ads

Zindagi ke Rang - Episode 11

زندگی کے رنگ

قسط نمبر 11 




مسرت بھی جلدی سے واپس آکر فرزانہ کے پاس کھڑی ہوگئی ۔ جو کہ پہلے ہی مجھ سے کچھ دور جا کر کھڑی ہو چکی تھی ۔ اتنے میں کہ میں یا فرزانہ ، مسرت میں سے کوئی بات شروع کرتا میں نے دیکھا کہ سکول مالک کی دوست اور اس کے ساتھ 2 سٹوڈنٹس جو کہ چھوٹی کلاس کی سٹوڈنٹس تھیں اندر آگئیں ۔ 

میں نے جان کر فرزانہ کو ڈانٹنا شروع کر دیا کہ تمھاری پہلے ہی بہت چھٹیاں ہوچکی ہیں ٹیوشن سے اور اب تم پھر سے چھٹیاں مانگ رہی ہو ۔ 

وہ بولنے لگی تو میں نے پھر بات کاٹ کر کہا کہ تم چپ کر جاؤ ۔ شام کو میں تمھاری والدہ سے بات کروں گا 

اور پھر اس ٹیچر کی طرف رخ کر کے کہا ۔ جی مس مجھ سے کوئی کام ہے ۔ 

تو وہ بولی کہ یہ میری کزن ہیں ۔ ان کی ٹیوشن کی بات کرنی ہے ۔ آپ جب فارغ ہو جائیں تو بتا دینا ۔ 

میں نے کہا کہ آپ بات کر لیں ۔ میں نے تو اج یہاں پوری صفائی کروانی ہیں ۔ 

اس سے بات ہوئی تو میں نے دونوں کے لیے فیس بھی بتا دئیں ۔ اپنی شرائط بھی ۔ اور سب کچھ طے کر کے ان کو وقت بھی بتا دیا 

تو چلی گئیں ۔ چونکہ ان دنوں پیپر شروع ہونے والے تھے اس لیے سکول میں چند ہی بچے آتے تھے ۔ 

بقول مسرت کے یہ وہ ہیں جو چوما چاٹی ، یا موقع کے تلاش میں ہوتے ہیں ۔ 

خیر چونکہ اس دن میرے حساب سے پریکٹیکل کا آخری دن تھا ، اس لیے میں نے پوری صفائی کروائی ۔ 

اس دوران جب بھی موقع ملتا میں فرزانہ کے ساتھ کوئی نہ کوئی شرارت کر لیتا ۔ کہ کبھی اس کی گانڈ کو دبا دیتا ۔ اور کبھی اس کے ممے کو 

یا گزرے گزرتے اس کو پیچھے یا آگے سے اپنے ساتھ لگا لیتا ۔ 

تقریبا سارا کام ختم ہو چکا تھا کہ سکول مالک نے بھی آ کر دیکھا کہ ہم کیا کر رہے ہیں ۔ اور جب اس نے صفائی دیکھی تو بہت خوش ہوا ۔ 

تو میں نے کہہ دیا کہ یہ سب ان دونوں بچیوں کی محنت ہے تو سکول مالک نے کو 100,100 روپے انعام کے طور پر دئیے اور میری بھی تعریف کی کہ آپ واقعی کام کرنے والے بندے ہو۔ اور چائے کے لیے آنے کا کہہ کر چلا گیا ۔ میں نے ان کو بتا دیا کہ تقریبا 30 منٹ کا کام باقی ہے ۔ پھر آتا ہوں 

جب وہ گئے تو مسرت میرے پاس آ گئی ۔ اور کہنے لگی آپ مجھ سے ناراض ہو کیا ۔ میں نے صاف کہا کیوں ، تم کیوں پوچھ رہی ہو 

اس نے کہا کہ اس دن جب آپ نے اپنے لن کو چوسنے کا کہا تھا اور میں نے انکار کیا ۔ اس دن سے آپ کا رویہ مجھ سے کچھ ٹھیک نہیں ۔ بات بھی کرتے ہو تو ایسا لگتا ہے کہ مجھ پر احسان کر رہیے ہو 

