تراس یا تشنگی
قسط 7
اگلے دو تین دن تک وہ مسلسل مجھے اپنی بے گناہی کا یقین دلاتا رہا ۔۔۔۔ لیکن میں ٹس سے مس نہ ہوئی تو پھر اچانک ہی ایک دن اس کی ٹون تبدیل ہو گئی اور وہ مجھے دھمکی دیتے ہوئے بولا کہ اس دن جس لڑکے کے ٹٹوں پر تم نے مارا تھا وہ تین دن ہسپتال میں داخل رہا ہے اور اب ٹھیک ہو کر اور مجھ سے تمھارا پتہ مانگ رہا تھا ۔۔ پھر مکاری سے کہنے لگا۔۔۔۔ تم کو معلوم ہے نہ کہ وہ کس قدر خطرناک لڑکا ہے اگر میں نے اس کو تمھارا پتہ دے دیا تو وہ تم کو اُٹھا کر لے جائے گا ۔۔۔ اور پھر جو حشر وہ تمھاے ساتھ کرے گا اس سے تم بخوبی واقف ہو۔۔۔۔۔ اس لیئے تمھارے لیئے بہتری اسی میں ہے کہ تم میرے ساتھ دوبارہ سے دوستی کر لو۔۔۔ ورنہ۔۔۔۔۔ ۔۔۔
اور پھر وہ اپنی بات ادھوری چھوڑ کر چلا گیا ۔۔۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس کی دھمکی سے میں کافی حد تک خوف ذدہ ہو گئی تھی ۔۔۔۔ لیکن اس کی بلیک ملنگ نے مجھے مزید مشتعل کر دیا تھا ۔۔۔ویسے بھی چونکہ پانی سر سے بڑھ گیا تھا اس لیئے میں نے سمیر کا بندوبست کرنے کا فیصلہ کر لیا۔۔۔
دوستو۔۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ میں چار بھائیوں کی اکلوتی بہن ہوں ۔۔۔سب سے بڑے فیض بھائی ہیں لیکن میرے سب سے چھوٹے بھائی جن کا نام حمید ہے ان کے ساتھ میری بڑی بنتی ہے اور حمید بھائی کوئی کام نہیں کرتے بلکہ تھوڑی بہت پہلوانی کا شوق تھا۔۔۔ گھر میں ابا کےبعد میرا سب سے پکا ووٹ حمید بھائی ہی تھے میں کیا سارا محلہ انہیں بھا میدا ۔۔ کہتا تھا ۔۔سمیر کی دھمکی نے مجھے کافی کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا تھا ۔۔ اس لیئے گھر آ کر بھی میں کافی دیر تک اسی کے بارے میں سوچتی رہی اور پھر میرے زہن میں بھا میدا ۔۔۔ آ گیا ۔۔۔ اور میں اس کی طرف چل پڑی ۔۔ بھا میدے کا کمرہ گھر کے پیچھے کی طرف تھا ۔۔ جہاں پر ایک کمرہ تھا ۔۔۔جسے بھا میدا ۔۔۔۔ اپنا ڈیرہ کہتا تھا ۔۔۔۔
جب میں اس کے کمرے کے قریب پہنچی تو اس وقت وہ کمرے کے باہر ایک بڑے سے ڈول میں چمچ ڈالے کچھ ہلا رہا تھا ۔۔۔ مجھے دیکھتے ہی اس نے نعرہ لگایا اور خالص لاہوری اور پہلوانی لہجے میں بولا ۔۔ وہ آئی میری پتڑ۔۔۔ پھر کہنے لگا ۔۔۔آجا ۔۔پتڑ۔۔۔میں نے بڑے مزے کی سردائی بنائی ہے تُو بھی پی لے۔۔۔ لیکن میں نے ان کی بات کا کوئی جواب نہ دیا اور ان کے سامنے دھرے مُوڑھے پر بیٹھ گئی۔۔