زندگی کے رنگ
قسط نمبر 14
میں نے کہا اچھا کپڑے بدل کر جاتا ہوں ۔ اور کپڑے بدلنے کے لیے بیٹھک میں چلا گیا ۔
کپڑے بدل کر میں چارپائی پر بیٹھا ہی تھا کہ آصفہ نے کمرے کا دروازہ بجایا ۔ اور میرے جواب دینے پر اندر آ گئی ۔
میں نے پوچھا کہ دروازہ بجانے کی کیا ضرورت تھی ۔ تو وہ بولی آپ کپڑے بدل رہے تھے ۔ تو میں نے کہا یار تم نے تو جو چھپانے والی چیز تھی پہلے ہی دیکھ لی تھی ۔ پھر شرما کیوں رہی ہو
اس کا چہرہ یہ سنتے ہی لال ہو گیا ۔ اور اس کی بولتی بند ہو گئی ۔ میں اٹھ کر اس کے پاس گیا ۔ اور اس کو کندھوں سے پکڑ کر اپنے پاس کیا اور اس کو پوچھا کہ تم نے کہا کہ تم میرے ساتھ سیکس نہیں کرو گی ۔
کیا میں اگر کچھ اور مانگوں تو ۔ دو گی
تو اس نے پہلے تو خاموشی اختیار کی ۔پھر میرے دوبارہ پوچھنے پر کہ کچھ تو جواب دو ۔ تو اس نے پھر بہت آہستہ سے بولی
کہ ایک حد تک آپ جو کہو گے ۔ جو مانگو گے میں دوں گی ۔
پر پلیز ایسا کچھ نہیں کرو گے کہ جس سے میں اپنی عزت گنوا دوں
میں آپ کو بہت پیار کرنے لگی ہوں ۔ مگر اپنی حد بھی جانتی ہوں ۔
تو میں نے اس کا چہرہ اوپر کیا۔ دیکھا کہ اس کی آنکھیں بند تھیں اور اس کی سانس کچھ تیز ہو گئی تھیں ۔ اور پھر میں نے اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں پر رکھ دیے
ان کو بس ہلکا سا چوم کر میں دور ہو گیا ۔ اور باہر جانے لگا کہ اتنے دن سیکس نہ کرنے سے مجھے سیکس کی بہت ضرورت محسوس ہو رہی تھی ۔
جب میں اس سے کچھ دور گیا تھا تو مجھے آصفہ کی آواز سنائی دی ۔ اس نے پوچھا کہ میں اپنے سوال کا جواب چاہتی ہوں
تو میں واپس مڑ کر اس کے سامنے آ گیا ۔ اور اس کو کہا کہ اگر ابھی بھی تمھیں جواب سمجھ نہیں آیا تو میں کچھ نہیں کر سکتا ۔
تو اس نے مجھے گے ہو کر اپنے گلے سے لگا لیا ۔
میں نے اس کو بہت آہستہ سے کہا کہ یار پلیز دور ہو جاؤ ۔ میں خود کو بہت مشکل سے کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
تو وہ فورا مجھ سے دور ہو گئی ۔ اور پھر کمرے سے باہر چلی گئی ۔ مگر میں نے اس کے چہرے پر بہت ہی خوبصورت مسکراہٹ دیکھ لی
اور پھر میں بھی باہر چلا گیا ۔
اگلے دن آصفہ کو کالج کے جاتے وقت ہماری رفتار بہت کم تھی ۔ آصفہ ج بہت خوش نظر آ رہی تھی ۔ آج اس نے مجھے پیچھے سے ایسا پکڑا ہوا تھا کہ اس کے دونوں ممے میری کمر سے جڑے ہوئے تھے
باتیں کرتے کرتے اس نے مجھے کہا کہ وہ چاہتی ہے کہ اب میں کسی سے بھی کوئی جسمانی تعلق نہ رکھوں ۔
تو میں نے اس کو صاف کہا کہ ابھی ہماری شادی نہیں ہو سکتی ۔ اور نہ ہی میں اتنا وقت اکیلے گذار سکتا ہوں
اس لیے مجھ سے وہ مانگو جو میں دے سکوں ۔ کہ نہ تو میں اس سے جھوٹ بولنا چاہتا ہوں ۔ اور نہ دھوکہ دینا چاہتا ہوں
