ads

Zindagi ke Rang - Episode 13

زندگی کے رنگ 

قسط نمبر 13 



کیونکہ شادی پر اس کا ایک بھائی اور والدین آئے تھے ۔ مگر جب وہ واپس جانے لگے تو میری والدہ نے آصفہ کو یہ کہہ کر روک لیا تھا کہ بچی شادی میں صرف کام کرتی رہی ہے ۔ اب اس کو چند دن رہنے دو گھوم پھیر کر واپس جائے گی

اور اب امی نے صبح ہی کال کر کے ان کو بتا دیا تھا کہ ظفر ، آصفہ کو لیکر آ رہا ہے ۔ وہ بھی ایسے کہ رات کو پہنچے گا

خیر پہلے تو ہم نے کھانا کھایا ۔ پھر آصفہ کی امی کے سوال پر میں نے ان کو ساری حقیقت بتا دی کہ کیسے بھابی نے سونے کی چین چوری ہونے کی بات کی ۔ تو امی نے اس وجہ سے کہ کل کو وہ بچی پر الزام نہ لگا دے ۔ اس لیے مجھے حکم دیا کہ میں اس کو واپس چھوڑ آؤں 

اتنے میں آصفہ چائے بنا کر لے آئی ۔ اور ساتھ ہی اپنا بیگ بھی ۔ اور وہاں سے لائے ہوئے کپڑے جو اصل میں اس نے خود خریدے تھے ۔ میرے نام سے کہ میں نے لیکر دیے ہیں ۔ اپنی امی اور ابو کو دئیے ۔ جس پر مجھ شرمندگی ہوئی ۔ مگر اس وقت تک مجھے رشتوں کو نبھانے کا ۔ اور کسی کے گھر خالی ہاتھ نہیں جاتے کا پتہ نہیں تھا

خیر سب اٹھ کر سونے چلے گے ۔ اور میں اور آصفہ کا بھائی ان کی بیٹھک میں سو گئے۔ جہاں میں آصفہ کے گھر والوں کے رویے کو سوچتا ہوا ۔ کافی دیر تک جاگتا رہا

اگلے دن میں کافی دیر سے جاگا ۔ باہر نکلا تو دیکھا کہ آصفہ کی ماں اور آصفہ ہی گھر پر تھیں ۔ باقی سب گھر سے باہر جا چکے تھے ۔ 

آصفہ نے مجھے باہر آتے دیکھ کر فورا ناشتے کا بندوبست کرنا شروع کر دیا ۔ میں نہا کر آصفہ کی والدہ کے پاس جا کر بیٹھ گیا ۔ 

جہاں مجھے معلوم ہوا کہ آصفہ کا والد اور سب سے چھوٹا بھائی ان کی زمینوں پر گئے ہیں جہاں پر گندم کی فصل تیار ہو رہی تھی۔ اور کچھ سبزیاں بھی کاشت کی ہوئی تھیں 

دوسرا بھائی فیصل آباد جا چکا تھا ۔ جہاں سے وہ ٹیکسٹائل میں انجینئرنگ کا ڈپلومہ کر رہا تھا۔ اور یہ اس کا پہلا سال تھا

جب کے سب سے بڑے بھائی نے شہر میں الیکٹرونکس کی دوکان بنائی ہوئی ہے ۔ اور وہ صبح ہی دوکان پر چلا گیا تھا 

میرے لیے پیغام تھا کہ دل کرے تو دوکان پر آ جائے ۔ ناشتہ دیکھ کر دل خوش ہو گیا ۔ پراٹھا ، لسی ، تازہ مکھن ، اچار 

میں ڈٹ کر ناشتہ کیا اور صحن میں ہی چارپائی پر لیٹ گیا کیونکہ دھوپ بہت اچھی تھی ۔ اور دوسرا یہ کہ میرا کوئی موڈ نہیں تھا بسوں میں دھکے کھانے کا

کیونکہ سچ یہ بھی ہے کہ مجھے بسوں میں سفر کرنا پسند نہیں ۔ مگر میری قسمت میں اتنا ہی بسوں میں سفر کرنا لکھا ہوا تھا 

اتنے میں آصفہ کے ابو اور بھائی بھی واپس آ گئے ۔ تو پتہ چلا کہ آصفہ کا بڑا بھائی آج موٹر سائیکل گھر چھوڑ گیا تھا ۔ جس کی مجھے بہت خوشی ہوئی کہ دیکھو خود بسوں پر گیا ۔ اور میری آسانی کے لیے موٹر سائیکل گھر چھوڑ دی

