ads

Zindagi ke Rang - Episode 10

زندگی کے رنگ 

قسط نمبر 10 



بھول گئے وہ وقت جب والد صاحب نے میرے میڑک کرنے کے بعد کہا تھا کہ وہ صرف 3بھائیوں کی پڑھائی کا خرچہ اٹھا سکتے ہیں ۔ بڑا فریجوں کا کورس کر رہا تھا تم مکینکل میں ڈپلومہ کر رہے تھے اور یہ چھوٹا ہومیو پیتھی ڈاکڑی پڑھ رہا تھا ۔ 

تو میں نے کہا تھا کہ آپ ان کو خرچہ دئیں ۔ اس کے بعد جب میں نے ایک دوست کے کہنے پر ٹیوشن پڑھانا شروع کی تھی تو تم سب سے زیادہ پیسے مانگتے تھے مجھ سے ۔ وہ بھی ادھار ۔ جو آج تک مانگتے ہو

یاد ہے یا کرواں ، بھولے تو نہیں 

اور کس نے مجھ سے پیسے نہیں لیے ۔ تم لوگوں کو باپ نے اپنی کمائی پر پڑھانا چاہا ۔ نہ تو تم نے اپنا ڈپلومہ پورا کیا نہ بڑے بھائی صاحب نے 

جعلی ڈگریاں خرید کر تو خود کو نہ جانے کیا سمجھ رہے ہو ۔ 

اور یہ ڈاکٹر صاحب اج تک لوگوں کے پاس نوکری کر رہے ہیں ۔ کتنی بار اس کو کلینک بنا کر دیا پر نہ جی اپنا کاروبار تو سمجھ نہیں آتا ۔ بس پیسے ضائع کرنے تھے ماں باپ کے کر دیے

اور تم کیا سنا رہے ہو کہ کہ تمھاری وجہ سے اج میری جاب ہے ۔

تم لوگ تو میرے کھیلنے کے خلاف تھے ۔ تم تو کیا یہ میرا ماموں بیٹھا ہے جو ماں کو کہا کرتا تھا کہ یہ کلب جاتا ہے چرسی بن جائے گا ۔ میں تو نہ بنا ۔ پر اپنے بچوں کے بارے میں کیا خیال ہے ۔ اس لیے کہتے ہیں کہ کسی کے لیے گڑھا کھودو تو خود بھی اس میں گرنے سے بچو

اور تم لوگ تو جو کچھ کہتے تھے یاد ہے یا یاد کرواں ۔ 

آج خود دیکھ لو کہ کس کی تعلیم کہاں تک ہے 

مجھے بار بار چاچو چپ ہونے کا کہہ رہے تھے ۔ مگر میں تو بس آج پھٹنے کو تیار تھا 

کسی کو مجھ سے ایسے رویے کی امید نہیں تھی ۔ 

اس دن میں نے اپنا 13 سال کا غصہ نکالا ۔ کہ 13 سالوں میں جو سہا تھا وہ غبار آج نکل رہا تھا 

میری ان باتوں کے بعد سب کی بولتی بند ہو گئی ۔ 

پھر میں نے بڑے بھائی کو کہا کہ یہ مت سمجھنا کہ تمھارے کل کے تھپڑ نے میری عزت کم کر دی ۔ وہ اصل میں تمھاری خود کی ختم ہو گئی ہے ۔ نہیں تو سب سے پوچھ کر دیکھ لینا

میں کمرے سے جانے لگا تو جیسے سب نے سکھ کا سانس لیا۔ مگر میں دروازے سے مڑ کر واپس آیا ۔ اور ماں اور باپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آج کے بعد اپنے بیٹوں کو سمجھا دینا ۔ کہ یہ ایک بار ہاتھ اٹھائیں گے تو میں ان کے دونوں ہاتھ توڑ دوں گا 

پھر والد صاحب کو کہا کہ کہ اج میں خود کو آپ کی قسم سے آزاد کرتا ہوں کہ میری برداشت ختم ہو گئی ہے ۔ 

اور پھر نہ صرف کمرے سے بلکہ گھر سے بھی باہر چلا گیا ۔ اور سکول چلا گیا ۔ 

وہاں سب ٹیچروں نے مجھے بھائی کی شادی کی مبارک باد دی ۔ اور مٹھائی کا تقاضا کیا۔ 

میں نے مٹھائی منگوائی ۔ اور ہم سب نے چائے کے ساتھ وہ کھا لی ۔ 

مجھے اس دن سکول کے مالک نے کہا کہ اب آپ صرف 7 دن سکول آؤ گے ۔ تو میں نے کہا مجھے یاد ہے تو وہ بولے کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ مستقل ہمارے ساتھ رہیں ۔ اور بچوں کو پڑھائیں ۔ 

میں نے ان کو سب بتا دیا کہ کیا وجہ ہے کہ میں ایک سکول میں زیادہ دن نہیں گذار سکتا ۔ کہ مجھے سال میں کم از کم 3 بار گیمز کے لیے جانا ہوتا ہے جس کی وجہ سے 4 ماہ کی چھٹیاں کرنی پڑتی ہیں 

