ads

Zindagi ke Rang - Episode 12

زندگی کے رنگ 

قسط نمبر 12 



میں نے پوچھا کہ آپ کو کیسے پتہ چلا

جس پر رخسانہ بولی کہ اس نے مجھ سے پوچھا تھا کہ کیا میں اور تم پیار کرتے ہیں ۔ اور جب میں نے انکار کرتے ہوئے اس کو بتایا کہ میری منگنی میری پسند سے ہو چکی ہے اور جلد شادی ہونے والی ہے

تو اس نے میرے پوچھنے پر مان لیا کہ وہ 2 سال سے تمھیں پسند کرتی ہے ۔ اور اب تو بے حد پیار کرتی ہے

تو میں چپ کر گیا ۔ وہیں رخسانہ نے چاچی کے سامنے کہا کہ آج رات ان کی ہمارے گھر آخری رات ہے ۔ کل وہ واپس چلے جائیں گے 

تو میں نے کہا پھر آج رات

تو چاچی نے میرے سر پر تھپڑ دے مارا 

مگر رخسانہ نے ہاں کہہ دیا ۔ 

ہم وہاں سے کھانا کھانے گئے ۔ رات کو کافی دیر سے گھر پہنچ گئے ۔ اس دوران میں آصفہ کو بغور دیکھتا رہا ۔ اور مجھے بھی لگا کہ رخسانہ اور چاچی کی بات درست ہے 

گھر جاتے ہی سب سے پہلے میں نے اپنی موٹر سائیکل کی چابی اپنے قبضے میں کی اور اس لاک کر کے اوپر چلا گیا 

کیونکہ ابھی تک میرے کمرے میں ماموں لوگوں کی رہائش تھی 

اب مجھے رخسانہ کا انتظار تھا ۔ کیونکہ راستے میں میں نے ایک بار پھر مانع حمل گولیاں لے لی تھیں ۔ 

مگر وہ تھی کہ۔ ہی نہیں رہی تھی ۔ اور ایسے ہی ساری رات گزر گئی مگر وہ نہ آئی 

جانے سے پہلے رخسانہ نے مجھے اپنا ایک ایڈریس دیا ۔ اور کہا کہ میں بھی کوئی ایڈریس دوں تو میں نے ایک دوست جس کی کاسمیٹکس کی دوکان تھی کا ایڈریس دے دیا ۔ 

میرے پوچھنے پر کہ وہ رات کیوں نہیں آئے تو اس نے بتایا کہ خالہ ساری پتہ نہیں کب تک جاگتی رہی ۔ اس لیے وہ نہ ا سکی ۔ 

اور نہ جانے میں کب سو گئی 

اور اس دن وہ لوگ صبح صبح چلے گئے ۔ 

جیسے ہی 8 بجے تو گھر میں ایک نیا ہنگامہ کھڑا ہو گیا ۔ کیونکہ بھائی کو موٹر سائیکل کی چابی نہیں مل رہی تھی ۔ اور جب ان کو پتہ چلا کہ چابی میں نے اٹھا لی اور اور موٹر سائیکل کو لاک کر دیا ہے ۔ 

مگر اصل ہنگامہ تو تب شروع جب میں نے کہا کہ آج کے بعد جتنے پیسے باقی بھائی گھر میں خرچے کے دیتے ہیں ۔ اتنے ہی میں دوں گا ۔ 

ان کو معلوم نہیں تھا کہ یہ سب مجھے والد صاحب نے کہا تھا ۔ اور وہ یہ بات والد صاحب تک لے گے ۔ مگر آگے سے انھیں جو جواب ملا ۔ اس کی ان سب کو توقع نہیں تھی 

والدہ اس سب کے دوران خاموش تھیں کہ انھیں مجھ سے ایسے رویے کی امید نہیں تھی ۔ 

میں نے موٹر سائیکل نکالی اور سکول چلا گیا ۔ اس دوران کوئی 5 دن گزر گئے ۔ 

میں اب سیکس کرنے کے لیے بے تاب ہو رہا تھا ۔ اور آخر کار چھٹے دن میں نے فرزانہ کو صاف کہا کہ میں اس کو چودنا چاہتا ہوں تو اس نے مجھ سے ایک دن کا وقت مانگا جو میں نے دے دیا 