کچھ دیر سب کے ساتھ گپ شپ کرنے کے بعد میں نے شہر جانے کا سوچا تو آصفہ نے اپنی ماں سے کہا کہ اس نے ایک تو تصویریں کھنچوائی ہیں ۔ اور دوسرا وہ اپنی دوست سے اس کی غیر حاضری کے دوران ہونے والے کام کا بھی پتہ کر لے گی

میں نے کہا ٹھیک ہے تم ہو آؤ ۔ جب تم واپس آؤ گی تو میں چلا جاؤں گا

مگر اس کی اگلی بات سن کر میں نہ صرف خاموش ہو گیا ۔ بلکے حیرانگی سے اس کبھی اس کی ماں کو دیکھتا تو کبھی باپ کو دیکھنے لگا

اس نے کہا تھا کہ ابو سے اب اتنی موٹر سائیکل نہیں چلتی اور بھائی کو مین روڈ پر موٹر سائیکل لے کر جانے کی اجازت نہیں ۔ 

اس لیے اگر میں برا نہ مناؤں تو اس کو لے جاؤں 

میں نے ابھی کوئی جواب نہیں دیا تھا ۔ کہ اس کے ابو بولے کے بھائی ہو اگر لے بھی جاو گے تو کوئی مسلہ نہیں۔ لیکن اگر میرا دل نہیں مان رہا تو آصفہ تمھارے ساتھ نہیں جائے گی ۔ تم اکیلے شہر چلے جانا۔ ویسے بھی دوکان 3 بجے تک بند کر دی جاتی ہے جمعے کو 

تو تم ایا کرنا واپسی پر بھاٸ کو بھی لیتے آنا میں نے ہاں کر دی کہ کوئی بات نہیں ۔ مجھے کون سا کوئی کام ہے ۔ 

اور کچھ دیر میں آصفہ نے سادہ سے کپڑے پہنے ۔ چادر لی اور تیار ہو کر آ گئی 

میں نے بھی اتنی دیر میں رات کو سونے کے لیے جو شلوار قمیض پہنی تھی ۔ بدل کر دوبارہ جینز کی پینٹ اور شرٹ پہن لی ۔ 

اور پھر ہم وہاں سے نکل کر شہر کی طرف چل پڑے ۔ لیکن جانے سے پہلے میں نے آصفہ سے پوچھ لیا کہ راستے تو معلوم ہیں کہ نہیں ۔ 

اس کے ہاں کہنے پر میں بھی کافی پرسکون ہو کر گھر سے نکل پڑا 

شروع میں تو آصفہ مجھ سے کافی پیچھے ہٹ کر بیٹھی ۔ مگر جیسے ہی گاؤں کی حدود ختم ہوئی تو وہ کھسک کر میرے پاس ہو گئی ۔ اور اپنا ہاتھ میرے کندھے پر رکھ دیا ۔ 

اور میرے کان کے پاس اپنا منہ لا کر بولی ۔ کہ کس بات کی جلدی ہے جو اتنا تیز موٹر سائیکل چلا رہے ہو 

تو میں نے موٹر سائیکل کی رفتار بلکل کم کر دی کہ اب ٹھیک ہے ۔ 

تو وہ بولی ہاں ۔ 

پھر کچھ دیر کے بعد اس نے اپنا ہاتھ کندھے سے ہٹا کر میرے پیٹ کے اوپر جیسے لپٹا دیا ۔ اور اپنا سر میرے کندھے کے ساتھ لگا دیا ۔ اور ساتھ ہی اس کے نرم و گرم مموں نے میری کمر کو چھوتے ہوئے ۔ اپنی موجودگی کا احساس دلایا

اور کچھ دیر بعد وہ بولی ۔ کہ مجھے پتہ ہے کہ آپ کو چاچی اور رخسانہ نے بتا دیا ہے کہ میں آپ کو پسند کرنے لگی ہوں ۔ اب آپ چاہوں تو میرا ہاتھ تھام لو ۔ یا مجھے چھوڑ دو 

جیسے آپ کی مرضی اور خوشی ہو گی ۔ میں ویسے ہی کروں گی 

میں کچھ دیر تو چپ رہا پھر اس کو پوچھا کہ کیا یہاں ایسی کوئی جگہ ہے جہاں ہم سکون سے بات کر سکیں ۔ تو وہ بولی ایک نہر کا کنارہ ہے ۔ پر وہاں دیکھ لینے کا ڈر ہے ۔ دوسرا اس کی دوست کا گھر ۔ 

