادل کے گھر داخل ہو کر ملنے کے بعد بھابھی عادل سے پوچھنے لگی کہ لیٹ کیوں ہو گئے تھے تو عادل کی بجائے فائق بھائی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ مت پوچھ یار ۔۔۔ بس پورے دو گھنٹے لیٹ آئی تھی میں تو انتظار کر کر کے پھاوا ہو گیا تھا اس پر بھابھی نے تشویش سے عادل کی طرف دیکھا اور کہنے لگی ۔۔ خیریت ۔۔۔ بس کیوں لیٹ ہوئی تھی؟ تو عادل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ باجی بس راستے میں خراب ہو گئی تھی جس کی وجہ سے وہ لوگ لیٹ ہو گئے تھے۔۔۔ اور یوں عادل ہمارے گھر رہنا شروع ہو گیا ۔۔۔ عادل ایک سانولے رنگ کا پر کشش سا لڑکا تھا اور اس میں خاص بات یہ ہے کہ اس کی آنکھوں میں قرار نہیں تھا اور پہلے دن سے میں نے اس کی آنکھوں میں ۔۔۔ ایک خاص قسم کی جنسی بھوک کو محسوس کر لیا تھا ۔ جب بھی موقعہ ملتا وہ خاص کر میری چھاتیوں پر اپنی نظریں گاڑ دیتا تھا اور میرے دیکھنے پر وہ اپنی نگاہیں ادھر ادھر کر لیتا تھا میں بظاہر تو اس بات سے لاعلم تھی ۔۔ تھی لیکن اس کا یوں اپنی چھاتیوں کو گھورنے سے میں اندر ہی اندر دیکھنے سے لطف اندوز ہوتی تھی۔۔پھر ایک دن کی بات ہے کہ اس دن کوئی سرکاری چھٹی تھی اس لیئے حسبِ معمول میں دن چڑھے تک سوتی رہی اور جب آنکھ کھلی تو واش روم جانے سے پہلے ایک نظر برآمدے کی طرف دیکھا تو ۔۔دیکھا کہ عظمیٰ باجی آئی ہوئی تھی ۔۔ اور میں سارے کام بھول کر کھڑکی سے لگ کر کھڑی ہو گئی کیونکہ بظاہر تو یہ دونوں خواتین (اماں اور عظمیٰ) بڑی ہی رکھ رکھاؤ اور ادب و آداب والی تھیں ۔۔لیکن میں یہ بات اچھی طرح سے جانتی تھی کہ تنہائی میں یہ دونوں ۔۔ بلکل بازاری اور رنڈی عورتوں کی گفتگو کرتی تھی۔۔۔ اور ان کی آپس میں ہونے والی یہ بے شرمی کی باتیں مجھے بہت اچھی لگتی تھیں ۔۔ اسی لیئے جب بھی عظمیٰ باجی ہمارے گھر آتی تو میں کوشش کرتی تھی کہ چھپ کر ان دونو ں کی باتیں سنوں ۔۔ ۔ اس وقت بھی میں کھڑی سے لگی ان دونوں کی باتیں سننے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔۔ لیکن اس وقت وہ دونوں سامنے والی شیخ صاحب کی بیگم کی برائیاں کر رہی تھیں ۔۔

اماں اور عظمیٰ باجی سے تھوڑے فاصلے پر عادل خان اور بھابھی بیٹھے ہوئے تھے ۔۔۔ بھابھی چاپائی پر بیٹھی کوئی سبزی چھیل رہی تھی جبکہ عادل ان کے سامنے کرسی پر بیٹھا چائے پی رہا تھا ۔ پھر شاید بھابھی نے عادل کو کسی کام کا بولا تو وہ کرسی سے اُٹھ کر اندر کچن کی طرف چلا گیا اور واپسی پر ایک بڑی سی پرات لے آیا ۔۔ اور بھابھی کے پاس رکھ دی۔۔۔۔۔ عادل کو کچن سے واپسی پر دیکھ کر عظمیٰ باجی نے اماں کو اپنی طرف متوجہ کیا اور عادل کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگی۔۔۔۔ یہ چکنا کون ہے؟ تو اماں بولی ۔۔۔ ہولی بول مرنیئے۔۔۔(آہستہ بولو) پھر سرگوشی میں کہنے لگی۔۔۔۔ یہ عطیہ کا بھائی ہے اور میٹرک کا امتحان دیکر ہمارے ہاں کچھ دن رہنے آیا ہے۔۔۔۔ میں نے دیکھا کہ اسی دوران بھابھی سبزی وغیرہ چھیل کر کچن کی طرف چلی گئی تھی جبکہ عادل خان ابھی تک کرسی پر بیٹھا ۔۔۔ چائے پی رہا تھا ۔۔۔۔اسی لمحے ۔۔ میں نے عظمیٰ باجی کی طرف دیکھا جو عادل خان کی طرف یوں دیکھ رہی تھی کہ جیسے چھوٹا بچہ بیکری میں جا کر پیسٹری کو دیکھتا ہے۔۔۔ وہ کچھ دیرتک عادل کو گھورتی رہی ۔۔پھر اس کے بعد وہ اماں سے مخاطب ہو کر بڑے ہی ذُو معنی الفاظ میں کہنے لگی۔۔۔۔۔ دیکھنے میں تو عطیہ کا بھائی ایک دم چکنا ہے۔۔۔۔ باقی کی کیا رپورٹ ہے ؟ ۔۔۔ عظمیٰ کی بات سُن کر اماں نے بھی عادل خان کی طرف دیکھا اور پھر بولی ۔۔۔ ہوں ۔۔چکنا تو واقعہ ہی بڑا ہے ۔۔۔ پھر۔عظمیٰ کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔اصل میں اسے آئے ہوئے ابھی چند دن ہی ہوئے ہیں ۔۔ ۔۔۔اس لیئے۔۔۔ پھر انہوں نے عظمیٰ کی طرف بڑے غور سے دیکھا اور سر ہلا کر کہنے لگیں ۔۔اچھا اچھا ۔۔۔ ابھی پتہ چل جاتا ہے اور سرگوشی میں بولیں ۔۔اپنی چھاتی کو نمایاں کرو۔۔۔ اماں کی بات سُن کر عظمیٰ نے جلدی سے اپنی قمیض کا ایک اور بٹن کھول دیا ۔۔ عظمیٰ باجی کا گلا ویسے بھی بہت کھلا ہوتا تھا۔۔۔ لیکن اب جو انہوں نے اپنا ایک بٹن مزید کھولا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو ۔۔۔ ان کی چھاتیوں کی طرف جاتی ہوئی لیکر کچھ اور گہرائی تک دکھائی دینے لگی اس کے بعد انہوں نے اپنی قمیض کو تھوڑا اور سیٹ کیا تو اس سے عظمیٰ باجی کی چھاتیاں اس حد تک نمایاں ہو گئیں کہ اب بس ۔۔۔ ان کی چھاتیوں کے نپلز ہی ڈھکے رہ گئے تھے۔۔۔ اپنی چھاتیوں کو آخری حد تک نمایاں کرنے کے بعد انہوں نے اماں کی طرف دیکھا ۔۔۔اور بولیں یہ ٹھیک ہے تو اماں ۔۔ عظمیٰ باجی کی چھاتیوں کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔ تمہاری چھاتیوں کو دیکھ کر کہیں بچہ بے ہوش ہی نہ ہو جائے اور پھر کہنے لگی تیار ہو جاؤ میں اسے بلانے لگی ہوں اور پھر انہوں نے وہیں سے آواز لگاتے ہوئے کہا ۔۔۔ کہ عادل بیٹا ۔۔۔ زرا بھاگ کر فریج سے ایک گلاس پانی تو لانا۔۔۔۔ اماں کی بات سُن کر عادل خان نے اپنی چائے کی پیالی وہیں رکھی اور اُٹھ کر اندر چلا گیا ۔۔۔۔اور تھوڑی ہی دیر بعد واپس آیا ۔۔۔ تو اس کے ہاتھ میں پانی کا گلاس تھا ۔۔جو اس نے آ کر اماں کو پکڑانے لگا تو وہ بولیں ۔۔