میں نے کہا دیکھو تمھاری مرضی ہے کہ تم کچھ کرو یا نہ کرو ۔ لیکن سچ ہے کہ مجھے دکھ لگا ۔ باقی تمھاری مرضی ہے کہ تم کچھ کرتی ہو کہ نہیں ۔ میں کسی کو مجبور تو نہیں کر سکتا ۔ 

فرزانہ اس دوران سب باتیں بھی سن رہی تھی اور آخری کا م بھی نبٹا رہی تھی ۔ مگر مجھ سے یا مسرت سے کچھ نہیں بولی بس سن رہی تھی 

خیر ہماری بحث لا حاصل تھی اس لیے کام ختم ہوتے تک ختم نہ ہوئی ۔ پھر جب میں جانے لگا تو فرزانہ نے کہا کہ آج آپ سکول کے بعد ہمارے ساتھ ہی گھر چلنا تو میں نے کہا ٹھیک ہے ۔ 

جب میں آفس گیا تو وہاں تقریبا سب ٹیچرز موجود تھے اور چائے بھی تیار ہی تھی ۔ 

میں نے سر سے کہہ کر 2 کپ چائے فرزانہ اور مسرت کے لیے باہر بھجوا دی ۔ اور چائے پینے کے دوران سکول مالک نے سب کو بتا دیا کہ سر ہمیں چھوڑ کر نہیں جا رہے 

اور اگلے تعلیمی سال میں دسویں کلاس کے انچارج ہوں گے ۔ 

میں اس دوران اس ٹیچر کو دیکھ رہا تھا جس نے مسرت سے میرے متعلق پوچھا تھا ۔ لیکن کافی دیر تک بھی اس کو دیکھنے کے باوجود مجھے ایسا محسوس نہیں ہوا کہ وہ مجھ میں کوئی انڑنٹس رکھتی ہے ۔ 

وہاں سے نکل کر میں جب باہر ایا تو دیکھا کہ فرزانہ اور مسرت جا چکی تھیں ۔ میں بھی سائیکل لیکر فرزانہ کے گھر پہنچ گیا ۔ لیکن اس کے گھر جانے سے پہلے میں نے اس کے گھر کے لیے مٹھائی کا ڈبہ لے لیا ۔

جب میں فرزانہ کے گھر پہنچا تو دیکھا کہ اس کی والدہ اور فرزانہ کے ساتھ صرف مسرت ہی گھر پر تھیں ۔ باقی گھر میں کوئی بھی نہیں تھا ۔ نہ بچے ، نہ فرزانہ کی چاچی اور نہ کوئی اور 

فرزانہ بھی کچھ دیر میں مجھے اور مسرت کو کمرے میں چھوڑ کر باہر چلی گئی ۔ 

مسرت میرے پاس سامنے کی طرف زمین پر بیٹھ گئی ۔ اور میرے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر مجھ سے بولی ۔ آپ مجھ سے واقعی ناراض ہو کیا ۔ 

میں نے کہا نہیں میں ناراض نہیں ، اور کس بات پر ناراض ہوں تو وہ بولی اس دن آپ نے ہماری بات مانی اور جب میری بات آئی تو میں نے انکار کر دیا۔  

تو میں نے کہا کہ یار آپ کی مرضی ۔ اب میں کسی کے ساتھ زبردستی نہیں کر سکتا ۔ اور دوسری بات کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ سیکس کا مزا اس وقت آتا ہے جب دونوں خوشی سے کریں 

تو اس نے کہا کہ میں آپ کے لیے سب کچھ خوشی خوشی کرنا چاہتی ہوں ۔ پر جب مجھ میں کوئی احساس نہیں جاگتا تو اپنی بے حسی پر غصہ بھی آتا ۔ اور اس کے ساتھ ہی اس کی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے ۔ 

میں نے اس کو اوپر کیا اور اپنے سینے سے لگا لیا ۔ تو کچھ دیر میں وہ پر سکون ہوگئی ۔ اور پھر سے نیچے ہو کر اس نے مجھ سے کہا کہ اگر میں کچھ کروں تو آپ ناراض تو نہیں ہوں گے ۔ 

میں نے کہا جو دل کرتا ہے کرو ۔ تو وہ اٹھ کر باہر گئی ۔ اور واپس آ کر اس نے مجھے کہا کہ اندر چلتے ہیں ۔ 