اگر تم سے دوستی کی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہمارے درمیاں صرف سچ ہو ۔
وہ بولی پر اس کو اچھا نہیں لگتا کہ میں کسی اور کے ساتھ تعلق رکھوں ۔
تو میں نے اس کو کہا کہ پھر تم اپنا جسم دے دو ۔ میں کسی اور کی طرف نہیں دیکھوں گا ۔
تو اس نے صاف انکار کر دیا ۔ کہ وہ ایسا نہیں کر سکتی شادی سے پہلے
پھر دوبارہ ہمارے درمیان کوئی بات نہ ہوئی ۔
اس رات کو آصفہ کا بھائی گھر نہیں آیا ۔ میرے پوچھنے پر پتا چلا کہ اگر کام زیادہ ہو اور آخری بس نکل جائے یا بہت زیادہ دیر ہو جائے تو وہ پھر شہر میں دوکان پر ہی سو جاتا ہے ۔
رات کا کھانا کھا کرہم سب کچھ دیر تو گپ شپ کرتے رہے ۔ پھر سب سونے کے لیے چل دیے کہ سب لوگ صبح صبح اٹھنے کے عادی تھے ۔
مگر میں نے جانے سے پہلے آصفہ کو سب سے چھپ کر آنے کا اشارہ کیا ۔ تو اس نے سر ہلا کر انکار کر دیا ۔
تو میں خاموشی سے چلا گیا ۔ اور کچھ دیر میں بعد مجھے ایسا لگا کہ کوئی کمرے میں آیا ہے
میں نے رضائی سے سر نکالے بغیر کچھ رضائی کو ہٹا کر دیکھا تو آصفہ چارپائی کے پاس کھڑی اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو کبھی موڑتی تو کچھ دباتی نظر آئی
اس کے چہرے پر بھی کبھی کچھ تاثرات ہوتے تو کبھی کچھ ۔ پر میں بھی خاموشی سے اس کو دیکھتا رہا
آخر کار اس نے اپنا ہاتھ بڑھا کر میرے سر سے رضائی کو ہٹایا ۔ اور مجھے جاگتا دیکھ کر پوچھنے لگی کہ کیوں بلایا ہے ۔ تو میں نے اس کو کہا کہ میں کل چلا جاؤں گا ۔ اگر تم ناراض نہ ہو ۔ تو میں تم سے کچھ مانگنا چاہتا ہوں
میرے جانے کا سن کر وہ جیسے صدمے میں آ گئی ۔ اور کچھ دیر وہ بلکل خاموشی سے کھڑی رہی ۔ پھر جب میں نے اس کا ہاتھ ہلایا تو وہ چونک کر بولی ۔ کیا مانگنا چاہتے ہو ۔
تو میں نے رضائی ایک طرف سے اٹھا کر اس کو اپنے ساتھ لیٹنے کا اشارہ کیا ۔ کچھ دیر تو وہ ہلی نہیں ۔ پھر ساتھ لیٹتے ہوئے بولی کہ پلیز کچھ ایسا نہ کرنا کہ میں اپنی نظروں سے گر جاؤں
میں نے اس کو کہا کہ بے فکر رہو ۔ تم نے جو حد مقرر کر دی ہے اس کو کراس نہیں کروں گا
لیکن اج تمھیں ڈھیر سارا پیار کرنا چاہتا ہوں ۔ تمھارے ہونٹوں پر ۔
تمھارے سینے پر
اگر تمھاری اجازت ہو تو ۔ جس پر اس نے منہ سے تو کچھ نہ بولا ۔ بلکے میرے ہونٹوں پر کسنگ کی اور اور کہا کہ بس آخری حد تک نہیں جانا ۔ باقی جو دل کرے کر لو
میں نے آصفہ کو لیٹے لیٹے گلے سے لگا کر اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے ۔
اس کے ہونٹ بلکل نرم تھے ۔ میں نے کافی دیر تک ہونٹوں کے اوپر ہونٹ رکھے ۔ پھر اس کے اوپر والے ہونٹ کو اپنے ہونٹوں میں لیکر چوسنا شروع کر دیا ۔
جیسے ہی میں نے ہونٹوں کو چوسنا شروع کیا تو آصفہ جیسے مچل گئی ۔ اور اس نے جواب میں میرے ہونٹ کو بھی اپنے ہونٹوں میں لیکر چوسنا شروع کر دیا ۔