اگلے دن اس نے مجھے جمعرات والے دن کا کہا کہ اس سکول ٹائم کے وقت وہ جا سکتی ہے ۔ اور ہم نے 3 دن کے بعد کا وقت فائنل کر لیا میں اب فرزانہ سے ملنے کے لیے بے قرار تھا ۔ مگر اس سے پہلے کہ جمعرات آتی ۔ گھر میں ایک نیا ہنگامہ کھڑا ہو گیا ۔ جب میں بدھ والے دن سکول سے واپس آیا تو بھابی صاحبہ نے شور مچا دیا کہ اس کی سونے کی چین گم ہو گئی ہے ۔ 

مگر شکر یہ ہوا کہ جس وقت کی اس نے بات کی اس وقت تک سب مہمان جا چکے تھے سوائے آصفہ کہ ۔ کیونکہ اس کو امی نے روکا تھا ۔ مگر مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ کیوں ۔ 

اور آصفہ کی حالت اس وقت بہت خراب تھی ۔ کیوں کہ اس کو لگ رہا تھا کہ اب اس چوری کا الزام اس پر لگے گا ۔ 

مگر اس سے پہلے ہی بھابی نے وہ الزام مجھ پر لگا دیا ۔ کہ جب وہ نہا کر نکلی تو ان کے بعد میں واش روم میں گیا تھا 

اس دن گھر میں ایسا ہنگامہ ہوا کہ امی جو آصفہ کے بھائی کا انتظار کر رہی تھیں نے مجھے کہا کہ میں اس کو واپس گاوں چھوڑ آؤں ۔ 

میں اب بری طرح پھنس گیا تھا کہ اگلے دن کا پروگرام تھا ۔ اور میں نے کوثر کو بھی کہہ دیا تھا کہ روم خالی رکھے ۔ اور ادھر یہ مسلہ 

میں نے بہت سوچ کر ایک پروگرام فائنل کیا ۔ اور ٹکٹس کروانے کا کہہ کر گھر سے نکل گیا ۔ 

واپس آیا تو اگلے دن 3 بجے کی ٹکٹس میرے پاس تھیں ۔ امی کو کچھ سچ اور کچھ جھوٹ بول کر میں فرزانہ کے گھر گیا تو وہاں ایک نیا مسلہ سامنے آ گیا 

کہ فرازانہ کو نہ جانے کیوں وقت سے پہلے ہی مخصوص دن شروع ہو گئے تھے ۔ جس کا مجھے بہت بعد میں پتہ چلا کہ اگر عورت کو بہت زیادہ ٹینشین ہو تو اس کو وقت سے پہلے بھی مخصوص دن شروع ہو جاتے ہیں

میں شدید غصے میں وہاں سے نکلا کیونکہ اس میں فرزانہ کا بھی قصور نہیں تھا ۔ مگر میں اس کو چودنے کے لیے بے تاب تھا

اور پھر پی سی او سے فون کر کے کوثر کو ساری بات بتائی ۔ تو اس نے مجھے آفر دی کہ اگر میں چاہوں تو وہ لڑکی کا بندوبست کر سکتی ہے

پر میں نے اس سے معذرت کر لی ۔ اور ٹیچر فاطمہ کے گھر اس کی کزنوں کو پڑھانے چلا گیا ۔ 

اس دن فاطمہ بچیوں سے پہلے آ کر بیٹھ گئی اور مجھ سے گپ شپ کرنے لگ گئی ۔ اور کوئی آدھا گھنٹہ گزرنے کے باوجود بچیاں نہ آئیں 

تو میں نے پوچھ ہی لیا کہ بچیاں تو وہ بولی کیوں آپ کو مجھ سے باتیں کرنا اچھا نہیں لگ رہا ۔ تو میں بھی جو سیکس کے لیے تپ رہا تھا نے اس کو اس نظر سے دیکھنا شروع کر دیا

کیونکہ یہ تو مجھے معلوم تھا کہ وہ سکول مالک سے چدواتی ہے ۔ 

مگر سمجھ نہیں آتی تھی کہ وہ اچھی خاصی خوبصورت ۔ دراز قد ۔ سمارٹ اور پڑھیں لکھی تھی اور دوسری طرف سکول مالک ۔ 