میں نے حیران ہو کر کہا کہاں اندر ۔ 

تو وہ کچھ نہ بولی ۔ میرا ہاتھ پکڑا اور اندر لے گئی ۔ آج پہلی بار تھا کہ میں فرزانہ کے گھر کے اندرونی حصے میں جا رہا تھا ۔

مہمان خانے سے نکل کر ہم ایک صحن میں پہنچ گئے ۔ جس میں ایک طرف آم کا درخت لگا ہوا تھا ۔ اور اس کے ساتھ ہی کچن نما کمرہ تھا ۔ جس میں اس وقت فرزانہ کی ماں اور فرزانہ کچھ پکا رہی تھیں ۔ اور دوسری طرف 2 باتھ روم بنے ہوئے تھے ۔ 

اس کے بعد ایک برامدہ تھا ۔ جس کے آگے 4 کمرے بنے ہوئے تھے ۔ 

فرزانہ کی والدہ نے آ کر مجھے سلام کیا ۔ اور خوشی کا اظہار کیا کہ میں ان کے گھر ان کی دعوت پر آیا ۔ 

میں نے حیران ہو کر فرزانہ کی طرف دیکھا تو اس نے اشارے سے خاموش رہنے کا کہا ۔ تو میں نے بات بناتے ہوئے کہا یہ آپ کی بیٹی بہت ضدی ہے ۔ اس لیے کیا کرتا 

پھر مسرت مجھے لیکر ایک روم میں چلی گئی جہاں دروازے پر ایک موٹا اور گہرے رنگ کا پردہ لگا ہوا تھا ۔ اور اندر ایک پرانا بیڈ لگا ہوا تھا جس پر روئی والا گدا بچا ہوا تھا ۔ جب کے دوسری طرف ایک میز اور کرسی بھی موجود تھی ۔ 

اس کے ساتھ ایک طرف لکڑی کی کپڑوں والی الماری موجود تھی ۔ اور ایک طرف لوہے کی پیٹی موجود تھے ۔ 

بعد میں معلوم ہوا کہ وہ فرزانہ اور اس کی چھوٹی بہن کا کمرہ ہے ۔ 

جیسے ہی ہم کمرے میں داخل ہوئے مسرت نے مجھے اپنے گلے لگا لیا اور میرے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ کر کسنگ کرنے لگی ۔ 

کچھ دیر وہ کسنگ کرتی رہی ۔ آج اس کی کسنگ میں ایک میچورٹی تھی ۔ وہ کبھی میرے ہونٹوں پر اپنی زبان پھیرتی تو کبھی میرے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لیکر چوستی۔ اس دوران اس کا ہاتھ میرے لن پر چلا گیا ۔ اور اس نے میرے لن کو دبانا شروع کر دیا ۔ تو میرا لن بھی سر اٹھانے لگا ۔ آج میں نے شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی اس لیے مجھے کوئی پرابلم تھی 

۔ کافی دیر تک ایسا کرنے کے بعد اس نے کسنگ کرنا چھوڑ دی اور نیچے ہو کر میری قمیض کو اوپر کیا ۔ اور میرے لن کو شلوار کے کپڑے سمیت اپنے منہ میں لے لیا ۔ 

مجھ اچھا لگا کہ ایک عجیب سا تجربہ تھا ۔ اس کے منہ کی ہلکی سے گرمی مجھے محسوس ہوئی ۔ مگر مزا نہیں آیا 

پھر اس نے کچھ دیر بعد لن کو چھوڑ دیا اور میری شلوار کا ناڑا کھولا ۔ اور شلوار میں سے لن کو باہر نکالا ۔ جو کہ اب کافی حد تک کھڑا ہو چکا ہے 

اس کی ٹوپی پر اب پانی کے قطرے نظر آنے لگے تھے ۔ مسرت نے اس کو اپنے منہ میں لے لیا ۔ اس کا منہ بھی اس کی پھدی کی طرح بے حد گرم تھا ۔ وہ کبھی منہ کو کھولتی تو کبھی بند کرتی ۔ 

جس نے مجھے یہ بتا دیا کہ اس کو لن چوسنے کا بلکل پتہ نہیں تھا ۔ اور لگتا تھا کہ اس نے۔ کبھی چوستے دیکھا بھی نہیں تھا 