وہ کچھ دیر تک تو مجھے دیکھتے رہے ۔۔۔ پھر انہوں نے ڈول میں چمچ ہلانا بند کیا اور اُٹھ کر میرے پاس کھڑے ہو گئے اور ۔۔ میرے سر پر ہا تھ پھیر کر بولے۔۔ کیا بات ہے میرا پتڑ ۔۔۔ بڑ ی پریشان لگ رہی ہو۔۔۔۔ان کے پیار سے پتہ نہیں کیوں میں بلک پڑی اور سسکیاں لے لے کر رونےلگی۔۔۔مجھے روتا دیکھ کر بھا ایک دم گھبرا گیا اور کہنےلگا۔۔۔ بات تو بتا کیا ہوا۔۔۔۔ تب میں نے۔۔۔ ان سے کہا ۔۔ بھا جی ایک لڑکا ہے جو روز مجھے سکول سے آتے ہوئے تنگ کرتا ہے۔۔۔ اور آج اس نے مجھ سے کہا کہ میں اس سے بات نہیں کروں گی تو وہ مجھے اُٹھا کر لے جائے گا ۔۔۔ میری بات سُن کر بھا میدا ۔۔۔ حیرت سے بولا ۔۔۔۔ یہ کیا کہہ رہی ہو پتڑ ۔۔۔ ایسا کون ہے جو میدے پہلون کی بہن کو اُٹھانے کی بات کر رہا ہے ؟؟؟ ۔۔۔ اسے معلوم نہیں کہ تم کس کی بہن ہو ۔۔تو میں نے کہا ۔۔۔ کہ پتہ نہیں ۔۔۔ اسے معلو م ہے کہ نہیں ۔۔۔ لیکن اس نے میری زندگی عذاب کی ہوئی ہے ۔اور میرا سکول سے آنا حرام کیا ہوا ہے ۔۔میری بات سُن کر بھا نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہنے لگا۔۔۔۔ کما ل ہے یہ بات تم نے پہلے کیوں نہیں بتائی۔۔ تو میں نے کہا ۔۔۔ کہ آپ کو فیض بھائی کا پتہ ہی ہے ۔۔۔ وہ پہلے ہی میرے پڑھنے کے سخت خلاف ہے ۔۔اس لیئے ۔۔۔ تو میری بات سمجھ کر وہ کہنے لگا۔۔۔ اوہو ۔۔ جھلیئے ۔۔۔ تم نے فیض کو نہیں مجھے بتانا تھا نا ۔۔۔ پھر بولا ۔۔۔ خیر ۔۔ کوئی بات نہیں ۔۔ میرا پتڑ تم بے فکر ہو کر سکول جاؤ ۔۔ کل کے بعد کوئی لڑکا تو کیا ۔۔ پرندہ بھی تمھاری طرف نہیں دیکھے گا ۔۔۔ پھر اس نے مجھ سے سکول سے واپسی کا ٹائم اور راستہ پوچھا ۔۔۔ میں نے اسے سب بتایا اور جانے لگی تو پھرایک بار پھر میں نے اس سے کہا ۔۔۔ بھا پلیز ۔۔۔ یہ بات فیض بھائی کو نہ بتانا ۔۔۔میری بات سُن کر وہ کہنے لگا۔۔۔۔ بے فکر ہو کے جا ۔۔۔ میرے پتڑ۔۔۔ کسی کو کچھ پتہ نہیں چلے گا۔۔۔ اور پھر میرے سر پر ہاتھ پھیر کر بولا ۔۔۔ اگر ایسی کوئی بات ہو تو پہلے بتا دیا کر۔۔۔ تیرا بھائی ابھی زندہ ہے۔۔۔ اور میں ۔۔۔وہاں سے چلی گئی۔۔۔ اگلے دن چھٹی کے وقت میں نے دیکھا تو بھا اور اس کے دو تین دوست گیٹ کے سامنے کھڑے تھے۔۔۔ لیکن مجھے دیکھ کر بھا نے منہ پھر لیا ۔۔۔۔ بھا کو دیکھ کر میرا دل دھک دھک کر رہا تھا اور سخت ڈر بھی لگ رہا تھا کہ کہیں میرا راز نہ فاش ہو جائے ۔۔ لیکن اب تیر کمان سےنکل چکا تھا۔۔۔اور میں کچھ بھی نہ کر سکتی تھی ۔۔۔۔ راستے میں دو تین دفعہ نسرین نے مجھ سے اس بارے پوچھا بھی ۔۔۔ لیکن میں اس کو ٹال گئی ۔۔۔ اور پھر کچھ دیر بعد نسرین کا گھر آ گیا اور وہ ۔۔۔ حسبِ معمول ٹاٹا کر کے اپنے گھر چلی گئی۔۔۔ اس کے جاتے ہی میں بھی اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئی لیکن اب میرے قدم من من بھر کے ہوگئے تھے اور ڈر کے مارے مجھ سے ٹھیک سے چلا بھی نہ جا رہا تھا لیکن کسی نہ کسی طرح میں چلتی رہی ۔۔ نسرین کے گھر سے تھوڑا آگے ہی گئی تھی ۔۔ کہ سمیر ۔۔حسب، معمول ۔۔اچانک ۔ میرے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔۔آج اس کے ساتھ وہی خبیث شکل والا لڑکا بھی تھا ۔۔۔ اسے دیکھ کر میری تو روح ہی فنا ہو گئی اور بہت زیادہ خوف ذدہ ہو کر اس لڑکے کی طرف پھٹی پھٹی نظروں سے طرف دیکھنے لگی ۔۔۔ تبھی ۔۔ سمیر ۔ دھمکی آمیز لہجے میں بولا ۔۔ یہ کہہ رہا ہے کہ اگر تم ابھی اور اسی وقت ہمارے ساتھ چلو ۔۔۔ تو۔۔۔ یہ تم کو معاف کر سکتا ہے ورنہ ہم مجبوراً تم کو اُٹھا کر لے جائیں گے ۔۔ ۔۔ ۔۔۔ ابھی سمیر نے اتنی ہی بات کی تھی ۔۔۔کہ پیچھے سے بھا نے اس کو گریبان سے پکڑا ۔۔ اور بولا ۔۔۔ کس کو اُٹھا نے کی بات کر رہےہو تم ۔۔۔ ؟؟؟؟؟؟۔۔ میں ایک دم رُک گئی ۔۔۔ تو بھا نےمجھے کہا ۔۔۔میں اس کو اس کے سورمے کو دیکھ لو ں گا ۔۔۔۔ تو گھر جا ۔۔۔۔ اور ۔۔ بھا کی بات سُن کر میں نے ایک بار بھی مُڑ کر پیچھے نہیں دیکھا اور تیز تیز قدم اُٹھاتی ہو ئی گھر آ گئی۔۔۔۔۔
مجھے نہیں معلوم کہ اس کے بعد سمیر اور اس اوباش لڑکے کے ساتھ بھا میدے اور اس کے دوستوں نے کیا سلوک کیا تھا ۔۔ہاں میں نے ان کا انجام جاننے کی کوشش ضرور کی تھی ۔۔۔ اور اس بارے میں میں نے بھا سے بات بھی کی تھی ۔۔ لیکن میری بات سُن کر اس نے صرف اتنا ہی کہا کہ ۔۔۔بے فکر ہو جاؤ پتڑ۔۔آج کے بعد کوئی بھی تم کو نہیں ستائے گا۔۔۔۔۔ ہاں میں یہ ضرور کہوں گی کہ اس دن کے بعد سمیر تو کیا میں نے اس کا سایہ بھی اپنے سکول کے آس پاس نہیں دیکھا ۔۔