ہو سکتا کہ دوست کے گھر والے گھر پر نہ ہوں ۔ کیونکہ وہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی ہے ۔ اور اس کا کوئی بھائی بہن بھی نہیں 

اگر اس کی ماں بھی ہوئی تو بات ہو جائے گی ۔ کہ باپ سرکاری ملازم تھا زراعت کے محکمے میں۔ تو جب دل کرتا تھا جاتا تھا ۔ ورنہ گھر پر ہی رہتا تھا

تو میں نے کہا ٹھیک ہے وہیں چل کر بات کرتے ہیں ۔ اگر موقع مل گیا تو

ہم پہلے فوٹو سٹوڈیو گئے ۔ وہاں تصویریں کھنچوائیں ۔ اور وہاں سے اس کی دوست کے گھر گئے۔ راستے میں آصفہ نے مجھے اپنے بھائی کی دوکان بھی دکھا دی ۔

دوست کے گھر جا کر معلوم ہوا کہ اس کا باپ تو کیا ماں بھی گھر پر نہیں ہے ۔ اور شام تک آنے کی امید بھی نہیں ہے ۔ 

مجھے ان کی بیٹھک میں بٹھا کر وہ دونوں اندر چلے گئیں ۔ اس دوران میں نے اس کی دوست کو دیکھا تک نہیں ۔ کیونکہ مین دروازہ بجانے پر آصفہ کی آواز سن کو جو دروازہ کھلا تو آصفہ اندر چلی گئی 

اور پھر آصفہ ہی نے بیٹھک کا دروازہ کھولا ۔ اور مجھے اندر بلا لیا۔ 

اور خود وہ پھر سے گھر کے اندر چلی گئی ۔ اور کوئی 15 منٹ کے انتظار کے بعد دروازہ کھلا ۔ پہلے ایک ٹرے لیکر آصفہ اندر آئی ۔ اور پھر اس کی دوست ۔ 

ٹرے میں چائے کا سامان اور ساتھ بسکٹ ، نمکو وغیرہ بھی تھی ۔ 

میں اس کی دوست کو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ آصفہ خود کافی خوبصورت لڑکی تھی ۔ جبکہ اس کی دوست کا رنگ حد سے زیادہ سانولا تھا

خیر اتنے میں آصفہ کی دوست نے مجھے سلام کیا ۔ اور کہا کہ بھائی آپ سے مل کر بہت اچھا لگا ۔ اور خاص کر یہ سن کر کہ آپ اور آصفہ ایک دوسرے کو پسند کرتے ہو ۔ 

میں حیران و پریشاں چپ کر کے بیٹھا رہا کہ میرے پاس اس کی ان تمام باتوں کا کوئی جواب نہیں تھا

وہ باتونی لڑکی کافی دیر تک اپنے اور آصفہ کے بارے میں بتاتی رہی کہ کیسے ان کی دوستی ہوئی ۔ اور اب وہ دونوں 2 جسم 1 جان ہیں ۔ آصفہ میں کون کون سی اچھی عادتیں اور کون کون سی بری عادتیں پائی جاتیں ہیں ۔ وغیرہ وغیرہ 

کچھ دیر بعد وہ اندر چلی گئی ۔ اس دوران ہم نے چائے بھی پی ۔ اور اس نے مجھے زبردستی کافی کچھ کھلایا بھی ۔

جب وہ اندر چلی گئی تو میں نے آصفہ سے پوچھا کہ یہ سب کیا ہے ۔ تو اس نے کہا کہ مانا کہ یہ آدھا جھوٹ ہے ۔ مگر میں آپ سے سچ میں پیار کرتی ہوں 

اپ کی تمام اچھائیوں اور برآئیوں سمیت

میرے پوچھنے پر کہ کون سی برائیاں تم نے میرے اندر دیکھی ہیں 

جب اس نے یہ بتایا کہ جب رات کو رخسانہ آپ سے چدوا کر آئی تو میں نے اس کو اوپر جاتے ۔ آپ کے بستر میں گھستے ۔ اور پھر واپس آتے بھی دیکھا

نیز آپ تو سب کرنے کے بعد ننگے ہی سو گئے تھے ۔ اور صبح جب چاچی نے اس کو مجھے اٹھانے بھجا تو اس نے مجھے ننگا دیکھ کر واپسی کی راہ لی ۔ بجائے مجھے جگانے کے

میں یہ سب سن کر حیران رہ گیا کہ اگر اس کو پتہ ہے ، چاچی کو پتہ ہے تو نہ جانے کس کس کو پتہ ہو گا 