وہ مہاورہ اس پر فٹ آتا تھا کہ منہ نہ متھا ۔ جن پہاڑوں لتھا

اور اس دن میرے اور مس فاطمہ کے درمیان بہت اچھی دوستی ہو گئی ۔ حتی کہ میں نے اس سے صاف پوچھ لیا کہ وہ سکول مالک کے ساتھ کیوں ۔ 

تو فاطمہ نے پہلے تو خاموشی اختیار کی مگر میرے زور دینے پر بتایا کہ اس کی مجبوری ہے ۔ اس کا باپ نہیں ہے اور گھر میں کمانے والا بھی کوئی نہیں ہے ۔ ایک چھوٹا بھائی اور ایک بہن ہے جو کالج میں پڑھتے ہیں ۔ اور نہ ہی یہ گھر اس کا ہے ۔ اس کا گھر اگلی گلی میں ہے 

سکول مالک اس کو چودنے کے بدلے پیسے بھی دیتا ہے ۔ اور تنخواہ بھی باقی ٹیچروں سے زیادہ ہے ۔ یہ سب بتاتے ہوئے اس کے چہرے پر افسردگی بھی تھی اور آنکھوں سے گرتے آنسو بھی ۔ اور یہ بھی کہ اگر وہ اس سے چدوانے سے انکار کرتی ہے تو وہ اس کو سکول سے نکال دے گا 

یہ بھی کہ یہ ان کے رشتے داروں کا گھر ہے ۔ اور وہ صرف میری وجہ سے آج آئی ہے۔ کیونکہ بچیاں بازار گئیں ہیں ۔ تو وہ مجھے کمپنی دے ۔

میرے پوچھنے پر کہ اس نے مجھے یہ ٹیوشن کیوں دی ۔ وہ خود بھی تو پڑھا سکتی تھی ۔ اس پر اس نے جواب دیا کہ اس کے رشتے دار چاہتے تھے کہ وہ بچیوں کو فری پڑھا دے ۔ 

پر اس نے جان بچانے کے لیے کہا کہ بچیاں اس سے بہت زیادہ فری ہیں تو وہ اس سے نہیں پڑھیں گئ۔ کونکہ مفت پڑھانے کے باوجود اگر رزلٹ اچھا نہ آتا تو اس کی بے عزتی ہوتی کہ اس نے جان کر اچھا نہیں پڑھایا ۔ 

اس لیے گھر والوں نے اس کے کہنے پر مجھے پڑھانے کے لیے رکھا ہے

سب بتانے کے بعد میں نے اس کو کہا کہ اگر میں آپ سے دوستی کرنا چاہوں تو 

وہ بولی کہ کیسی دوستی ۔ سچی دوستی یا مطلب کی 

تو میں چپ ہو گیا کہ میرے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں تھا ۔ کیونکہ میں تو بس اس کو چودنے کے لیے دوست بنانا چاہتا تھا

اتنے میں بچیاں بھی آ گئیں ۔ تو میں ان کو پڑھانے میں لگ گیا ۔ اور وہاں سے فارغ کو کر گھر پہنچا تو صبح والا تماشا جاری تھا 

میں نے اس کا اثر نہیں لیا ۔ کیونکہ والد اور والدہ نے بھابی کو صاف کہہ دیا تھا کہ وہ اپنی چین تلاش کرے ظفر یا کوئی اور ایسا نہیں کر سکتا

مگر بھابی کی چیں چیں تھی کہ بند ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی 

میں کھانا کھا کر چھت پر چلا گیا ۔ اور سوچنے لگا کہ واپس آ کر پھر سے گیم شروع کر دوں تو گھر بھی کم رہوں گا ۔ اور زندگی بھی بہتر ہو جائے گی 

ابھی میں یہ سوچ رہا تھا کہ آصفہ نے چھت پر آ کر مجھے کہا کہ امی بلا رہی ہے مجھے 

تو میں نیچے چلا گیا ۔ جہاں امی نے مجھے کچھ پیسے دیے کہ صبع گھر سے جلدی نکل جانا اور آصفہ کو شاپنگ کروا دینا 

تو میں جی کہہ کر باہر چلا گیا ۔ باہر آصفہ کچن میں سامان سمیٹ رہی تھی ۔ میرے پوچھنے پر کہ چائے مل جائے گی ۔ تو اس نے کہا کہ وہ ابھی بنا کر دیتی ہے 