اس واقعہ کا مجھ بڑا شدید جزباتی اور نفسیاتی اثر ہوا تھا ۔۔ اور میں اتنا ڈر گئی تھی کہ میں نے قسم ڈال لی تھی کہ آئیندہ میں کسی راہ چلتے ہوئے کسی لڑکے کو کبھی بھی لفٹ نہیں بھی دوں گی۔اور نہ ہی اس کے ساتھ کوئی بات کروں گی ۔۔ اور اس کے بعد میں بڑے آرام سے گھر سے سکول اور سکول سے گھر آتی جاتی تھی۔۔۔ اس حادثے کا مجھ پر دوسرا اثر یہ ہوا تھا کہ کافی عرصہ تک میں سیکس کو بھول ہی گئی تھی ۔۔ اس طرح ۔۔۔کافی عرصہ بیت گیا ۔۔جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ وقت سب سے بڑا مرہم ہوتا ہے تو آہستہ آہستہ میرے زہن کے پردے سے بھی یہ حادثہ بھی محو ہوتا گیا۔۔۔ ۔۔ اورزندگی اپنےڈگر پہ چلنے لگی ۔۔۔ ایک دن کی بات ہے کہ اس دن میرے پیریڈز ختم ہوئے تھے اور صبع سے ہی مجھے اپنے جسم میں ایک عجیب سی بے چینی نظر آ رہی تھی ۔۔۔ لیکن میں نے اس پر دھیان نہ دیا ۔۔۔اور روز مرہ کے کام کاج کے بعد سو گئی ۔۔۔ رات کا جانے کون سا پہر تھا کہ۔۔۔اچانک میری آنکھ کھل گئی ۔۔۔ دیکھا تو میرا سارا جسم پسینے میں نہایا ہوا تھا۔۔۔۔ اور انگ انگ دُکھ رہا تھا اور ایک عجیب سی بے چینی ۔۔۔اور گرمی نے میرے سارے جسم میں ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔۔ میں بستر سے اُٹھی اور باہر جا کر فریج سے ٹھنڈے پانی کی پوری بوتل پی۔۔۔ لیکن۔کوئی فائدہ نہ ہوا ۔۔۔ گرمی تھی کہ ختم ہونے کا نام ہی نہ لے رہی تھی۔۔۔۔ میں نے ایک بار پھر فریج سے ٹھنڈے پانی کی بوتل لی اور کمرے میں آ گئی ۔۔۔ کمرے میں داخل ہوتے وقت اچانک میری نظریں ۔۔۔ سامنے پڑے ڈریسنگ ٹیبل پر پڑیں ۔۔۔ اور پھر اچانک۔۔۔ مجھے یاد آ گیا ۔۔۔ کہ یہ اتنی گرمی کیوں آ رہی ہے۔۔ یہ بات یاد آتے ہی میں نے جلدی سے درازے کو لاک کیا پانی کی بوتل تپائی پر رکھی اور کمرے کی لائیٹ آن کر کے ڈریسنگ کے سامنے جا کھڑی ہوئی اور ۔۔۔ شیشے کی طرف دیکھتے ہوئے دھیرے دھیرے ۔۔۔۔ اپنے کپڑے اتارنے لگی ۔۔۔ سب سے پہلے میں نے اپنی شرٹ اتاری ۔اور اپنے جسم کو دیکھنے لگی۔۔۔۔میرے موٹے موٹے بریسٹ برا سے ڈھکے ہوئے تھے ۔۔۔ اس وقت میں نے سکن کلر کی برا پہنی ہوئی تھی۔۔ اور سکن کلر کی برا سے میرے اکڑے ہوئے نپل صاف نظر آ رہے تھے ۔۔ایسا لگ رہا تھا کہ یہ ابھی برا پھاڑ کر باہر آ جائیں گے ۔ میں نے برا کے اوپر سے ہی ان کو پکڑا اور ان کو اپنی انگلیوں میں لے کر مسلنے لگی۔۔جس سے میرے جسم میں اور آگ بھڑکنا شروع ہو گئی ۔۔ اور میں نے جلدی سے نپلز کو چھوڑا اور برا بھی اتار دی ۔۔اب میں آئینے کے سامنے ننگے بریسٹ کے ساتھ کھڑی تھی ۔ بڑے دنوں کے بعد میں نے شہوت بھری نظروں کے ساتھ اپنے بریسٹ کو دیکھا ۔میرے بریسٹ پہلے کے مقابلے میں کچھ بڑے ہو گئے تھے ۔۔۔