میں نے اس کو کھڑا کیا ، اور اس کی انگلی کو منہ میں لیکر بتایا کیسے چوستے ہیں ۔اور یہ کہ کیسے ہونٹوں اور زبان کا استعمال کرتے ہیں ۔ پھر اس نے جو میرا لن چوسنا شروع تو میں بتا نہیں سکتا کہ میرا کیا حال ہو رہا تھا ۔ شروع میں تو اس کے دانت میرے لن پر لگتے رہے مگر میرے مسلسل کہنے پر اس نے احتیاط کی تو دانت پھر میرے لن پر نہیں لگے ۔ 

کوئی 2 سے 3 منٹ کے بعد اس نے لن منہ سے نکال دیا ۔ کیونکہ اس کا دل خراب ہونے لگا تھا جو کہ اس کے چہرے کے تاثرات اور الٹی آنے والے انداز سے نظر آ رہا تھا 

میرے لیے یہ بھی کافی تھا ۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا وہ کمرے سے باہر چلی گئی ۔ اور کافی دیر بعد واپس آئی تو فرزانہ اور اس کی ماں بھی ساتھ تھیں ۔

اس دوران میں نے اپنا ناڑا باندھ لیا تھا ۔ اور خود کو کنٹرول کرنے لگا ۔ بے شک مجھے اس کا اس طرح چھوڑ کر جانا برا لگا تھا ۔ پر اس کی حالت کے پیش نظر میں نے کوئی بات نہ کی 

سب کے ہاتھوں میں چائے اور کافی سارا کھانے پینے کا سامان تھا ۔  

اس کی والدہ اور سب نے وہ بستر پر رکھ دیا ۔ اور پھر فرزانہ کی والدہ کہنے لگی کہ وہ تو کھانا بنانا چاہتی تھی ۔ پر فرزانہ نے منع کر دیا ۔ اور ہمارے ساتھ بیٹھ کر چائے پینے لگی ۔ ان کے سوال سن کر اندازہ ہوا کہ اگر آپ کے سامنے آپ کے ناپسندیدہ موضوع پر بات ہو اور آپ کو جواب بھی دینا پڑے تو آپ کی حالت کیا ہوتی ہے ۔ 

انہوں نے اپنی بات کا آغاز بھی بھائی کی شادی سے کیا اور اختتام بھی   

کافی دیر ہمارے ساتھ باتیں کر کے وہ سونے کے لیے چلیں گیئں ۔ اور اب میں ، مسرت اور فرزانہ کمرے میں اکیلے رہ گئے ۔ مسرت برتن لیکر جانے لگی 

فرزانہ میرے پاس ا کر بیٹھ گئی ۔ اور کہنے لگی کہ اب تو آپ کو مسرت سے کوئی شکایت نہیں ۔ تو میں نے کہا کہ پہلے بھی نہیں تھی ۔ اور ساتھ پوچھ لیا کہ کیا تم نے اس کو منایا تھا اس کو سب کرنے کے لیے ۔ تو اس نے ہاں میں جواب دیا

میں نے اس کو شکریہ کہا تو وہ خوش ہوگئی اور میرے گلے لگ گئی ۔ میں جان بوجھ کر ایسے ظاہر کیا جیسے اس کے وزن سے پیچھے گر گیا ہوں ، کی ایکٹنگ کرتے ہوئے بستر پر لیٹ گیا ۔ 

اب حالت یہ تھی کہ وہ میرے اوپر لیٹی ہوئی تھی ۔ اس کا چہرہ میرے چہرے پر تھا ۔ اور اس کا سینہ میرے سینے پر تھا ۔ اس دوران میرا لن پھر سے سر اٹھانے لگا کچھ دیر میں اس نے میرے ہونٹوں پر چھوٹی سی کس کی ۔ پھر تو جیسے ہم دونوں ہی پاگل ہو گئے ۔ ایک دوسرے کو ایسے کسنگ کرنے لگے کہ کیا بتاؤں 

