تراس یا تشنگی
قسط 8
سویرے جو پھر آنکھ میری کھلی ۔۔۔ تو میں نے دیکھا کہ میں بستر پر ایک عجیب بے ہنگم سے انداز ننگی سوئی ہوئی تھی ۔۔۔ میری چوت اس آس پاس کے ایریا پر ۔۔۔ گاڑھے ہلکے زردی رنگ کا مادہ لگا ہوا تھا اور۔۔ بستر کی چادر میری چوت کا پانی جزب کر کر کے اکڑی ہوئی تھی ۔۔گویاکہ میری صبع کہہ رہی تھی میرے رات کا فسانہ۔۔۔ ۔۔اور رات کے واقعہ کے بعد میں کافی فریش ہو گئی تھی۔۔۔اور میں نےخود کر کافی ہلکہ پھلکا محسوس کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر اس کے بعد میں اپنی اُسی پرانی روٹین پر آ گئی اور ہر دوسرے تیسرے دن ۔۔۔ اپنی انگلیوں سے کام چلا کر اپنا گزارہ کرنے لگی۔۔۔ا س دوران کافی لڑکوں نے مجھ پرڈورے ڈالنے کی کوشش کی لیکن میں نے کسی کو کوئی لفٹ نہ دی ۔۔ میں خاموشی سے سکول اور سکول سے گھر آتی تھی ۔۔۔ یوں میرے کیس سے بات نہ کرنے اور نہ ہی کسی کو لفٹ کرانے سے گلی محلے میں میری شہرت ایک شریف لڑکی کی بن گئی ۔۔۔ کالج پہنچنے تک میں اپنے آپ سے بہت زیادہ لزت حاصل کر تی رہی ۔۔اور اب چونکہ میں فُل جوان ہو گئی تھی اس لیئے اب میری چوت انگلیوں کے علاوہ ۔۔۔۔۔ کچھ اور چیز بھی ڈیمانڈ کر نے لگی تھی ۔۔ اور چونکہ میں نے اپنے آپ سے پکا وعدہ کیا ہوا تھا کہ میں باہر کسی بھی لڑکے کو لفٹ نہ دوں گی۔۔اور میں اپنے وعدے پر قائم تھی ۔۔ اس لیئے ۔۔ میں نے کسی نہ کسی طرح اپنے آپ کو سنبھالے رکھا تھا ۔۔۔۔۔ پھر میرے بڑے بھائی فائق کی شادی آ گئی ۔۔۔بھائی کو ایک ملٹی نیشن کمپنی میں ایک بہت اچھی جاب ۔مل گئی تھی۔۔۔ اور وہاں سیٹ ہوتے ہی انہوں نے ابا اماں کو اپنی پسند بتا دی تھی بھائی کی پسند یدہ لڑکی کا نام عطیہ تھا ۔۔عطیہ کی امی اور میری اماں آپس میں دور پار کی کزن بھی تھیں ۔ وہ لوگ بہاولپور رہتے تھے اور بھائی نے اماں کی فیملی کے کسی فنگشن میں عطیہ بھابھی کو دیکھا تھا اور تب سے اس پر لٹو ہو گیا تھا ۔۔۔میرے ولدین نے بھائی کی پسند قبول کر لی اور پھر ۔۔ اماں نے اپنی فیملی کی ۔۔۔ایک دو عورتیں بیچ میں ڈالیں اور ۔۔ ان لوگوں سے عطیہ بھابھی کے رشتے کی بابت پوچھا ۔۔تو ۔۔۔ انہوں نے جھٹ سے ہاں کر دی ۔۔۔ اس کی ایک وجہ ہم لوگوں کا خوشحال ہونا ۔۔۔۔ اور دوسری وجہ۔ ۔۔۔۔ لڑکے کی بہت اچھی جاب ہونا تھی جبکہ تیسری اور سب سے آخری وجہ یہ تھی کہ ۔۔۔ لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو بہت پسند کرتے تھے ۔۔اور یہ ایک طرح سے ان کے پسند کی شادی تھی۔۔۔۔۔ چنانچہ ادھر سے ہاں ہوتے ہی ۔۔اماں ۔۔ابا۔۔ فیض بھائی کی بیوی ۔۔۔ اورمیں۔۔بہالپور چلے گئے ۔۔۔ اور نہ صرف یہ کہ وہاں جا کر ہم فائق بھیا کی منگی کر آئے بلکہ شادی کی تاریخ بھی پکی کر آئے ۔