اور بیچ میں بھی کئی بار جانا پڑ جاتا ہے تو وہ بولے کہ آپ جو چھٹی گیمز کے لیے کرو گے اس کی تنخواہ نہیں ملے گی 

تو میں مان گیا اور انہوں نے مجھے 5 ہزار تنخواہ دینے کی بات کی پہلے تو میں نہیں مانا ۔ پھر کچھ سوچ کر مان گیا کہ ماحول اچھا ہے چلو کچھ تو آئے گا 

اور پھر میں دوبارہ لیبارٹری چلا گیا ۔ بچوں کو پریکٹیکل کروا کر فارغ ہوا اور جب سامان رکھوا کر فارغ ہوا تو میرے پاس مسرت اور فرزانہ آ گئیں ۔ 

مجھے دیکھ کر فرزانہ بولی کہ سر وہ کل ۔ تو میں نے کہا اس کو بھول جاؤ ۔ بس اپنی بات کرو 

تو وہ ہنس پڑی ۔ اور ہم گپ شپ کرنے لگے ۔ میرا موڈ ایک تو غصہ نکال کر اچھا ہو چکا تھا ۔ دوسرا سب سے باتیں کرنے کی وجہ سے

میں نے مسرت سے پوچھا کہ دوائی چل رہی ہے تو وہ بولی جی کھا رہی ہوں 

میں نے پوچھا کچھ فرق محسوس ہوا تو اس نے بتایا کہ اس بار پہلی بار مخصوص دن پہلے سے کھل کر آئے ہیں جیسے کہ آنے چاہیے ۔ 

اور یہ کہ دنوں کے ختم ہونے کے بعد جسم ٹوٹ رہا تھا ۔ جیسا کہ باقی لڑکیوں کو ٹوٹتا ہے ۔ مگر بہت زیادہ نہیں تھا 

میں خوش ہو گیا ۔ پھر پوچھا پہلے سے کتنے کھل کر آئے ۔ 

پہلے تو وہ شرم سے کچھ نہ بولی دوبارہ پوچھنے پر بولی کہ پہلے صرف نشان لگتے تھے اور تمام دنوں میں ایک کپڑا چلتا تھا ، پر اس بار کافی زیادہ آئے کہ 3 کپڑے بدلے ۔ امی بھی کافی مطمن تھیں ۔ اور آپ کو دعا دے رہی تھی ۔

میں نے کہا کوئی بات نہیں بس اپنی دوائی جاری رکھو ۔ اور پھر پوچھا کہ دوبارہ کب جانا ہے ڈاکٹر صاحب کو چیک کروانے تو اس نے بتایا کہ ابھی 7 دن ہیں 

پھر میں نے فرزانہ کی طرف دیکھ کر کہا جناب وعدہ کب پورا کرنا ہے ۔ تو وہ بولی کون سا وعدہ ۔ 

تو میں نے کہا کہ شرط لگی تھی تو وہ بولی یاد ہے جب آپ کہو ۔ 

میں نے کہا کیا کروں گی تو وہ بولی جو آپ کہو گے ۔ کیونکہ ہمارے پاس دن کم ہیں 

تو میں نے بتایا کہ اب میں سکول نہیں چھوڑ رہا ۔ تو وہ اتنی خوش ہوگئیں اور فورا میرے گلے لگ گئیں ۔ تو میں نے دونوں کے ہونٹوں پر چھوٹی چھوٹی کسنگ کر دی ۔ 

میں نے پھر مسرت سے کہا کہ اپنا خیال رکھنا اور یہ بھی کہ پرہیز لازمی کرنا

تو اس نے پھر سے مجھ سے وعدہ کیا ۔ اور ساتھ ہی بولی ایک بات بتانی ہے 

میرے پوچھنے پر جو اس نے بتایا اس نے مجھے حیران کر دیا تھا ۔ کہ ایک ٹیچر مجھ سے پوچھ رہی تھی کہ سر کی منگنی ہوئی ہے کہ نہیں ۔ اور سر کب چھوڑ کر جا رہیے ہیں ۔ 

میرے پوچھنے پر جس ٹیچر کا اس نے بتایا تو میں حیران رہ گیا کہ اس سے تو سوائے سلام کے کبھی کوئی بات نہیں ہوئی 

کیونکہ یہ وہی ٹیچر تھی جو سکول میں پڑھانے کے ساتھ یونیورسٹی بھی جاتی تھی 

میں نے مسرت کو اشارہ کیا کہ وہ باہر جائے اور فرازانہ کو بازو سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا ۔ تو مسرت باہر جاتے ہوئے بولی ۔ جناب لگتا ہے کہ بھائی کہ سہاگ رات کو یاد کر کے آپ کو بھی گرمی بڑھ گئی ہے 

تو میں ہنس پڑا کہ اس کو کیا بتاتا دو راتوں میں دو بار تو گرمی نکال چکا ہوں ۔ یہ تو بس چسکے ہیں ۔ جو پورے کرنے کو دل کر رہا ہے ۔ 

ابھی فرزانہ دروازے تک بھی نہیں پہنچی تھی کہ باہر سے ایسی آواز آئی جیسے کوئی اندر آ رہا ہو ۔ تو میں نے فرزانہ کو چھوڑ دیا اور باہر دیکھنے لگا


جاری ہے

Post a Comment

0 Comments