پہلے تو ہم کچھ دیر ایک دوسرے کے ہونٹوں کو اوپر اوپر سے چوستے رہے ۔ پھر اس نے پہل کی اور میرے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لیکر چوسنا شروع کر دیا ۔ پھر تو بس یہ کام چل پڑا ۔ پھر کچھ دیر بعد کبھی اس کی زبان میرے منہ میں ہوتی ۔ تو کبھی میری زبان اس کے منہ میں ۔ کبھی وہ اپنی زبان میرے ہونٹوں پر پھیرتی تو کبھی میں اس کے ہونٹوں پر ۔ 

کبھی وہ میرے ہونٹوں اپنے ہونٹوں میں پکڑ کر کھنچتی 

وہ بہت گرم ہو چکی تھی ۔ جس کا اندازہ مجھے اس کی تیز ہوتی سانسوں سے ہوا ۔ جو کہ انتہائی گرم ہو چکیں تھیں ۔ جس کا اندازہ مجھے اپنے چہرے پر آنے والی گرمی سے ہوا ۔ 

دوسری طرف میرا لن اب پورے جوبن پر تھا اور اس کی ٹانگوں کے بیچ میں رگڑے کھا رہا تھا ۔ کہ فرزانہ کا قد چھوٹا ہونے کی وجہ سے اس کی پھدی میرے پیٹ پر تھی ۔ 

میں نے اپنا ہاتھ نیچے کر کے لن کو کو اوپر کی طرف کیا تو لن کی ٹوپی اس کی پھدی سے ٹکرایا ۔ اور جیسے ہی وہ ٹکرایا ۔ فرزانہ کے منہ سے بے اختیار آہ کی آواز نکل۔ اور ساتھ ہی اس کے جسم کو ایک جھٹکا لگا ۔ 

ہم کافی دیر ایسا کرتے رہے ۔ جب بھی میرا لن اس کی پھدی سے ہٹتا تو میں اس کو پھر سے اوپر کر دیتا ۔ 

ایک بار دوسرے ہاتھ نے میرا لن پکڑ لیا اور فرزانہ کی پھدی پر پھیرنا شروع کر دیا ۔ فرزانہ تو اب باقاعدہ آوازیں نکال رہی تھی ۔ جس کا مجھے بعد میں پتہ چلا کہ وہ مسرت نے کیا تھا

اس کے منہ سے آہ آہ ۔ ہمہ ہمہ ہمہ جیسی آوازیں نکل رہی تھی ۔ کافی دیر ایسا کرنے کے بعد اس ہاتھ نے میرا لن چھوڑ دیا ۔ اور ساتھ ہی فرزانہ مجھ سے دور ہو کر لیٹ گئی ۔ 

اس کی آنکھیں بند تھیں ۔ چہرہ جو کہ گلابی پن لیے ہوئے تھا اس وقت لال ہو رہا تھا ۔ اور اس کا سینہ بہت تیز تیز اوپر نیچے ہو رہا تھا 

میں نے اپنا ہاتھ بڑھا کر اس کے ایک ممے پر رکھ دیا اور کپڑوں کے اوپر سے دبانا شروع کر دیا ۔ اس نے فورا اپنا ہاتھ میرے ہاتھ پر رکھ دیا ۔ 

پہکے تو میں سمجھا کہ وہ چاہتی ہے کہ میں اپنا ہاتھ اس کے سینے سے ہٹا لوں ۔ 

پر اس نے اپنے ہاتھ سے میرے ہاتھ کو اپنے ممے پر دبانا شروع کر دیا ۔ 

کچھ دیر میں ایسے ہی اس کے ممے کو دباتا رہا پھر اس کی قمیض کو اوپر کرنا شروع کر دیا ۔ اور اس کی قمیض کو سینے تک اوپر کر کے اس کے مموں کو قمیض کی قید سے آزاد کر دیا ۔ کپڑوں کے نیچے اور مموں پر موجود برا کو بھی اوپر کر دیا ۔ اب اس کے 36 سائز کے ممے ننگے ہو چکے تھے ۔ 

میں نے خود کو فرزانہ کے اوپر کیا ۔ اور اس کے مموں پر جا کر اس کے ایک ممے کو منہ میں لیکر چوسنا شروع کر دیا ۔ 

جیسے ہی میں نے ممے کو منہ میں لیا تو فرزانہ مچلنے لگی ۔ اور اس کا ہاتھ میرے سر پر آگیا۔ ۔ دوسرے ہاتھ سے میں نے اس کے دوسرے ممے کو دبانے لگا ۔ 