کچھ دیر میں چپ رہا کیونکہ میرے دماغ میں یہ سب ہی چل رہا تھا۔

پھر میں نے اس سے پوچھا کہ یہ سب جان کر بھی تم مجھ سے پیار کرتی ہو ۔ 

تو وہ بولی کہ ہاں ۔ جب کسی سے سچا پیار ہو جائے تو اس کی تمام خامیاں ، برائیاں سب چھپ جاتی ہیں 

ہاں میں آپ کو بے انتہا پیار کرتی ہوں آج سے نہیں 2 سال سے ۔ جب آپ کو پہلی بار آپ کے گاؤں میں دیکھا تھا ۔ ایک شادی پر 

آپ صرف 2 دن کے لیے آئے تھے ۔ پر آپ میرا دل لے گے

احساس اب ہوا ، خاص کر جب بھائی نے آپ کو تھپڑ مارا ۔ مگر آپ بدلے کی طاقت رکھتے ہوئے بھی چپ رہے

اس دن پتہ چلا کہ خاندان میں آپ کے بارے میں جو کچھ کہا ، سنا جاتا ہے ۔ سب جھوٹ پر مبنی ہے 

میں آپ کے لیے سب کچھ کر سکتی ہوں ۔ مگر آپ کو اپنا جسم ، اپنی عزت شادی سے پہلے نہیں دے سکتی ۔ 

چاہے آپ مجھے پسند کریں یا ابھی انکار کر دئیں ۔ 

بس آپ کا جو بھی جواب ہو ۔ مجھے دے کر جانا کہ انتظار دنیا کی سب سے بری چیز ہے 

اور میں آپ کے جواب کا انتظار نہیں کر سکوں گی 

یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو تھے ۔ اور پھر وہ اٹھ کر اندر چلی گئی 

میں بہت دیر تک خاموش بیٹھا اس بارے میں سوچتا رہا ۔ پھر اٹھ کر ہلکا سا دروازہ بجایا ۔ 

تو اندر سے آصفہ کی بجائے اس کی دوست نکلی ۔ تو میں نے اس کو کہا کہ میں آصفہ کے بھائی کی دوکان پر جا رہا ہوں ۔ 

دوکان سے گھر تک ۔ میں بس آصفہ کے بارے میں سوچتا رہا ۔ مگر کسی فیصلے پر نہ پہنچ سکا ۔ 

اسی الجھن میں رات ہو گئی ۔ رات کے کھانے پر میں نے ان لوگوں کو بتایا کہ میں کل واپس چلا جاؤں گا ۔ کیونکہ میرا پروگرام تھا کہ میں وہاں سے رخسانہ کے گاؤں جاؤں اور کوئی 2 دن اس کے ساتھ گذاروں ۔ اور جب بھی موقع ملے اس کو چود ڈالوں 

مگر مجھے کہا گیا کہ میں کم از کم 2 دن تو ان لوگوں کے ساتھ مزید گذاروں ۔ 

تو میں خاموش ہو گیا ۔ ساتھ ہی مجھے آصفہ کے بھائی نے کہا کہ یار جب تک تم یہاں ہو ۔ میرا ایک کام کر دیا کرو ۔ 

میں نے کہا کیوں نہیں اگر کر سکتا ہوا تو ضرور کروں گا 

تو وہ بولا کہ آصفہ کو کالج لیکر جانے اور واپس لانے کی ذمہ داری آج سے جب تک تم یہاں ہو تمھاری ۔ اگر دل کرے تو اس کو کالج چھوڑ کر تم واپس آ جانا ۔ یا میرے پاس دوکان پر آ جایا کرنا ۔ اور چھٹی کے بعد لیکر گھر آ جایا کرنا 

تو میں نے اس کے جواب میں خاموشی اختیار کر لی ۔ کہ اب اس کا کیا جواب دوں 

میری خاموشی کو انہوں نے شاید میری رضا مندی سمجھا ۔ اور دوبارہ اس موضوع پر کوئی بات نہیں ہوئی ۔ 

کھانا کھا کر میری عادت کچھ چلنے کی تھی تو میں گھر سے باہر جانے لگا تو آصفہ کا چھوٹا بھائی ساتھ ہو لیا ۔ اور ہم کوئی آدھے گھنٹے بعد واپس آئے تو آصفہ نے کہا کہ کدھر گئے تھے ۔ بھائی آپ کا انتظار کر کے ابھی دوستوں کی طرف گئے ہیں ۔ اور آپ کے لیے پیغام ہے کہ جب آپ آؤ تو ان کے پاس آ جانا



جاری ہے

Post a Comment

0 Comments