اس کی سانیس بے حد گرم ہو چکی تھیں ۔ اور اس کے ہاتھ میری کمر پر تھے
کچھ دیر ہم ایک دوسرے کے ہونٹوں کو چوستے رہے ۔ پھر میں نے اس کی قمیض کو اوپر کرنا شروع کر دیا ۔
پہلے تو اس نے مجھے ایسے دیکھا کہ جیسے اس کو میری اس حرکت کی سمجھ نہیں آئی ہو ۔ پر وہ۔منہ سے کچھ نہ بولی ۔
میں نے اس کی قمیض کو اتنا اوپر کیا کہ اس کے ممے تک ننگے ہو گئے ۔ اس نے قمیض کے نیچے برا نہیں پہنی ہوئی تھی ۔
بعد میں پتا چلا کہ اس نے نیچے شمیز (لیڈیز بنیان )۔ پہنی ہوئی تھی ۔ جو اس کی قمیض کے ساتھ ہی اوپر ہو گئی ۔
اندھیرے میں یہ تو نہیں پتہ چلا رہا تھا کہ اس کے ممے کیسے ہیں ۔ پر میں نے اس کے دونوں مموں کو اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر دبانا اور مسلنا شروع کر دیا ۔ کچھ ہی دیر میں اس کے مموں کی نیپلز کھڑی ہو گئیں ۔ اور اس کی سانیس حد سے زیادہ گرم اور تیز
پھر میں نے اس کے ایک ممے کو منہ میں لے لیا اور اس کو چوسنا شروع کر دیا ۔
میرے اندازے کے مطابق اس کے مموں کا سائز 34 سے زیادہ تھا ۔ اور اس کے نیپلز بھی بہت ہی چھوٹے چھوٹے تھے ۔
میں کوئی 5 منٹ تک اس کے مموں کو مختلف طریقوں
سے چوستا رہا ۔ کچھ صرف اس کی نیپلوں کے ساتھ کھیلتا ۔ تو کبھی اس کے پورے ممے کو منہ میں لینے کی کوشش کرتا
اس دوران آصفہ کی حالت بہت خراب ہو چکی تھی ۔ اس کے ہاتھ کبھی میرے سر پر ہوتے تو کبھی میری کمر پر ۔
اس کے منہ سے مسلسل سسکیوں کی آوازیں نکل رہی تھیں ۔ جن کو وہ دبانے کی کوشش کر رہی تھی مگر پھر بھی اس کے منہ سے ہلکی ہلکی آواز آ رہی تھی ۔
کچھ دیر بعد میں نے پہلے اپنی شلوار کا ناڑا کھول کر نیچے کیا اور پھر اس کی شلوار کو نیچے کرنا چاہا تو پتہ چلا کہ اس نے بھی ناڑا باندھ رکھا تھا ۔
میں نے ناڑا کھولنے کی کوشش کی تو اس نے پہلے میرا ہاتھ پکڑ لیا ۔ اور پھر بولی بس اور نہیں
میں نے اس کو کہا کہ میں نے وعدہ کیا ہے تو اپنی حد میں رہوں گا ۔ جس پر پہلے تو اس نے پھر سے انکار میں سر ہلایا ۔ مگر پھر میرے بار بار کہنے پر اس نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا
میں نے اس کی شلوار کو بس اتنا نیچے کیا کہ اس کی پھدی ننگی ہو جائے
اور پھر اپنے لن کو اس کی پھدی پر رگڑنا شروع کر دیا ۔ جیسے ہی میرا لن اس کی پھدی سے ٹچ ہوا تو اس کے منہ سے آہ کی آواز نکل گئی ۔ اور میرا لن بھی اس کی پھدی سے نکلنے والے پانی سے گیلا ہو گیا
میں نے اس کے ہونٹوں پر دوبارہ کسنگ کرنا شروع کر دی اور ساتھ ہی اپنا لن اس کی پھدی پر رگڑنے لگا
اب میری حالت یہ تھی کہ ایک طرف لن گیلی پھدی پر رگڑ کھا رہا تھا تو دوسری طرف اس کی شلوار کا ناڑا بھی میرے لن کو رگڑ دے رہا تھا کہ اس کی شلوار کچھ ہی نیچے ہوئی تھی