اب میں کبھی اس کے ممے کو جتنا ہو سکتا منہ میں لے لیتا ۔ تو کبھی اس کی نیپل کو زبان سے رگڑتا ۔ جو کہ تقریبا چھوٹی انگلی کا چھوتا حصہ کے برابر تھی 

ایسے ہی میں کبھی ایک ممے کے ساتھ کھیلتا تو کبھی دوسرے کے ساتھ ۔ میں کوئی 10منٹ تک اس کے مموں سے کھیلتا رہا 

پھر جب میں خود مچلنے لگا تو میں نے اس کو چھوڑ دیا ۔ تو وہ میرے اوپر آئی اور لمبی اور گہری کسنگ کرنے کے بعد مجھ سے دور ہوگئی ۔ 

اور جیسے ہی وہ دور ہوئی ۔ مسرت جو کہ اس دوران کمرے میں کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی نے ایک بار پھر میرے شلوار کو اتار کر میرے کھڑے لن کو اپنے منہ میں لے لیا 

میں کیا بتاؤں میری اس وقت حالت کیا تھی ۔ اس بار مسرت میرے لن کو بہت اچھے طریقے سے چوس رہی تھی 

اور اس کے مسلسل 5 منٹ تک چوسنے کے بعد باوجود نہ چاہتے ہوئے بھی میں اس کے منہ نہیں ہی فارغ ہو گیا ۔ 

جب تک مسرت کو احساس ہوا میرے لن نے 2 پچکاریاں اس کے منہ میں دے ماری ۔ 

تو مسرت میرے لن کو چھوڑ کر باہر بھاگ گئی ۔ اور میں نے بھی جلدی سے کروٹ لے لی تو میرے لن سے نکلنے والی باقی منی بستر پر گرنے لگی 

فارغ ہونے کے بعد میں نے چادر سے لن پر لگنے والی منی کو صاف کیا ۔ اور شلوار باندھ کر واش سے ہو کر آیا تو فرزانہ اور مسرت نے اس وقت تک چادر بدل دی ہوئی تھی 

میں نے مزید ایک گھنٹہ ان کے ساتھ گذارتا اور پھر فرزانہ سے اس ٹیچر کے گھر کا پوچھا تو اس نے ایڈریس سمجھا دیا ۔ مگر مسرت کہنے لگی کہ آپ ایسی حالت میں جاؤں گے ان کے گھر ۔ تو میں نے ہاں کہہ دی ۔ 

اور اس ٹیچر فاطمہ ، جس کا نام مجھے ابھی پتہ چلا تھا کے گھر گیا ۔ اور کچھ دیر پڑھا کر جب گھر پہنچا تو تینوں چڑیلوں کا منہ بنا ہوا تھا

مگر میرے بتانے پر کہ میں اب بلکل فارغ ہوں ۔ اور ایک نئی ٹیوشن پڑھا کر بھی آ گیا ہوں ۔ اب ہم گھومنے کا سکتے ہیں تو وہ خوش ہو گئیں 

اتنے میں مجھے والد کا پیغام ملا کہ وہ بلا رہیے ہیں ۔ 

جب میں ان کے پاس گیا تو انہوں نے جو کہا وہ سن کر مجھے زیادہ جھٹکا لگا ۔ انہوں نے صاف کہا کہ ایک تو میں اپنی موٹر سائیکل کو سنبھالوں اور دوسرے آئندہ سے میں اپنی پوری تنخواہ گھر پر نہ دوں ۔ اپنے لیے بھی کچھ بچا کر رکھوں 

میں بچوں اور تینوں چڑیلوں کو لیکر جوائے لینڈ آ گیا ۔ وہاں پر جب ایک بار آصفہ ، بچوں کو لیکر جھولے پر گئی تو چاچی نے کہا کہ تمھیں پتہ ہے کہ آصفہ تمھیں پیار کرتی ہے ۔ 

تو میں نے چونک کر انہیں

 دیکھا ۔ تو وہ بولی کہ یہ سچ ہے ۔ 

میں نے پوچھا کہ آپ کو کیسے پتہ چلا



جاری ہے

Post a Comment

0 Comments