میں یہ سن کر چھت پر چلا گیا ۔ اور پھر چائے آنے تک میں ان دنیاوی رشتوں کے بارے میں سوچتا رہا 

آصفہ کب آئی ۔ کب چائے دے کر چلی گئی ۔ کب میں نے چائے پی ۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں تھی

بس میں رشتوں کے جال میں الجھا ہوا رہا

کبھی اپنے ماضی میں چلا جاتا ۔ تو کبھی فاطمہ کی باتیں یاد کر کے سوچتا رہا

کہ مجھے اپنے استاد یاد آ گئے ۔ جنہوں نے مجھے چھٹی کلاس میں ایک غلط حرکت کرنے سے پہلے پکڑ لیا تھا 

اور بجائے سزا دینے کے مجھ سے اپنے مخصوص انداز میں سب کچھ پوچھ لیا کہ میں اس گندے کام میں کیسے جا رہا ہوں ۔ اور پھر جو انہوں نے مجھے گائیڈ کیا تو نہ صرف اس وقت میں گناہوں سے بچ گیا 

بلکے اگر سچ کہوں تو آج میں جو بھی ہوں اس میں رانا صاحب ۔ میرے استاد محترم کا بہت بڑا ہاتھ ہے 

اور یہ سب سوچتے سوچتے نہ جانے کب میں سو گیا 

اگلے دن میں کچھ دیر کے لیے سکول گیا ۔ سکول مالک تو موجود نہیں تھا ۔ اس لیے مس فاطمہ کو 3 دن کی آگے جمعے کے بعد کی چھٹی کا بتا کر گھر آ گیا ۔ 

اور آصفہ کو لیکر بازار چل دیا ۔ اور وہاں سے سامان لے کر جب ہم فارغ ہوئے تو 1 بج چکا تھا۔ ہم وہاں سے نکل کر بس اسٹینڈ پر پہنچ گئے ۔ جہاں پارکنگ میں موٹر سائیکل کھڑی کی اور اسٹینڈ والے کو بتا دیا کہ میں 4 سے 5 دن بعد واپس آؤں گا

راستے میں ہمارے درمیان کوئی خاص بات نہ ہوئی ۔ رات 9 بجے جب بس اسٹینڈ پر اترے تو آصفہ کا بھائی ہمارا انتظار کر رہا تھا کہ ان کا گاؤں اس شہر سے کوئی 18 کلو میڑ دور تھا ۔ اب صورتحال یہ تھی کہ آصفہ کا بھائی موٹر سائیکل چلا رہا تھا

اس کے پیچھے میں تھا اور میرے پیچھے آصفہ ۔ آصفہ نے مجھے پکڑ رکھا تھا ۔ اور اس کا سینہ بھی مجھ سے ٹچ ہو رہا تھا 

مگر میں خود کو کنٹرول کرنے کی کوشش میں لگا ہوا تھا ۔ ایک میں نے جینز کی پینٹ پہنی ہوئی تھی جس کی وجہ سے میرا لن نیم کھڑا ہونے کے باوجود آصفہ کے بھائی کو محسوس نہیں ہو رہا تھا ۔ 

مگر ایک چیز میں نے محسوس کی کہ کچھ ہی دیر میں آصفہ کا جسم اور اس کی سانسیں گرم ہو چکی تھیں 

اور جب تک ہم گھر پہنچے ۔ مجھے واضع محسوس ہو گیا تھا کہ آصفہ چونکہ مجھ سے چمٹ کر بیٹھی تھی ۔ اور سڑک کی حالت بھی کچھ اچھی نہیں تھی اس لیے ہر جھٹکے یا جمپ پر اس کا سینہ مزید میری کمر میں یا تو گھس سا جاتا ۔ یا وہ ہلکا سا اوپر سے نیچے دونوں طرف رگڑ کھاتا ۔ 

خیر کوئی 15 منٹ کے سفر کے بعد ہم آصفہ کے گھر پہنچ گئے ۔ جہاں اس کے 2 بھائیوں کے ساتھ ساتھ اس کے والدین بھی ہمارا انتظار کر رہے تھے ۔


جاری ہے

Post a Comment

0 Comments