ارے مجھے نہیں بیٹا اپنی آنٹی کو دو۔۔۔ اور عادل نے عظمیٰ باجی کی طرف پانی کا گلاس بڑھا دیا۔۔۔۔۔ عظمیٰ باجی نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پانی کا گلاس پکڑنے سے پہلے ۔۔ اماں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔ نیلو باجی آج واقعہ ہی گرمی ہے یا ۔۔۔۔ مجھے لگ ایسا لگ رہا ہے ؟ اور اس کے ساتھ ہی اس ے بڑے طریقے سے اپنا دوپٹہ کو اپنی چھاتیوں سے ہٹا دیا۔۔۔۔ ادھر اماں نے ایک نظر کچن کی طرف دیکھا ۔۔ اور بولیں ۔۔۔ ہاں عظمیٰ آج واقعہ ہی بڑی گرمی ہے ۔۔۔۔۔ ادھر عادل نے جیسے ہی گلاس پکڑانے کے لیئے عظمیٰ باجی کی طرف دیکھا ۔۔۔تو اس کی نظر ۔۔عظمیٰ باجی کی چھاتیوں پر پڑ گئی ۔۔۔جو اس وقت صاف چھپتی بھی نہیں اور سامنے آتی بھی نہیں والے محاورے کے عین مطابق ہو چکی تھی ۔۔۔اتنی شفاف اور زبردست چھاتیں دیکھ کر عادل خان عظمیٰ باجی کو پانی کا گلاس پکڑانا بھول گیا۔۔۔ اور عظمیٰ باجی کی ادھ ننگی چھاتیوں کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔۔ اتنے میں عظمیٰ باجی نے اس کے ہاتھ سے پانی کا گلاس پکڑا اور غٹا غٹ پی کر واپس گلاس کو اس کے ہاتھ میں پکڑا دیا ۔۔اور بولیں شکریہ بھائی۔۔۔ عادل خان عظمیٰ کی چھاتیوں کی طرف دیکھتے ہوئے جیسے ہی واپسی کے لیئے مُڑا تو اماں کہنے لگی بیٹا اگر برا نہ مانو تو ایک گلاس میرے لیئے بھی لے آؤ گے؟ اماں کی فرمائیش سنتے ہی عادل تیزی سے واپس مُڑا اور کچن کی طرف چلا گیا۔۔۔اس کے جاتے ہی عظمیٰ کہنے لگی۔۔۔۔ ہاں نیلو باجی آپ کا تجربہ کیا کہتا ہے ۔۔۔ تو اماں نے اس کی طرف دیکھ کر کہا کہ تم نے اس کی آنکھوں کی طرف نہیں دیکھا۔۔۔ جو مجھ سے یہ بات پوچھ رہی ہو؟ تو عظمیٰ باجی اپنی بائیں آنکھ میچ کر کہنے لگیں۔۔۔ نہیں یار میرا سارا دھیان اس کی نیکر کے بیچ میں تھا ۔۔۔۔۔ اور ہنس پڑیں ۔اور کہنے لگیں اسی لیئے تو میں نے تم سے یہ بات پوچھی ہے ۔۔ تو اماں کہنے لگیں ۔۔۔ ارے بابا گھوڑا گھاس۔۔۔ اور لوڑا ۔۔۔چوت نہیں کھائے گا تو کیا کرے گا ؟ ۔۔۔ پھر بولیں ۔مجھے تو ۔ یہ لڑکا ۔۔۔ بڑا ہی سیکسی لگتا ہے تو عظمیٰ باجی اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہنے لگی تو پھر کیا خیال ہے تمھارا ؟ تو اماں بولیں ۔۔ وہی خیال ہے جو ایک سیکسی عورت کا ایک سیکسی مرد کے بارے ۔۔۔۔ یا پیاسی چوت کا ۔۔۔ لن کے بارے میں ہوتا ہے اتنے میں عادل پانی لیکر کر آتا ہوا دھائی دیا۔۔۔ تو اسے دیکھ کر اماں عظمیٰ باجی سے مخاطب ہو کر بولی۔ ۔۔تم دوپٹہ واپس لے لو۔۔کہ۔ اب چھاتیاں دکھانے کی میری باری ہے۔۔۔ اور اماں کی بات سُن کر عظمیٰ باجی نے جلدی سے اپنی چھاتیوں کو ڈھانپ دیا۔۔۔ اتنے میں عادل خان اماں کے قریب پہنچ چکا تھا۔۔۔۔ اس نے اماں کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے چوری چوری عظمیٰ باجی کی چھاتیوں کی طرف نگاہ ڈالی تو۔۔۔۔۔۔ اسے وہاں اپنے مطلب کی چیز نظر نہ آئی ۔۔۔ اور وہ تھوڑا مایوس سا ہو گیا ۔۔ یہ دیکھ اماں کہنے لگیں۔۔۔۔ عادل بیٹا ۔۔۔ پوچھنا یاد نہیں رہا ۔۔۔تمھارے پیپر کیسے ہوئے تھے؟ تو عادل اماں کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا ۔۔۔ بہت اچھے خالہ ۔۔۔ اور اسی دوران اس کی نظریں اماں کی بھاری چھاتیوں پر پڑ گئیں۔۔۔ عظمیٰ کےمقابلے میں اماں کی چھاتیوں نہ صرف یہ کہ بہت بھاری تھیں ۔۔۔۔ بلکہ۔۔۔۔ان کی اُٹھان بھی بڑی زبردست تھی۔۔۔ اس لیئے اماں کی چھاتیوں کو دیکھ کر ایک لمحے کے لیئے تو عادل خان ۔۔۔ حیران ہی رہ گیا ۔۔۔اور اماں کی چھاتیوں کو دیکھتے ہوئے۔۔۔ اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگا۔۔۔۔ اتنی دیر میں اماں نے اس کے ہاتھ سے پانی کا گلاس لیا اور گھونٹ گھنونٹ پینے لگیں اور عادل کو مخاطب کر کے بولیں ۔۔۔ آپ ان کو جانتے ہو؟ تو عادل نے چوری سے اماں کی چھاتیوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ ۔۔ نہ نہیں ۔۔۔خالہ۔۔۔ تو اماں کہنے لگیں ۔۔۔ ان کا نام عظمیٰ ہے اور یہ ہماری ہمسائی ہیں اور پھر انہوں نے پانی پیتے پیتے ۔۔اچانک گلاس عادل کی طرف بڑھایا ۔۔اور کہنے لگیں ۔۔ ۔۔۔ایک منٹ کے لیئے اسے پکڑو پلیزز۔۔ ۔۔۔اور ایسے ظاہر کیا کہ جیسے ان کو کہیں شدید خارش ہو رہی ہے ۔۔۔یہ دیکھ کر عظمیٰ باجی نے حیرانگی کی ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ کیا ہوا باجی ؟ تو اماں اپنی چھاتیوں کے اندر ہاتھ لے جاتے ہوئے کہنے لگیں۔۔۔ ۔۔۔۔پتہ نہیں صبع سے مجھے یہاں بہت زیادہ خراش ہو رہی ہے ۔۔اماں کی بات سن کر عظمیٰ نے تشویش بھرے لہجے میں کہا ۔۔۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ نیلو باجی آپ کے یہاں کسی کیڑے نے کاٹا ہے ۔۔۔ تو اماں نے خارش کے بہانے اپنے ایک نپل کی ہلکی سے جھلک کراتے ہوئے بظاہر عظمیٰ سے کہنے لگیں ۔۔۔ دیکھ نا یار ۔۔۔ میری جلد کس قدر سرخ ہو رہی ہے۔۔۔اور اپنا آدھا نپل بظاہر عظمیٰ لیکن عادل کو دکھایا ۔۔۔ اور پھر انہوں نے اچانک ایسے ری ایکٹ کیا کہ جیسے انہیں یاد ہی نہیں رہا تھا کہ عادل بھی وہاں کھڑا ہے ۔۔۔اور جلدی سے اپنی چھاتیوں کو دوپٹے سے ڈھک کر بولی سوری بیٹا ۔۔۔اور اس کے ہاتھ سے پانی کا گلاس لیکر ایک سانس میں ختم کر لیا۔۔۔۔۔ اور اسے دیکر بولیں ۔۔۔۔ جیتے رہو ۔۔۔ بہت شکریہ۔۔۔۔




جاری ہے

*

Post a Comment (0)