بہاولپور سے واپس آتے ہی اماں نے بڑے زور وشور سے فائق بھائی کی شادی کی تیاریاں شروع کر دی تھیں ۔۔۔ چونکہ شادی میں وقت کم تھا ۔۔۔ اس لیئے ہر کام جلدی جلدی ۔۔۔ میں ہو رہا تھا ۔۔۔اور پھر اسی گہما گہمی میں شادی کے دن نزدیک آگئے ۔۔۔ جیسے ہی شادی کے دن قریب آئے اماں نے چھوٹے موٹے کاموں کے لیئے اپنے گاؤں سے دو تین کامے (کام کرنے والے ) منگوا لیئے تھے ۔۔جو دو عورتوں اور ایک مرد پر مشتمل تھا ۔۔۔ عورتیں گھر کے کام کاج اور خاص کر کچن کے کام کے لیئے تھیں اور مرد ۔۔ جس کا پورا نام تو پتہ نہیں کیا تھا پر سب اس کو جیدا سائیں کہہ کر بلاتے تھے۔۔۔ جیدا سائیں اچھے ڈیل ڈول والا ۔۔ پکی عمر کا ۔۔۔۔ مضبوط جسم اور گہری سانولی رنگ والا آد می تھا ۔۔۔ ہمارے گھر ہر غمی خوشی کے موقعہ پر باقی لوگوں کے ساتھ جیدا سائیں ضرور آیا کرتا تھا ۔اس کے علاوہ بھی جیدے سائیں کا جب بھی لاہور آنا ہوتا تھا تو وہ ہمارے گھر آیا کرتا تھا ۔۔بلکہ ہمارے پاس ہی رہا کرتا تھا ۔یہ شخص اماں لوگوں کا خاندانی نوکر تھا اس لیئے اماں اس کا بڑا لحاظ کرتی تھیں اور اپنی ہر غمی خوشی کے موقعہ پر اسے ضرور بلایا کرتی تھیں ۔۔۔۔۔ جیدا اچھا خاصہ سیانہ بیانہ اور عقل والا آدمی تھی اور کسی طرف سے بھی سائیں نہ لگتا تھا ۔۔ ۔۔ مجھے یاد ہے کہ ۔۔ ایک دفعہ میں نے اماں سے ویسے ہی مزاق میں پوچھا تھا کہ اماں یہ جیدا تو اچھا خاصہ عقل مند آدمی ہے ۔۔ پھر اسے سائیں ۔۔سائیں ۔۔کیوں کہتے ہیں تو اماں نے ہنس کر جواب دیا تھا کہ بیٹا۔۔۔ جیدے کو سائیں کا خطاب ۔۔ تمھارے نانا نے دیا تھا ۔۔۔وہ یوں کہ بچپن میں یہ ۔۔۔ بہت سادہ اور موٹی عقل والا بچہ تھا جس کو بڑی مشکل سے کوئی بات سمجھانا پڑتی تھی ۔۔۔ ایک دن تنگ آ کر انہوں نے کہہ دیا تھا کہ ایر جیدے ۔۔تو ۔۔۔تو سائیں لوک ہے ۔۔ بس اسی دن سے سائیں کا یہ دم چھلا اس کے نام کے ساتھ لگ گیا ہے۔ ۔۔۔ یہ سہ پہر کا وقت تھا کہ جب جیدا سائیں گاؤں کی دو عورتوں کو لیکر ہمارے گھر آ گیا ۔۔۔ چائے پانی کے بعد اماں نے عورتوں کو تو مختلف ڈیوٹیوں پر لگا دیا ۔اور حسبِ معمول جیدے کو اپنے پاس بٹھا کر اس سے گاؤں کا حال احوال لینے لگیں ۔ مجھے یاد ہے کہ اس وقت اماں چارپائی پر بیٹھی چاول صاف کر رہیں تھیں اور ان کے سامنے ایک چھوٹی سی "چوکی " پر جیدا بیٹھا ان کو گاؤں کے حالات سنا رہا تھا ۔۔۔ جو کہ اماں بڑے شوق سے نہ صرف سُن رہیں تھیں بلکہ بیچ بیچ میں کرید کرید کر مختلف سوالات بھی پوچھے جا رہیں تھیں کہ فلا ں کے بارے میں بتاؤ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔۔چونکہ میرے لیئے یہ خاصہ بورنگ سبجیکٹ ہوتا تھا ۔۔ اس لیئے جیسے ہی جیدے سائیں نے گاؤں کی روداد سنانی شروع کر دی تو میں کسی حیلے بہانے سے وہاں سے کھسک آئی ۔۔۔ میری دیکھا دیکھی وہاں پر بیٹھی اور بھی رشتے دار خواتین آہستہ آہستہ وہاں سے کھسکنا شروع ہو گئی ۔۔۔ اور حسبِ معمول آخر میں ۔۔ اماں اور جیدا سائیں ہی رہ گئے ۔۔جو بڑے جوش میں اماں سے گاؤں کے حالات شئیر کر رہا تھا۔۔۔
یہاں میں آپ کو ایک بات کی وضاحت کر دوں کہ برآمدے میں جس جگہ اماں بیٹھی چاول صاف کر رہیں تھیں وہ جگہ میرے کمرے کی کھڑکی کے عین سامنے تھی ۔۔۔اور پوزیشن یہ تھی کہ میری کھڑکی سے تھوڑی ہی دور چارپائی پر اماں بیٹھی تھیں ۔۔ اوراماں کے عین سامنے جس چوکی پر جیدا سائیں بیٹھا اماں کو گاؤں کے حالات سے آگاہ کر رہا تھا ۔۔۔ وہ جگہ میرے کمرے کی کھڑکی کے بلکل نیچے واقعہ تھی ۔۔۔
جیدے اور اماں سے اُٹھ کر میں سیدھی ڈرائنگ روم چلی گئی تھی جہاں پر فیض بھائی کی بیگم اپنی دوستوں/رشتے داروں کے ساتھ بیٹھی گپیں لگا رہیں تھیں اور ٹاپک یہی شادی کی تیاریاں تھیں ۔۔۔ جیسے ہی میں کمرے میں داخل ہوئی تو بھابھی مجھے دیکھ کر ہنستے ہوئے بولی۔۔۔۔ کیا صورتِحال ہے امی کے پنڈ کی؟؟؟ تو میں نے بھی ہنستے ہوئے جواب دیا ۔۔۔۔ جیدا سائیں ابھی شروع ہی ہوا تھا کہ میں وہاں سے کھسک آئی ہوں ۔۔۔ یہ کہہ کر میں ا ن کے سامنے صوفے پر جا بیٹھی ۔۔۔۔ اور ہم باتیں کرنے لگیں ۔۔ دورانِ گفتگو بھابھی کی ایک دوست نے کہا کہ ۔۔۔ تمہارا شادی کا سوٹ کیسا ہے ؟ تو بھابھی نے اپنے سوٹ کی تفصیل بتانی شروع کر دی اور پھر کپڑوں سے ہوتی ہوئی بات جوتوں کے ٹاپک پر آ گئی۔۔۔ جیسے ہی جوتوں کا ٹاپک شروع ہوا تو ۔۔۔ بھابھی نے میری طرف دیکھا اور بولی۔۔۔ ۔یار جوتی تو ہما لے کر آئی ہے ۔۔۔ ۔۔۔ تھوڑی مہنگی ہے پر۔۔۔۔ کیا یونیک سٹائل ہے اس کا ۔۔۔۔ پھر وہ مجھے سے مخاطب ہو کر کہنے لگیں ۔۔ ہما۔۔ ذرا اپنی مہرون والی جوتی تو لیکر کر آنا جو کل شام تم امی کے ساتھ لبرٹی سے لائی تھی ۔۔۔۔ میں نے بھابھی کی بات سُنی اور جی اچھا کہہ کر اُٹھی اور اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اپنے کمرے میں داخل ہوئی ۔۔سامنے ریک پر وہ مہرون رنگ والی جوتی ڈبے میں پڑی تھی ۔۔۔میں چلتی ہوئی ریک کے پاس پہنچی ۔اور۔۔۔ ۔۔ہاں میں آپ کو یہ بات بتانا تو بھول ہی گئی ہوں کہ میرا جوتیوں والا ریک کھڑکی کے پاس رکھا ہوا تھا ۔۔۔اور دن کے وقت عموماً میں اپنی کھڑکی کے دونوں پٹ کھلے رکھتی تھی ۔۔ اس زمانے میں میری کھڑکی پر باریک سی لوہے کی جالی لگی ہوتی تھی ۔۔۔ اور جیسا کہ آپ کو پتہ ہے کہ اس جالی کا یہ کمال ہے کہاگر کمرہ اندر سے روشن ہو یعنی کہ کمرے کی لائیٹ آن ہو تو باہر والے کو اندر کا سین نظر آتا ہے اور اگر کمرہ روشن نہ ہو تو باہر سے کچھ نظر نہیں نظر آتا ہے۔۔ہاں تو میں آپ کو بتا رہی تھی کہ میں چلتی ہوئی گئی اور ریک سے اپنی جوتی کا ڈبہ اُٹھایا ۔۔۔ اور واپس ہوتے وقت حسبِ عادت ایک نظر باہر ڈالی تو سامنے اماں اور جیدا بیٹھے نظر آئے ۔۔۔ میں نے ایک نظر ان پر ڈالی اور جیسے ہی واپسی کے مُڑی میرے کانوں میں اماں کی ۔۔۔۔کھنکھناتی ہوئی آواز سنائی دی ۔۔۔ وہ جیدے سائیں کی طرف دیکھ کر کہہ رہیں تھیں ۔۔۔۔ ایہہ ۔۔شیطان اجے مریا نئیں؟؟؟۔(یہ شیطان ابھی مرا نہیں )۔ اماں کی بات سُن کر میں تھوڑی حیران ہوئی کہ اماں سائیں سے کس شیطان کے مرنے کی بات کر رہیں ہیں؟ پھر میں محض اپنا تجسس دور کرنے کے لیئے کھڑکی کے اور قریب چلی گئی اور کان لگا کر ۔۔۔۔ اوراماں اور سائیں کے درمیان ہونے والی باتیں سننے لگی۔۔۔ چونکہ میرے کمرے کی لائیٹ ۔۔۔ آف تھی اس لیئے مجھے باہر سے دیکھے جانے کا کوئی ڈر نہ تھا ۔۔۔ اماں کی بات سُن کر سائیں بولا ۔۔۔۔ باجی ۔۔۔ ایہہ شیطان تے مریا ہویا سی ۔۔۔ پر ۔۔۔ تہاڈے سوہنے جئے پٹ ویکھ کے ۔۔۔۔ ایدے کولوں ریا نہیں گیا ۔۔۔( باجی یہ شیطان تو مرا ہوا تھا لیکن آپ کی خوب صورت رانیں دیکھ کر اس سے رہا نہیں گیا ) ۔۔۔ جیدے کی بات سُن کر میں نے ایک دم اماں کی طرف دیکھا تو واقعہ ہی وہ چارپائی پر اس اس زاویہ سے بیٹھی ہوئیں تھیں کہ جس سے ان کی بڑی سی گانڈ اور موٹی موٹی لیکن سیکسی رانیں ۔۔واضع طور نظر آ رہی تھی۔۔میرا خیال ہے کہ اماں کی سیکسی گانڈ دیکھ کر ہی سائیں کا شیطان (لن) کھڑا ہوا تھا ۔۔۔۔اماں اور جیدے کی یہ گفتگو سُن کر میرا رنگ سُرخ ہو گیا ۔۔۔ادھر اماں سائیں کی بات سُن کر کہہ رہیں تھیں۔۔ اب میری رانیں کہاں خوب صورت رہی ہے ۔۔۔ ہاں کسی زمانے میں یہ بڑی بمب ہوتی تھیں ۔۔۔ تو سائیں کہنے لگا ۔۔۔ نیلو باجی ۔۔۔آپ کی رانیں اور۔۔۔گانڈ اب بھی بڑی بمب ہے ۔۔۔دیکھو ۔۔ نا باجی ان پر ایک نظرپڑتے ہی میرا لن کھڑا ہو گیا ہے ۔۔۔۔ چونکہ جیدے سائیں کی میری طرف پشت تھی ۔۔۔ اس لیئے مجھے اس کا لن نظر تو نہیں آ رہا تھا ۔۔ لیکن میں نے اماں کی طرف دیکھا تو ۔ان کا چہرہ سُرخ ہو رہا تھا اور ۔۔۔ ان کی نظریں سائیں کی دو ٹانگوں کے عین بیچ میں گڑھی ہوئیں تھیں ۔۔۔ اور وہ بڑے غور سے جیدے سائیں کی طرف دیکھتے ہوئے کہہ رہیں تھیں ۔۔۔ جیدے !! اپنی دھوتی کو تھوڑا اور کھول ۔۔۔ اور اپنا سارا لن میرے سامنے کر ۔۔۔۔ اماں کی بات سُن کر میں نے سائیں کی طرف دیکھا تو چوکی پر بیٹھے بیٹھے وہ اپنی دونوں ٹانگوں کو مزید کھول رہا تھا ۔۔۔ اور پھر شاید اس نے اپنے لن کو پورا ۔۔۔ ننگا کر لیا تھا ۔۔۔ کیونکہ میں نے اماں کی طر ف دیکھا تو وہ جیدے سائیں کی ٹانگوں کے درمیان درمیان دیکھتے ہوئے اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر رہیں تھیں ۔۔۔ اور جیدے کا لن دیکھتے ہوئے ان کے گال جوش کی وجہ سے تمتما رہے تھے ۔۔۔اور اماں کی آنکھوں میں سائیں کے لن کے لیئے ۔۔شہوت صاف نظر آرہی تھیں ۔۔ اماں نے کچھ دیر تک جیدے کے لن کو بڑے غور سے دیکھا ۔۔۔ اور پھر ۔۔ اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر کر بولی ۔۔۔۔ جیدے ایہہ شیطان پہلے توں کُج زیادہ ووڈا تے موٹا نئیں ہو گیا؟ ( جیدے تیرا لن پہلے سے کچھ زیادہ بڑا اور موٹا نہیں ہو گیا ؟) تو میں نے دیکھا کہ اماں کی بات سُن کر جیدے سائیں نے اپنا ایک ہاتھ نیچے کیا اور غالباً اپنے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر ہلاتے ہوئے بولا ۔۔۔۔ اے گل نئیں نیلو باجی۔۔ چونکہ ۔ تُسی بڑے عرصے بعد اس شیطان نوں دیکھیا اے ۔۔۔ اس لیئے ایہہ تہانوں وڈا ۔۔وڈا ۔۔ لگ رہیا اے ۔۔( ایسی بات نہیں ہے نیلو باجی ۔۔ چونکہ آپ نے بڑے عرصے بعد میرا لن دیکھا ہے اس لیئے آپ کو کچھ زیادہ بڑا بڑا سا لگ رہا ہے) جیدے کی بات سُن کر اماں بولیں ۔۔۔۔۔تیرا شیطان ویکھ کے میں تے گیلی تے گرم ہو گئیں آں ۔۔۔(جیدے تیرا لن دیکھ کر میری چوت گیلی اور میں گرم ہو گئی ہوں )
پھر میں نے دیکھا کہ جیدے سائیں کا اپنی ٹانگوں میں گیا ہوا ہاتھ ۔۔۔ تیزی سے ہل رہا ہے ۔۔۔۔ میرے خیال میں وہ اماں کو رجھانے کے لیئے ان کے سامنے مُٹھ مار رہا تھا۔۔۔ یا شاید وہ اماں کے سامنے اپنا لن ہلا ہلا کر ۔۔ان کو ترسا رہا تھا ۔۔اور میں نے اماں کی طرف دیکھا تو ان کی نظریں ابھی بھی جیدے کی ٹانگوں کے درمیان اس کے لن پر گڑی تھیں ۔۔اور وہ جیدے کے لن کو دیکھ کر مسلسل اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرے جا رہیں تھیں اور ہوس کے مارے ان کے گال لال ٹماٹر ہو رہے تھے ۔۔۔۔۔ اور ان کی آنکھوں سے لگ رہا تھا کہ ان کا بس نہیں لگ رہا ورنہ وہ ابھی جیدے کا لن اپنے اندر لے لیتیں۔۔۔ پھر میں نے جیدے کی ہاتھ کی طرف دیکھا تو وہ اسے ہلاتے ہوئے اماں سے کہہ رہا تھا ۔۔۔نیلو باجی فئیر کی خیال اے اَج ہو نہ جائے ؟ ( نیلو باجی پھر کیا خیال ہے آج فکنک نہ ہو جائے) جیدے کی بات سُن کر امان نے ایک بار پھر اس کے ہلتے ہوئے لن کی طرف دیکھا اپنے ہونٹوں پر زبان پھیری اور بولیں ۔۔۔ نہیں آج نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ہم یہ کام کل کریں گے ۔۔۔تو جیدا بولا ۔۔ باجی اپنی گانڈ دکھا کر گرم تم آج کیا ہے اور دو گی کل۔۔۔۔ یہ تو ٹھیک بات نہیں ۔۔۔ تو اماں مسکرا کر بولی ۔۔۔ تم کو گرم کرنا کون سا مشکل کام ہے ۔۔۔ پھر وہ ایک دم سنجیدہ ہو گئیں تمہیں پتہ ہے کہ میرا گھر بہوؤں بیٹوں والا گھر ہے اور اوپر سے کافی مہمان بھی آئے ہوئے ہیں ۔۔اس لیئے آج نہیں ہو سکے گا ۔۔۔ ہاں کل فائق کی مہندی ہے ۔۔۔ اور میں نے دو تین بیوٹی پارلر والیوں کو گھر پر بُلایا ہے تا کہ لڑکیاں تیار کر سکیں ۔۔ اور تم کو پتہ ہے بیوٹی پارلر والیوں جب گھر آئیں گی تو سب لڑکیاں اور عورتیں ان کے ہی آس پاس ہوں گی اور اس دوران میں اور تم سٹو ر میں چیزیں نکلالنے کے بہانے ۔۔اپنا کام کر لیں گے ۔۔۔ اماں کی بات سُن کر جیدا قدرے مایوسی سے بولا ۔۔۔ جیسے تمھاری مرضی ۔۔نیلو۔۔۔۔۔پر کل منکر نہ ہو جانا ۔۔۔تو اماں اس کی بات سُن کر بولی۔۔ فکر نہیں کرو میں ہر گز منکر نہیں ہوں گی ۔۔۔ کیونکہ کافی دنوں سے میں خود بڑی گرم ہو رہی ہوں ۔۔ اور میری پھدی ایک سخت لن مانگ رہی ہے ۔۔تو اماں کی بات سُن کر جیدا کہنے لگا۔۔۔ کیا بات ہے آج کل بھائی جان آپ کی نہیں مار رہے ؟؟ ۔۔۔ تو اماں کہنے لگیں ۔۔۔ وہ تو بس اب مہینے میں ایک آدھ دفعہ ہی مارتا ہے ۔۔ لیکن اب اس کے لن میں وہ تڑ نہیں رہی ۔۔ بلکہ کافی ڈھیلا ہو گیا ہے اور تم کو پتہ ہے کہ میری چوت کو تمھارے جیسا ایک سخت اور اکڑا ہوا لن چاہیئے ۔۔۔
پھر اچانک اماں جیدے سے کہنے لگیں ۔۔۔ لن کو دھوتی میں کر لو ۔۔ اور گاؤں کی باتیں شروع کر دو کہ ایک عورت ہماری طرف آ رہی ہے ۔۔ اماں کی بات سُن کر میں نے بھی سامنے دیکھا تو ۔۔۔ فیض بھائی کی ساس اماں کی طرف آ رہی تھیں۔۔۔ اماں اور جیدے کی باتیں سُن کر ایک بات تو مجھے کنفرم ہو گئی کہ اماں اور جیدے کا بڑا پرانا معاملہ چل رہا تھا۔۔۔ دوسری بات یہ کہ ان کی باتیں سُن سن کر میں بڑی گرم ہو گئ تھی ۔۔۔ اور اسی گرمی کے تحت میں نے اپنی الاسٹک والی شلوار میں اپنا ہاتھ ڈالا اور چوت کو چیک کیا ۔۔ ۔۔۔ تو اماں کی طرح میری چوت بھی کافی گیلی ہو رہی تھی پھر میں نے اپنی پھدی پر ہاتھ رکھا ۔۔۔تو۔۔۔۔تو وہ گرم آگ ہو رہی تھی۔۔۔ اور میں اپنی گرم پھدی پر مساج کرنے لگی۔۔۔ اپنی چوت پر ہاتھ پھیرتے پھیرتے مجھے جیدے سائیں کا لن یاد آ گیا ۔۔۔ اورمیں سوچنے لگی ۔۔ کہ جس لن کی تعریف اماں جیسی جہاندیدہ اور ۔۔۔۔ میچور خاتون کر رہیں ہیں وہ لن کیسا ہو گا ؟؟؟؟؟۔۔۔۔ اور پھر میرے اندر سے جیدے سائیں کا لن دیکھنے کی خواہش بڑھنے لگی۔۔۔ اور پھر جیدے کا لن دیکھنے کی میری خواہش جب شدید ہو گئی تو میں نے اپنی شلوار سے ہاتھ نکلا اور سوچنے لگی۔۔۔ کہ میں جیدے سائیں کا لن کیسے دیکھوں ؟؟ سوچتے سوچتے ایک آئیڈیا میرے دماغ میں آیا اور میں نے ۔۔۔ جوتی کا ڈبہ اُٹھایا اور بھابھی کی طرف چل پڑی۔۔۔
وہاں جا کر میں نے جوتی کا ڈبہ بھابھی کے حوالے کیا اور خود باہر آ گئی۔۔۔ اور سیدھی اماں کے پیچھے جا کر ۔۔ بیٹھ گئی کہ۔۔۔اور ان کے کندھے دبانے لگی۔۔۔اماں کے ساتھ فیض بھائی کی ساس بیٹھی ہوئیں تھیں اور سامنے جیدا سائیں بیٹھا چائے پی رہا تھا ۔۔۔ میں بظاہر تو اماں کے کندھے دبا رہی تھی لیکن میری نظریں جیدے سائیں کی ٹانگوں کے درمیان تھیں ۔۔۔ گو کہ جیدے سائیں نے اپنے لن کو دھوتی کے اندر کر لیا تھا لیکن ۔۔مجھے ۔۔۔ابھی بھی دھوتی میں سے اس کے لن کا ابھار نظر آ رہا تھا۔۔۔ مجھے اماں کے کندھے دباتے ہوئے دیکھ کر فیض بھائی کی ساس بولی۔۔۔۔ کیا بات ہے پتر اپنی اماں کی بڑی خدمتیں ہو رہیں ہیں ۔۔۔۔ ان کی بات سُن کر میری بجائے اماں ہنس کر بولیں ۔۔۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ کیوں میری خدمت کر رہی ہے ۔۔۔ پھر وہ مجھ سے مخاطب ہو کر بولی ۔۔۔ہاں جی میری گڑیا کو کیا چاہیئے۔۔۔۔ ؟؟ میں نے محض جیدے سائیں کے لن کے لیئے اماں کے پاس آئی تھی اور ابھی بھی میری نظریں اس کی دھوتی کے ابھار پر گڑھی ہوئیں تھیں۔۔۔ اماں کی بات سن کر ایک دم چونک گئی اور ۔۔۔ پھر سوچتے ہوئے بولی۔ اماں کل جو لبرٹی میں شاکنک پنک ۔۔۔ جوڑا دیکھا تھا ۔۔۔ لے دو نا۔۔۔ اور پھر جیدے سائیں کے لن کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔۔ ادھر میری بات سُن کر اماں کہنے لگیں۔۔۔ تم کو اتنے سوٹ جو لے کر دیئے ہیں ۔۔۔ وہ کافی نہیں ہیں کیا۔۔؟ تو میں نے جیدے کے لن کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ اماں پلیز !!!! ۔۔۔ تو میری بات سُن کر اماں کہنے لگیں ۔۔۔ ایسے ہی میرے کندھے دباتی رہو میں غور کرتی ہوں ۔۔۔ اور میں اماں کے کندھے دبانے لگی اور ساتھ ساتھ جیدے سائیں کے لن پر نظریں گاڑھے رکھیں۔ مجھے یوں اپنی طرف دیکھ کر اور خاص کر اپنی دھوتی کے ابھار کی طرف دیکھتے ہوئے دیکھ کر جیدا سائیں کچھ بوکھلا سا گیا ۔۔۔ اور اس نےجلدی سےاپنا لن اپنی دونوں ٹانگوں کے بیچ میں کیا اور ان کو جوڑ لیا ۔۔۔ اور میری طرف دیکھنے لگا۔۔۔ لیکن اس وقت میں اتنی گرم ہو رہی تھی کہ پھر بھی میں نےاس کی ٹانگون کے بیچ میں دیکھنا جاری رکھا ۔۔۔ جلد ہی جہاندیدہ۔۔۔۔ اور ۔۔۔ عورتوں کا شکاری ۔۔۔(یہ بات مجھے بعد میں پتہ چلی) جیدا ۔۔۔ میری تکلیف سمجھ گیا ۔۔ اور پھر اس نے ایک نظر میری ماں کی طرف دیکھا جو بڑے زور و شور سے فیض بھائی کی ساس کو شادی کی شاپنگ کے بارے میں بتا رہی تھی۔۔۔ اور بڑے طریقے سے اپنی ٹانگوں کو کھول دیا اور اپنا لن کو میرے سامنے کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اُف ۔ف۔ف۔۔ف میں دیکھا تو اس کی دھوتی میں ایک بہت بڑا تنبو سا بنا ہوا تھا ۔۔۔۔ جسے دیکھ کر میں لال ہو گئی اور میری پھدی پہلے سے زیادہ گیلی ہو گئی۔۔۔ جیدے نے اپنے لن کی بس ایک جھلک ہی مجھے دکھائی اور پھر وہ چائے پینے لگا ۔۔۔ اور بڑی خاص نظروں سے میری طرف دیکھنے لگا۔۔۔ اس کو یوں اپنی طرف دیکھتے ہوئے میں تھوڑا گھبرا گئی اور میں نے اپنی نظریں نیچی کر لیں ۔۔۔ کچھ دیر بعد جیدا چوکی سے اُٹھا اور اماں کو مخاطب ہو کر بولا ۔۔۔۔ باجی میرے لئے کیا حکم ہے ۔۔۔؟؟ ۔۔۔تو اماں نے اسے ایک چھوٹا سا کام دیا اور بولیں یہ کر کے جلدی کہ تم کو اور بھی کافی کام کہنے ہیں ۔۔۔جیسے ہی جیدا گیا ۔۔۔ میرے لیئے وہاں بیٹھنے کی کشش ختم ہو گئ تھی اس لیئے میں نے اما ں سے پوچھا ۔۔۔ اماں جی مجھے وہ سوٹ لے دو گی ناں؟ تو اماں بولی ۔۔ ایک شرط پر۔۔۔کہ تم مجھے دس منٹ تک اور دباؤ۔۔۔۔۔
جیسے تیسے اماں کو دبا کر میں اُٹھی اور وہاں سے جانے لگی تو آگے سے مجھے جیدا نظر آ گیا ۔۔۔اس نے مجھے دیکھ کر کہا ۔۔ ایک منٹ گڈی۔۔۔۔ اور پھر اماں کے سامنے مجھے کھڑا کر کے بولا۔۔۔ نیلو باجی ۔۔ آپ کی لڑکی بلکل آپ پر گئی ہے۔اور پھر کہنے لگا۔۔۔ جیوندی رہے اور اس کے ساتھ ہی اس نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا ۔۔۔اور پھر اپنا ہاتھ میرے سر سے پیچھے لے آیا اور میری گانڈ پر ہاتھ لگا کر اسے تھوڑا سا دبا دیا۔۔۔۔ اور میری طرف دیکھنے لگا ۔۔۔ لیکن میں نےکوئی رسپانس نہ دیا۔۔۔۔۔ اور وہاں سے چلی گئی۔۔۔
جاری ہے