اس کی حالت بھی بہت خراب ہو رہی تھی ۔ اور ایسے مچل رہی تھی کہ کیا بتاؤں ۔
مگر اس دوران ایک پریشانی بھی تھی کہ میں جب بھی ہلتا تو چارپائی سے چوں کی آواز بھی نکلتی ۔ اگرچہ آواز بہت زیادہ نہیں تھی ۔ پر خاموشی میں کچھ زیادہ ہی لگ رہی تھی
یا میرے اندر پکڑے جانے کا جو ایک خوف بھی موجود تھا ۔ اس کی وجہ سے مجھے زیادہ لگ رہی تھی ۔ مگر کچھ دیر بعد میں اس آواز کو بھول گیا اور آصفہ کے ساتھ مزے کرنے لگا
اور اب اس نے بھی مزے میں کر مجھے کسنگ کرنا شروع کر دیا تھا ۔ کئی بار میرا لن اس کے اس کے سوراخ پر پھنس جاتا ۔ جس سے اس کا منہ درد سے کھل جاتا
اور جب لن کی ٹوپی سوراخ کو رگڑ کر گزر جاتی تو وہ جیسے تڑپ جاتی ۔
میرے مسلسل 4 منٹ تک ایسا کرنے کے بعد آصفہ کا جسم یک دم اکڑ گیا ۔ اور اس نے مجھے زور سے اپنے ساتھ لگا کر دبا دیا ۔
اور پھر اس کا جسم ہلکے ہلکے جھٹکے لینے لگا ۔ اور مجھے پتہ چل گیا کہ وہ فارغ ہو گئی ہے ۔ تو میں نے اپنے لن کو اس کی پھدی پر رگڑنے کی رفتار بڑھا دی
جیسے ہی وہ فارغ ہوئی اس نے مجھے بہت زیادہ کسنگ کی
اور کوئی مزید 2 منٹ کے بعد میں بھی اس کے اوپر ہی فارغ ہو گیا ۔ اس دوران وہ مسلسل میرے ہونٹوں کو چوس رہی تھی ۔ کبھی وہ میرے دونوں ہونٹوں کو اپنے منہ میں لیکر چوستی تو کبھی ایک ہونٹ کو
مجھے بہت مزا آ رہا تھا ۔
فارغ ہونے کے بعد بھی ہم دونوں ایک دوسرے کے اوپر ہی لیٹے رہے ۔ اور کافی دیر بعد میں اس کے اوپر سے ہٹا ۔
تو وہ شلوار کو اوپر کر کے باہر چلی گئی ۔ کوئی 10 منٹ کے بعد میں جب باہر گیا تو واش روم خالی تھا اور آصفہ بھی نظر نہیں رہی تھی ۔
میں واش روم سے نکل کر باہر آیا تو دیکھا کہ آصفہ کی والدہ واش روم کے باہر کھڑی تھیں ۔
ایک بار تو میرے ٹٹے شارٹ ہو گئے ۔ کہ کہیں ان کو پتہ تو نہیں چل گیا ۔ چاہے میں اب ذہنی طور پر خود کو تیار کر رہا تھا کہ اب آصفہ سے شادی کروں گا ۔ پر پھر بھی ایک ڈر تو ہوتا ہے ۔ مگر جب وہ کچھ کہے بنا واش روم میں چلی گئی تو میں نے بھی سکون کا سانس لیا
میں اب پانی کی تلاش میں تھا کہ وہ باہر آ گئیں ۔ اور مجھے پوچھنے لگیں کے خیر ہے تو میں نے کہا نیند نہیں آ رہی ۔
تو انہوں نے کہا چائے پیو گے ۔ بے شک میرا دل کر رہا تھا پر میں نے کہا کہ اس وقت کون بنا کر دے گا ، آپ رہنے دئیں ۔ تو وہ بولی کہ میں آصفہ کو اٹھا دیتی ہوں
میں نے منع بھی کیا پر وہ نہ مانی ۔ اور کچھ دیر میں آصفہ اپنے کمرے سے باہر آتی نظر آئی ۔ اس کے ساتھ والدہ بھی تھی آصفہ کی
میں نے پھر کہا کہ رہنے دئیں کہ کون اب آگ جلائے گا ۔ تو
آصفہ بولی ، کہ گیس والا سلینڈر ہے 2 منٹ میں بن جائے گی ۔
جاری ہے
0 Comments