اور ان کی اُٹھان بھی پہلے کے مقابلے میں کافی زیادہ ہو چکی تھی۔۔ اس پر سونے پہ سہاگہ میرے ۔۔۔ پنک کلر کے نپلز تھے۔ جو میرے اُٹھے ہوئے مموں پر ایک عجیب شان سے اکڑے کھڑے تھے کہ ہم سا ہو تو سامنے آئے ۔۔مجھے اپنے ممے اور نپلز دیکھ کر بڑی ہوشیاری آئی اور میں نےاپنے ایک ممے کو ہاتھ میں پکڑا پھر اپنا سر جھکا یا اور اپنی لمبی سی زبان اپنے منہ سے باہر نکالی اور اپنے نپل کو چاٹنے لگی۔۔۔ اُف۔ف۔ف۔ میرے ایسے کرنے سے نیچے میری چوت میں ہلکی ہلکی آگ لگنا شروع ہو گئی خیر کچھ دیر تک تو میں باری باری اپنے دونوں نپلز کو چاٹتی رہی ۔۔ پھر جب نیچے سے میری پھدی کی فریاد کافی تیز ہو گئی تو میں نے ۔اپنے ممے دبانے اور نپلز چاٹنے بند کر دیئے اور ۔۔۔ ۔۔۔۔پھر میں نے اپنی شلوار اتار کر ایک سائیڈ پر پھینک دی اور ۔۔۔ اب میں ڈریسنگ ٹیبل کے شیشے کے سامنے الف ننگی کھڑی تھی۔۔۔۔۔۔ اور میں نے خود کو دیکھا ۔۔تو ۔شہوت کے مارے ۔۔ میرے نپلز ۔۔۔ میری چوت ۔۔چوت کا دانہ ۔۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ میری چوت کے پھڑکتے ہوئے ہونٹ ۔۔۔۔۔ اور ۔۔میں ۔۔۔ہم سب ۔۔ایک اَن دیکھی آگ میں جل رہے تھے اور یہ آگ دم بدم بڑھتی ہی جا رہی تھی ۔۔میرا جسم ٹوٹ رہا تھا ۔ اس سے پہلے کہ یہ آگ مجھے جلا دیتی میں نے ا پنی دو انگلیاں اپنے منہ میں ڈالیں اور ان کو اچھی طرح گیلا کیا پھر۔۔۔ پھر میں نے ڈریسنگ ٹیبل والی چھوٹی سی سٹول نما کرسی کو اپنے نزدیک کیا اور اپنی ایک ٹانگ اس پر رکھ دی اور پھر اپنی چوت کے لبوں کو کھو ل کر بڑے ہی غور سے ان کو دیکھنی لگی۔۔میری چوت سے کافی مقدار میں رس ٹپک رہا تھا ۔۔ جس کی وجہ سے میری چوت کا اندرونی حصہ ۔۔۔ آف وائیٹ پانی سے بھرا ہوا تھا ۔۔ میں نے وہی گیلی انگلیوں کو چوت کے ہونٹوں کے اندر ڈِپ کیا ۔۔اور انگلیوں کو اپنی چوت کے پانی سے اچھی طرح بھگو کر ۔۔۔۔۔۔ اپنے دانے پر رکھا ۔۔۔۔۔ اور ۔انہیں ایک ۔ گول دائرہ سا بنا کر دانے پر آہستہ آہستہ مساج کرنے لگی۔۔۔ دانہ مست تو پہلے ہی تھا ۔۔۔اب ۔۔۔ مزید شہوت میں آ کر ۔۔۔۔ مچلنے لگا۔۔اور مزید پھول گیا ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میرے سارے بدن میں ۔۔۔ مزے کی لہریں ۔۔ دوڑنے لگیں ۔۔۔اور ادھر ۔۔ دانے پر مساج کی وجہ سے میری چوت میں چدنے کی خواہش شدید سے شدید تر ہونے لگی۔۔۔۔ اور میری چوت کے ہونٹ بے قرار ہو کر خود بخود ۔۔کُھل بند ہونے لگے ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میں نے اپنے دانے پر ہلکا مساج چھوڑا اور ۔۔اور اس پر تیز تیز رگڑائی کرنے لگی۔۔ مین جتنی تیزی سے ۔۔۔دانے کو رگڑتی مجھے اتنا ہی زیادہ مزہ ملتا تھا ۔۔۔ پھر میں نے اس دانے کو کو جو رگڑائی کی وجہ سے کافی سُرخ ہو رہا تھا اور تیزی سے رگڑنا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔۔ تیززززززز۔۔۔ اور۔۔ تیززززززززززززز۔۔۔۔اور اس کے ساتھ اور مجھ پر ایک عجیب سی خماری چھانے لگی اور اس خماری کی وجہ سے خود بخود میری آنکھیں بند ہونے لگیں ۔۔ اور ۔۔پھر میری پھدی میں ایک شدید قسم کی اکڑن پیدا ہو گئی ۔۔میں ۔۔۔ اپنے آخری مراحل میں داخل ہو گئی ۔۔تھی ۔۔۔۔ اور پاگلوں کی طرح اپنے دانے کو رگڑے جا رہی تھی ۔۔۔رگڑے ۔۔جا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر۔۔ایسا کرتے کرتے میں بے حال سی ہو گئی۔۔۔ اور مجھ میں اپنے دانے پر مزید انگلیاں چلانے کی ہمت نہ رہی ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن پھرررررررر۔۔۔بھی میں نے آخری دفعہ اپنے کانپتے ہاتھوں سے دانے پر ۔۔دونوں انگلیاں پھیریں اور پھر شدتِ جزبات میں آ کر میں نے اپنی پھدی کے نرم گوشت کو اپنی مُٹھی میں پکڑا ۔۔۔اور اسے بُری طرح مسلنے لگی۔۔۔۔پھدی کا نرم گوشت ۔۔ مسلتے مسلتے ۔۔۔ ایک دم سے میری ٹانگیں کانپنا شروع ہو گئیں ۔۔۔ اور ۔۔پھر اچانک میری پھدی سے پانی کا ایک سیلاب نکلا ۔۔اور میری ٹانگوں کے راستے نیچے کی طرف بہنے لگا ۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔ میں ۔۔۔ چھوٹ رہی تھی۔۔ خود کو چھوٹتا دیکھ کر ۔۔ مجھ میں مزید ہمت نہ رہی اور میں اپنی پھدی ہاتھ رکھے رکھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ بے دم سی ہو کر پلنگ پر گر گئی اور ۔۔۔ لمبے لمبے سانس لینے لگی۔ میری چوت سے نکلنے ولا گرم پ انی نیچے کی طرف بہتا جا رہا تھا ۔۔۔ کیونکہ بہت عرصے بعد میں نے یہ کام کیا تھا ۔۔ اس لیئے میری چوت ۔۔سے نکلنے ولا پانی کم ہونے کا نام ہی نہ لے رہا تھا ۔۔۔۔پھر ۔لمبے لمبے سانس لیتے ہوئےپتہ نہیں کب میری آنکھ لگ گئی اور میں سو گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے